متفرق مضامین

عدل وانصاف کے علم بردار رسول اللہﷺ کی عالمی عدل وانصاف کےقیام کےلیے اصولی تعلیم اوراس کے اعلیٰ نمونے (قسط دوم۔ آخری)

(’ایچ ایم طارق‘)

آنحضرتؐ نےبحیثیت انسان غیرمسلموں کے حقوق بھی انصاف سے قائم کرکے دکھلائے۔ ان کےمُردوں تک کا احترام کیا۔ حالانکہ وہ مسلمانوں کی نعشوں کی بے حرمتی کرتے رہےمگر آپؐ نے انتقام لینا کبھی پسندنہ کیااور عدل سے بڑھ کر احسان کا سلوک کیا

مذہبی امن کی خاطر اپنے حق کی قربانی

اپنی ذات کے ساتھ انصاف کرکے دکھاناکسی منصف کا سب سےبڑاامتحا ن ہوتاہے۔ ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفیٰﷺ اس کڑے امتحان میں بھی بڑے شان سے سرخرو ہوکر نکلے۔ جہاں بھی آپ کی ذات کامعاملہ آیا، وہاں آپ نے امن کی خاطر اپنا حق چھوڑ کر دوسروں سے احسان کا معاملہ کیا۔ مدینہ میں بھی ایک ایسا واقعہ پیش آیا۔

ایک یہودی بازار میں سودا بیچ رہا تھا۔ اُسے ایک مسلمان نے کسی چیز کی قیمت بتائی، جواُسے ناگوار گزری تواُس نے کہا کہ اُس ذات کی قسم جس نے موسیٰؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے۔ اس بات پر مسلمان نے اُس کوتھپڑ رسید کردیااور کہا کہ تم نبی کریمؐ پر بھی موسیٰ کو فضیلت دیتے ہو۔ یہودی نے رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کیا کہ اے ابوالقاسمؐ ہم آپؐ کی ذمہ داری اور امان میں ہیں اور آپؐ کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے اور اس مسلمان نے مجھے تھپڑ مار کر زیادتی کی ہے۔ نبی کریمؐ اس پر ناراض ہوئے اور فرمایا:مجھے نبیوں کے درمیان فضیلت نہ دیا کرو۔

(بخاری کتاب الانبیاء باب وان یونس لمن المرسلین)

اس میں کیا شک ہے کہ نبی کریمؐ کو تمام انبیاء پر فضیلت حاصل ہے لیکن آپؐ نے ایثار اور انکسار کو کام میں لاتے ہوئے احسان کے ساتھ یہی فیصلہ فرمایاکہ میری فضیلت کی بحث سے ماحول میں فتنہ و فساد پیداکرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

عدل بین المذاہب

یہی وہ عدل بین المذاہب ہے جس کے ذریعہ بانیٔ اسلامﷺ نے ہر مذہب کی مقدس ہستی کا احترام سکھایا، اس طرح مذہبی تفریق کی بجائے مذاہب کے درمیان انصاف اور عدل قائم کرکے دکھایا۔ آپؐ کے زمانے میں یہودمدینہ کی اسلام دشمنی اور بد عہدیوں کی وجہ سے’’یہودی ‘‘کا لفظ جب ایک طعنہ بن گیا۔ اس دور کا ایک دلچسپ واقعہ حضرت صفیہؓ نےبیان کیاہے، وہ یہودی سردار حیی بن اخطب کی صاحبزادی تھیں اور فتح خیبر کے بعد رسول اللہﷺ کے عقد میں آئیں۔ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ ازواج مطہرات میں سے کسی نے مجھے یہ طعنہ دے دیا کہ تم تویہودیوں کی اولاد ہو۔ حضورﷺ گھر تشریف لائے تومجھے روتے دیکھ کر فرمایا :کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ یارسول اللہﷺ ! خاندان قریش سےآپ کی بیوی مجھے کہتی ہیں کہ تم یہودیوں کی بیٹی ہو۔ حضورؐ نےفرمایا:’’اے حییّ کی بیٹی !اس میں رونے کی کونسی با ت ہے؟ تمہیں ان کو یہ جواب دیناچاہیے تھاکہ تم مجھ سےبہتر کس طرح ہوسکتی ہو؟ حضرت ہارونؑ میرے باپ، حضرت موسیٰؑ میرے چچا اور محمدﷺ میرے شوہر ہیں۔ ‘‘(سنن ترمذی ابواب المناقب باب فی فضل ازواج النبیؐ )

یعنی میرا توتین نبیوں سے تعلق بنتاہے اورتم صرف ایک نبی محمدﷺ کا تعلق مجھےجتلا رہی ہو۔

مدینہ کی اسلامی ریاست میں مسلمانوں کے مابین بھی عدل و انصاف کی شاندار مثالیں رقم ہوئیں۔ بطور نمونہ ایک مثال پیش ہے۔

حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ان کی پھوپھی ربیع بنت نضرؓ نے ایک لونڈی کا دانت توڑدیا۔ لونڈی کے مالکوں نے اس کامعاوضہ مانگا۔ (جودس اونٹ تھا) ربیعؓ کے خاندان نے معافی طلب کی مگر لونڈی کے ورثاء نہ مانے۔ ربیعؓ کے بھائی انسؓ نے رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہؐ کیا ہماری بہن ربیعؓ کے دانت توڑے جائیں گے۔ نہیں ! اس خدا کی قسم! جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے دانت ہرگز نہیں توڑے جائیں گے۔ نبی کریمؐ نے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ اے انسؓ ! اللہ کا فیصلہ قصاص یعنی برابر کا بدلہ ہے۔ اس طرح آپؐ نے اس مخلص انصاری خاندان سے اپنے گہرے تعلق کے باوجود عدل کا دامن نہیں چھوڑا اگرچہ بعد میں یہ معاملہ باہم فریقین کی صلح کے نتیجے میں انجام پایا۔

(بخاری کتاب الصلح باب8)

نصاریٰ کےساتھ انصاف پر مبنی معاہدے

سرزمین عرب میں یہودکےعلاوہ رسول کریمؐ کے تعلقات بطور سربراہ نصاریٰ سے بھی قائم ہوئے۔ نجران کے عیسائی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور اہل نجران سے جو معاہدہ ہوا اس میں کمال عدل وانصاف سے انہیں مکمل حقوق اور مذہبی آزادی عطا کی گئی۔

معاہدے کے مطابق اہل نجران دو ہزار چادریں سالانہ مسلمانوں کو بطور جزیہ دیں گے نیز یمن میں خطرے کی صورت میں تیس گھوڑے، تیس اونٹ، تیس ہتھیار ہر قسم کے یعنی تلوار، تیر، نیزے عارضی استعمال کےلیےمسلمانوں کو دیں گے۔ مسلمان ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کریں گے۔ ان کے تمام مالکانہ حقوق مسلّم ہوں گے۔ ان کا کوئی گرجا گرایا نہیں جائے گا، نہ ہی کسی اسقف یا کسی پادری کو بے دخل کیا جائے گااور نہ ان کے حقوق میں کوئی تبدیلی یا کمی بیشی ہوگی، نہ ہی اُن کی حکومت اور ملکیت میں، نہ انہیں ان کے دین سے ہٹایا جائے گا جب تک وہ معاہدہ کے پابند رہیں گے۔ ان شرائط کی پابندی کی جائے گی اور ان پر کوئی ظلم یا زیادتی نہیں ہوگی۔

(ابوداؤد کتاب الخراج باب اخذ الجزیہ والطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1صفحہ266)

عیسائی مورخ یہ معاہدہ انصاف و رواداری نقل کرتے ہوئے ششدر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ چنانچہ روتھ کرینسٹن اپنی کتاب World Faith میں ان معاہدات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں :’’کیا دنیا میں کسی فاتح قوم یا مذہب نے اپنی مفتوح قوموں کو اس سے بڑھ کر تحفظات کی ضمانت دی ہے جو ہادیٔ اسلامﷺ کے ان الفاظ میں موجود ہے؟ …دنیا کے کسی مذہب میں اس سے زیادہ روادارانہ اورحقیقی طور پر برادرانہ تعلیم تلاش کرنا مشکل ہے۔ …اٹلانٹک چارٹر میں تو مذہبی آزادی اور دہشت وہراس سے نجات کو انسانی حقوق میں آج شامل کیا گیا ہے لیکن اٹلانٹک چارٹر سے بھی تیرہ سو سال پیشترمحمدؐ نے یہودی اور عیسائی قبیلوں سے ان پر فتح حاصل کرنے کے بعد جو معاہدات کیے ان میں مذہبی عبادات کی آزادی اور مقامی لحاظ سے ان کی خود مختاری تسلیم کی گئی تھی۔ ‘‘

(World Faith by Ruth Cranston p.157 U.S.A)

مشرکین مکہ کے ساتھ عدل سے بڑھ کراحسان کا سلوک

عرب کی تیسری قوم جس سے رسول کریمؐ کا واسطہ بطور حاکم وقت ہوا وہ مشرکین مکہ تھے۔ انہوں نے ہمیشہ آپ کے ساتھ ظلم وتعدی کا سلوک روا رکھا۔ مگر آپؐ نےہمیشہ ان سے عفو و احسان کا ہی سلوک کیا۔ بحیثیت انسان غیرمسلموں کے حقوق بھی انصاف سے قائم کرکے دکھلائے۔ ان کےمُردوں تک کا احترام کیا۔ حالانکہ وہ مسلمانوں کی نعشوں کی بے حرمتی کرتے رہے مگر آپؐ نے انتقام لینا کبھی پسندنہ کیااور عدل سے بڑھ کر احسان کا سلوک کیا۔

غزوہ ٔاحزاب میں مشرکین کا ایک سردار نوفل بن عبداللہ مخزومی میدان میں آیا اور نعرہ لگایا کہ کوئی ہے جو مقابلے میں آئے؟ حضرت زبیر بن العوامؓ مقابلے میں نکلے اور اسے زیر کرلیا۔ دریں اثناحضرت علیؓ نے بھی نیزہ مارا اور وہ دشمن رسولؐ خندق میں گرکر ہلاک ہوگیا۔ مشرکین مکہ اُحد میں رسول اللہؐ کے چچاحمزہؓ کے ناک کان کاٹ کر ان کی نعش کا مُثلہ کرچکے تھے۔ وہ طبعاً خائف تھے کہ ان کے سردار سے بھی ایسا بدلہ نہ لیاجائے۔ انہوں نے رسول اللہؐ کو پیغام بھجوایاکہ دس ہزاردرہم لے لیں اور نوفل کی نعش واپس کردیں، رسول کریمؐ نے فرمایا ہم مُردوں کی قیمت نہیں لیا کرتے۔ تم اپنی نعش واپس لے جاؤ۔

(دلائل النبوہ للبیہقی جلد3صفحہ437تا438)

پھر اسلام نے محض عدل کی ہی تعلیم نہیں دی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر احسان کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ (النحل:91)اسلام غیرقومو ں سے تمدنی تعلقات قائم کرنے، انصاف اور نیکی کا سلوک کرنے کی ہدایت فرماتا ہے۔ یہودی مذہب کی طرح یہ نہیں کہتاکہ صرف یہود سے سود نہ لو۔ (استثناء) بلکہ قرآن شریف نے سود کو حرام کر کے سب کے لیے منع کردیا اور یہ اعلیٰ درجہ کی تمدنی تعلیم دی:’’جن لوگوں نے دین کے بارہ میں تم سے لڑائی نہیں کی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا۔ ان کے ساتھ احسان کا سلوک کرنے اور منصفانہ برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا۔ ‘‘

(الممتحنۃ:9)

قبیلہ بنی حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال جب اسلام قبول کرنے کے بعد مکہ گئےتوکسی نے کہہ دیا تم بھی صابی ہوگئے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں میں مسلمان ہوکر محمد رسول اللہؐ پر ایمان لایا ہوں اورکان کھول کر سن لو! خدا کی قسم تمہارے پاس میرے علاقہ یمامہ سے غلہ کا ایک دانہ نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت عطانہ فرمائیں۔

(بخاری کتاب المغازی باب 66)

بعد میں کفار قریش نے رسول اللہؐ کی سفارش کروائی تو ثمامہ نے ان کا غلہ کھول دیا۔ یہ آپ کا عدل سے بھی بڑھ کر احسان کا سلوک تھا۔

فتح مکہ کے بعدوسیع تر اسلامی سلطنت میں عدل و انصاف

8ھ میں مکہ فتح ہوگیا۔اہل مکہ کے تیرہ سالہ مظالم آپؐ کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ شعب ابی طالب کی محصوری اور بائیکاٹ، بوقت ہجرت آپؐ کی لخت جگر حضرت زینبؓ پر قاتلانہ حملہ، میدان احد میں آپ کے چچا حضرت حمزہؓ سمیت 70 صحابہؓ کی شہادت اور دیگر خونچکان مظالم شامل تھے۔

انصاف کا تقاضا تویہ تھا کہ آپؐ ان سے تمام مظالم کا بدلہ لیتے مگر آپؐ نے احسان فرماتے ہوئے یہ کہہ کر انہیں معاف فرمادیا:

اذْھَبُوْا اَنْتُم الطُلَقَاء لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ وَهُو أَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنَ۔

جاؤ تم سب آزادہو۔ تم پر کوئی سرزنش نہیں۔ اللہ بھی تمہیں معاف کرے اور وہ رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر ہے۔

پھر آپؐ نے تمام اہل مکہ کےلیے عام معافی کا اعلان کردیا اور شہنشاہ عرب تسلیم کرلیے گئے جس کے بعد اسلامی حکومت کے انصاف اور احسان کے مزید عظیم الشان نظارے دنیا نے آپؐ سے دیکھے۔

فتح مکہ کے موقع پر احکام الٰہی کی حرمت کے ساتھ نبی کریمؐ نے حرم بیت اللہ کا احترام و تقدس بھی بحال کیا، جو آپؐ کی بعثت کا ایک اہم مقصد تھا۔ فتح مکہ کے دوسرے دن بنو خزاعہ نے بنو ہذیل کے ایک شخص کو حرم میں قتل کردیا۔ آپؐ اس پر سخت ناراض ہوئے اورایک خطبہ میں انصاف کے اصولوں کی پاسداری کا یہ اعلان فرمایا:’’اے لوگو! یاد رکھو اس حرم کی عزت کو کسی انسان نے نہیں، خدا نے قائم کیا ہے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ خدا نے اصحاب الفیل کے حملہ سے اپنے اس گھر کو بچایا تھا اور مسلمانوں کو اس پر مسلط کردیا ہے۔ کسی شخص کےلیے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے جائز نہیں کہ وہ اس میں خون ریزی وغیرہ کرے۔ یہ حرم مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا۔ میرے لیے صرف اسی وقت اور اسی لمحے لوگوں پر خدا کے غضب کے سبب حلال ہوا ہے اور اب پھر اس کی حرمت بدستور برقرار رہے گی۔ تم میں سے جو لوگ حاضر ہیں وہ غیرحاضر لوگوں تک یہ بات پہنچادیں۔ جو شخص تم سے کہے کہ اللہ کے رسول نے مکہ میں جنگ کی ہے تو یاد رکھو اللہ نے اسے اپنے رسول کے لیے حلال کردیا تھا لیکن (اے بنی خزاعہ) تمہارے لیے حلال نہیں کیااور مجھے بھی صرف ایک گھڑی کےلیے یہ اجازت دی گئی تھی۔ ‘‘

(بخاری کتاب المغازی باب44)

اسلامی حکومت کے قیام کے بعد رسول کریمؐ نے عدل کی جوشاندار مثالیں قائم فرمائیں ان کے چند نمونے ملاحظہ ہوں :

ایک دفعہ ایک مسلمان سے ایک ذمّی قتل ہوگیا۔ نبی کریمؐ نے قصاص کے طور پر مسلمان کوقتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں اس بات کا زیادہ حقدار ہوں جو اس غیرمسلم کا حق دلواؤں اور اس کا عہد پورا کرکے دکھاؤں۔

(نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ جلد4صفحہ336)

اس کے بعدآپؐ نے بنو خزاعہ کے قاتلوں کو قصاص دینے یا خون بہا قبول کرنے کا پابند کیا اور یوں عملاً عدل و انصاف کو قائم فرمایا۔ پھر دنیا میں انصاف کا خون اس وقت ہوتا ہے جب بااثر لوگوں کو جرم کی سزا نہیں دی جاتی یا سفارش کا کلچر انصاف کا خون کردیتا ہے۔ رسول کریمﷺ نے ان بے اصولیوں کا قلع قمع فرمایا۔

فتح مکہ کے اسی سفر کا واقعہ ہے کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت فاطمہ نامی نے کچھ زیور وغیرہ چرالیے۔ عورت چونکہ معزز قبیلے سے تعلق رکھتی تھی اس لیے اس کے خاندان کو فکر ہوئی اور انہوں نے رسول اللہؐ کے بہت پیارے اور عزیز ترین فرد اسامہ بن زیدؓ سے حضورؐ کی خدمت میں سفارش کروائی کہ اس عورت کو معاف کردیا جائے۔ اسامہؓ نے جب رسول اللہؐ کی خدمت میں عرض کیا توآپؐ کے چہرےکا رنگ سرخ ہوگیا اور فرمایا کیا تم اللہ کے حکموں میں سے ایک حکم کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتے ہو؟ اسامہؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں۔ شام کو نبی کریمؐ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا:’’تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی معزز انسان چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تھا تو اس پر حدقائم کرتے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو مَیں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ ‘‘پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس عورت کا ہاتھ کاٹا گیا۔

(بخاری کتاب المغازی باب49)

رسول اللہؐ نے سفرفتح مکہ اورحنین سے واپسی پر اموال غنیمت تقسیم کیے اور بعض عرب سرداروں کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہوئے بطور تالیف قلبی کے انعام و اکرام سے نوازا تو ایک شخص نے اعتراض کیا کہ اس تقسیم میں عدل سے کام نہیں لیاگیا۔ رسول اللہؐ کو پتہ چلا تو آپؐ نے فرمایا:’’اگر اللہ اور اس کا رسول عدل نہیں کریں گے تو اور کون کرےگا۔ ‘‘اللہ تعالیٰ موسیٰؑ پررحم کرے، ان پر اس سے بڑا الزام لگایا گیا مگر انہوں نے صبرکیا۔ (بخاری کتاب الخمس باب 19)

خلافت راشدہ میں عدل و انصاف کےفقید المثال نظارے

حضرت ابوبکرؓ کا دَور

رسول کریمﷺ کا قائم فرمودہ نظام عدل آپ کے خلفائے راشدین نے بھی جاری رکھا اورحضرت ابوبکرؓ خلیفۂ اوّل نے اپنے دَور خلافت میں انصاف پر مبنی شاندار فیصلے فرمائے۔ بطورنمونہ اس کی ایک مثال پیش ہے جووراثت رسولؐ کے عادلانہ فیصلہ پر مشتمل ہے۔ یہ ایک بہت نازک مرحلہ تھا جب اہل بیت کی طرف سے رسول اللہؐ کے ورثہ کا سوال اٹھایا گیا۔ ایک طرف اہل بیت رسولؐ سے محبت اور جذباتی تعلق دوسری طرف منصب خلافت کی ذمہ داری سے قومی اموال کی تقسیم میں عدل کا تقاضا۔ حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہؓ کے اس ارشاد کی روشنی میں کہ ’’ہمارا(انبیاء کا) ورثہ نہیں چلے گا اور ہمارا ترکہ صدقہ ہے‘‘نہایت درجہ انصاف کے ساتھ یہ تاریخی فیصلہ کیا کہ’’ان اموال میں سے اہل بیت فائدہ اٹھائیں گےجس طرح نبی کریمؐ کی زندگی میں استفادہ کرتے تھے مگر یہ جائیدادقومی ملکیت رہے گی، بطور ورثہ تقسیم نہ ہوگی۔ ‘‘حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ کو تسلی دلاتے ہوئے فرمایا:’’رسول اللہؐ کی قرابت مجھے اپنی قرابتوں اور رشتہ داریوں سے بھی کہیں زیادہ عزیز ہے۔ لیکن میں ان اموال میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا نہ کسی خلاف عدل فیصلہ کا مرتکب ہوں گا۔ بلکہ جیسے رسول اللہؐ ان اموال میں تصرف فرماتے تھے ویسےہی کروں گا۔ ‘‘ چنانچہ حضرت فاطمہؓ اس پر راضی ہوگئیں۔ ( مسند احمدجلد 1صفحہ 9)

دَورعدل فاروقی

حضرت عمرؓ کے زمانے میں فتوحات کے نتیجے میں اسلامی حکومت کو وسعت ملی مگر اس کے باوجود آپؐ کا عدل وانصاف زبان زد عام تھا۔ حضرت زیدؓ بن ثابت کو آپ نے قاضی مقرر کیا تھا۔ ایک دفع خود ان کی عدالت میں ایک فریق کی حیثیت سے حاضر ہونا پڑا توحضرت زیدؓ نے امیر المومنین کی تعظیم کے لیے کرسی خالی کر دی۔ حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ اس مقدمے میں یہ پہلی نا انصافی ہے۔ مطلب یہ تھاکہ قاضی کا یہ فرض ہے کہ ہرایک سے عام عدالتی طریق کار کے مطابق برتاؤ کرے۔

(الفارق از شبلی صفحہ302)

عدل و انصاف کے قیام میں حضرت عمرؓ کی خدا خوفی کا یہ عالم تھا کہ فرمایا کرتے:اے عمرؓ ! اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھوکا مرگیا تو تم سے پوچھا جائےگا۔

آپؓ نے اپنی شہادت سے چارروزقبل فرمایا ’’اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی دی تو میں اہل عراق کی بیواؤں کا ایسا بندوبست کروں گا کہ انہیں میرے بعد کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ ‘‘

(بخاری کتاب الفضائل اصحاب النبی باب قصة البیعة)

حضرت عمرؓ کا یہی عدل وانصاف تھاجس کی بنا پراہل یورپ کوبھی کہنا پڑاکہ اگر اسلام میں ایک اورعمرؓ پیدا ہو جاتا تو آج عالم اسلام کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔

ایک حج کے موقع پرحضرت عمرؓ نے تمام گورنروں کو طلب کیااور مجمع عام میں اعلان فرمایا کہ اگر کسی کو میرے خلاف کوئی شکایت ہو تو پیش کرے۔ ایک شخص نے اٹھ کرکہا کہ آپ کے گورنر عمرو بن عاصؓ نے مجھے ناحق 100کوڑے لگوائے ہیں۔ مَیں اُن سے بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ نے کہا کہ اُٹھو اور اپنا بدلہ لے لو۔ عمرو بن عاصؓ نے کہا:اے امیر المومنین! آپ گورنروں کے خلاف یہ راستہ نہ کھولیں۔ مگر حضرت عمرؓ نے فرمایا:میں نے خود نبی کریمﷺ کو اپنے آپ سے بدلہ لیتے دیکھاہے۔ اے شخص! اُٹھ اور اپنا بدلہ لے! آخر کار حضرت عمر وبن عاصؓ کو ہرکوڑے کے بدلے دودو اشرفیاں دے کر جان بچانا پڑی۔

(کتاب الخراج از امام یوسفؒ )

حضرت عمرؓ کا معیار عدل ایسا بلندتھاکہ اپنی رعایا کی ضروریات معلوم کرنے کےلیے رات کو خاموشی سے شہر کا چکر لگاتے تھے۔ ایک دفعہ رات کوگشت میں تھے کہ ایک بدو کے خیمے کے پاس سے کسی عورت کے کراہنے کی آواز آئی۔ پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ گھر میں ولادت متوقع ہے۔ کوئی خاتون مدد کےلیے پاس نہیں۔ آپ فوراً گھرسے اپنی بیوی حضرت ام کلثومؓ بنت علیؓ کوساتھ لے آئے جنہوں نے وہاں جا کر اس عورت کی مدد اور خدمت کی اورکچھ دیر بعد آواز دی کہ اے امیر المومنین!مبارک ہو آپ کے دوست کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے۔ وہ بدو چونکا کہ خدا کی شان امیر المومنین کی زوجہ مطہرہ میرے گھر میں۔ حضرت عمرؓ نے اسے تسلی دی اورفرمایا گھبراؤ نہیں کل میرے پاس آجانا بچے کے لیے وظیفہ بھی مقرر کر دیا جائے گا۔

(ازالۃ الخلفاء جلد 2صفحہ79 و اسد الغابہ جلد 4صفحہ71)

حضرت عمرؓ کا یہ دستورعدل سے بڑھ کر احسان کا معاملہ تھا۔

حضرت عمرؓ نے اہل بیت المقدس سے جو معاہدہ کیا وہ عدل و انصاف کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری مثال کے طور پر پیش کیا جاتا رہے گا۔ معاہدہ میں تحریر تھا’’ایلیاء کے رہنے والوں کو امان دی جاتی ہے، ان کے گرجاؤں اور مذہب سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا۔ مذہب کے بارے میں ان پر کوئی جبر نہ ہوگا…اس معاہدے پر خدا ،اس کے رسول، خلفاء اور مسلمانوں کا ذمہ ہے۔ ‘‘(طبری جلد5 صفحہ25)

