حقوق کی ادائیگی کی اہمیت کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کے پُر معارف ارشادات میں سے ایک انتخاب
قرآن کریم نے زمانے کے مطابق ہر چھوٹی سے چھوٹی بات اور ضرورت کو بیان فرمایا ہے۔
قرآن کریم نے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے حقوق قائم کیے ہیںاور جو حقوق قائم کیے ہیں وہی دنیا کی ہر سطح پر امن کی اور حقوق قائم کرنے کی ضمانت ہیں
قرآن کریم نے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے حقوق قائم کیے ہیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’آج کل مذہب کے خلاف جو طاقتیں ہیں اس بات پر اپنا پورا زور لگانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ کس طرح دنیا میں مذاہب کو ماننے والوں کو اور خاص طور پر مسلمانوں کو مذہب سے متنفر کر کے ہٹایا جائے۔ ایک بڑا حملہ ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مذہب کی تعلیم اس نئے زمانے سے میل نہیں کھاتی۔ زمانے کے حالات بدل گئے ہیں۔ نئے زمانے کے ساتھ ہمیں اپنے آپ کو ڈھالنا چاہیے۔ پریس، میڈیا بھی اس بات پر بڑا زور لگاتا ہے۔ مختلف قسم کے سوالات مسلمانوں سے پوچھے جاتے ہیں کہتے ہیں کہ اول تو مذہب کی ضرورت نہیں، انسان بہت ترقی کر گیا ہے اور مذاہب جو ہیں وہ تو دقیانوسی باتیں کرتے ہیں۔ نئے زمانے کے ساتھ ہمیں اپنے آپ کو ڈھالنا چاہیے۔ نئی روشنی میں جو اَب ہمیں اپنے حقوق اور نئی چیزوں اور نئی باتوں کا پتا لگ گیا ہے اور اگر مذہب پر چلنا ہے، تو پھر ان کے یہ اعتراض ہوتے ہیں کہ اس کی بعض تعلیمات میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے تا کہ زمانے کی نئی روشنی کے ساتھ ہم چل سکیں۔ اور زمانے کی نئی روشنی کیا ہے؟ حقوق کے حصول اور آزادی کے نام پر بچوںکو ماں باپ کے اثر سے نکالنا۔ بچوں کو لغو باتوں کی جن کا ابھی ان میں شعور پیدا نہیں ہوا اس کی تعلیم دینا۔ غیر فطری جنسی تعلقات کو قانونی تحفظ دینا اور اس قسم کی اَور لغو اور بےہودہ باتیں ہیں جو یہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مذہب ہمیں ان سے روکتا ہے اس لیے ان پر لاگو کرنا چاہیے۔
اور بعض مذہبی لوگ ایسے ہیں یا اپنے آپ کو مذہبی کہنے والے ہیں یا بعض مسلمان کہنے والے بھی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ واقعی ہمیں بعض تبدیلیاں کرنی چاہئیں۔ عیسائی دنیا میں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے مذہبی ادراک رکھنے والے اور مذہب کی تعلیم دینے والوں میں اس بات پر اختلاف ہے اور یہ باتیں اخباروں وغیرہ میں بھی آ جاتی ہیں، میڈیا پہ بھی آ جاتی ہیں کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں، عیسائی سکالر بھی کہ بائبل کی بعض بنیادی باتوں میں ہمیں تبدیلی کر لینی چاہیے۔ اصل میں تو یہ مذہب سے لاعلمی اور اپنے مذہب پر یقین نہ ہونے کی نشانی ہے۔ اگر مذہب پر یقین ہو، اگر زندہ خدا کی طاقتوں پر یقین ہو، اگر اب بھی یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ بولتا ہے اور اپنے نشانات ظاہر کرتا ہے تو پھر اپنی مذہبی کتابوں کو بدلنے کی باتیں نہ ہوں لیکن ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے محفوظ رکھنے کا اعلان اور وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ باقی مذہبی صحیفے تو پہلے ہی مختلف وقتوں میں ان مذاہب کے علماء کی اپنی مرضی کے مطابق بدلتے رہے ہیں اور اپنی اصلی صورت میں قائم ہی نہیں ہیں۔ اب بھی چاہیں تو ان کو اختیار ہے کہ زمانے کے حالات کے مطابق بدل لیں لیکن قرآن کریم چودہ سو سال سے اپنی اصلی حالت میں ہے اور تاقیامت ان شاء اللہ تعالیٰ رہے گا اور اس میں بیان کردہ تعلیم تاقیامت قائم رہنے والی تعلیم ہے، ہر زمانے کے انسان کے لیے تعلیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں بھی اپنے وعدے کے مطابق اپنے فرستادے کو بھیج کر اسے محفوظ رکھنے کے سامان کیے ہیں جنہوں نے ہمیں اس میں چھپے خزانوں کی نشان دہی کی اور تفسیر کر کے اور وضاحت کر کے بتایا کہ معاشرتی، تمدنی تعلقات سے لے کر حکومتوں اور بین الاقوامی تعلقات تک اور ان کے حقوق کی تعلیم اس میں موجود ہے۔ اسی طرح ان باتوں سے لے کر جو ہماری روحانی ترقی کے لیے ضروری ہیں علمی اور سائنسی باتوں تک کا اس میں بیان ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ہیں اور اس کے بندوں کے حقوق بھی بیان ہوئے ہیں اس لیے ہمیں کوئی ضرورت نہیں ان لوگوں کی باتوں سے متاثر ہونے کی یا کسی بھی قسم کے احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کی جو یہ کہتے ہیں کہ نئی روشنی کے مطابق قرآن کریم میں بھی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہر جگہ پریس یہ سوال ضرور کرتا ہے اور بعض مسلمان جو اپنے آپ کو نئی روشنی اور دنیاوی علم کے حاصل کرنے والا سمجھتے ہیں اس کا ماہر سمجھتے ہیں ان لوگوں کی باتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں اور اس بات کا اظہار کر دیتے ہیں کہ بعض بنیادی اخلاقی باتیں جو ہیں یا حقوق کی باتیں جو ہیں نئی روشنی کے مطابق ان کی تطبیق ہونی چاہیے۔ ان لوگوں نے کبھی قرآن کریم پر غور ہی نہیں کیا اور اگر کیا تو ان لوگوں کی تفسیروں کے مطابق کیا جو قرآن میں پنہاں اور چھپے ہوئے معنوں تک پہنچ ہی نہیں سکتے تھے اور مذہب مخالف طاقتوں کی اس چال کو نہیں سمجھ سکے کہ ان کی یہ کوششیں دہریت پھیلانے کے لیے ہیں۔ پس ہمیں اس دہریت اور اسلام مخالف طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہے۔
قرآن کریم نے زمانے کے مطابق ہر چھوٹی سے چھوٹی بات اور ضرورت کو بیان فرمایا ہے۔ قرآن کریم نے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے حقوق قائم کیے ہیںاور جو حقوق قائم کیے ہیں وہی دنیا کی ہر سطح پر امن کی اور حقوق قائم کرنے کی ضمانت ہیں۔ ہاں لغویات کو لغویات کہا ہے اور پھر کھل کر اس کے نقائص بھی بیان کیے۔ قران کریم نے بھی ہمیں وضاحت سے بتا دیا۔
مذہب پر اعتراض کرنے والے یہ بھی اعتراض کر دیتے ہیں کہ مذہب کہتا ہے کہ خدا کی عبادت کرو اور اس سے سستی اور کاہلی پیدا ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف ہر بات منسوب کر دیتے ہیں اصل اشارہ تو ان کا مسلمانوں کی طرف ہے خاص طور پر مسلمانوں پر اور اسلام پر ایسے اعتراض کیے جاتے ہیں۔
پھر یہ اعتراض خاص طورپر کیا جاتا ہے کہ خدا کہتا ہے کہ میری عبادت کرو۔ اس کو بندوں کی عبادت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بےشک ہمیں یہ کہا ہے کہ
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۔(الذاريات:57)
کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا ہے کہ
قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ۔(الفرقان:78)
ان سے کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پروا ہی کیا کرتا ہے اگر تمہاری طرف سے دعا اور استغفار نہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ کو ہماری عبادتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں کو اپنے مزید قریب کرنے اور اپنے قرب سے نوازنے کے لیے عبادالرحمٰن اور شیطان کے بندوں میں فرق کے لیے، دنیا کو بتانے کے لیے کہتا ہے کہ جو میرے بندے ہیں وہ اپنے مقصد پیدائش کو پہچانتے ہیں اور پہچانیں گے اور میرے قریب آتے ہیں اور آنے کی کوشش کریں گے اور میں ان کی شکر گزاری کی وجہ سے ان کے میری طرف آنے کی وجہ سے انہیں پھر اَور مزید انعامات سے نوازتا چلا جاؤں گا۔ پس ہمارے فائدے کے لیے یہ باتیں ہیں نہ کہ خدا تعالیٰ کے فائدے کے لیے۔‘‘
(اختتامی خطاب برموقع جلسہ سالانہ یوکے2019ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل23؍جون2020ءصفحہ6تا7)
