’’آنحضرتﷺ اور امنِ عالَم‘‘
’’پیشگوئی مصلح موعود‘‘ جہاں اسلام احمدیت کی صداقت کی عظیم الشان دلیل ہے وہاں اس امر پر بھی شاہد ہے کہ یہ موعود وجود اپنی نسلوں کی راہ نمائی کے لیے بھی ایسے دُوررس نکات اور ناقابلِ تردید حقائق بیان کرے گا کہ اس کی تحریریں اور تقریریں آنے والے زمانوں میں بھی ہدایت کی تلاش میں سرگرداں لوگوں کے لیے علم و حکمت کے دیے روشن کرتی چلی جائیں گی۔ پس ہم دیکھتے ہیں کہ آج ’’انوارالعلوم‘‘ کے نام سے مرتب ہوکر شائع ہونے والی ہر کتاب سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی ذات گرامی کے تعلق باللہ، محبت رسولﷺ اور انسانیت سے بےلوث محبت کی آئینہ دار ہے۔’’انوارالعلوم‘‘ میں شامل ہر جلد کے اوراق یہ یقین دلاتے ہیں کہ آپؓ کی ہر بصیرت افروز تقریر اور پُرمعارف تحریر آپؓ کی غیرمعمولی ذہانت و فطانت، بلند پایہ علمی و روحانی مقام اور اولوالعزم قائدانہ صلاحیت پر مہرِتصدیق ہے۔
انوارالعلوم کی پندرھویں جلد سیّدنا حضرت مصلح موعود خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چوبیس تحریرات وتقاریر پر مشتمل ہے جو آپؓ نے دسمبر 1937ء سے جولائی 1940ء تک ارشاد فرمائیں۔ اس جلد کا آٹھواں مضمون سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی ایک پُرمعارف تقریر ہے جو صرف 16؍صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ مختصر لیکن نہایت بصیرت افروز خطاب حضورؓ نے 11؍دسمبر 1938ء کو قادیان میں منعقد ہونے والے جلسہ سیرۃالنبیﷺ کے مبارک موقع پر ارشاد فرمایا تھا اور اس کا موضوع تھا: ’’آنحضرتﷺ اور امن عالَم‘‘۔یہی خطاب آج ہمارے زیرنظر ہے۔
حضورؓ نے اپنے خطاب میں قرآن کریم کی رُو سے نیز عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت کیا کہ امنِ عالَم کے قیام کی خاطر جو کردار آنحضرتﷺ نے ادا کیا اِس کی مذہبی و دنیوی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس لیے توحیدِ باری تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد اس ضابطۂ حیات پر عمل کرنا ضروری ہے جو آنحضرتﷺ کی وساطت سے قرآن کریم کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اس تقریر کا خلاصہ اور لبّ لباب یہ بنتا ہے کہ اوّل: توحید باری تعالیٰ پر کامل ایمان، جس کے عملی اظہار کے لیے بیت اللہ کے ساتھ وابستگی جسے امنِ عالَم کے لیے درسگاہ قرار دیا گیا ہے۔ دوم: امنِ عالَم کے لیے کورس کی حیثیت رکھنے والی قرآنی تعلیمات پر عمل درآمد۔ سوم: امنِ عالَم کے سب سے بڑے داعی اور مدرّس یعنی آنحضرتﷺ کے اُسوۂ حسنہ کی تقلید امنِ عالم کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ نیز اس تقریر میں حضور نے امنِ عالم کے تعلق میں دو سوالات کے مختلف پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ یعنی حقیقی امن سے کیا مراد ہے؟ اور حقیقی امن کے حصول کے ذرائع کیا ہیں؟
حضورؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کا وجود دنیا کی نظروں کو آپ ہی آپ اپنی طرف کھینچتا رہتا ہے۔ دنیا خواہ مخالفت کرے خواہ موافقت، بہرحال وہ آپؐ کی طرف توجہ کرنے پر مجبور رہی ہے۔مخالف تو مخالفانہ جذبات سے ہی پُر ہیں لیکن محبت کرنے والوں کے کانوں میں جب بھی رسول کریمﷺ کا نام پڑتا ہے تو اُن کے دلوں میں عجیب قسم کا ہیجان پیدا ہوجاتا ہے گویا کوئی تلاطم پیدا ہوگیا ہےجس کا اندازہ وہی لگاسکتے ہیں جنہوں نے عقل کی آنکھوں سے محمدﷺ کو دیکھا اور عرفان کی آنکھ سے آپؐ کو پہچانا۔
