پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(مرتبہ: مطہر احمد طاہر۔ جرمنی)

اگست اورستمبر2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

ایک احمدی کو اپنے گھر کی دیوار سے ماشاءاللہ والی ٹائل اتارنے کو کہا اور ساتھ ہی دھمکی بھی دی کہ اگر ’’تم نے ایسا نہ کیا تو لوگ اکٹھے ہوجائیں گے اور افراتفری ہوسکتی ہے۔‘‘

نفسیاتی طور پر متاثرہ احمدی نوجوان کو بزورِ قوت مذہب بدلنے پر مجبور کیا گیا

چک 10/63 منشی والا، ضلع ننکانہ(9؍اگست 2020ء):ایک احمدی نوجوان صائم ریاض کو مقامی غیراحمدیوں کی مسجد میں لے جایا گیا جہاں اس نے غیر احمدی ہونے کا ’’اقرار‘‘ کرلیا۔ گھر واپسی پروہ لڑکا بہت پریشان ہوااور کہنے لگا کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے۔ لڑکے کے والد نے مقامی جماعت کے صدر کو مطلع کیا۔ صدر جماعت اس کے گھر آئے تو دیکھا کہ وہ لڑکا بیٹھا زار و قطار رورہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے، مجھے بچا لیں۔ اگلے دن پولیس نے لڑکے کا بیان لیا جس میں لڑکے نے اعتراف کیا کہ وہ اپنے والدین کے عقیدے پر ہے۔ دو دنوں بعد پولیس نے ایک بار پھر فون پر اس لڑکے کا بیان لیا اور لڑکے نے اپنی شناخت احمدی ہی بتائی۔ جس پر پولیس کو اطمینان ہوگیا اور انہوں نے لڑکے کو کہا کہ اگر تمہیں کوئی تنگ کرے تو ہمیں بتانا۔ یاد رہے کہ یہ لڑکا نفسیاتی طور پر تھوڑا متاثر ہے لیکن مکمل طور پر مذہباً احمدی ہے۔

اس علاقے میں احمدیوں کی مخالفت تو پہلے سے ہی موجود تھی جو اس واقعے کے بعد مزید سخت ہوگئی ہے۔اس گاؤں میں احمدیہ مخالف اشتہارات تقسیم کیے گئے ہیں جن کےمطابق ’’قادیانی اسلام اور پاکستان دونوں کے غدار ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قادیانی یہودیوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور ہماری جدید ٹیکنالوجی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔‘‘احمدی حضرات مسلسل احتیاط برت رہے ہیں۔

پشاور میں ایک خاتون احمدی ٹیچر کو لاحق خطرات

حیات آباد ، پشاور (20؍ستمبر 2020ء):ناجیہ احمد حیات آباد پشاور کی رہنے والی احمدی خاتون ہیں اورآپ تہکال بالا، پشاور کے لڑکیوں کے سرکاری سکول میں استاد ہیں۔ مقامی ملاؤں نے عوام الناس میں آپ کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کی ہیں۔ 20؍ستمبر 2020ء کو پولیس ان کے گھر آئی اور سیکیورٹی خدشات کی بنا پر آپ کو مزید سکول جانے سے روک دیا۔ پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ انہوں نے محکمہ تعلیم کو لکھا ہے کہ وہ آپ کا تبادلہ حیات آباد پشاور کے کسی سکول میں کردے۔ علاوہ ازیں ، پولیس نے موصوفہ کو محتاط رہنے کی تلقین کی اور کسی ایمرجنسی کی صورت میں رابطے کے لیے اپنا رابطہ نمبر دیا۔

اس سے قبل اسی قسم کا واقعہ ہائیر سیکنڈری سکول کے ایک احمدی استاد قاضی طارق احمد کے ساتھ بھی پیش آچکا ہے۔ پولیس کو ان کی حفاظت سے متعلق خطرات لاحق تھے اور ملاؤں نے ان کے خلاف عوامی مقامات پر تقاریر کی تھیں۔

