اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق
آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم خاتَم النبیین ہیں، سب نبیوں سے افضل اور ارفع اور اجمل اور انسب اور اکمل۔ آپؐ کامل نبی اور کامل انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ تعلیمات کے ساتھ ساتھ آپؐ کا اسوہ اور نمونہ بھی کامل تھا۔ منشائے ایزدی سے آپؐ کی ذاتِ بابرکات میں وہ تمام عوامل ودیعت کر دیے گئے جن سے قیامت تک کبھی بھی، کوئی بھی انسان انفرادی و اجتماعی امور کی بابت کامیاب و کامران راہنما اصول اخذ کر سکتا ہے۔ جہاں مکی دور میں آپؐ نے محکوم ومظلوم رہتے ہوئے اپنا مشن جاری رکھا اور صبر و استقامت کا خوبصورت نمونہ بھی پیش فرمایا وہاں مدنی دور میں مملکت کے روحانی و انتظامی سربراہ کی حیثیت سے بھی آپؐ کا کام لمحہ بھر کے لیے نہ رکا نیز بطور حاکم و منتظم عظیم الشان مثالیں قائم فرمائیں۔
آپؐ کا کام، آپؐ کا مشن کیا تھا؟ اپنے پیروکاروں کی حقوق اللہ اور حقوق العباد سے شناسائی اور بجاآوری۔
غور کیا جائے تو پیدائش سے وفات تک نبی اکرمﷺ کے مبارک اسوے میں یہی دو پہلو درخشاں نظر آتے ہیں۔ دعویٰ نبوت سے قبل جب گویا
یَکادُ زَیْتُھَا یُضِیْئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ
والی کیفیت تھی، آپؐ اپنے رب کی یاد اور اس کی عبادت میں مشغول نظر آتے ہیں۔حقوق العباد کی بے مثال ادائیگی کی گواہی آپؐ کی اہلیہ، عرصہ پندرہ سال سے زائد آپؐ کے شب و روز کی رفیقہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ثقہ بھلا اور کون دے سکتا تھا۔
منصبِ نبوّت پر سرفراز ہوئے تو پھر مکہ ہو یا مدینہ،محکوم ہوتے ہوئے انتہائی مظلومیت کا عالم ہو یا حاکم ہوتے ہوئے گویا مالکِ کُل ہونے کی کیفیت، امن کی گھڑیاں ہوں یا جنگ کی صورتحال ہر آن، ہر لمحہ اگر کسی امر کی بجا آوری آپؐ کی ذاتِ بابرکات میں واضح دکھائی دیتی ہے تو وہ حقوق اللہ یعنی اللہ کی عبادت اور اس سے استعانت اور حقوق العباد کی ادائیگی ہے۔ چنانچہ اگرچہ قبائلی جتھہ بندی والے ملک عرب میں جہاں قبیلے کی پناہ فردِ واحد کی حفاظت اور بقا کی ضمانت کہلاتی تھی، قبائلی سرداروں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے چچاکو آپؐ کی تبلیغِ توحید کی شکایت کی،آپؐ کو ہر طرح کی لالچ دی اور بات نہ ماننے پر سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی بھی؛ اگرچہ آپؐ کو جو معاشرے میں ایک عقل مند، دانشور، صادق اور امین کہلاتے تھے اپنی ظاہری عزت قربان کرتے ہوئے (نقلِ کفر کفر نباشد) جادوگر، کاہن، ساحر، کذاب،مجنون، دیوانہ، مذمم وغیرہ کے القاب کو برداشت کرنا پڑا؛ اگرچہ خانۂ خدا کے پاس دورانِ نماز حالتِ سجدہ میں عقبہ بن ابی معیط نے اونٹ کی بچہ دانی لا کر آپؐ کے کندھوں کے درمیان ڈال دی جس سے آپؐ کو سخت تکلیف پہنچی اورروایات میں آتا ہےکہ اس وقت مسلمانوں کی کمزوری کا یہ عالم تھا کہ ایک صحابی یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے مگر اپنی کمزوری اور ضعف کی وجہ سے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنے سے عاجز تھے؛ اگرچہ ایک اور موقعے پر اسی بدبخت عقبہ بن ابی معیط نے حطیم میں دورانِ نماز نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی گردن میں کپڑا ڈال کر اتنے زور سے کھینچا کہ گلا گھٹنے لگا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کو آکر چھڑانا پڑا؛ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازشیں بھی کی گئیں؛ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کو طلاق دے دی گئی؛ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاشرتی بائیکاٹ کر کے آپ کو شعبِ ابی طالب میں محصور کر دیا گیا اور ان تکالیف کی تاب نہ لاتے ہوئے آپ کی محبوب اہلیہ حضرت خدیجہؓ اورآپ کے شفیق چچا حضرت ابوطالب زندگی کی بازی ہار گئے؛ اگرچہ آپؐ کو طائف میں شدید اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا اور اوباشوں کے پتھراؤ سے آپ کا جسمِ اطہر لہولہان ہو گیا؛ اور اگرچہ دارالندوہ میں آپؐ کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا جس کی وجہ سے آپ کو اپنی پیاری بستی مکہ کو خیرباد کرنا پڑا ،کسی ایک موقعے پر ایسی روایت نہیں ملتی کہ آپؐ نے حقوق اللہ یاحقوق العباد کی بجا آوری میں کوتاہی برتی ہو۔ بطور مشتے از خروارے ایک واقعہ درج ہے کہ جس وقت یہ تمام ظلم ابھی جاری تھے اور مسلمانوں پر گویا حالتِ خوف طاری تھی اراشی نے جب حلف الفضول کے شاہد حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو سردارِ مکہ کے خلاف مدد کے لیے پکارا تو آپؐ حقوق العباد کی بجاآوری کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرتے ہوئے بلا خوف و خطر اپنے جانی دشمن کے گھر پہنچ گئے اور ہمیں یہ سبق بھی دیا کہ مخلوقِ خدا کی مدد کرنے والے کا خدا خود معین و مددگار اور حامی و ناصر ہوجاتا ہے۔ الغرض آپؐ نے ہر حال میں معاشرے کے ہر طبقے کے حقوق کو قائم رکھااور یہی وجہ ہے کہ ریاستِ مدینہ نہ صرف خود امن کا گہوارہ بنی بلکہ پوری دنیا میں امن کی ضامن ہوئی۔
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطابات جلسہ سالانہ 2019ء و 2021ء میں انیس ایسے حقوق کو بیان فرمایا ہے جن کی انفرادی اور حکومتی ہر دو سطح پر بجاآوری آج بھی معاشرے میں اور دنیا میں قیامِ امن کی ضامن ہے۔ دو حصوں میں پیش کی جانے والی الفضل انٹرنیشنل کی خصوصی اشاعت برائے سیرت النبیﷺ میں انہی انیس حقوق کی بابت نبی اکرمﷺ کے اسوے کو تفصیلی طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا: ’’…اگر حکومتیں اپنے فرائض کو نہیں سمجھیں گی اور دوسروں کے حقوق ادا نہیں کریں گی تو پھر عالمگیر جنگ کے لیے بھی تیار رہیں جس کی تباہی پھر ہر تصور سے باہر ہے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 21؍ ستمبر 2021ء صفحہ 13)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے انفرادی و اجتماعی طور پر اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین