محبوب کبریا کی بے مثال ادائیگیٔ حقوق اللہ
یہ عربی نبی جس کا نام محمد ؐہے (ہزار ہزار درود اور سلام اس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا (حضرت مسیح موعودؑ)
انسان کا سب سے پہلا اور گہرا تعلق اپنے خالق ومالک سے ہی ہے اور حقوق اللہ کی ادائیگی ہی اس کی پیدائش کا اصل اور بنیادی مقصد ہے۔ہمارے ہادی ومرشد سیّد الانبیاء خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ عبدِ کامل ہیں جو حقوق اللہ کی ادائیگی کے درجہ کمال کو پہنچ کر رہتی دنیا تک اسوہ ٹھہرے اور تعلق باللہ کی منازل کی انتہاکو پاکر سالکوں کے لیے مشعلِ راہ بنائے گئے اور سدرۃ المنتہیٰ تک قربِ الٰہی کی معراج حاصل کرکے قَابَ قَوۡسَیۡنِ اَوۡ اَدۡنٰی کے مقام پر فائز ہوئے۔
ایمان باللہ اور توحید کا قیام
حقوق اللہ میں بنیادی امرایمان باللہ ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین کامل ہونا اور اس کی وحدانیت کا اقرار اور اس کی تمام صفات پر ایمان لانا اور شرک سے مجتنب رہنا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’توحید صرف اِس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہیں اور دل میں ہزاروں بُت جمع ہوں۔ بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر ایسا بھروسہ رکھتا ہے جو خدا تعالیٰ پر رکھنا چاہئے، یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے، ان سب صورتوں میں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بُت پرست ہے۔ بُت صرف وہی نہیں ہیں جو سونے یا چاندی یا پیتل یا پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے اور اُن پر بھروسہ کیا جاتا ہے بلکہ ہر ایک چیز یا قول یا فعل جس کو وہ عظمت دی جائے جو خدا تعالیٰ کا حق ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگہ میں بُت ہے۔‘‘
(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد12 صفحہ349)
اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اُس نے ہمارے آقا سید ولدِ آدم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدا ہی سے ہر قسم کے شرک سے مجتنب رکھا۔ مشرکانہ عادات واطوار سے نفرت وکراہت آپؐ کی فطرتِ صحیحہ کا نمایاں پہلو تھا۔ ہستی باری تعالیٰ پر ایمان کا تقاضا ہی تھا کہ آپؐ عبادت کی خاطر غارِحرا میں خلوت نشین ہوجاتے اور دنیا کے ہر قسم کے تعلقات سے منقطع ہوکر معبودِ حقیقی کے حضور حاضر رہتے۔ آپؐ کی زندگی کا ہر گوشہ
لَااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيئٍ قَدِ یْرٌ
کے اقرار سے معمور تھا۔ یعنی خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں،اُسی کی بادشاہت ہے، تمام تعریفوں کا وہی حقدار ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔اسی کلمہٴ توحید کی وجہ سے آپؐ کو طرح طرح کے دُکھ اور تکالیف دی گئیں اور مصائب وشدائد کے پہاڑ آپؐ پر توڑے گئے۔ آپؐ کے قتل کے منصوبے بنائے گئے مگر آپؐ ہمیشہ قیام توحید کے لیے کوہِ استقامت بنے رہے۔یہ تمام اذیتیں صرف اس لیے ہی تو تھیں کہ آپؐ خدائے واحد ویگانہ کا نام لیتے تھے۔ایسے ہی ایک موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قریش مکہ سے کہا: کیا تم اس شخص کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا ربّ اللہ ہے۔
(مسند البزار، مسند علی بن ابی طالب، جزء3صفحہ14، روایت نمبر761)
جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو تمام بنی نوع انسان کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث فرما دیا تو افضل الرسل وخاتم النبیینﷺنے مقصدِحیات کی تبلیغ واشاعت اس درجہ کمال تک پہنچا دی کہ آپؐ کی تعلیمات ہی ہیں جو آج بھی ہر قسم کے شرک سے نجات دلاتی اور توحیدِ حقیقی کی راہ دکھاتی ہیں اور آپؐ کی اتباع ہی ہے جس نے اُس دَور میں بھی مشرکین عرب اور بگڑے ہوئے یہود ونصاریٰ کی اصلاح کی۔ توحید کے قیام کی خاطر آپؐ نے ہر ممکن جدوجہد کی۔ کوئی موقع ایسا نہ ہوتا تھا کہ آپؐ مشرکین عرب کوشرک سے نہ روکتے ہوں۔ انفرادی مجلس ہو یا کوئی محفل، کوئی قومی تہوار ہو یا مذہبی دن، ہر موقع پر اور ہر محل پر پہنچ کر آپؐ واحد ولاشریک خدا کی طرف بلاتے تھے۔ آنحضورﷺ کا شرک سے روکنے میں اس قدر آگے بڑھ جانا تھاکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ(الشعراء:4)
یعنی کیا تو اپنی جان کو اس لیے ہلاک کردے گا کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔یقیناً حقوق اللہ میں سے
اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ(النحل: 126)
كے حكم كی ادائیگی کرنے والوں کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ ہے۔
آپؐ کی ہجرت بھی توحید کی عظمت کے قیام کی خاطر تھی اور غزوات بھی اعلائے کلمۃ اللہ ہی کی غرض سے تھے۔اور آپؐ اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے جب تک کہ آپؐ نے الٰہی پیغام
حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیۡرَ مُشۡرِکِیۡنَ بِہٖ (الحج:32)
کھول کھول کر پہنچا نہیں دیا۔ آپؐ نے شرک میں ڈوبے ہوؤں کو ہزارہا نشانات کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی ہستی سے ایسا روشناس کروایا کہ گویا وہ خدائے رحمٰن ورحیم اور مالک یوم الدین کو دیکھنے لگ گئے اور ایمان باللہ میں ایسے پختہ ہوگئے کہ نہ تو دُنیا کی کوئی طاقت انہیں ہستی باری تعالیٰ کے انکار پر مجبور کرپاتی تھی اور نہ ہی وہ کبھی اس سے غافل ہوتے تھے۔ خدا تعالیٰ کی عظیم الشان طاقتوں اور اس کی صفاتِ حسنہ کا مشاہدہ کروا کرانہیں توحید کے سچے پرستار بنا دیا۔اور وہ خدا تعالیٰ کے حاضر وناظر ہونے پر اس قدر مضبوط ایمان رکھتے تھے کہ حالتِ جلوت ہو یا خلوت، کوئی دیکھنے والا موجود ہو یا گوشۂ تنہائی ہو، کسی صورت میں بھی کوئی بُرائی یا بدی، کوئی بدخُلقی یا ناپسندیدہ بات اُن سے سرزد نہیں ہوتی تھی۔اگر بشریت کے ماتحت کبھی کوئی گناہ یا خطا ہو بھی جاتی تواللہ عزوجل کی ناراضگی کا خوف ایسا بے چین و بےقرارکردیتا کہ ندامت واستغفار اور صدقہ وخیرات میں لگ جاتےاور جب تک وہ اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ سزا میں سے گزار کر آستانہ الٰہی پر جھکا نہ لیتے اور اللہ تعالیٰ کی جناب سے معافی کا یقین نہ ہوجاتا، راحت وچین نہ پاتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں:’’یہ عربی نبی جس کا نام محمد ؐہے (ہزار ہزار درود اور سلام اس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہوچکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام ا نبیاء اور تمام اوّلین وآخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذرّیتِ شیطان ہے۔ کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے۔ جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نُور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں۔‘‘
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ118تا119)
عبادات
توحید باری تعالیٰ کے اقرار کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری اُس کے تمام احکام اور اوامر ونواہی میں کی جائے۔ معبودِحقیقی کا کامل مطیع ہوجانا ہی حق بندگی کی ادائیگی اور عبدِ کامل بن جانا ہے اور یہی انسان کا مقصدِ پیدائش ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ(الذاریات:57)
یعنی میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔
ایک موقع پر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: یارسول اللہ! کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پیارا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: نماز کو وقت پر ادا کرنا۔
(صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلوٰۃ، باب فضل الصلوٰۃ لوقتھا، روایت نمبر527)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ انسان التزام کے ساتھ پانچوں نمازیں اُن کے اوّل وقت پر ادا کرنے اور فرض اور سنتوں کی ادائیگی پر مداومت رکھے اور حضورِ قلب، ذوق وشوق اور عبادت کی برکات کے حصول میں پوری طرح کوشاں رہے۔‘‘
(اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد18صفحہ165تا166)
اس بارے میں ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا اسوۂ حسنہ اور سنتِ مطہرہ یہ ہے کہ آپؐ نے عُسر ویسر، قبض وبسط، جوانی وبڑھاپا ہر حال میں اقامتِ صلوٰۃ کے حکم الٰہی کو ملحوظ رکھا۔ حتٰی کہ جہاد وغزوات کی انتہائی مصروفیات میں بھی نماز وں کی اوقاتِ مقررہ پر باجماعت ادائیگی کا التزام کرکے صلوٰۃ وسطیٰ کی حفاظت کا عملی نمونہ پیش فرمایا۔ احادیث میں ذکر ملتا ہے کہ ایک دفعہ جنگِ خندق کے موقع پر دشمن کے شدید حملوں کے باعث نمازِ عصر کو مؤخر کرنا پڑا تو آپؐ سخت تکلیف اور دُکھ میں مبتلا ہوگئے اور نماز کی ادائیگی ہی آپؐ کے سکون وراحت کا موجب ثابت ہوئی۔ (صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء علی المشرکین، روایت نمبر6396) آپؐ فرماياکرتے تھے: اے بلال! اقامتِ صلوٰۃ کے ذریعے ہمیں راحت پہنچاؤ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی صلوٰۃ العتمۃ، روایت نمبر4985) آپؐ کے دل کی تو یہ کیفیت تھی کہ آپؐ نےفرمایا: قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ میری آنکھوں کی ٹھنڈک تو نماز میں ہے۔ (سنن النسائی کتاب عشرۃ النساء باب حب النساء حدیث نمبر 3940) کیسے بھی مشاغل ہوں آپؐ کا دل نماز کی طرف ہی مائل رہتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبیﷺ اپنے گھر والوں کی کام کاج میں مدد کیا کرتے تھے۔ پھر جب نماز کا وقت ہوتا تو آپؐ نماز کے لیے (بلا توقف)تشریف لے جاتے۔(صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب من کان فی حاجۃ اھلہ فاقیمت الصلوٰۃ فخرج، روایت نمبر676)
حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک موقع پر رسول اللہﷺ کو بکری کے شانے کا گوشت چھری سے کاٹ کر کھاتے ہوئے دیکھا۔ اسی دوران اذان کی آواز آئی تو آپؐ نے چھری وہیں چھوڑ دی اور نماز کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب من لم یتوضأ من لحم الشاۃ و السویق، روایت نمبر208)
آپؐ کی قوتِ قدسیہ اور سنتِ مطہرہ کا ہی اثر تھا کہ صحابہ کرامؓ بھی نماز باجماعت کے شیدا ہوگئے جس کی گواہ صلوٰۃالخوف بھی ہے کہ انتہائی خطرناک حالات میں بھی جبکہ جان جانے کا شدید خطرہ لاحق ہوتا وہ آپؐ کی اقتدا میں نماز باجماعت کو ترک نہ کرتے تھے۔
آنحضورﷺ کی ساری زندگی ہی اس بات کی شاہد ہے کہ آپؐ نے حَافِظُوْا عَلَى الصَّلَوَاتِ کا حکم ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھا۔ بیماری میں بھی کبھی نماز کی ادائیگی میں سستی نہ دکھائی۔ایک دفعہ سواری سے گرجانے کے سبب زخمی ہوگئے اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنا ممکن نہ رہا تو آپؐ کا بیٹھ کر نماز ادا کرنا بیماروں کے لیے اسوہ بن گیا۔
(صحیح بخاری، کتاب المرضی، باب اذا عاد مریضا فحضرت الصلوٰۃ)
مرض الموت میں ایسا وقت بھی آیا کہ آپؐ بخار کی شدت کی وجہ سے بے ہوش تھے۔ ذرا ہوش آیا تو نماز کے متعلق پوچھا۔ آپؐ کو بتایا گیا کہ لوگ آپؐ کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ آپؐ نے پانی منگوا کر غسل کیا۔ اُٹھنے لگے تو پھر بے ہوش ہوگئے۔ کچھ دیر بعد افاقہ ہوا تو پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ بتایا گیا کہ نہیں، آپؐ کا انتظار کررہے ہیں۔ آپؐ نے دوبارہ اسی طرح نماز کی تیاری کی لیکن پھر بے ہوش ہوگئے۔ تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔آپؐ کا شوقِ عبادت آپؐ کو مسجد کی طرف جانےکے لیے بے چین کیے ہوئے تھا لیکن بیماری تھی کہ اُٹھنے نہ دیتی تھی۔آخر آپؐ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امام مقرر فرمادیا۔ کچھ دن بعد جب طبیعت ذرا سنبھلی تو آپؐ دو آدمیوں کا سہارا لیے ہوئے مسجد تشریف لائے۔اور نماز باجماعت ادا کی۔(صحيح بخاری، کتاب الاذان، باب انما جعل الامام لیؤتم بہ، روایت نمبر687) اس وقت بھی کمزوری اس قدر شدید تھی کہ دیکھنے والوں نے بیان کیا کہ آپؐ کے پاؤں زمین پر گھسٹتے جارہے تھے۔ (المنتقى لابن الجارود، كتاب الصلوٰۃ، باب تخفیف الصلوٰۃ بالناس،روایت نمبر329)حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آخری بات جو رسول اللہﷺ نے فرمائی اس میں بھی آپؐ نے قیامِ نماز ہی کی طرف توجہ دلائی۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی حق المملوک،روایت نمبر5156)
نماز باجماعت کے علاوہ دیگر عبادات رمضان المبارک کے روزوں اور بیت اللہ کے حج کی تفصیلات بھی ہمیں آنحضورﷺ کے قائم کردہ اسوہ سے ہی معلوم ہوئیں اور ان کی اہمیت وفضیلت آپؐ ہی کی سنت سے عیاں ہوئی۔
نوافل
حق عبودیت کی ادائیگی میں آنحضورﷺ کا اسوہ یہ ہے کہ فرائض کو نوافل کے ذریعہ تقویت دی جائے۔آپؐ نے فرمایاکہ اگر فرائض میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو روزِ قیامت نوافل اس کمی کو دُور کرنے کا موجب بن جائیں گے اور تمام اعمال کا حساب اسی طریق پر ہوگا۔
(سنن الترمذی، ابواب الصلوٰۃ، باب ماجاء ان اوّل ما یحاسب بہ العبد یوم القیامۃ الصلاۃ)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابۡتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الۡوَسِیۡلَۃَ وَ جَاہِدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِہٖ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۔(المائدة:36)
اے ایمان دارو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کے حضور میں قرب (حاصل کرنے کی راہیں) ڈھونڈو اور اس کی راہ میں کوشش کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی اتباع میں ہمیں آنحضورﷺ کایہ طریق ملتا ہے کہ آپؐ ہمیشہ ایسے اعمال بجا لانے میں مصروف رہتے تھے جو قربِ الٰہی اور محبتِ الٰہی کو بڑھانے والے تھے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرابندہ جن جن عملوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں کوئی عمل ان عملوں سے زیادہ پسندیدہ نہیں جو میں نے اس پر فرض کیے ہیں اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔پھر جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اُس کا کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، روایت نمبر6502)
اوقاتِ ممنوعہ کے علاوہ کوئی بھی ایسا وقت نہیں جس میں رسول اللہﷺ نے نوافل ادا نہ کیے ہوں۔ فرض نمازوں کے ساتھ وہ نوافل جنہیں ادا کرنا آپؐ نے لازم ٹھہرا لیاتھا، سنتیں کہلائیں۔صلوٰۃ الاستسقاء، صلوٰۃ الکسوف والخسوف، صلوٰۃ الحاجۃ، صلوٰۃ الاستخارۃ، صلوٰۃ الضحی وغیرہ ہم نے آپؐ سے ہی سیکھیں۔ سفر ہو یا حضر ہر حال میں آپؐ کا نوافل پڑھنا ثابت ہے۔
قول اللہ ہے : وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ یعنی اور رات کے ایک حصہ میں بھی اس (قرآن) کے ساتھ تہجد پڑھا کر۔ یہ تیرے لئے نفل کے طور پر ہوگا۔لہٰذا رات کی عبادت اور نمازِ تہجد کی ادائیگی میں تو خاص مداومت دکھائی دیتی ہے۔اس فرمانِ الٰہی کی اطاعت جس اہتمام سے آپؐ نے کی اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ
اِنَّ رَبَّکَ یَعۡلَمُ اَنَّکَ تَقُوۡمُ اَدۡنٰی مِنۡ ثُلُثَیِ الَّیۡلِ وَ نِصۡفَہٗ وَ ثُلُثَہٗ(المزمل:21)
یقیناً تیرا ربّ جانتا ہے کہ تُو دو تہائی رات کے قریب یا اس کے نصف یا
اس کا تیسرا حصہ کھڑا رہتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آنحضورﷺ کی نمازِ تہجد کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ آپؐ نمازِ تہجد گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے اور وہ رکعات اتنی لمبی اور اتنی پیاری وحسین ہوتیں کہ ان کے حُسن وخوبی کے متعلق نہ ہی پوچھو۔
(بخاری کتاب الجمعتہ باب قیام النبی للیل فی رمضان)
بعض دیگر صحابہؓ نے جنہیں اس نماز کو دیکھنے کی سعادت ملی وہ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ کی نمازِ تہجد اس قدر لمبی ہوتی تھی کہ آپؐ قیام میں سورت البقرۃ، سورت آل عمران، سورت النساء جیسی لمبی لمبی سورتیں پڑھا کرتے تھے۔ جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں عذاب کا ذکر ہوتا تو رُک کر اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا گرتے تھے اور جب رحمت کے ذکر والی آیت سے گزرتے تو اللہ تعالیٰ سے اُس کی رحمت کے خواستگار ہوتے تھے۔ پھر رکوع وسجود بھی طوالت میں قیام سے کچھ کم نہ ہوتے تھے۔ اور اتنی دیر تک نماز میں کھڑے رہنے کی وجہ سے آپؐ کے پاؤں متورم ہوجایا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین،باب استحباب تطویل القراءۃ فی صلوٰۃ اللیل)
(صحیح بخاری، کتاب التھجد،باب قیام النبیﷺ اللیل حتی ترم قدماہ، روایت نمبر1130)
اُمّ المومنين حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں کہ آنحضورﷺ ایک رات جب میرے پاس تشریف لائے۔ بستر پر لیٹے پھر فرمایا: اے عائشہ کیاآج کی رات تومجھے اجازت دیتی ہے کہ میں اپنے ربّ کی عبادت کر لوں۔ میں نے کہا: خداکی قسم مجھے توآپؐ کی خواہش کااحترام اورآپ کاقرب پسندہے،میری طرف سے آپ کواجازت ہے۔تب آپ اُٹھے، وضوکیا اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔نماز میں اس قدر روئے کہ آپؐ کے آنسو آپ کے کپڑوں پر گرنے لگے۔ اور نمازکے بعدبھی آپؐ اللہ تعالیٰ کے حضور روتے ہوئے دعاؤں ہی میں مصروف رہے۔ یہاں تک کہ حضرت بلالؓ فجرکی اذان دینے کے بعد آئے تو انہوں نے آپؐ کو اس طرح گریہ وزاری کرتے دیکھاتوعرض کیا: یا رسول اللہ! آپؐ کے تو اگلے اور پچھلے تمام قصور معاف ہوچکے ہیں، پھر آپؐ اس قدر کیوں روتے ہیں؟آپؐ نے فرمایا:اے بلال! کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
(تفسیرروح البیان، سورت آل عمران آیت نمبر191)
نوافل صرف نماز سے ہی مختص نہیں بلکہ ہرایک نیکی اور حسنہ میں فرض سے بڑھ کر جو بھی عملِ صالح کیا جائے وہ نوافل میں داخل ہے۔ زکوٰۃ سے بڑھ کر انفاق فی سبیل اللہ کرنا اور رمضان کے روزوں کے علاوہ بھی روزے رکھنا نفلی اور طوعی عبادت میں شمار ہوتا ہے۔آنحضورﷺ کا طریق تھا کہ آپؐ رمضان کے علاوہ دیگر ایام میں بھی روزے رکھا کرتے تھے۔ شوال کے چھ روزے، چاند کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے، سوموار اور جمعرات کے دن کے روزے اور اسی طرح شعبان کے مہینہ میں روزے رکھنے کا ذکرمتعدد صحابہ کرامؓ سے مروی ہے۔اعتکاف یعنی دنیا سے الگ تھلگ ہوکر خالصۃً اللہ تعالیٰ کی عبادت میں محو ومستغرق ہوجانا جو رمضان کے آخری عشرہ میں کیا جاتا ہے رسول اللہﷺ کا اسوہ اور سنت ہی ہے۔اسی طرح آپؐ انفاق فی سبیل اللہ اور صدقہ وخیرات اس قدر کثرت سے کیا کرتے تھے کہ اسے بارش لانے والی تیز ہوا کی مثل بیان کیا گیا ہے۔ نفلی عبادات کا یہ قابلِ تقلید اسوہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں جزوِ لاینفک ہے۔
یادِ الٰہی وذکر الٰہی اور دعا
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِیۡ وَ لَا تَکۡفُرُوۡنِ(البقرة:153)
یعنی میرا ذکر کیا کرو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔
یہ امر بھی حقوق اللہ میں داخل ہے کہ انسان کا دل ودماغ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے ذکر میں مصروف رہے۔اس کے تمام افعال واعمال کا کوئی لمحہ بھی ایسا نہ گزرے کہ وہ ذاتِ باری تعالیٰ کی شانِ عالی سے غافل ہو۔ہر حال میں اور ہر وقت معبودِ حقیقی کے آگے سر تسلیم خم رکھے اور اس کی حمد اور اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اور اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے ہر کام اور ہر حالت میں اسی سے مدد اور استعانت چاہے۔ نبی کریمﷺ ہی وہ مبارک ہستی ہیں جن کی زبان ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر اوراُس کی نعما پر شکر میں تَر رہتی تھی۔ صرف عبادات کے لمحات ہی نہیں بلکہ دنیاکے تمام مشاغل میں بھی آپؐ ذکر الٰہی کرتے ہوئے اس کے حضور محوِ دعا رہتے تھے۔آپؐ کے تمام اوقات ولمحات اس قول کے آئینہ دار تھے کہ ’’دست بہ کار ودل بہ یار‘‘۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام اوقات ذکر الٰہی میں مصروف گزارا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب ذکر اللہ تعالیٰ فی حال الجنابۃ وغیرھا) یہاں تک کہ ذکر اور شکر کرنے کی توفیق پانے کی دعا بھی مروی ہے کہ رَبِّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ۔ یعنی اے میرے ربّ! اپنا ذکر کرنے اور شکر کرنے میں میری مدد فرما اور احسن طریق پر عبادت کرنے کی مجھے توفیق عطا فرما۔
(سنن النسائی، کتاب السھو، باب الدعا بعد الذکر، روایت نمبر1302)
احادیث اس بات پر شاہد ہیں کہ انسانی زندگی کا کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں جس میں آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی یاد کو زندہ نہ رکھا ہو۔ سونے کے لیے بستر پر لیٹتے وقت، پہلو بدلتے وقت، بیدار ہوتے وقت، وضو یا غسل کرتے وقت، لباس بدلتے وقت، گھر سے جاتے اور آتے وقت، مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت، سوار ہوتےاور سفر کرتے وقت، بلندی پر چڑھتےاور اُترتے وقت، شہر یا بازار میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت، نیا چاند دیکھتے وقت، کسی سے ملتے اور الوداع ہوتے وقت، مجلس میں بیٹھتے اور اُٹھتے وقت، کھانا پینا شروع کرتے اور ختم کرتے وقت، بیت الخلاء میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت غرض ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اسی سے دعا مانگا کرتے تھے۔شادی بیاہ یا کسی کی ولادت کا موقع ہوتا، کسی بیمار کی تیمارداری یا کسی کی فوتگی کا موقع ہوتا اللہ تعالیٰ ہی کو یاد کرتے ہوئے دعا کیا کرتے تھے۔ خوشی ومسرت، فتح وکامیابی، مصائب وشدائد، جنگ وجدال، مظالم وآفات، آندھی وطوفان، فتن وعذاب تمام حالات وکیفیات خواہ وقوع پذیر ہوتیں یا متصور، آپؐ اللہ تعالیٰ ہی کو یاد کرتے اور اس تبدیلی اور انقلاب كا مدبر ومقلب اُسی کو قرار دیتے اور اُس کے قادر ومقتدر ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے دعا میں لگ جاتے تھے۔ آنحضورﷺ کا نامِ احمد بھی اشارہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا اور اس کا ذکر اور یاد کا جو حق تھا، حقیقی طور پر ادا کرنے والے آپؐ ہی ہیں۔ ہمیں بھی آنحضورﷺ کو ہی اسوہ بنانا چاہیے اور وہی طَوروطریق اپنانے چاہئیں جو آنحضورﷺ کی سنت اور آپؐ کے عمل سے ثابت ہوں۔
تعلق باللہ
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان کا اُس سے ایسا اخلاص ووفا کا تعلق ہو کہ نہ صرف عبادت اور ذکرالٰہی محبت اور وارفتگی کے جذبہ سے سرزد ہو بلکہ اُس کی زندگی کے ہرگوشے پر خداتعالیٰ کی محبت غالب آجائے۔اس حق تعالیٰ کی ادائیگی میں بھی آنحضورﷺ ہی اسوہ ہیں۔ آپؐ کے ہر عمل پر توحید کی گہری چھاپ پائی جاتی تھی۔عبادات ہوں یا دنیاوی امور ہر کام ہی اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور خوشنودی کی خاطر ہوتا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی راہوں سے آپؐ ہمیشہ دُور رہتے تھے۔ یہ خدا تعالیٰ کی محبت کا جوش ہی تھا جو آپؐ کو پوری پوری رات اور سارا سارا دِن اُس کے آستانہ پر کھڑا رکھتا تھا۔ اخلاص ووفا اور محبتِ الٰہی کا یہ تعلق ہمیں غارِ حرا کی خلوت نشینی میں بھی ملتا ہے اور اہلِ مکہ کی ایذارسانیوں اور قتل کی کوششوں کے مقابل بھی دکھائی دیتا ہے۔ وہ کیا تعلق تھا جو آپؐ کو سرد اور اندھیری راتوں میں آرام دہ بستر چھوڑکر جنت البقیع میں لے جاتا تھا جہاں آپؐ گھنٹوں اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت الحاح سے رازو نیاز میں مصروف رہتے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو نماز میں اس قدر گریہ وزاری اور آہ وبکا کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ (ہچکی بندھ جانے کی وجہ سے) آپؐ کے سینے سے ایسی آواز آرہی تھی جیسے چکی چلنے کی یا ہنڈیا اُبلنے کی آواز ہوتی ہے۔
(سنن النسائی، کتاب السھو، باب البکاء فی الصلوٰۃ، روایت نمبر1214)
(سنن ابی داود، کتاب الصلوٰۃ، باب البکاء فی الصلوٰۃ،روایت نمبر769)
حقیقت ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور گریہ وبکا اور طلبِ استعانت ودعا جس قدر آپؐ نے کی، کبھی کسی عاشق نے اپنے محبوب ومعشوق کی راہ میں نہیں کی اور نہ کرسکے گا۔ خدا تعالیٰ سے آپؐ کی بے انتہا محبت ہی تھی جس کا اقرار مخالفین ومنکرین نے بھی اِنَّ مُحَمَّدًا عَشِقَ رَبَّہُ کے الفاظ سے کیا۔
(المنقذ من الضلال للغزالی، صفحہ179)
فنا فی اللہ
اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت اور فرماں برداری یہی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا تمام وجود ایسا وقف کردےکہ اُس کی رضا کے خلاف اُس سے کوئی فعل صادر ہی نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مقابل وہ ایسا بے نفس ہوجائے کہ اُس کے تمام جوارح وقویٰ، اُس کی عقل وفکر اَب اُس کے نہ رہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہوجائیں۔ اس مقام ومرتبہ کی انتہاکو پاکر اسوہ بننے والے انسانِ کامل اور اوّل المسلمین آنحضورﷺ ہی ہیں۔ آپؐ کاسارا وجود خدا تعالیٰ کی راہ میں فدا تھا۔آپؐ کے فنا فی اللہ ہونے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔ فرماتا ہے:
قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (الانعام:163)
یعنی تو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قربِ تام پر ایک بڑی دلیل ہے اور یہ آیت بتلا رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر خدا میں گم اور محو ہو گئے تھے کہ آپؐ کی زندگی کے تمام انفاس اور آپ کی موت محض خدا کے لئے ہو گئی تھی اور آپ کے وجود میں نفس اور مخلوق اور اسباب کا کچھ حصہ باقی نہیں رہا تھا۔ اور آپ کی روح خدا کے آستانہ پر ایسے اخلاص سے گری تھی کہ اس میں غیر کی ایک ذرّہ آمیزش نہیں رہی تھی۔ …اور چونکہ خدا سے محبت کرنا اور اس کی محبت میں اعلیٰ مقامِ قرب تک پہنچنا ایک ایسا امر ہے جو کسی غیر کو اُس پر اطلاع نہیں ہو سکتی اس لئے خداتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے افعال ظاہر کئے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درحقیقت تمام چیزوں پر خدا کو اختیارکر لیا تھا اور آپ کے ذرہ ذرہ اوررگ اور ریشہ میں خدا کی محبت اور خدا کی عظمت ایسے رَچی ہوئی تھی کہ گویا آپ کا وجود خدا کی تجلّیات کے پورے مشاہدہ کے لئے ایک آئینہ کی طرح تھا۔ خدا کی محبت کاملہ کے آثار جس قدر عقل سوچ سکتی ہے وہ تمام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھے۔
(عصمتِ انبیاء،روحانی خزائن جلد18صفحہ665تا 667)
توکل علی اللہ اور خشیت الٰہی
اللہ تعالیٰ سے مضبوط اور پختہ تعلق اس امر پر منحصر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حسن واحسان اور اس کے فضلوں اور رحمتوں کو دیکھ کر بندہ کسی بڑائی اور تکبرکا شکار نہ ہو اور نہ ہی ابتلاؤں، آزمائشوں اور تکلیفوں پر نظر کرکے مایوسی اور نااُمیدی میں مبتلا ہو۔ اُس کی حالت ہمیشہ اس آیت کریمہ کے موافق رہنی چاہیے کہ
یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا(السجدة:17)
یعنی وہ اپنے ربّ کو خوف اور طمع کی حالت میں پکارتے ہیں۔ تعلق باللہ کی یہ دونوں کیفیات آنحضورﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں نمایاں تھیں۔ جہاں عجز وانکسار اور خشیت الٰہی پائی جاتی تھی وہیں آپؐ کا اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسابھی عدیم المثال تھا۔ قرآن کریم نے بھی اس کا ذکر ہے کہ
فَقُلۡ حَسۡبِیَ اللّٰہُ ۫٭ۖ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ(التوبة:129)
یعنی توکہہ دے میرے لیے اللہ کافی ہے۔ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ اسی پر میں توکل کرتا ہوں اور وہی عرشِ عظیم کا ربّ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفتِ غناسے ہمیشہ آپؐ کو یہ خوف دامنگیر رہتا تھا کہ ہمارے اعمال خدا کے حضور قبولیت کے لائق بھی ٹھہرتے ہیں یا نہیں؟آپؐ کی دعاؤں میں یہ دعا بھی ملتی ہے
یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ۔
اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جمادے اور مضبوط کر دے۔
(سنن الترمذي، ابواب القدر،باب ماجاء ان القلوب بين اصبعي الرحمٰن، روایت نمبر2140)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: کسی کو اُس کا عمل جنت میں ہرگز داخل نہیں کرے گا۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپؐ کا بھی نہیں؟ آپؐ نے فرمایا: میرا بھی نہیں، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے آغوشِ فضل اور رحمت میں لے لے۔ اس لیے تم جو بھی عمل کرو، نہایت سنوار کر کرو اور حداِعتدال میں رہو۔
(صحیح بخاری، کتاب المرضیٰ، باب تمنی الموت المریض، روایت نمبر5673)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم جب بادل یا آندھی کے آثار دیکھتے تو فکرمندی آپؐ کے چہرے سے ظاہر ہوجایا کرتی تھی۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! لوگ تو جب بادل دیکھتے ہیں تو اِس اُمید سے خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہوگی اورآپؐ جب بھی بادل دیکھتے ہیں تو آپؐ کے چہرے سے ناپسندیدگی ظاہر ہورہی ہوتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: عائشہ! مجھے کیسے اطمینان ہو کہ اس میں وہ آندھی کا عذاب نہ ہوگا جو ایک قوم کو دیا گیا۔ حالانکہ اس قوم نے عذاب کو دیکھا اور کہنے لگے: یہ تو بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا۔
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر،سورۃ الاحقاف، باب قولہ فلما رأوہ عارضا، روایت نمبر4829)
اسی طرح قرآن کریم میں جہاں عذابِ الٰہی کے نتیجے میں بعض قوموں کی تباہی کا ذکر ہوتايا پيش آمده حالات یا حشر وقیامت کا ذکر ہوتا تو ان حصوں کی تلاوت آپؐ کو شدید غمزدہ اور دُکھی کردیا کرتی تھی۔ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا: سورت ہود، واقعہ، مرسلات، نبأ اور سورت تکویر نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔
(سنن الترمذی، ابواب تفسیر القرآن، سورۃ الواقعۃ، روایت نمبر3297)
غزوۂ بدر کے موقع پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ فتح کےروشن الٰہی وعدوں پر توکل کے باوجود آپؐ اللہ تعالیٰ کی صفتِ غنا کو ملحوظ رکھے ہوئے نہایت الحاح کے ساتھ دعامیں مصروف تھے۔
(صحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’خیال کرنا چاہئے کہ کس استقلال سے آنحضرتؐ اپنے دعویٰ نبوت پر باوجود پیدا ہوجانے ہزاروں خطرات اور کھڑے ہوجانے لاکھوں معاندوں اورمزاحموں اور ڈرانے والوں کے اوّل سے اخیر دم تک ثابت اور قائم رہے برسوں تک وہ مصیبتیں دیکھیں اور وہ دکھ اٹھانے پڑے جو کامیابی سے بکلی مایوس کرتے تھے اور روزبروز بڑھتے جاتے تھے کہ جن پر صبر کرنے سے کسی دنیوی مقصد کا حاصل ہوجانا وہم بھی نہیں گذرتا تھا بلکہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے ازدست اپنی پہلی جمعیت کو بھی کھو بیٹھے اور ایک بات کہہ کر لاکھ تفرقہ خرید لیا اور ہزاروں بلاؤں کو اپنےسر پر بلالیا۔ وطن سے نکالے گئے۔ قتل کے لئے تعاقب کئے گئے۔ گھر اور اسباب تباہ اور برباد ہوگیا۔ بارہا زہر دی گئی۔ اور جو خیرخواہ تھے وہ بدخواہ بن گئے اور جو دوست تھے وہ دشمنی کرنے لگے…واقعات حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر کرنے سے یہ بات نہایت واضح اور نمایاں اور روشن ہے کہ آنحضرت اعلیٰ درجہ کے یک رنگ اور صاف باطن اور خدا کے لئے جان باز اور خلقت کے بیم و امید سے بالکل منہ پھیرنے والے اور محض خدا پر توکل کرنے والے تھے کہ جنہوں نے خدا کی خواہش اور مرضی میں محو اور فنا ہوکر اس بات کی کچھ بھی پروا نہ کی کہ توحید کی منادی کرنے سے کیا کیا بلا میرے سر پر آوے گی اور مشرکوں کے ہاتھ سے کیا کچھ دکھ اور درد اُٹھانا ہوگا۔ بلکہ تمام شدتوں اور سختیوں اور مشکلوں کو اپنے نفس پر گوارا کرکے اپنے مولیٰ کا حکم بجالائے۔ اور جو جو شرط مجاہدہ اور وعظ اور نصیحت کی ہوتی ہے وہ سب پوری کی اور کسی ڈرانے والے کو کچھ حقیقت نہ سمجھا۔ ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ تمام نبیوں کے واقعات میں ایسے مواضعاتِ خطرات اور پھر کوئی ایسا خدا پر توکل کرکے کُھلا کھلے شرک اور مخلوق پرستی سے منع کرنے والا اور اس قدر دشمن اور پھر کوئی ایسا ثابت قدم اور استقلال کرنے والا ایک بھی ثابت نہیں۔
(براہین احمدیہ حصہ دوم،روحانی خزائن جلد1 صفحہ108تا112)
غیرتِ توحید
رسول کریمﷺ نے جس رنگ میں توحید کو قائم کیا اس کی مثال کسی اور ہادی اور نبی کی زندگی میں نہیں ملتی۔ آپؐ نے اپنے محبوبِ حقیقی کے لیے ہر ایسے موقع پر غیرت دکھائی جب اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا کر گویا اللہ تعالیٰ کی غیرت کو بھڑکایا جارہا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللهﷺ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی حرمت کی ہتک کی جاتی تو آپؐ اللہ کی خاطر اس کا انتقام لیتے تھے۔
(صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب صفۃ النبیﷺ، روایت نمبر3560)
غزوۂ احد کا واقعہ اس کی واضح مثال ہے، جب مسلمانوں کی عارضی پسپائی کے دوران آنحضورﷺ اُحد کے دامن میں ایک تنگ سی جگہ میں پناہ لیے ہوئے تھے اور ابوسفیان کہہ رہا تھا کہ ہم نے محمدﷺ کو مار دیا، ہم نے ابوبکر ؓکو ماردیا اور ہم نے عمرؓ کو بھی قتل کردیا۔ موقع کی نزاکت کی وجہ سے رسول اللہﷺ صحابہ کو خاموش رہنے کا ارشاد فرما رہے تھے۔ لیکن جب ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں نے اُعْلُ ھُبُلْ کا نعرہ لگایا کہ ھبل بت کی شان بلند ہو تو اللہ تعالیٰ کی خاطر آپؐ کی غیرت نے برداشت نہ کیا کہ توحیدِ خالص کے مقابل اس قسم کی مشرکانہ آواز اونچی ہوسکے۔ اس نازک موقع پر جبکہ جان جانے کا اور مسلمانوں کی مزید شہادتیں ہوجانے کا شدید خطرہ لاحق تھا، ان تمام خطرات کی پروا کیے بغیر آپؐ نے انتہائی بےتاب ہوکر صحابہؓ سے فرمایا: جواب کیوں نہیں دیتے اور فرمایا یہ کہو: اَللّٰهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ الله ہی سب سے بلند شان والا اور سب سے بزرگ تر ہے۔ پھر جب ایک دوسری مرتبہ ابوسفیان نے لَنَا العُزَّى وَلَا عُزَّى لَكُمْ (ہمارے لیے عزیٰ ہے اور تمہارے لیے کوئی عزیٰ نہیں)کا مشرکانہ کلمہ کہا تو آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو اَللّٰهُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلَى لَكُمْ (اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں) کا نعرہ سکھایا اور اس پُر خطر موقع پر بھی توحید باری تعالیٰ کی صدا بلند کرکے یہ تعلیم دی کہ یہ وہ غیرتِ توحید ہے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ جس کے لیے جان بھی چلی جائے تو مومن کو پروا نہیں کرنی چاہیے۔
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ احد، روایت نمبر4043)
آنحضورﷺ نے مشکل ترین حالات میں بھی کبھی برداشت نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی فتح اور کامیابی میں شرک کی ناپاکی کا شائبہ بھی ملوث ہو۔ غزوۂ بدر کا وہ واقعہ اس کا بیّن ثبوت ہے، جب آپؐ نے ایک مشرک پہلوان کو صرف اس بنا پر واپس لوٹا دیا کہ میں کسی مشرک سے مدد لینا نہیں چاہتا۔(صحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب کراھیۃ الاستعانۃ فی الغزو بکافر) آپؐ نے غیرتِ توحید میں نہ تو مسلمانوں کی بے طاقتی اور بے بضاعتی کی طرف کچھ دھیان دیا اور نہ ہی اس کی جنگی مہارت کو کچھ اہمیت دی۔ اگر حیثیت تھی تو محض اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تھی کہ
لِیُحِقَّ الۡحَقَّ وَ یُبۡطِلَ الۡبَاطِلَ(الانفال:9)
تاکہ وہ حق کو ثابت کردے اور باطل کا بطلان کردے۔
توحید کی عظمت وجبروت اس قدر آپؐ کے دل پر حاوی تھی کہ آپؐ نے اپنے بعد کے خدشات کا تصور کرکے بھی شرک کی بیخ کنی فرمائی۔ آپؐ نے انتہائی کوشش کی کہ کہیں آپؐ کی ذات کے متعلق مبالغہ آرائی کرکے کوئی شرک رواج نہ پاجائے۔ ایک طرف تو آپؐ نے فرمایا: اللہ یہود ونصاریٰ پر لعنت کرے انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ (صحيح بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی قبر النبیﷺ، روایت نمبر1390)اور دوسری طرف کبھی کسی کامیابی اور فتح کو اپنی ذات کی طرف منسوب نہیں کیا۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی کا نام سربلند کیا اور اسی کی عالی مرتبت کے نعرے بلند کیے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کسی غزوہ یا حج یا عمرہ سے لوٹتے تو زمین کی ہر بلندی پر چڑھتے وقت اللہ اکبر تین بار کہتے۔ پھر فرماتے:
لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ، آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ، صَدَقَ اللّٰهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ
(صحیح بخاری، کتاب الحج، ابواب العمرۃ،باب ما یقول اذا رجع من الحج او العمرۃ او الغزو، روایت نمبر1797)
ایک اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ کوئی اس کا شریک نہیں۔ اسی کی بادشاہت ہے اور اس کی ستائش ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ لوٹ رہے ہیں۔ اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہیں۔ اسی کے عبادت گزار، اسی کو سجدہ کرنے والے ہیں اور اپنے ربّ کے شکر گذار ہیں۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچا کردیا اوراپنے بندے کی نصرت فرمائی۔ اس نے اکیلے ہی جتھوں کو شکست دی۔
اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر بھی آپؐ تین سو ساٹھ بتوں کو اپنی چھڑی مارتے ہوئے کہہ رہے تھے
جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِلُ، اِنَّ البَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا، جَاءَ الحَقُّ وَمَا يُبْدِءُ البَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ۔
حق آگیا ہے اور باطل بھاگ گیا ہے اور باطل تو ہے ہی بھاگ جانے والا۔حق آگیا ہے اور باطل کوئی چیز پیدا نہیں کرتا اور نہ کسی ہلاک شدہ چیز کو واپس لا سکتا ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورت بنی اسرائیل، باب وقل جاء الحق وزھق الباطل، روایت نمبر4720)
اپنے لیے تو تعظیماً کھڑا ہونے سے بھی آپؐ منع فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ ہمارے پاس باہر تشریف لائے تو ہم آپؐ کے لیے کھڑے ہوگئے۔ آپؐ نے فرمایا: تم اس طرح کھڑے نہ ہوا کرو جس طرح عجمی لوگ اپنے میں سے بعض کی تعظیم کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔
(سنن ابی داود، کتاب الادب،باب فی قیام الرجل للرجل، روایت نمبر5230)
آپؐ نے تو اپنی ذات کے متعلق شرک کے شائبہ کو اس حد تک روکنے کی کوشش کی کہ فرمایا: یوں نہ کہا کرو کہ جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں۔
(صحیح بخاری، کتاب الایمان والنذور، باب لا یقول ما شاء اللہ وشئتَ)
حقوق العباد کا حقوق اللہ سے تعلق
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’نوکر کی خدمت اوراس کے ساتھ حسنِ سلوک گویا مالک کے ساتھ حسن سلوک ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چِڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق کے ساتھ سرد مہری بَرتے۔ کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے۔ پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے۔… میری دانست میں یہی پہلو حقوق العباد کا ہے جو حقوق اللہ کے پہلو کو تقویت دیتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد4صفحہ216)
گویا حقوق اللہ کی ادائیگی مکمل ہوہی نہیں سکتی اگر حقوق العباد کا خیال نہ رکھا جائے۔اس پہلو سے بھی رسول اللہﷺ ہی اسوۂ حسنہ ہیں۔ والدین، اہل وعیال، رحمی رشتے دار، ہمسائے ودوست احباب، گھر سے لے کر پورے معاشرے تک اور ملک سے لے کر تمام بنی نوع کے ساتھ حسنِ سلوک اور اخلاق سے پیش آنا آنحضورﷺ ہی کی تعلیم ہے۔ ہر کام اور فعل خدا کی رضا جوئی اور اس کی اطاعت میں کرنا عبادت ہے۔
حقوق العباد میں سب سے بڑا اِحسان جو آنحضورﷺ نے بنی نوع انسان پر کیا وہ یہی ہے کہ آپؐ نے لوگوں کی ہدایت اور انہیں گمراہی سے بچانے کی خاطر اپنی جان کو اس حد تک تکلیف میں ڈال دیا کہ گویا ہلاک ہی کرڈالا۔ آپؐ کا تضرع اور ابتہال سے دعائیں کرنا بنی نوع انسان کی فلاح وبہبود ہی کی خاطر تھا۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ بِعَدَدِ ھَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ وَ حُزْنِہٖ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ وَاَنْزِلْ عَلَیْہِ اَنْوَارَ رَحْمَتِکَ اِلَی الْاَبَدِ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’وہ اعلیٰ درجہ کانور جو انسان کو دیا گیا۔ یعنی انسان کامل کو وہ ملائک میں نہیں تھا نجوم میں نہیں تھا قمر میں نہیں تھا آفتاب میں بھی نہیں تھا وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سیدومولیٰ سیدالانبیاء سیدالاحیاء محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہمرنگوں کو بھی یعنی اُن لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں اور امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قویٰ اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی وجسمانی ہیں جو خداتعالیٰ انسان کامل کوعطا کرتاہے اور پھر انسان کامل برطبق آیت
اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا (النساء:59)
اس ساری امانت کو جنابِ الٰہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کردیتا ہے…اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سیدہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی اُمّی صادق مصدوق محمدمصطفیٰﷺ میں پائی جاتی تھی۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد5صفحہ 160تا 162)
٭…٭…٭