قرابت داروں کا سہارا… ہمارا پیارا نبیﷺ
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنحضرتﷺ کے بارے میں فرماتے ہیں :’’اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔‘‘
اللہ تعالیٰ اُس انسان سے پیارو محبت کرنے لگ جاتا ہےاور اُس کے گناہ معاف کردیتا ہےجو اس کے محبوب رسول محمدﷺ سےپیار و محبت کا سلوک کرتا ہے۔ان کی باتوں کو مانتا اوران سےعقیدت و احترام سے پیش آتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا
قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ (آل عمران:32)
تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ایک اور جگہ تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کا حق مومنین پر اُن کی جانوں سے بھی زیادہ عزیز رکھا ہے جیسا کہ فرمایا :
اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ۔(الاحزاب:7)
یعنی نبی مومنوں پر اُن کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتا ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سب عزیزوں اور رشتہ داروں سے زیادہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولﷺسے پیارو محبت کرنے کی تلقین کی۔اورنہ کرنے والوں کو انذار بھی کیاہے جیسا کہ فرمایا:
قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۣاقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖٖ۔(توبہ:24)
یعنی تو کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہارے اَزواج اور تمہارے قبیلے اور وہ اموال جو تم کماتے ہو اور وہ تجارت جس میں گھاٹے کا خوف رکھتے ہو اور وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ پیارے ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ لے آئے۔
اللہ تعالیٰ نے اِس قدر پیار و اُلفت اور عشق و محبت کرنے کا اظہار کیوں اپنے محبوب رسول محمدﷺ سےکیا؟اِسی لیے کہ آپﷺ خالق و مالک کی مخلوق کے ساتھ شفقت و اُلفت کا سلوک رکھتے تھےاوران الفاظ کی آپؐ خود بھی عملی تصویر تھے جو آپؐ نے کہے:’’تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عیال ہیں اور اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص سب سے زیادہ پسند ہے جو اس کی عیال (یعنی مخلوق ) کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے۔‘‘آپﷺ اِس قدر پیارو محبت اوراُنس مخلوقِ خدا سے رکھتے جس کی مثال کسی اور وجود میں نظر نہیں آتی۔ ویسے تو دُ نیا کی ساری مخلوق آپﷺ کے زیربارِاحسان وکرم کی ممنون ہے۔لیکن سب سے زیادہ مرہونِ منت و شکرگزارآپﷺ کے وہ قرابت دار اور عزیز نظر آتے ہیں جو آپﷺ کے گھر رہتے تھے یا آپؐ کے ہاں آنا جانا تھا۔کوئی بھی تو آپؐ کی شفقت ومحبت،پیار و پریت،کرم وپریم سے محروم نہ تھا۔اس بارے میں آپؐ کی تعلیمات اورہدایات کا مخزن اس قدر ہے کہ اُس کا اندازہ لگانا ایک مشکل اَمر ہے۔قرآن کریم کی بتائی ہوئی تعلیمات،آنحضرتﷺ کے اقوال و اعمال جو آپؐ کے ذریعہ ہم تک پہنچے۔ا ن میں قرابت داروں، عزیزوں،رشتہ داروں،پیاروں اوراپنوں کےحقوق کےبارے میں ایک وسیع خزانہ موجود ہے۔جہاں والدین اوروالدین کے رشتہ داروں کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ وہاں پر بیویوں اوراُن کے قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکیدو تعلیم کے ساتھ اُن کےناز و نخروں کو برداشت کرنا ایک محبوب وپیارا عمل قرار دیا گیاہے۔بہن بھائیوں کے ساتھ پیار و محبت اور احسان کا سلوک کرناضروری اور واجب فریضہ سمجھا گیاہے۔ اپنے بیٹوں، بیٹیوں اور داماد کے ساتھ پیارو محبت کرنے کا سلوک بھی آپؐ کی تعلیم اور عمل سے خوب واضح ہوتاہے۔ گھر کے ملازم ہوں یا آپﷺ کے نواسے سب آپؐ کےعشق و محبت کے رہینِ منت نظر ہوتے ہیں۔
چنانچہ قرآن کریم والدین اور قرابت داروں کے ساتھ احسان اور مروت کے ساتھ برتاؤ کرنے کے بارے ارشاد فرماتا ہے۔
وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ…۔(النساء:37)
اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی۔
اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآئِ ذِی الۡقُرۡبٰی۔(النحل: 91)
کہہ کرقرابت داروں کے ساتھ عدل واحسان کے ساتھ سلوک کرنے کا الٰہی حکم آپؐ کے ذریعہ بنی نوع انسان نے سنا۔اور وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ۔(البقرہ: 178)کا حکم قرآن کریم کے ذریعہ آپﷺ نے دُنیا کو دیا اور بتا یا کہ اپنے مال سے محبت ہونے کے باوجود اپنے اقربا، یتیموں اور مسکینوں کو نہیں بھولنا بلکہ مال کی محبت سے زیادہ ان سے محبت کرنی ہےاور مال ان پر بھی خرچ کرناہے۔
ایک اور فرمان میں آپؐ نے یہاں تک فرمایا کہ اگر ایک انسان اپنی کمائی سے اپنے گھر والوں پر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے خرچ کرتا ہے تو یہ عمل اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آتاہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو صدقہ میں شمار کر لیتا ہے۔جیسا کہ فرمایا:
إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا أَنْفَقَ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةً وَهُوَ يَحْتَسِبُهَا كَانَتْ لَهُ صَدَقَةً (صحيح مسلم،كِتَاب الزَّكَاةِ،باب فَضْلِ النَّفَقَةِ وَالصَّدَقَةِ عَلَى الأَقْرَبِينَ،حدیث نمبر2322)
یعنی مسلمان جو مال بھی اپنے گھر والوں پر ثواب کی نیت سےخرچ کرتا ہے وہ اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے۔
قرابت داری کا آپؐ نے اس قدر خیال رکھنے کی تاکید فرمائی کہ اُن پر خرچ کیا گیا مال کا اجر دوگنا قرار دیا۔ فرمایاکہ ایک ثواب تو قرابت والوں کے ساتھ حسن سلوک کا اور دوسرا صدقہ کا۔
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک لونڈی آزاد کی اوراس کا ذکر رسولﷺسے کیا تو آپؐ نےفرمایا:
’’ لَوْ أَعْطَيْتِهَا أَخْوَالَكِ كَانَ أَعْظَمَ لِأَجْرِك‘‘
(صحيح مسلم،كِتَاب الزَّكَاةِ باب فَضْلِ النَّفَقَةِ وَالصَّدَقَةِ عَلَى الأَقْرَبِينَ،حدیث نمبر2317)
اگرتم اس کو اپنے ماموں کو دے دیتی تو زیادہ ثواب ملتا۔
والدین کا آپؐ نے اس قدر مقام و مرتبہ بیان فرمایا کہ اُن کی نافرمانی کو کبیرہ گناہ قرار دیا۔ایک مقام پر فرمایا
’’الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ‘‘
(سنن ابن ماجه،بَابُ الرَّجُلِ يَأْمُرُهُ أَبُوهُ بِطَلاَقِ امْرَأَتِهِ،حدیث نمبر2089)
باپ جنت کا بہترین دروازہ ہے۔اور یوں بھی فرمایا:
’’هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ‘‘
تمہارے والدین تمہاری جنت اور دوزخ ہیں۔ یعنی ان کی خدمت ہی کے نتیجے میں تم جنت کے وارث بن سکتے یا جہنم سے دورہو سکتے ہو۔
رضاعی عزیزوں کےساتھ اُلفت و پیاربھی آپؐ کے وجود میں نظر آتا ہے۔ایک بار حضورﷺ تشریف فرما تھے کہ آپؐ کے رضاعی والد آئے۔آپؐ نے ان کے بیٹھنے کے لیے چادر کا ایک پلّو بچھا دیا۔پھرآپؐ کی رضاعی ماں آئیں تو آپؐ نے دوسرا پلّو بھی بچھا دیا۔اورجب رضاعی بھائی کو آتے دیکھا تو آپؐ اُٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے سامنے بیٹھنے کا ارشاد فرمایا۔
عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور اُن کی نازک مزاجی و نزاکت کا اندازہ آپؐ کے ان الفاظ سے خوب روشن ہوتاہے۔جب آپؐ نے ایک صحابی کوتیز اونٹ بھگاتے دیکھاجن پر عورتیں سوار تھیں، تو فرمایا:اونٹوں کو آہستہ ہانکو! دیکھتے نہیں یہ نازک شیشے ہیں،کہیں یہ ٹوٹ نہ جائیں۔آپؐ کے ارشاد کے مطابق اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کو پیارسے پانی پلاتا ہے تو وہ بھی اجر کا مستحق ہو جاتا ہے جیسا کہ فرمایا’’جب کوئی اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اسے بھی اجر و ثواب ملتا ہے۔‘‘ حضرت اسامہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ مکہ میں آئیں او رحضور ؐسے قحط اور مویشیوں کی ہلاکت کاذکر کیا۔تو حضورﷺ نے رضاعی ماں کو چالیس بکریاں اور ایک اونٹ مال سے لدا ہوا دیا۔
اپنی ازواج کے ساتھ توآپؐ کا پیار ومحبت بےمثال تھا۔ لیکن ان کی سہیلیاں بھی اِن شفقتوں سے محروم نہ تھیں۔روایات میں آتا ہےکہ آپؐ کا یہ دستور تھا کہ گھر میں جب کبھی کوئی جانور ذبح کرتے تو اس کا گوشت حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کو بھی بھجوانے کی تاکید فرماتے۔حضرت عائشہؓ کی تعریف و فضیلت اس طرح کرتے جس طرح کرنے کا حق تھا۔فرماتے۔’’ عائشہؓ کو دوسری عورتوں پر اس طرح فضلیت ہے جس طرح تمام کھانوں پر ثرید کو۔‘‘( ثرید عرب کا ایک مشہور کھانا تھا جو کہ گوشت اور میدہ وغیرہ ڈال کر تیار کیا جاتا تھا اور بہت پسندیدہ ہوتاتھا)۔
ہمارےپیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺکے محبت اور اسوہ کی ایک مثال اپنی بیوی کے ساتھ اس طرح بھی بیان کی جاتی ہے۔روایت ہے کہ ایک دن حضرت عائشہؓ گھر میں آنحضر تﷺ سے اُونچی آوازمیں بول رہی تھیں کہ اُدھر سے ان کے والدحضرت ابوبکر صدیقؓ تشریف لے آئے۔ اُن سے یہ برداشت نہ ہوسکا اور اپنی بیٹی کو مارنے کے لیے آگے بڑھے۔ آنحضرتﷺ باپ اور بیٹی کے درمیان حائل ہوگئے اور حضرت عائشہؓ کو سزا سے بچا۔جب حضرت ابوبکرؓ چلے گئے تورسول کریمﷺ نےحضرت عائشہؓ سے ازراہِ مذاق فرمایا:’’دیکھا آج میں نے تمہیں تمہارے ابّوسے کیسے بچایا‘‘ (سنن ابي داؤد،كِتَاب الْأَدَبِ، باب مَا جَاءَ فِي الْمِزَاحِ، حدیث نمبر 4999) اس طرح آپؐ نے حضرت عائشہؓ کو سزا سے بچانے کے ساتھ ساتھ مذاق کر کے اُن کی طبیعت کے بوجھل پن کو بھی دُور فرمایا۔
بچوں کے ساتھ شفقتوں کی مثا لیں تو بہت ہیں۔لکھا ہے کہ حضورؐ نہ صرف اپنے آزاد کردہ غلام زیدؓ کو بہت عزیز رکھتے تھے بلکہ ان کے بیٹے اسامہؓ سے بھی بہت پیار کرتے۔ اوراپنے بچوں کی طرح اسے رکھتے۔ حضورﷺ اپنے نواسے حسین ؓ کو ایک پہلو پر بٹھالیتے اور اسامہؓ کو دوسرے پر اور دونوں کو سینہ سے لگا کر بھینچتے اور فرماتے :’’اےاللہ! میں ان سے پیار کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کیجیو۔‘‘
(صحيح بخاری، بَابُ ذِكْرُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ،حدیث نمبر3735)
حضرت ابوقتادہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نماز پڑھتے تھے کئی دفعہ ابوامامہ بنت زینبؓ جو کہ آپؐ کی نواسی تھی کواٹھالیتے۔اور جب آپؐ سجدہ میں جاتے تو اس کو زمین پر بٹھا دیتے۔
بھا ئیوں کے ساتھ میل ملاپ اور محبت و سلوک کرنے کی بھی آپؐ تاکید فرمایا کرتے تھے۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہےکہ رسولﷺ نے فرمایا:’’ایک شخص اپنے بھائی کی ملاقات کے لیےکسی دوسرے گاؤں گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے راستہ میں ایک فرشتہ کو مامور کردیا۔ جب وہ وہاں سے گزرا تو فرشتے نے اس سے پوچھا کہاں جارہے ہو؟ اس نے جواب دیا۔ اس گاؤں میں میرا ایک بھائی رہتا ہےمیں اس سے ملنے جارہا ہوں۔ فرشتے نے دریافت کیا،کیا اس کا تجھ پرکوئی احسان ہے ؟جس کو اتارنے کے لیے اُس کی طرف رواں دواں ہو۔وہ شخص بولا نہیں !کوئی احسان اُس کا مجھ پر نہیں ! صرف اللہ تعالیٰ کے لیے میں اس سے محبت و چاہت کرتا ہوں اور ملنے جاتاہوں۔اس پر فرشتہ بولا! میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔ اورتجھے یہ بتانے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے محبت کرتا ہے جیسے تو اُس سے محبت کرتا ہے۔‘‘یہ بھی آپؐ کا ہی فرمان ہے جس میں آپؐ نے فرمایا:
’’مَنْ أَشَارَ عَلَى أَخِيْهِ بِحَدِيْدَةٍ لَعَنَتْهُ الْمَلَائِكَةُ‘‘
(سنن ترمذي،باب مَا جَاءَ فِي إِشَارَةِ الْمُسْلِمِ إِلَى أَخِيهِ بِالسِّلاَحِ،حدیث نمبر2162)
جو شخص اپنے بھائی کی طرف کسی ہتھیار سے اشارہ کرے تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔
بھائی کے جذبات کا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:’’تم میں سے کوئی اپنےبھائی کے سودے پر سودا نہ کرے، اور نہ ہی اُس کی شادی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے۔‘‘
(سنن نسائي،بَابُ النَّهْىِ أَنْ يَخْطُبَ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ،حدیث نمبر3241)
ایک اور جگہ فرمایا:
’’إِذَا دَعَا الرَّجُلُ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ، قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ، آمِينَ وَلَكَ بِمِثْلٍ۔‘‘
(سنن ابي داؤد،باب الدُّعَاءِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ،حدیث نمبر 1534)
یعنی جب کوئی شخص اپنے بھائی کے لیے اُس کی غیر موجوگی میں دعا کرتا ہے۔ تو فرشتےآمین کہتے ہیں اورالتجا کرتےہیں کہ تیرے لیے بھی ایساہی ہو۔
آپؐ نے بیمار بھائی کی عیادت کرنے کو بھی ایک مقبول عمل قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا:’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے جائے اُس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ وہ جنت کے کھجور کے باغ میں چل رہا ہے یہاں تک کہ وہ بیٹھ جائے۔ جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رحمت خداوندی اس کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اگرصبح کے وقت وہ عیادت کے لیے جاتا ہے تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔اور اگر شام کے وقت گیاہو تو ستر ہزار فرشتے صبح تک اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔‘‘حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’تیرا اپنے بھائی کے ساتھ مسکراکرپیش آنا،نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔غیرآباد زمین میں کسی آدمی کی راہ نمائی کرنا، کمزور نظر والے آدمی کورستہ دکھانا بھی صدقہ ہے۔اسی طرح راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی وغیرہ کا دُور کرنا اوراپنے ڈول کا پانی کسی بھائی کے ڈول میں ڈالنا بھی صدقہ ہے۔‘‘
بیٹی کو بھی حضور پاکﷺ نےایک خاص مقام و مرتبے سے نوازا۔اپنی بیٹی فاطمہ کے بارے میں فرمایا:
’’فَإِنَّهَا بَضْعَةٌ مِنِّي يَرِيْبُنِي مَا رَابَهَا وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا‘‘
(صحيح بخاري،كِتَاب النِّكَاحِ، بَابُ ذَبِّ الرَّجُلِ عَنِ ابْنَتِهِ،حدیث نمبر5230)
میری بیٹی میرے جسم کا ٹکڑا ہے مجھے وہ چیز بری لگتی ہے جو اسے بری لگے اور مجھے تکلیف دیتی ہے وہ چیز جو اسے تکلیف پہنچائے۔
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رات کو ہمارے گھر تشریف لائے۔اور مجھے اور فاطمہ کو تہجد کے لیے بیدار کیا۔پھر آپؐ اپنے گھر تشریف لے گئے اور کچھ دیر نوافل ادا کیے۔اس دوران ہمارے اٹھنے کی کوئی آہٹ وغیرہ محسوس نہ کی تو دوبارہ تشریف لائے اور ہمیں جگایا اور فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں مَیں آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور کہا خدا کی قسم! جو نماز ہمارے لیے مقدر ہے ہم وہی پڑھ سکتے ہیں۔ ہماری جانیں اللہ کے قبضے میں ہیں وہ جب چاہے ہمیں اٹھا دے۔ رسول کریمﷺ واپس لوٹے۔ آپؐ نے تعجب سے اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے میرا ہی فقرہ دہرایا کہ ہم کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے سوائے اس کے جو ہمارے لیے مقدر ہے پھرآپؐ نے یہ آیت تلاوت کی
وَ کَانَ الْاِنْسَانُ اَکۡثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا (الکہف:55)
کہ انسان اکثر باتوں میں بحث کرنے والا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓبیان کرتےہیں کہ رسولﷺ نے فرمایا:جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی رہائش کا مناسب بندوبست کرتاہے، رحمدلی سے پیش آتاہے اور ان کی تربیت کاخیال رکھے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔آپؐ سے پوچھاگیا اے الله کے رسولﷺ! اگر دو بیٹیاں ہوں تو؟ آپؐ نے فرمایا :ہاں اگرچہ دو ہوں تب بھی۔ پھر آپؐ سے ایک بیٹی کے بارے میں دریافت کیا گیا توآپؐ نے فرمایا:ہاں اگرچہ ایک ہی ہو۔
