ایک نادر نسخہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا:
ہمارے ملک میں وبائی امراض کے کیڑوں سے صاف پانی کا ہر جگہ انتظام نہیں ہے بلکہ اکثر جگہ نہیں ہے۔ اس قسم کی بیماریوں سے بچنےکی جو اس غفلت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں، اچھی اور سستی تدبیر یہ ہے کہ آپ پانی ابال کر پیا کریں اور جب تک کوئی اور تدبیر نہ آجائے اس تدبیر پر عمل پیرا رہیں۔ اگر آپ پانی ابال کر پیئیں گے تو چین کی طرح معدہ اور انتڑیوں کی بیماریوں سے آپ قریباً محفوظ ہو جائیں گے۔ قریباً اس لئے کہ وہاں چین میں اللہ کا خانہ تو خالی ہے۔وہ تو اگر کسی کو تکلیف پہنچانا چاہے تو پہنچائے گا۔پانی کے ذریعہ نہیں پہنچائے گا تو کسی اَور ذریعہ سے پہنچائے گایا خود پانی کو حکم دے گا ،ایسے کیڑے پیدا کرے گا جوابلنے کے باوجود زندہ رہیں گے۔ لیکن میَں عام اصول خداوندی بیان کر رہا ہوں کہ پانی ابالنے سے (اچھے دو چار اُبالے آجائیں تو)کیڑے مر جاتے ہیں لیکن اکثر لوگوں کو بغیر ابلا پانی پینے کی عادت ہے۔ اس واسطے جب آپ پانی کو ابال کرٹھنڈا کر کے چھوٹے گھڑے میں رکھیں گے تو بالکل ٹھنڈا ہوجائے گا لیکن اس کا مزا بک بکا ہوگا۔ممکن ہے بعض زمیندار کہہ دیں کہ کیا مشکل ڈال دی ہے۔ اسے پرے پھینکو۔اس قسم کا اظہار پہلے پہل چین میں بھی کیا گیا تھا تاہم ان کو ہم سے پہلے خیال آیا حالانکہ ہمیں پہلے خیال آنا چاہیے تھا۔ بہرحال انہوں نے پانی میں تھوڑی سی سبز چائے کی پتی ڈال دی، اس سے پانی میں موتیا رنگ آ جاتا ہے اور اس کا بک بکا پن دور ہو جاتا ہے اور اس میں چائے کی ہلکی سی لذت پیدا ہوجاتی ہے چنانچہ اب چین کے لوگ یہی سبز چائے کا قہوہ پیتے ہیں۔ میں نے ایک رسالہ میں پڑھا ہے کہ وہاں پیٹ کی بیماری نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے آپ بھی اُبلا ہوا پانی استعمال کیا کریں۔ کیوں بیمار ہو کر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اور اپنے اوپریہ ابتلاء لاتے ہیں کہ زندگی میں کئی لمحات ایسے بھی آ سکتے ہیں جن میں آپ خود کو نیکیوں کا کام کرنے سے محروم کردیں۔ بہرحال یہ بھی ایک تدبیر ہے اور اللہ تعالی نے ہر تدبیر اس لئے بنائی ہے کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ اگرچہ اُسی کا حکم چلتا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن اُس کا یہ بھی حکم ہے کہ میری اس دنیا میں تدبیر کرو۔ اس لئے میں اس قہوے کی شکل میں گرم پانی پیتا ہوں۔
(اختتامی خطاب سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ مرکزیہ ربوہ 19اکتوبر1971ء)