شانِ احمد صلی اللہ علیہ وسلم
(فارسی منظوم نعتیہ کلام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
شان احمد را کہ داند جُز خداوندِ کریم
آنچناں از خود جدا شد کزمیاں افتاد میم
احمد کی شان کو سوائے خداوند کریم کے کون جان سکتا ہے
وہ اپنی خودی سے اس طرح الگ ہو گیا کہ میم درمیان سے گر گیا
زاں نمط شد محوِدلبر کز کمال اتحاد
پیکر او شد سراسر صورتِ ربِّ رحیم
وہ اپنے معشوق میں اس طرح محو ہو گیا کہ کمال اتحاد کی وجہ سے
اس کی صورت بالکل رب رحیم کی صورت بن گئی
بوئے محبوبِ حقیقی میدہد زاں روئے پاک
ذاتِ حقّانی صفاتش مظہرِ ذاتِ قدیم
محبوب حقیقی کی خوشبو اس کے چہرہ سے آرہی ہے
اس کی حقانی ذات خدائے قدیم کی ذات کی مظہر ہے
گرچہ منسوبم کند کس سوئے الحادو ضلال
چوں دلِ احمد نمے بینم دگر عرشِ عظیم
خواہ کوئی مجھے الحاد اور گمراہی سے ہی منسوب کرے
مگر میں تو احمد کے دل جیسا اَور کوئی عظیم الشان عرش نہیں دیکھتا
منت ایزد راکہ من برر غم اہل روزگار
صد بلا را مے خرم از
ذوق آں عین النعیم
خدا کا شکرہے کہ میں دنیا داروں کے برخلاف
اُس سر چشمہ نعمت کی خواہش کی وجہ سے سینکڑوں دکھ خریدتا ہوں
از عنایاتِ خدا و از فضل آں دادار پاک
دشمن فرعونیانم بہرِ عشق آں کلیم
خدا کی مہربانیوں اور اُس ذاتِ اقدس کے فضل و کرم سے
مَیں بھی اُس کلیم کی محبت کی خاطر فرعونی لوگوں کا دشمن ہوں
آںمقام ورتبتِ خاصش کہ برمن شدعیاں
گفتمے گر دید مے طبعے دریں راہے سلیم
اس کا وہ خاص مقام اور مرتبہ جو مجھ پر ظاہر ہوا میں اس کا ضرور ذکر کرتا
اگراس راہ میں سلیم فطرت والا پاتا
در رہِ عشق محمدؐ ایں سَر و جانم رَود
ایں تمنا ایں دعا ایں در دِلم عزم صمیم
محمدؐ کے عشق میں میرا سر اور میری جان قربان ہو۔
یہی میری خواہش ، میری دعا اور میرا دلی ارادہ ہے ۔
(توضیح مرام، روحانی خزائن جلد نمبر 3 ص 63-62)