بیٹی کی شادی کرنے سے قبل اُس سے دریافت کرنا آپﷺ نے لازمی قرار دیا جیسا کہ فرمایا:’’إذا أراد الرجل أن يزوج ابنته فليستأذنها‘‘یعنی جب کوئی آدمی اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہے توپہلےاس سے اجازت لے۔
نبی پاکﷺ اپنے خسر حضرت ابو بکرؓ کی ہمیشہ عزت کرتےاور فرمایا کرتے تھے:’’کوئی بھی نہیں جو مجھ پر ابوبکر کی نسبت زیادہ احسان کرنے والا ہو۔انہوں نے اپنی جان و مال کو مجھ پر نچھاورکیااور اپنی بیٹی عائشہؓ کی مجھ سے شادی بھی کی۔‘‘
آپؐ نے چچاکو بھی ایک خاص مقام و مرتبہ دیا۔ایک دفعہ کا ذکر ہےکہ حضرت عباسؓ جو کہ رسول اللہﷺ کےچچاتھےآپؐ کے پاس تشریف لائے۔آپؐ کھڑے تھے، اُن کی پیشانی پر بوسہ دیا اور انہیں اپنی دائیں جانب بٹھایااور فرمایا: ’’یہ میرےچچا ہیں، جو چاہتا ہے وہ اپنے چچا پر فخر کرے‘‘ اس پر حضرت عباس ؓنے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! اتنی تعریف نہ کریں۔ آپﷺ نے فرمایا: میں ایسے کیوں نہ کہوں؟ اور فرمایا:
أَنْتَ عَمِّيْ وَبَقِيَّةُ آبَائِيْ وَالْعَمُّ وَالِدٌ‘‘
آپؓ میرے چچا ہیں، میرے آبا و اجداد کی نشانی ہیں اور چچا تو باپ ہی ہوتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
الْعَبَّاسُ عَمُّ رَسُولِ اللّٰهِ، وَإِنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ۔
(سنن ترمذي،باب مَنَاقِبِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ،حدیث نمبر3761)
حضرت عباس ؓاللہ کے رسولﷺ کے چچا ہیں اور یقیناً آدمی کا چچا اس کے باپ کی مانند ہوتا ہے۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ میرے رضاعی چچا میرے پاس تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔میں نے اُن کو اندر آنے کی اجازت نہ دی۔جب نبی کریمﷺ تشریف لائے،تو میں نے عرض کی کہ میرے رضاعی چچا جان میرے پاس آئے تھے اوراندرآنےکی اجازت طلب کرتے تھے۔ لیکن میں نے انکار کر دیا۔ آپؐ نے فرمایا:’’تیرا چچا تیرے پاس آ سکتا ہے۔‘‘میں نے کہا: مجھےتو عورت نے دودھ پلایا ہے،مرد نے نہیں! آپﷺنےیہ سن کرفرمایا:’[وہ تمہارا چچا ہےاور تمہارے پاس آ سکتا ہے۔‘‘
سعد بن ابی وقاص قبیلہ بنی زہرہ کے ایک فرد تھے اور نبی اکرمﷺ کی والدہ محترمہ کا تعلق بھی اسی قبیلہ سے تھا اس لیے آنحضرتﷺ ان سے پیار اور عقیدت رکھتے تھے۔ آپؐ نے ان کے بارے میں فرمایا: هَذَا خَالِي فَلْيُرِنِي امْرُؤٌ خَالَهُ۔یہ میرے ماموں ہیں، کوئی ہےجومجھے اس جیسا اپنا ماموں دکھائے۔
حضرت ابوامامہ بن سہل بن حنیف ؓسے مروی ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کو تیر مارا جس سے وہ مر گیا۔اس شخص کا اس کےماموں کے علاوہ کوئی اور وارث نہیں تھا۔ابوعبیدہ بن جراح ؓ نے یہ واقعہ حضرت عمر ؓ کی خدمت میں لکھا۔ حضرت عمرؓ نے اس کے جواب میں انہیں لکھا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایاہے۔
’’اللّٰهُ وَرَسُولُهُ مَوْلَى مَنْ لَا مَوْلَى لَهُ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ۔‘‘
یعنی جس کا کوئی مولیٰ نہیں اس کا مولیٰ اللہ اور اس کے رسولﷺ ہیں، اور جولا وارث ہے اس کا وارث اس کا ماموں ہے۔