حقوق کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ نےہمارے سامنے اپنے پیارے اور محبوب نبیؐ اورمطاع اور انسان کامل کا نمونہ رکھا ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’غیر مسلم دنیا یا مغربی دنیا یا ترقی یافتہ دنیا میں جو مسلمانوں کے متعلق تحفّظات پائے جاتے ہیں وہ ان کی اسلامی تعلیم کے بارے میں کم علمی کی وجہ سے زیادہ ہیں اور اس پر بعض مسلمانوں کے اسلام کے نام پر شدّت پسند عمل اور دہشت گردی اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے عمل نے مزید ان کے ذہنوں میں راسخ کر دیا ہے کہ اسلام ہے ہی دہشت گردی کا مذہب۔ آج اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے اور اسلامی تعلیم کے بارے میں غلط تاثر کو زائل کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے غلام صادق مسیح موعود اور مہدی معہودؑ کی جماعت کے سپرد کیا ہے۔ پس اس کے لیے ہر احمدی کو بھرپور کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے لوگ تو پریس اور میڈیا کی خبروں کو سن کر سمجھتے ہیں کہ جو یہ کہہ رہے ہیں یعنی جو پریس کہہ رہا ہے وہی سو فیصد سچ ہے۔ مذہب سے دلچسپی ویسے ہی عمومی طور پر دنیا کی اکثر آبادی کو نہیں ہے۔ پس ان حالات میں بڑی سخت محنت سے اور مسلسل کوشش سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کو بتانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ عام غیر مسلم تو یہی سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کے یہ عمل ان کی تعلیم کی وجہ سے ہیں اور بانیٔ اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ ٖوسلم کے عمل کی وجہ سے مسلمانوں کے یہ عمل ہیں۔
پس جیسا کہ میں نے کہا اس اثر کو زائل کرنے اور دنیا کو اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ کرنے کے لیے ہر احمدی کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے قول اور عمل سے دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا عمل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو دنیا میں انسان کو پیدا کیا ہے تو اس لیے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کے حق بھی ادا کرے اور بندوں کے حق بھی ادا کرے۔ جو اللہ کا حق ادا کرنے والے ہوں گے یقیناً بندوں کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں گے اور ان حقوق کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے اپنے پیارے اور محبوب نبی اور مطاع اور انسان کامل کا نمونہ رکھا ہے۔ اور پھر ہمیں یہ کہا کہ یہ کامل نمونہ تمہارا رہنما ہے اسے اپناؤ جو اس کی امت میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس اُسوے کے ہر پہلو پر عمل کرنے کی کوشش کرو اور پھر دنیا کو بھی بتاؤ کہ حقیقی اسلام یہ ہے نہ کہ وہ اسلام جو چند دہشت گرد اسلام کے نام پر پیش کرتے ہیں اور جس کو مغربی میڈیا اَور زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے۔‘‘
(اختتامی خطاب برموقع جلسہ سالانہ جرمنی2019ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل13؍اگست2019ءصفحہ20)
اگر تم اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو توایک دوسرے کے حقوق ادا کرو
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’صرف جماعت کی خدمت کر دینا تقویٰ نہیں، صرف اللہ اور رسول سے محبت کا اظہار کر دینا تقویٰ نہیں، صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلافتِ احمدیہ سے تعلق تقویٰ نہیں بلکہ تقویٰ تب کامل ہوتا ہے جب ماں باپ کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، جب بیوی بچوں کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، جب خاوندوں اور بچوں کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، جب عزیز رشتے داروں کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، جب دوستوں کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، جب ہمسایوں کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، جب بہن بھائیوں کے حقوق بھی ادا ہورہے ہوں، جب افرادِ جماعت کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں، یہاں تک کہ جب دشمنوں کے حقوق بھی ادا ہورہے ہوں تب تقویٰ کامل ہوتا ہے۔ اور یہ سب تعلیم قرآنِ کریم میں موجود ہے۔…
