ہر ایک کامل جو اِس اُمّت کیلئے آتا ہے،وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے پرورش یافتہ ہے
پس آیت
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ
سے ظاہر ہے کہ دنیا میں ہی کوئی غضب اُن پر نازل ہوگا کیونکہ آخرت کے غضب میں تو ہر ایک کافر شریک ہے اور آخرت کے لحاظ سے تمام کافر مغضوب علیہم ہیں۔ پھر کیا وجہ کہ خداتعالیٰ نے اس آیت میں خاص کر کے اُن یہودیوں کا نام مغضوب علیہم رکھا جنہوں نے حضرت عیسیٰؑ کو سولی دینا چاہا تھا۔ بلکہ اپنی دانست میں سولی دے چکے تھے۔ پس یاد رہے کہ ان یہودیوں کو مغضوب علیہم کی خصوصیت اس لئے دی گئی کہ دنیا میں ہی اُن پر غضبِ الٰہی نازل ہوا تھا اور اسی بناء پر سورہ فاتحہ میں اس اُمّت کو یہ دُعا سکھلائی گئی کہ خدایا ایسا کر کہ وہی یہودی ہم نہ بن جائیں۔ یہ ایک پیشگوئی تھی جس کا یہ مطلب تھا کہ جب اس اُمّت کا مسیح مبعوث ہوگا تو اس کے مقابل پر وہ یہود بھی پیدا ہو جائیں گے جن پر اِسی دنیا میں خدا کا غضب نازل ہوگا۔پس اس دُعا کا یہ مطلب تھا کہ یہ مقدّر ہے کہ تم میں سے بھی ایک مسیح پیدا ہوگا۔ اور اس کے مقابل پر یہود پیدا ہونگے جن پر دنیا میں ہی غضب نازل ہوگا۔ سو تم دُعا کرتے رہو کہ تم ایسے یہود نہ بن جاؤ۔
یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ یوں تو ہر ایک کافر قیامت میں موردِ غضبِ الٰہی ہے۔ لیکن اِس جگہ غضب سے مراد دنیا کا غضب ہے جو مجرموں کے سزا دینے کے لیے دنیا میں ہی نازل ہوتا ہے اور وہ یہودی…جنہوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو دُکھ دیا تھا۔ اور بموجب نصِّ قرآن کریم ان کی زبان پر لعنتی کہلائے تھے۔ وہ وہی لوگ تھے جن پر دنیا میں ہی عذاب کی مار پڑی تھی۔ یعنی اوّل سخت طاعون سے وہ ہلاک کئے گئے تھے۔ اور پھر جو باقی رہ گئے تھے وہ طیطوس رومی کے ہاتھ سے سخت عذاب کے ساتھ ملک سے منتشر کئے گئے تھے۔ پس غیر المغضوب علیہم میں یہی عظیم الشان پیشگوئی مخفی ہے کہ وہ لوگ جو مسلمانوں میں سے یہودی کہلائیں گے وہ بھی ایک مسیح کی تکذیب کریں گے جو اُس پہلے مسیح کے رنگ پر آئے گا یعنی نہ وہ جہادکرے گا اور نہ تلوار اُٹھائے گا۔ بلکہ پاک تعلیم اور آسمانی نشانوں کے ساتھ دین کو پھیلائے گا۔ اور اس آخری مسیح کی تکذیب کے بعد بھی دنیا میں طاعون پھیلے گی اور وہ سب باتیں پوری ہوںگی جو ابتداء سے سب نبی کہتے چلے آئے ہیں۔ اور یہ وسوسہ کہ آخری زمانہ میں وہی مسیح ابن مریم دوبارہ دنیا میں آجائےگا۔ یہ تو قرآن شریف کے منشاء کے سراسر برخلاف ہے جو شخص قرآن شریف کو ایک تقویٰ اور ایمان اور انصاف اور تدبّر کی نظر سے دیکھے گا۔ اس پر روز روشن کی طرح کھل جائے گا کہ خداوند قادر کریم نے اس اُمّت محمدیہ کو موسوی اُمّت کے بالکل بالمقابل پیدا کیا ہے۔ ان کی اچھی باتوں کے بالمقابل اچھی باتیں دی ہیں اور ان کی بُری باتوں کے مقابل پر بُری باتیں۔ اِس اُمّت میں بعض ایسے ہیں جو انبیاء بنی اسرائیل سے مشابہت رکھتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو مغضوب علیہم یہود سے مشابہت رکھتے ہیں۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے ایک گھر ہے جس میں عمدہ عمدہ آراستہ کمرے موجود ہیں جو عالیشان اور مہذب لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہیں اور جس کے بعض حصے میں پائخانے بھی ہیں اور بدرو بھی اور گھر کے مالک نے چاہا کہ اس محل کے مقابل پر ایک اَور محل بنادے کہ تا جو جو سامان اس پہلے محل میں تھا اس میں بھی موجود ہو۔ سو یہ دوسرا محل اسلام کا محل ہے اور پہلا محل موسوی سلسلہ کا محل تھا۔یہ دوسرا محل پہلے محل کا کسی بات میں محتاج نہیں۔ قرآن شریف توریت کا محتاج نہیں اور یہ اُمّت کسی اسرائیلی نبی کی محتاج نہیں۔ ہر ایک کامل جو اِس اُمّت کے لیے آتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے پرورش یافتہ ہے اور اس کی وحی محمدی وحی کی ظل ہے۔ یہی ایک نکتہ ہے جو سمجھنے کے لائق ہے۔ افسوس ہمارے مخالف حضرت عیسیٰؑ کو دوبارہ لاتے ہیں۔ نہیں سمجھتے کہ مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کو فخر مشابہت حاصل ہو نہ یہ ذلّت کہ کوئی اسرائیلی نبی آوے تا اُمّت اصلاح پاوے۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ16تا 17)