آپؐ نے پھوپھی، بھتیجی،خالہ اوربھانجی کے جذبات اور مقدس رشتہ کی بھی قدر کی، جب آپؐ نےدُنیا کے سامنے یہ اعلان کیاکہ ’’ہر شخص کے لیے منع ہےکہ وہ بھتیجی اور پھوپھی، خالہ اور بھانجی کو ایک ساتھ جمع کرے(یعنی ایک ساتھ نکاح میں رکھے)‘‘ ایک اورجگہ یوں آتاہے:
’’نَهَى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، وَالْعَمَّةُ عَلَى بِنْتِ أَخِيهَا‘‘
یعنی رسول کریمﷺ نے منع فرمایا ہے کہ کسی عورت سے اس کی پھوپھی کی موجودگی میں، اور پھوپھی سے اس کی بھتیجی کی موجودگی میں نکاح کیا جائے۔اسی طرح خالہ کو بھی آپؐ نےماں کا ہی درجہ دیا اور ارشادفرمایا ’’فَإنَّ الْخَالَةَ اُمٌّ‘‘خالہ تو ماں ہی ہوتی ہے۔
ہمارے پیارے آقا آنحضرتﷺ اس قدر پیار کا سلوک اقرباکے ساتھ کیاکرتے تھے کہ بعض اوقات آپؐ کے پیاروں کو بھی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا تھا کہ کون سا وجود آپؐ کو زیادہ پیارااور محبوب ہے۔ جیسا کہ حضرت محمد بن اسامہؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جعفر، حضرت علی اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم ایک جگہ جمع تھے۔ حضرت جعفر ؓنے کہا: میں نبی کریمﷺ کو تم سے زیادہ محبوب ہوں۔ حضرت زید ؓنے کہا: نہیں! میں نبی پاکﷺ کو تم دونوں سے زیادہ پیارا ہوں۔انہوں نے کہا: چلو! رسول اللہﷺ کے پاس جا کر دریافت کرتے ہیں۔ حضرت ا سامہ بن زیدؓ کہتے ہیں۔ وہ دونوں آپؐ کے پاس آئےاوراجازت طلب کی۔ آپؐ نے مجھے فرمایا: دیکھو کون آیاہے؟میں نے عرض کی! جعفر، علی اور زید ہیں۔آپﷺنےاُن کو اندر آنے کی اجازت عنایت فرمائی۔وہ اندر آئے اورانہوں نےآپؐ سے پوچھا اے اللہ کےرسولؐ !آپؐ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: فاطمہ! انہوں نےپھر سوال کیا؟ ہم مردوں کے بارے میں آپؐ سے سوال کر تےہیں۔ آپ ؐنے فرمایا: جعفرتم! کیونکہ تمہارےاخلاق میرے اخلاق کےساتھ اور تمہاری جسمانی ساخت میری جسمانی ساخت سے ملتی جلتی ہے اورتم مجھ سے اور میرے نسب میں سے ہو۔ علیؓ کوفرمایا! تم میرے داماد ہواور میرے بچّوں(حسنؓ و حسینؓ) کے باپ ہو۔ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ اورزیدؓ کو کہا: تم میرے دوست ہو، تم مجھ سے ہو، میں تمہاراذمہ دار ہوں اور تم لوگوں میں مجھے سب سےزیادہ محبوب ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنحضرتﷺ کے بارے میں فرماتے ہیں :’’اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔‘‘
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 119)
اپنی ایک کتاب اتمام الحجۃ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نبی پاکﷺکی مدح میں یوں مداح سَراہیں:’’ وہ انسان جس نے اپنی ذات سے، اپنی صفات سے، اپنے افعال سے، اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پُرزور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً و عملاً و صدقاً و ثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا…وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخرالنبیین جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تُونے کسی پر نہ بھیجا ہو…
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ ‘‘
(اتمام الحجۃ،روحانی خزائن جلد8 صفحہ308)
٭…٭…٭