پس نہ کسی کو اپنی نمازوں پر خوش ہونا چاہئے۔ نہ کسی کو اپنی جماعتی خدمات پر خوش ہونا چاہئے۔ نہ کسی کو کوئی خاص عہدہ ملنے پر خوش ہونا چاہئے۔ نہ کسی کو کسی مالی قربانی پر خوش ہونا چاہئے جب تک کہ عاجزی، انکساری اور اپنے بھائیوں سے ہمدردی اُس میں نہ ہو۔ اور جب حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کے جذبات ایک انسان میں موجزن ہوتے ہیں تو پھر وہ حقیقی تقویٰ پر قدم مار رہا ہوتا ہے اور حقیقی تقویٰ پر چلنے والا پھر کسی نیکی پر خوش نہیں ہوتا۔ اُس میں فخر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اُس کی خشیت اُس میں بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہر نیکی کرنے کے بعد یہ فکر دامنگیر رہتی ہے کہ پتہ نہیں یہ نیکی خدا تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ بھی پاتی ہے کہ نہیں۔ پس حقیقی نیکیاں تقویٰ پیدا کرتی ہیں اور تقویٰ انسان میں عاجزی اور انکساری پیدا کرتا ہے۔ اور یہی چیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس زمانے میں ہم میں پیدا کرنے آئے ہیں۔ دوسروں کے لئے ہمدردی کے جذبات رکھنے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ شرائطِ بیعت جو ایک احمدی کے حقیقی احمدی مسلمان کہلانے کے لئے بنیادی چیز ہے، اس کی چوتھی شرط میں آپ فرماتے ہیں کہ
’’یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا، نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے، نہ کسی اور طرح سے‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ 159اشتہار’’تکمیل تبلیغ‘‘ اشتہار نمبر 51مطبوعہ ربوہ)
پس ایک احمدی مسلمان سے نہ صرف احمدی مسلمان بلکہ ہر مسلمان، ہر قسم کی ناجائز تکلیف سے محفوظ ہونا چاہئے اور نہ صرف مسلمان بلکہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق کا محفوظ رہنا ضروری ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے۔ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ تکلیف پہنچانے کی برائی سے وہ پاک ہوتے ہیں تو کوئی یہ نہ سمجھے کہ پھر اُس نے بھی نیکی کے اعلیٰ معیار کو پا لیا۔ مومن کا تو ہر قدم آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور بڑھنا چاہئے، ورنہ تقویٰ اور ایمان میں ترقی نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شرائطِ بیعت کی نویں شرط میں فرمایا کہ
’’یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چلتا ہے، اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ160اشتہار’’تکمیل تبلیغ‘‘اشتہار نمبر51 مطبوعہ ربوہ)
پس حقیقی نیکی اُس وقت ہو گی جب اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو گی اور اس رضا کے حصول کے لئے اپنی تمام تر طاقتوں اور استعدادوں کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی میں ایک شخص استعمال کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے بڑھ کر انسان ہے جو اشرف المخلوقات ہے۔ پس حقیقی انسان اُس وقت بنتا ہے جب حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہو۔ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی طرف توجہ دے۔