پیپلز پارٹی کے زیر انتظام سندھ میں احمدی مخالف کارروائیاں

میر پور خاص، سندھ (ستمبر 2020ء):گذشتہ کچھ عرصے سے میر پور خاص میں احمدی مخالف کارروائیوں میں شدت آگئی ہے۔بالخصوص نو کوٹ کے علاقے میں شر پسند عناصر احمدیوں کے خلاف جو چاہیں وہ کر گزرتے ہیں۔

چند روز قبل ایک کاروبار ی شخص نصرت آباد کے راستے اپنے گاؤں جارہا تھا کہ راستے میں دو مسلح ڈاکوؤں نے اس کو روک کر اس سے تفتیش کی۔ جب اس شخص نے اپنا تعارف کرایا تو ڈاکوؤں نے اسے بتایا کہ ’’ہم یہاں ایک قادیانی کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ کب اس راستے سے گزرے گا‘‘اور اس کے بعد ڈاکوؤں نے اس شخص کو جانے دیا۔

مورخہ 27؍ ستمبر 2020ء کو نصرت آباد کی مقامی احمدی جماعت کے صدر منصور احمد ایک جنازے سے واپس آرہے تھے کہ اچانک دو موٹر سائیکل سوار ان کی جیپ کے سامنے نمودار ہوئے اور ’’قادیانی کافر‘‘ کہتے ہوئے ان سے جھگڑنے لگے۔ اتنے میں نفیس نگر کی جانب سے دو احمدی نوجوان رکشے میں آئے اور انہوں نے آکر انہیں اس صورت حال سے بچایا۔

احمدی استاد کو بدترین امتیازی سلوک کا سامنا

پشاور (ستمبر 2020ء):ایک احمدی مسمی قاضی طارق احمد کو تہکال،پشاور کے ہائیر سیکنڈری سکول میں بطور سینئر ٹیچر مقرر کیا گیا۔ کورونا کی وجہ سے آپ گھر پر ہی رہے۔ سکول کے پرنسپل نے روز اوّل ہی سے آپ کے ساتھ متعصبانہ سلوک روا رکھا۔ سکول کھلنے کے تیسرے روز پرنسپل نے قاضی طارق احمد کو طلب کیا جہاں سے آپ کو پولیس کی بھاری نفری میں پولیس سٹیشن لے جایا گیا۔ استفسار پر پولیس نے بتایا کہ ان کی جان کو سنگین خطرات لاحق ہیں اور انہیں بہت سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ قاضی طارق احمد گذشتہ چند ماہ سے ملاؤں کی نفرت انگیز مہم کے نشانے پر ہیں۔ایک موقع پر معاندین نے آپ کے خلاف تقاریر کیں اور عوام کو آپ کے خلاف بھڑکایا۔اس ساری مہم کا سرغنہ ایک مولوی مفتی اکبر علی ہے۔ اس شخص نے طارق احمد کے خلاف ویڈیوز اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر بھی اپلوڈ کی ہیں۔

یاد رہے کہ طارق احمد اپنے شعبہ سے بہت لگاؤ رکھتے ہیں اور دفتری جاب کی جگہ انہوں نے ذاتی شوق سے تدریس کا شعبہ اپنایا۔ مگر مذہبی تعصب کی بنا پر موجودہ صورت حال ان کے لیے بہت خطرناک ہوچکی ہے۔

احمدیوں کے خلاف شکایت اورپولیس کے ذریعے ان کو ہراساں کیا جانا

چیاںوالی ، ضلع گوجرانوالہ :عارف شاہ نامی شخص جو کہ مقامی اہل سنت تنظیم کا عہدیدار ہے نے چیاں والی پولیس کے پاس احمدی عہدیداران کے خلاف شکایت درج کرائی جس میں اس نے بدنیتی اور جھوٹ پر مبنی درج ذیل الزامات لگائے:

1۔ احمدی سر عام تبلیغ کرتے ہیں۔ 2۔ احمدی لوگوں کو پیسے اور قرض کا لالچ دے کر احمدیت قبول کرواتے ہیں۔ 3۔شوکت بھٹی کا گھر تبلیغ احمدیت کا مرکز ہے 4۔ مَیں (یعنی شکایت کنندہ عارف شاہ۔ ناقل ) جامع مسجد کا ایڈمنسٹریٹر ہوں اور مجھے اور اس مسجد کے امام صاحب کو احمدیوں نے دھمکی دی ہے کہ ہم ختم نبوت کا مسئلہ سکھانا بند کردیں یا پھر موت کے لیے تیار ہوجائیں۔5۔ مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر مقامی جماعت احمدیہ کے صدر جمیل احمد بھٹی ، شوکت بھٹی، سیکرٹری، محیی الدین سیکرٹری مال، ہدایت چیمہ اور اختر ربانی (موخر الذکر دونوں افراد غیر احمدی ہیں البتہ احمدیوں کے دوست ہیں ) کے خلاف FIRدرج کی جائے۔ 6۔ ان تمام افراد کو سزا دی جائے۔

ظاہر ہے یہ تمام الزامات جھوٹ کا پلندہ اور بد نیتی پر مبنی ہیں۔ 22؍ستمبر 2020ء کو پولیس نے فریقین کو بلایا۔ احمدیوں نے ان تمام الزامات کی تردید کی۔ اور اب پولیس مزید تفتیش کرر ہی ہے۔

گوجرانوالہ میں مزید احمدی مخالف واقعات

ضلع گوجرانوالہ (ستمبر 2020ء):اگر انتظامیہ کو یہ لگتا ہے کہ وہ ملاؤں کے دباؤ میں آکر ان کے مطالبات تسلیم کرکے فرقہ واریت پر قابو پالیں گے تو یہ یقیناََ اُن کی کم فہمی اور حماقت ہے۔ملاؤں کی مطالبات کی فہرست نہ ختم ہونے والی ہے اور اس میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ رپورٹ میں ہم نے ذکر کیا تھاکہ کس طرح ضلع گوجرانوالہ میں انتظامیہ احمدی مخالفت کو معمولی سمجھ کر اسے نظر انداز کر دیا تھا۔ ذیل میں ہم اس ضلع میں ہونے والے چند مزید احمدی مخالف واقعات کا ذکر کر رہے ہیں۔

ناصر احمد راہوالی میں رہنے والے احمدی ہیں۔ ایک دن ان کے ساتھ والے دکاندارمسمی عاصم چیمہ نے انہیں بلا بھیجا اور ان سے مطالبہ کیا کہ اُن کی دکان پر درود شریف والا جو سٹکر لگا ہے اسے اتاردیں کیونکہ قانون کے مطابق قادیانی اسے لگانے کے مجاز نہیں ہیں۔ اس پر ناصر احمد نے جواب دیا کہ انہوں نے یہ سٹکر نہیں لگایا بلکہ ان کے دکان میں آنے سے قبل ہی یہ سٹکر آویزاں تھا۔ ناصر احمد نے اپنے ہاتھوں درود شریف والے سٹکر کو اتارنے سے انکار کردیا اور عاصم چیمہ کو کہا کہ اگر وہ اتارنا چاہے تو بے شک اتار لے۔

عاصم چیمہ جو مقامی تحریک لبیک کا امیر ہے 23؍ستمبر کو ایک احمدی مسمی غلام عباس کی دکان پر گیا اور انہیں تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنے گھر کے باہر لگی ’’ماشاءاللہ‘‘ کی ٹایل کو اتار لیں کیونکہ قادیانیوں کو اس کی اجازت نہیں ہے۔

اس شخص عاصم چیمہ نے ایک اور احمدی محمد اکرم کو بھی جو پیشے کے لحاظ سے پینٹر ہیں اپنے گھر کی دیوار سے ماشاءاللہ والی ٹائل اتارنے کو کہا اور ساتھ ہی دھمکی بھی دی کہ اگر ’’تم نے ایسا نہ کیا تو لوگ اکٹھے ہوجائیں گے اور افراتفری ہوسکتی ہے۔‘‘

متعدد احمدی حضرات اپنے گھروں کے باہر عقیدت سے ایسی تختیاں سجاتے ہیں۔البتہ مولوی کو احمدیوں کی مذہبی آزادی سے بھی خطرہ ہے جبکہ پولیس انتظامیہ خاموشی سے متعصب ملاؤں کی ہمنوا بن جاتی ہے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button