رابعہ بصری کا توکّل
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’رابعہ (بصری) کا ایک قصہ لکھا ہے کہ ان کے گھر میں بیس آدمی مہمان آگئے۔ گھر میں صرف دو روٹیاں تھیں۔ آپ نے اپنی جاریہ سے کہا کہ جاؤ یہ فقیر کو دے دو۔ اس نے دل میں کہا کہ زاہد عابد بیوقوف بھی پرلے درجے کے ہوتے ہیں دیکھو گھر میں بیس مہمان ہیں اگر انہیں ایک ایک ٹکڑا دے تو بھی بھوکے رہنے سے بہتر ہے اور ان مہمانوں کو یہ بات بری معلوم ہوئی لیکن وہ نہیں جانتے کہ رابعہ کا کیا مطلب ہے۔ تھوڑی دیر ہوئی تو ایک ملازمہ کسی امیر عورت کی اٹھارہ روٹیاں لائی۔ رابعہ نے انہیں واپس دے کر فرمایا کہ یہ ہمارا حصہ ہر گز نہیں واپس لے جاؤ۔ اس نے کہا نہیں میں بھولی نہیں۔ مگر رابعہ نے یہ اصرار کیا کہ نہیں یہ ہمارا حصہ نہیں۔ ناچار واپس ہوئی۔ ابھی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ مالکہ نے چلا کر کہا کہ تو اتنی دیر کہاں رہی۔ ابھی تو رابعہ بصری کا حصہ پڑا ہے۔چنانچہ پھر اسے بیس روٹیاں دیں۔ جب وہ لائی تو آپ نے بڑی خوشی سے لے لیں کہ واقعی یہ ہمارا حصہ ہے۔ اس وقت جاریہ اور مہمانوں نے عرض کیا ہم اس نکتہ کو سمجھے نہیں۔ فرمایا جس وقت تم آئے تو میرے پاس دو روٹیاں تھیں۔ میرے دل میں آیا کہ آؤ پھر مولیٰ کریم سے سودا کر لیں۔اس وقت میرے مطالعہ میں یہ آیت تھی
مَنْ جَآ ءَبِالْحَسَنَۃِ فَلَہ عَشْرُ اَمْثَا لِھَا(سورۃ الانعام :161)
اس لحاظ سے دو کی بجائے بیس آنی چاہئے تھیں۔ یہ اٹھارہ لائی تو میں سمجھی کہ میں نے تو اپنے مولیٰ سے سودا کیا ہے وہ بھولنے والا نہیں۔ پس یہی بھول ہے آخر یہ خیال سچ نکلا۔یہ بات واقعی ہے کہانی قصہ نہیں۔ میں نے خود بارہا آزمایا ہے۔مگر خدا کا امتحان مت کرو۔‘‘
(حقائق الفرقان ،جلد اول، صفحہ420تا 421)