حضرت عمرؓمسیحیوں کے مذہبی سربراہ اعلیٰ اسقف کے ساتھ زیارت بیت المقدس فرمارہے تھے۔ اس دوران کلیسائے قیامت میں نماز کا وقت ہوگیا۔ انہوں نے کہا آپؓ یہیں نماز پڑھ لیں۔ حضرت عمرؓ نے کمال جذبۂ انصاف اوردوراندیشی سے فرمایا ’’اگر میں نے ایسا کیا تو مسلمان میری پیروی میں یہاں نماز پڑھیں گے اور آپ کو گرجاؤں سے نکال دیں گے۔ اور عہد امان کی خلاف ورزی کا اندیشہ ہوگا۔ ‘‘

چنانچہ آپؓ نے باہرتشریف لاکر کلیسائے قسطنطین کے دروازے کے سامنے مصلّیٰ بچھواکر نماز پڑھی۔ یہ واقعہ حضرت عمرؓکی اسلامی رواداری اور عدل کی شاندار مثال ہے۔

(عمر فاروق اعظم مترجم صفحہ 303از محمد حسین ہیکل)

حضرت عثمانؓ کا دَور

حضرت عثمانؓ نے بھی اپنےپیشرو خلفاء کے عدل و انصاف کا نظام آگے بڑھایا۔ آپ طبعاً منصف مزاج تھے۔ آپؓ کے ذاتی معاملات میں بھی عدل کی عجب شان نظر آتی ہے۔ ایک دفعہ اپنے غلام سے فرمایا کہ میں نے تمہاری گو شمالی کی تھی یعنی کسی بات پر تنبیہ کےلیے کان مروڑے تھے اب مجھ سے بدلہ لے لو۔ اس نے آپ کا کان پکڑ لیا۔ فرمانے لگے اورسختی سے کان مروڑو کہ اسی دنیا میں جو بدلہ چکا دیا جائے وہ اچھا ہے۔ (الریاض النضرة جلد2 صفحہ111)

حضرت عمرؓ بھی آپؓ کے انصاف کے قائل تھے۔ ایک دفعہ وہ مکہ آئے اور جمعہ کے دن دارالندوہ میں ٹھہرگئے تاکہ قریب سے بیت اللہ آجاسکیں۔ اس دوران اپنی چادر دیوار پرلٹکائی تو ایک کبوتر اس پر آکر بیٹھ گیا۔ انہوں نے اس اندیشہ سے کہ چادر کو گندا نہ کردے اسے اڑا دیا۔ وہ دوسری دیوار پر جابیٹھاتو ایک سانپ نے اسے ڈس لیا اور وہ وہیں مرگیا۔ جمعہ کے بعد حضرت عمرؓ نے نافع بن عبد الحارث اورحضرت عثمانؓ سے کہا کہ تم دونوں میرے اس معاملے میں فیصلہ کرو۔ مَیں نے حضرت عثمانؓ سے کہا کہ میرے خیال میں تو حضرت عمرؓ کو بطور فدیہ ایک بکرے کی قربانی کرنی چاہیے۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا میرا بھی یہی خیال ہے۔ (مسند الشافعی صفحہ47)

حضرت علیؓ کا دَور

حضرت علیؓ نے رسول اللہﷺ کی ذاتی تربیت میں عدل و انصاف سیکھا۔ وہ خودبیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے مجھے یمن میں قاضی بناکر بھیجا ۔میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ ! آپؐ مجھے یہ اہم ذمہ داری دے رہے ہیں اور میں تو کم عمر نوجوان ہوں جسے قضا کا کوئی تجربہ نہیں آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تیرے دل کو خود راہ نمائی فرمائے گا اور تیری زبان کو سچائی پر درستی سے قائم کردے گا۔ جب تمہارے سامنے فریقین مقدمہ بیٹھیں تو ان کے مقدمہ کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرنا جب تک دوسرے فریق سے پوری بات نہ سن لو جس طرح پہلے فریق سے سنی۔ یہ طریق زیادہ مناسب ہے جس کے نتیجے میں فیصلہ تجھ پر کھل جائے گا۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں اس کے بعد میں قاضی رہا لیکن کسی فیصلے کے بارے میں کبھی شک نہیں ہوا۔

(ابوداؤد کتاب الاقضیہ باب 6)

حضرت علیؓ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بہت سعی کرتے تھے۔ کبھی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹاتے۔ حضرت علیؓ بیت المال میں حضرت ابوبکرؓ کی طرح معاملہ کرتے تھے۔ کوئی بھی مال آتا تو فوراً تقسیم کردیتے اور کچھ بچا کر نہ رکھتے سوائے اس کے کہ اس روز تقسیم میں کوئی دقت ہو۔ نہ تو خود بیت المال سے ترجیحاً کچھ لیتے اور نہ کسی دوست یا عزیز کو ا س میں سے دیتے۔ نیک، دیندار اور امانت دار لوگوں کو حاکم مقرر فرماتے۔ خیانت پر سخت تنبیہ فرماتے۔ خدا کے حضور عرض کرتے ’’اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں نے انہیں تیری مخلوق پر ظلم کا حکم نہیں دیا تھا۔ ‘‘

قیام کوفہ کے دوران حضرت علیؓ کا معمول تھا کہ دوچادروں کا مختصر لباس پہن کر درّہ ہاتھ میں لیے بازار میں گھوم رہے ہیں۔ لوگوں کو اللہ کے تقویٰ اور سچائی کی تلقین کر رہے ہیں۔ اچھے سودے میں ماپ تول پورے کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ ایک دفع بیت المال میں جو کچھ تھا تقسیم کرکے ا س میں جھاڑو پھیر دیا۔ پھر دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا ’’امید ہے کہ قیامت کے د ن یہ میری گواہ ہوگی۔ ‘‘

(مسلم کتاب المناقب باب مناقب علیؓ و مجمع الزوائد جلد 9صفحہ 121۔ استیعاب جلد 3صفحہ 211، منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند احمد جلد5صفحہ 55)

حضرت علیؓ میں عدل کے ساتھ احسان کا رنگ بھی غیرمعمولی تھا۔ ایک دفع مدمقابل دشمن نے زیرہوجانے کے بعد آپ پر تھوک دیا تو اسے یہ کہہ کر چھوڑدیا کہ اب جو کارروائی میں کروں وہ کہیں ذاتی انتقام نہ ہو۔ آپ کا قاتل ابن ملجم خارجی پکڑاگیا تو اس کے بارے میں ہدایت فرمائی کہ اسے اچھا کھانا کھلاؤ اور اچھا بستر دو۔ اگر میں زندہ رہا تو خودا س کی معافی یا سزا کا فیصلہ کروں گااور اگر میں مر گیا تو اسے میرے ساتھ ملا دینا مگر اس کے ناک کان نہ کاٹنا۔

خلافت راشدہ کےاس زریں عہدکے نظارے اسلامی دنیا نے تیس سال تک مشاہدے کیے جس کے بعد حضرت امیر معاویہؓ سے ملوکیت کا دَور شروع ہوگیا۔ اس میں یزید جیسے ظالم اور سفاح جیسے سفاک حکمران بھی آئے اور خلافت راشدہ کارنگ باقی نہ رہابلکہ زمانۂ نبوت و خلافت سے دوری کے ساتھ اس میں نمایاں کمی آتی چلی گئی۔ فیج اعوج کے اس تاریک دَور میں اسلامی حکومت کےلیے بس خلافت کا رسمی نام باقی رہ گیا مگر عدل اسلامی اٹھتا ہی چلاگیا۔ بالآخر چودھویں صدی کا وہ زمانہ آگیا جس کےلیے رسول کریمﷺ نے مسیح و مہدی کے آنے کی خبر دیتے ہوئے فرمایا تھاکہ وہ حکم عدل ہوکر آئے گا اور تمام دینی و دنیوی فیصلے انصاف سے کرے گا۔ یہ پیشگوئی حضرت مرزا غلام احمدؑ بانیٔ جماعت احمدیہ کے ذریعہ پوری ہوئی جب آپ نے قرآن و سنت پر عمل کا عہد بیعت لےکر 23؍مارچ 1889ء کوایک پاکیزہ جماعت کی بنیاد رکھی۔

بطور حکم عدل حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے مختلف اسلامی فرقوں کے اختلافات کے فیصلے کمال انصاف اور روشن براہین سے فرمادیے۔ آپؑ کی وفات کے بعد خلافت احمدیہ کے ذریعہ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ احمدی احباب کے باہمی تنازعہ کی صورت میں اسلامی طریق کے مطابق جماعت احمدیہ کانظام دارالقضاء موجود ہے جہاں حصول انصاف کے طالبوں کےلیے ثالثی رنگ میں نہایت عدل سے فیصلے جاری ہوتے ہیںجس کی برکت سے احباب جماعت رائج الوقت عدالتوں میں مقدمہ بازیوں کی خجالتوں اور مشکلات سے محفوظ ہوکر بسہولت انصاف پاتے ہیں اور یوں مہدی کے ذریعہ دنیا میں قیام عدل و انصاف کی بات پوری ہورہی ہے۔ اس وقت جماعت احمدیہ کی شاخیں 213؍ممالک میں قائم ہیں۔جہاں جماعت کی تعداد زیادہ ہے وہاں نظام قضاء قائم ہوکررفتہ رفتہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہورہا ہے اور جماعت اس کےلیے کوشاں ہے۔ خلافت خامسہ کے بابرکت دَور میں 2019ءمیں اس عادلانہ نظام قضاء پر جماعت احمدیہ کے ایک سو سال مکمل ہوگئے۔ اس موقع پر لندن میں اس نظام عدل سے منسلک بین الاقوامی نمائندوں کی کانفرنس ہوئی جس میں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے قیام عدل کی نصیحت کرتے ہوئےفرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عدل کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ہر قسم کے اثر و رسوخ سے بالا ہو کر فیصلہ کرنا ہے۔ اوریہ باتیں اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتیں جب تک تقویٰ کا اعلیٰ معیار نہ ہو، ہر فیصلے کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد مانگنے کے لئے دعا نہ کی جائے اور ہر مقدمے کو گہرائی میں جا کر ہر پہلو کو دیکھ کر سماعت نہ ہو۔‘‘

(رپورٹ انٹرنیشنل ریفریشر کورس صد سالہ جوبلی دارالقضاء سلسلہ عالیہ احمدیہ (1919ء تا 2019ء)مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل)