مَیں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ غیروں کو، غیر مسلموں کو جو انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو مَیں اُن کے سامنے اسلام کی یہ خوبی رکھتا ہوں کہ تمہارا جو دنیاوی نظام ہے، بعض حقوق کا تعین کر کے یہ کہتا ہے کہ یہ ہمارے حقوق ہیں اور یہ ہمیں دو ورنہ طاقت کا استعمال ہو گا۔ جبکہ اسلام کہتا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو تو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اُن حقوق کو بیان فرما دیا جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے ادا کرنے چاہئیں۔ پس یہ فرق ہے دنیاوی نظاموں میں اور خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام میں۔ دنیاوی نظام اکثر اوقات حقوق حاصل کرنے کی باتیں کرتا ہے۔ اس کے لئے بعض اوقات ناجائز طریق بھی استعمال کئے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ مومنوں کو کہتا ہے کہ اگر حقیقی مومن ہو، اگر میری رضا کے طلبگار ہو تو نہ صرف یہ کہ کسی مطالبے پر حقوق ادا کرو بلکہ حقوق کی ادائیگی پر نظر رکھ کر حقوق ادا کرو۔ اور انصاف سے کام لیتے ہوئے یہ حقوق ادا کرو۔ انسانی ہمدردی کے جذبے سے یہ حقوق اداکرو۔
اب دیکھیں اگریہ جذبہ ہمدردی ہر احمدی میں پیدا ہو جائے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے وہ حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ جماعت میں جھگڑوں اور مسائل کا سامنا ہو۔ نظامِ جماعت کے سامنے مسائل پیدا کئے جائیں۔ خلیفۂ وقت کا بہت سا وقت جو ایسے مسائل کو نپٹانے، یا مہینہ میں کم از کم سینکڑوں خطوط اس نوعیت کے پڑھنے اور اُن کا جواب دینے یا اُنہیں متعلقہ شعبے کو مارک کرنے میں خرچ ہوتا ہے وہ کسی اور تعمیری کام میں خرچ ہو جائے جو جماعت کے لئے مفید بھی ہو۔ خلیفہ وقت کے پاس جب ایسے معاملات آتے ہیں تو اُس نے تو ایسے معاملات کو بہر حال دیکھنا ہی ہے۔ انتظامی بہتری کے لئے بھی دیکھنا ہے۔ اصلاح کے لئے بھی اور ہمدردی کے جذبے کے تحت بھی کہ کہیں کوئی احمدی خود غرضی میں پڑ کر اپنے حقوق کی فکر کر کے اور دوسرے کے حقوق مار کر ابتلاء میں نہ پڑ جائے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب نہ بن جائے یا کسی ظلم اور زیادتی کا نشانہ کوئی مظلوم نہ بن جائے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون2012ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل22؍جون2012ءصفحہ6تا7)
جماعت میں انصاف اورحقوق کی ادائیگی کے نمونے نظر آنے چاہئیں
حقوق کی ادائیگی کا انصاف کے قیام کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس حوالے سے عہدیداران کو خصوصاً اور افراد جماعت کو عموماً نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہمارا ہر عہدیدار خاص طور پر اور ہر احمدی عموماً دنیا کے سامنے ایک رول ماڈل ہونا چاہئے۔ جہاں دنیا میں فتنے فساد اور افراتفری اور حقوق غصب کرنے کے نمونے نظر آتے ہیں وہاں جماعت میں انصاف اور حقوق کی ادائیگی کے نمونے نظر آنے چاہئیں۔ اس تعارف سے دنیا والے دیکھیں گے کہ جماعت کس طرح کی ہے۔ ہر فرد جو ہے وہ ایک نمونہ ہے۔
پس ہر احمدی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ذمہ داری صرف عہدیداروں کی ہی نہیں ہے، ہر احمدی بھی ذمہ دار ہے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ آپس کے تعلقات میں مثالی نمونے قائم کریں۔ انصاف کے تقاضے پورے کریں۔ اپنے اخلاق کو اعلیٰ معیار تک پہنچائیں۔ ایک دوسرے سے معاملات میں کسی بھی قسم کی طرفداری سے اپنے آپ کو مکمل طور پر پاک کریں۔ کسی بھی طرف ان کا جھکاؤ نہ ہو۔ احمدی کی گواہی اور بیان اپنے انصاف اور سچائی کے لحاظ سے ایک مثال بن جائے اور دنیا یہ کہے کہ اگر احمدی نے گواہی دی ہے تو پھر اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ گواہی انصاف کے اعلیٰ معیار پر پہنچی ہوئی ہے۔ اگر ہم یہ کر لیں تو ہم اپنی تقریروں میں، اپنی باتوں میں، اپنی تبلیغ میں سچے ہیں ورنہ پھر جیسے دوسرے ویسے ہی ہم۔
ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اپنے عہد بیعت میں تمام قسم کی برائیوں سے بچنے کا عہد کیا ہے اور عہد پر توجہ نہ دینا اور جان بوجھ کر اس پر عمل نہ کرنا خیانت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک حقیقی مومن کی نشانی بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے دل میں ایمان اور کفر نیز صدق اور کذب اکٹھے نہیں ہو سکتے اور نہ ہی امانت اور خیانت اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 320مسند ابی ہریرہؓ حدیث 8577 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
پھر ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا جو عہدیداروں کو بھی سامنے رکھنی چاہئے اور ہر احمدی کو بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تین امور کے بارے میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کر سکتا اور وہ تین باتیں یہ ہیں۔ خدا تعالیٰ کے لئے کام میں خلوص نیت۔ دوسرے ہر مسلمان کے لئے خیر خواہی۔ اور تیسرے جماعت مسلمین کے ساتھ مل کر رہنا۔
(سنن الترمذی کتاب العلم باب ما جاء فی الحث علی تبلیغ السماع حدیث 2658)
پس جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ادا کرنا اور خلوص نیت سے ادا کرنا یہی اللہ تعالیٰ کی امانت کا حق ادا کرنا ہے۔ اسی طرح ہر شخص کے لئے دوسرے کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ جب ہم میں سے ہر ایک انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایک دوسرے کا حق ادا کرنے والا بن جائے گا تو حقوق کے حصول کی دوڑ خود بخود ختم ہو جائے گی۔ یہ نہیں ہو گا کہ میرا حق دو بلکہ حق ادا کرنے والے ہوں گے اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حقیقی مسلمان کی نشانی بتائی ہے۔ اور پھر ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ جماعت مسلمین سے چمٹے رہنا جو ہے یہی حقیقی مسلمان بناتا ہے۔
اس وقت دنیا میں صرف اور صرف ایک جماعت ہے جو جماعت احمدیہ مسلمہ کہلاتی ہے اور یہی ایک جماعت ہے جو دنیا میں ایک نام سے پہچانی جاتی ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی بین الاقوامی جماعت نہیں جو تمام دنیا میں ایک نام سے جانی جاتی ہو۔ پس اس کے ساتھ جڑ کے رہنا اور نظام جماعت کا حصہ بننا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق حقیقی مسلمان بناتا ہے۔ اس خوش قسمتی پر ہر احمدی جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے اور حقیقی شکرگزاری یہی ہے کہ نظام جماعت کی مکمل اطاعت، خلافت کی اطاعت ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس شکر گزاری کی توفیق عطا فرمائے۔ ہر احمدی کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے والے بنیں۔ اگر کبھی کسی بھی قسم کی گواہیوں کی ضرورت پڑے تو اس میں خیانت کے مرتکب نہ ہوں۔ جماعت کا ہر عہدیدار اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے۔ اپنے عہدوں اور اپنی امانتوں کو پورا کرنے والا اور ادا کرنے والا ہو۔ اپنی تمام ذمہ داریوں کو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ادا کرنے والا ہو۔ یہ خوبصورت تعلیم ہماری نسلوں میں بھی جاری رہے اور اس کے لئے ہمیں کوشش بھی کرنی چاہئے تا کہ جب وقت آئے تو ہم دنیا میں حقیقی انصاف قائم کر کے دکھانے والے ہوں۔ وہ انصاف جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا اور جس کے نمونے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق نے اس زمانے میں بھی قائم فرمائے اور جس کی توقع آپ نے اپنے ماننے والوں سے بھی رکھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍نومبر2016ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل16؍دسمبر2016ءصفحہ7)
٭…٭…٭