حضورؓ فرماتے ہیں کہ محبت ایک ایسا فطرتی مادہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی قلب میں اس لیے پیدا کیا ہے تا وہ بندے کو اپنے ربّ کی طرف توجہ دلائے۔رسول کریمﷺ نے ایک بار جنگ میں دیکھا کہ ایک عورت بہت ہی اضطراب کے ساتھ اِدھر اُدھر پھر رہی ہے، جہاں کوئی بچہ دیکھتی اُسے اٹھاتی، سینے سے لگاتی اور پھر دیوانہ وار تلاش میں مصروف ہوجاتی۔ یہاں تک کہ اُسے ایک بچہ نظر آیا جسے وہ سینے سے چمٹائے میدان جنگ میں ہی اطمینان سے بیٹھ گئی۔ رسول کریمﷺ یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ جس طرح اس عورت کو اپنے بچے کے ملنے سے خوشی ہوئی ہے ایسی ہی خوشی اللہ تعالیٰ کو اُس وقت ہوتی ہے جب اُس کا کوئی گنہگار بندہ توبہ کرکے اُس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اس مثال سے ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ جب تک حقیقی محبوب نہیں ملتا انسان عارضی طور پر دوسرے محبوبوں سے دل کو تسکین دینے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب اُسے حقیقی محبوب (خدا) مل جاتا ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ جس چیز کا نام لوگوں نے عشقِ مجاز رکھا ہوا ہے وہ بالکل بےحقیقت ہے۔
حضرت عمرؓ نے ایک بار مختلف شعراء سے اُن کے تازہ کلام بھجوانے کی فرمائش کی تو مشہور شاعر لبیدؔ نے قرآن کریم کی چند آیات بھجوادیں۔ آپؓ سمجھ گئے کہ لبیدؔ نے ہم کو سبق دیا ہے کہ اب جو کچھ ہے قرآن ہی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جو کلام رسول کریمﷺ لائے ہیں اُس کے آنے کے بعد دنیا کی تمام تر توجہ کا مرکز تعلیمی لحاظ سے وہی کلام ہوگیا اور نمونے کے لحاظ سے آپؐ کی ذات ہوگئی۔
حضورؓ فرماتے ہیں کہ دنیا ہمیشہ سے امن کے لیے کوشش کرتی چلی آئی ہے۔ جب بیرونی امن میسر آجائے تو اندرونی امن یعنی دل کا امن نصیب ہونے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں جو حقیقی امن ہے اور جب تک یہ نصیب نہ ہو تو ظاہری امن کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ مثلاً اگر کسی عورت کو ایک محل میں ہر نعمت میسر ہو لیکن اُس کا بچہ کھو جائے تو کوئی چیز اُس عورت کے دل کو چَین نہیں دے سکتی۔
اسی طرح اس دنیا میں جہاں انسانوں میں ہزاروں اختلاف پائے جاتے ہیں، ایک دوسرے کے مفاد، جذبات، خواہشات اور ضرورتیں مختلف بلکہ متضاد بھی ہوسکتی ہیں۔ یہاں امن تبھی قائم ہوسکتا ہے جب ساری دنیا ایک ایسی ہستی کے تابع ہو جو امن دینے کا ارادہ رکھتی ہو۔مثلاً گھر میں اگر ماں باپ موجود ہوں تو بچے ایسی شکلیں بناکر بیٹھ جاتے ہیں گویا لڑائی جھگڑے کو جانتے ہی نہیں لیکن اگر ماں باپ ذرا اِدھراُدھر ہوجائیں تو امن ختم ہوجاتا ہے۔ یہ اس لیے کہ ماں باپ کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اُن کے بچے امن سے رہیں۔ پس درحقیقت امن اُس وقت حاصل ہوسکتا ہے جب دنیا پر ایک ایسی بالا ہستی ہو جو امن کی متمنی ہو، دوسروں کو امن دینا چاہتی ہو اور امن قائم کرنے والے قوانین نافذ کرنا چاہتی ہو۔ اور وہی شخص حقیقی امن دینے والا قرار پاسکتا ہے جو اُس ہستی کی طرف لوگوں کو بلائے۔یہ امن دینے والی ہستی کی طرف توجہ دلانے والی محمدﷺ کی ذات ہے۔آپؐ کے ذریعے ہی دنیا کو یہ معلوم ہوا کہ خداتعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام امن دینے والا بھی ہے یعنی السّلام۔ تمام سلامتیوں کا سرچشمہ۔ پس جب تک کوئی سلامتی اختیار نہ کرے وہ خدا کا محبوب نہیں بن سکتا۔
خالی امن کی خواہش امن نہیں پیدا کردیا کرتی کیونکہ بالعموم امن کی خواہش اپنے لیے ہوتی ہے۔ چنانچہ جب لوگ کہتے ہیں کہ دولت بڑی اچھی چیز ہے، صحت بڑی اچھی چیز ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرے لیے اچھی چیز ہے۔ ورنہ دشمن کے لیے تو انسان یہی چاہتا ہے کہ وہ نادار اور کمزور ہو۔ پس دنیا میں امن کی خواہش بھی فساد کا موجب ہوسکتی ہے کیونکہ امن کے متمنی اگر چاہیں کہ صرف اُنہیں امن حاصل رہے نہ کہ اُن کے دشمن کو۔تب وہ ساری دنیا کا امن قائم نہیں کریں گے اور وہ حقیقی امن نہیں کہلاسکتا۔حقیقی امن تب ہی ہوگا جب انسان کو معلوم ہو کہ ایک بالاہستی ساری دنیا، ساری قوموں اور سارے ملکوں کے لیے امن چاہتی ہے۔ تب ہی ہماری خواہشات خودغرضی پر مبنی ہونے کی بجائے عام نفع پہنچانے والی ہوں گی۔ اگر یہ معلوم ہو کہ بالاہستی فساد کرنے والے اور حق تلفی کرنے والے کو برداشت نہیں کرے گی تب ہی حقیقی امن قائم ہوگا۔
حضورؓ فرماتے ہیں کہ یہ عقیدہ صرف اسلام نے ہی پیش کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ امن دینے والا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے امن کے قیام کے لیے ہدایات بھی دی ہیں یعنی طریقہ کار بھی بیان فرمایا ہے کہ
وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۔ (البقرۃ:2)
یعنی السّلام خدا کی دنیا میں امن قائم کرنے کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ایک مرکز قائم ہوتا جو دنیا کو امن دینے والا ہوتا۔ سو ہم نے بیت اللہ کو مدرسہ بنایا ہے جہاں چاروں طرف سے لوگ جمع ہوں گے اور امن کا سبق لیں گے۔ پھر اس مدرسہ کی تعلیم اور مدرّس کے بارے میں بتایا کہ
جَآءَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ۔ (المائدۃ:16-17)
یعنی اے لوگو! خدا کی طرف سے تمہاری طرف ایک نُور آیا ہے جو محمدﷺ کی ذات ہے اور اس کے ساتھ ایک کتابِ مبین ہے، ایسی کتاب جو ہر قسم کے مسائل کو بیان کرنے والی ہے۔
اسلام جو امن قائم کرنا چاہتا ہے، یہ کس کے لیے ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی۔ (النمل:60)
یعنی اے محمدﷺ! تُو کہہ سب تعریف اُس اللہ کے لیے ہے جس نے دنیا میں اُن بندوں کے لیے امن قائم کردیا جو خداتعالیٰ کے پسندیدہ ہوجائیں۔یعنی وہ تمام لوگ جو آپؐ کی اتّباع کرنے والے ہیں اُن کے لیے کامل امن ہے۔ لیکن جو لوگ اس کو نہیں سمجھتے وہ اس تعلیم کے خلاف فساد کرتے ہیں۔
وَقِیْلِہٖ یٰرَبِّ اِنَّ ھٰٓؤُلَآئِ قَوْمٌ لَّایُؤْمِنُوْنَ فَاصْفَحْ عَنْھُمْ وَقُلْ سَلٰمٌ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ (الزخرف:90-89)۔
یہاں تک کہ محمدﷺ کو بھی یہ کہنا پڑا کہ خدایا! یہ قوم جس کے لیے مَیں امن کا پیغام لے کر آیا تھا مگر یہ بھی مجھے امن نہیں دے رہی۔ مگر ہم نے اپنے نبی سے یہ کہا ہے کہ ابھی ان لوگوں کو تیری تعلیم کی عظمت معلوم نہیں اس لیے وہ غصے میں آکر مخالفت پر کمربستہ رہتے ہیں، تُو ان سے درگزر کر کیونکہ ہم نے تجھے امن کے قیام کے لیے ہی بھیجا ہے۔ اور جب تجھ پر یہ حملہ کریں تو تُو یہی کہتا رہ کہ مَیں تو تمہارے لیے سلامتی لایا ہوں۔ اور پھر صرف محمد رسول اللہﷺ کو ہی نہیں بلکہ عام مومنوں سے بھی کہا گیا کہ
اِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ (الفرقان:64)
وہ جاہل جو اسلام کی غرض و غایت کو نہیں سمجھتے جب مسلمانوں سے لڑنا شروع کردیتے ہیں تو مومن کہتے ہیں کہ ہم تو تمہاری سلامتی چاہتے ہیں۔ چاہے تم ہمارا بُرا ہی کیوں نہ چاہو۔
حضورؓ فرماتے ہیں کہ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمدﷺ جو امن دے رہے ہیں یہ عارضی ہے یا مستقل؟ اس کا جواب ہے
وَاللّٰہُ یَدْعُٓوْ اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ۔ (یونس:26)
کہ یہ امن اس دنیا کے بعد ایک ایسے گھر میں انسان کو پناہ دیتا ہے جہاں سلامتی ہی سلامتی ہے۔ پس کوئی پہلو تشنۂ تکمیل نہیں رہا۔
اور اس کے بعد امنِ حقیقی کے قیام کے ذرائع کا سوال آتا ہے۔ تو قرآن کریم محمدﷺ کی زبان سے فرماتا ہے:
وَکَیْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَکْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ بِاللّٰہِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ (الانعام:82)
کہ میرے دل کا امن ان بتوں کو دیکھ کر کس طرح برباد ہوسکتا ہے جن کو تم خدائے واحد کا شریک قرار دے رہے ہو حالانکہ تم اپنے دلوں میں جھوٹے طور پر مطمئن ہو۔ پس اگر تمہارا عدم علم تم کو امن دے سکتا ہے تو کس طرح میرا کامل علم مجھے امن نہیں بخش سکتا۔ اگر تم عقل و خرد سے کام لو تو سمجھ سکتے ہو کہ کون مامون ہے اور کون غیرمامون۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ امن کے قیام کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو عظیم الشان گُر بیان فرمائے ہیں۔ اوّل توحیدِ کامل کا قیام جس کے بغیر حقیقی مؤاخات حاصل نہیں ہوسکتی۔ جب مَیں نماز میں کہوں اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ سب تعریف اُس اللہ کی ہے جو عیسائیوں کا بھی ربّ ہے، ہندوؤں کا بھی ربّ ہے اور یہودیوں کا بھی ربّ ہے۔ تو میرے دل میں ان قوموں کی نفرت کس طرح پیدا ہوسکتی ہے۔ دوسرا گُر یہ بتایا گیا کہ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا یعنی دنیا میں امن تبھی برباد ہوتا ہے جب انسان فطرتی مذہب کو چھوڑ کر رسم و رواج کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ اسی لیے رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ اسلام دینِ فطرت ہے۔
یہ سوال کہ امن اور فطرت کے مطابق اسلامی تعلیم عطا ہونے کے بعد کیا لڑائی بالکل ہی بُری چیز ہے؟ قرآن کریم فرماتا ہے کہ
وَلَولَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ (البقرۃ:252)۔
اگر بعض کے ذریعے اللہ تعالیٰ بعض کی شرارتوں کو دُور نہ کرتا تو فساد بڑھ جاتا۔ گویا امن کے قیام کے لیے بعض دفعہ جنگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کبھی انسان کا دماغ فطرت سے اتنا بعید ہوجاتا ہے اور انسانی عقیدے مرکز سے اتنے پرے ہٹ جاتے ہیں کہ وہ حُریّتِ ضمیر کو بھی باطل کرنا چاہتے ہیں۔ پس اُن سے جنگ امن قائم کرنے کے لیے ہوگی۔ جیسے جسم کا کوئی عضو سڑ جائے تو انسان فیس خرچ کرکے بھی اُس کو ڈاکٹر سے کٹوادیتا ہے۔اسی طرح ایسے گروہ کا آپریشن ضروری ہوجاتا ہے جو سرطان کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں تاکہ وہ باقی قوم کو ناپاک نہ کردیں۔ پس آگے فرمایا وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ (ایضاً) یعنی اللہ صرف قوم کو ہی امن نہیں دینا چاہتا بلکہ وہ ساری دنیاکو باامن دیکھنا چاہتا ہے۔اس لیے امن برباد کرنے والوں سے تب تک جنگ کی جاتی ہے جب تک وہ خلافِ امن حرکات سے باز نہ آجائیں۔
پس امن کے قیام کے حوالے سے بھی رسول کریمﷺ کا وجود دنیا کا سب سے بڑا محسن ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے ماتحت آپؐ پر درود بھیجیں کہ
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔(الاحزاب:57)۔ اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