جماعت احمدیہ میں بظاہریہ ایک چھوٹا سا نمونہ قیام عدل کا ہے جواپنی توفیق کے مطابق جماعت احمدیہ اپنے دائرہ میں پیش کررہی ہے اور جو مسلسل وسعت پذیر ہے۔ اس کے بالمقابل دَورحاضر میں عالمی سطح پر قیام انصاف کے نام پر جو ادارے قائم کیے گئے وہ بھی بجائے انصاف دینے کے اپنے مفادات کو ترجیح دینے کی وجہ سے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔

دَورحاضر میں عدل کی ضرورت اور امام وقت کی راہ نمائی

موجودہ حالات میں یہ ضرورت محسوس کرتے ہوئے حکم عدلؑ کے پانچویں خلیفہ اور دورحاضر کے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مسلسل دورحاضر میں انصاف کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔

آپ نےلیگ آف نیشنز کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’جہاں تک عالمگیر معاملات کا تعلق ہے جب تک انصاف نہ ہوگا، امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ کے دوہرے معیار ہوں گے جیساکہ ہم آج کی دنیا میں دیکھتے ہیں، جن کا مظاہرہ بڑی طاقتوں سے ہوتاہے تو پھر وہ دنیا میں امن کو قائم نہیں کر سکتے۔ لیگ آف نیشنز کے قیام کے بعد بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ لیگ آف نیشنز کا قیام اس غرض سے کیا گیا تھا کہ ہر ملک کو مساوی حقوق اور انصاف مل سکے۔ مگر وہ ناکام ہوگئی اور اس کا خمیازہ دوسری جنگ عظیم کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ ‘‘

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی گیمبیا کے صحافیوں کے ساتھ(آن لائن) پریس کانفرنس مورخہ 22؍ مئی 2021ء)

آپ نے تمام بڑے عالمی راہنماؤں کو اپنے امن مراسلوں میں انصاف کی طرف توجہ دلائی ہے۔

برطانیہ کے وزیر اعظم کو لکھا:’’پس اگر آپ چاہیں تو عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرکے دنیا کی راہنمائی کرسکتے ہیں۔ ‘‘

امریکہ کے سابق صدر اوباما کو لکھا:’’ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بنیادی محرکات میں لیگ آف نیشنز کی ناکامی اور 1932ء میں رونما ہونے والا معاشی بحران سرفہرست تھا…اگر چھوٹے ممالک کے جھگڑے سیاسی طریق کار اور سفارت کاری کے ذریعہ حل نہ کیے گئے تو…یقیناً یہ امر تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہوگا۔ ‘‘

چین کے وزیر اعظم کو لکھا:’’میری دعا ہے کہ عالمی راہنما دانش مندی سے کام لیتے ہوئے اقوام عالم اور افراد کے مابین موجود چھوٹے چھوٹے تنازعات کو عالمگیر بننے سے بچانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ ‘‘

اسرائیل کے وزیراعظم کو لکھا کہ ’’آج دنیا کا ہر ملک یا تو کسی دوسرے ملک کی دشمنی پر کمربستہ ہے یا کسی دوسرے ملک کا حمایتی بنا ہوا ہے لیکن انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف کوئی بھی متوجہ نہیں۔ ‘‘

اسی طرح حضرت امام جماعت نے مختلف عالمی پلیٹ فارمز پر انصاف کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی۔ 2008ء میں برطانوی پارلیمنٹ میں، 2012ء میں ملٹری ہیڈکوارٹر کوبلنز(جرمنی )میں، پھر اسی سال سالانہ امن کانفرنس میں، 2012ء میں ہی کیپیٹل ہل (واشنگٹن امریکہ) میں ’’انصاف کی راہ۔ قوموں کے مابین انصاف پر مبنی تعلقات‘‘ کے موضوع پر خطاب، اسی سال یوروپین پارلیمنٹ برسلز بیلجیم میں ’’امن کی کنجی۔ بین الاقوامی اتحاد‘‘ کے موضوع پر، 2013ء میں برطانوی پارلیمنٹ میں ’’اسلام۔ امن اور محبت کا مذہب‘‘ کے عنوان سے، 2013ء میں نیوزی لینڈمیں ’’امن عالم۔ وقت کی ضرورت‘‘کے موضوع پر مسلسل اپنے خطابات میں قیام امن کےلیے انصاف کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

الغرض حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےہرسطح پرراہنمائی کرتے ہوئے عالمگیر قیام امن و انصاف کےلیے تحریک فرمائی ہے۔ حال ہی میں ایک آن لائن پریس کانفرنس میں فرمایا:’’یہی حالات آج اقوام متحدہ کے بھی ہیں۔ وہ انصاف سے کام نہیں لے رہے۔ غریب اور امیر کے لیے ان کے دوہرے معیار ہیں یعنی مغربی ممالک اور افریقی اور ایشیائی ممالک کے لیے، اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج دنیا میں بد امنی دیکھ رہے ہیں۔ پس انصاف کے بغیر قیام امن ناممکن ہے۔ ‘‘

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی گیمبیا کے صحافیوں کے ساتھ(آن لائن) پریس کانفرنس مورخہ 22؍مئی 2021ء)

اللہ تعالیٰ کرے کہ دنیا امام وقت کی اس آواز کو سننے اوران کی قیام عدل و انصاف کی دلی تمنا کوپورا کرنے کی توفیق پائے تاکہ یہ عالم ایک دفعہ پھر عدل و انصاف کا گہوارہ بن جائے۔ آمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button