رحمة للعالمین رسول اللہﷺ کا حالت امن اور حالت جنگ میں دشمنوں کے حقوق کا قیام اور ان کی حفاظت (قسط دوم)
اہل مقنا اور بنی جنبہ کے لیے امان نامہ
رسول اللہﷺ نےیہ امان نامہ 9؍ہجری میں اہل مقنا اور بنی جنبہ دونوں بستیوں کو عطا فرمایا جس کاآغازدرج ذیل الفاظ سے تھا: ’’میرایہ خط موصول ہونے کے بعد تم دونوں خدا اورر سولﷺ کی پناہ میں ہو۔ رسول خداﷺ نے تمہارے گزشتہ قصور معاف کردئیے ہیں۔ مکرّر یہ کہ اب تم خدا اور اس کے رسول کی پناہ میں ہو۔ تم پر کوئی قوم ظلم اور زیادتی نہیں کرسکتی…‘‘(سیاسی وثیقہ جات اردو صفحہ71-72)
نصاریٰ سے معاہدات
9؍ہجری میں ہی نجران کے عیسائیوں نےمدینہ آکررسول کریمﷺ سےمعاہدہ صلح کیا۔ جو قرآنی تعلیم اوربنیادی انسانی حقوق کےعین مطابق تھاجس میں عدل واحسان کا سلوک فرماتے ہوئے مکمل آزادیٔ مذہب دی گئی۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نجران کے عیسائیوں سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ سال میں دو ہزار کپڑے کے جوڑے وغیرہ مسلمانوں کو دیا کریں گے۔ اس شرط پر کہ ان کا کوئی گرجا گرایا نہ جائے گا اور ان کا کوئی پادری نہ نکالا جائے گا اور نہ ان کے دین میں مداخلت ہوگی اور یہ اس وقت تک ہوگا جب تک کہ وہ کوئی نئی بات نہ نکالیں۔ (سنن أبي داؤد کتاب الخراج بَابٌ فِي أَخْذِ الْجِزْيَةِ)
اسی طرح رسول اللہﷺ کا ایک مکتوب بنام نجران کے پادری ابو حارث بن علقمہ قابل ذکر ہے جس میں ابوحارث سمیت نجران کےدیگر پادریوں، راہبوں کو مذہبی مراعات دی گئیں۔ جس میں ان کی جان و مال کی حفاظت کے ساتھ ان کے عبادت خانوں، گرجوں اورخانقاہوں کی حفاظت کی مکمل یقین دہانی کروائی گئی اوران کے حقوق میں مداخلت نہ کرنے کا فرمایا۔ (سیاسی وثیقہ جات اردو صفحہ 111-112)
سینٹ کیتھرین کے راہبوں کو امان نامہ
عہدنبویؐ میں سینٹ کیتھرین کے راہبوں کونہایت اہم تاریخی امان نامہ عطا ہوا۔ جس کی تمام شقیں قرآنی تعلیم کے مطابق مذہبی آزادی اور عدل و انصاف پرمبنی اور ان کے حقوق کی ضمانت تھیں۔ اس معاہدہ کی اہم شرائط یہ ہیں:
’’ان پرکسی بھی معاملہ میں کسی قسم کاکوئی جبراورزبردستی نہیں۔ ان کا کوئی پادری یا راہب تبدیل نہیں کیا جائےگا، اسی طرح نہ ہی کسی گرجے میں رہنے والے اور نہ ہی کسی زائر کو زیارت سےروکا جائے گا۔ ان کی کسی مذہبی عمارت کو مسمار نہیں کیا جائے گا۔ جو کوئی ایسے فعل کا مرتکب ہوگا تو اس نے اللہ سے عہد شکنی کی اور اپنے رسول کی مخالف کی۔ راہبوں، پادریوں اور عابدوں پرکسی قسم کا جزیہ لاگو نہ ہوگا۔ اور مَیں (رسول اللہﷺ ) ان کے ذمہ کی حفاظت کروں گا وہ خشکی و تری، مشرق و مغرب وغیرہ جہاں کہیں بھی ہوں۔ ان سے احسن طریق سے بحث کی جائے۔ ان سے رحمدلی کا سلوک کیا جائے۔ عیسائیوں سے جہاں کہیں بھی وہ مقیم ہوں، ناپسندیدہ معاملہ نہیں کیا جائےگا۔ اگر کوئی عیسائی عورت کسی مسلمان کے ہاں ہو تو اس مسلمان کے ذمہ ہوگا کہ وہ اس عیسائی عورت کی مرضی اور خواہش کے مطابق اس کے گرجے میں اس کی نماز ادا کرنے دے اوروہ اس عورت کے درمیان اور اس کے دین کی خواہش کے درمیان حائل نہیں ہوگا۔ اگر عیسائیوں کو اپنے گرجوں وغیرہ کی تعمیر یا کسی مذہبی امر میں مدد کی ضرورت ہوتو مسلمانوں کو ہر طرح کی اعانت کرنی چاہیے۔ اس سے ان کے مذہب میں شرکت نہیں ہوگی صرف ان کے احتیاج کو رفع کرنا مقصود ہے۔ ‘‘
(مجموعة الوثائق السياسية للعهد النبوي والخلافة الراشدة جزء1 صفحہ561 تا563)
پس رسول اللہﷺ نے غیر مسلموں کے حقوق کےلیے ان معاہدات کے علاوہ اور بھی کئی معاہدات کیے اورامان نامے عطا فرمائے جن میں ان کے تمام حقوق کا بخوبی خیال رکھا گیا۔
پابندیٔ معاہدات کے متعلق قرآنی تعلیم
اسلام میں پابندی عہد کی بہت زیادہ اہمیت ہےچاہے حالت امن میں کیا گیا معاہدہ ہو یا میدان کارزار میں۔ ہردوحالتوں میں عہد کی پاسداری لازم ہے خواہ کتنا نقصان ہوجائے۔ اسلام نےدشمنوں کے حقوق کے سلسلے میں کیے گئےمعاہدات کی پابندی مسلمانوں کی اولین ذمہ داری قرار فرمایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مومنین کو یہ حکم فرماتا ہے:
اِلَّا الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ثُمَّ لَمۡ یَنۡقُصُوۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ لَمۡ یُظَاہِرُوۡا عَلَیۡکُمۡ اَحَدًا فَاَتِمُّوۡۤا اِلَیۡہِمۡ عَہۡدَہُمۡ اِلٰی مُدَّتِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ۔ (التوبة: 4)
سوائے مشرکین میں سے ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا پھر انہوں نے تم سے کوئی عہد شکنی نہیں کی اور تمہارے خلاف کسی اور کی مدد بھی نہیں کی۔ پس تم اُن کے ساتھ معاہدہ کو طے کردہ مدت تک پورا کرو۔ یقیناً اللہ متقیوں سے محبت کرتا ہے۔
لیکن اگر کوئی فریق عہدشکنی کرتا ہے تو پھر اس کواس بارے میں آگاہ کرکےمناسب کارروائی کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے جیساکہ فرمایا:
اَلَّذِیۡنَ عٰہَدۡتَّ مِنۡہُمۡ ثُمَّ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَہُمۡ فِیۡ کُلِّ مَرَّۃٍ وَّ ہُمۡ لَا یَتَّقُوۡنَ۔ فَاِمَّا تَثۡقَفَنَّہُمۡ فِی الۡحَرۡبِ فَشَرِّدۡ بِہِمۡ مَّنۡ خَلۡفَہُمۡ لَعَلَّہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ۔ وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنۡ قَوۡمٍ خِیَانَۃً فَانۡۢبِذۡ اِلَیۡہِمۡ عَلٰی سَوَآءٍ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡخَآئِنِیۡنَ۔ (الانفال: 57تا59)
(ىعنى) وہ لوگ جن سے تو نے معاہدہ کىا پھر وہ ہر بار اپنا عہد توڑ دىتے ہىں اور وہ ڈرتے نہىں۔ پس اگر تُو اُن سے لڑائى مىں متصادم ہو تو اُن (کے حشر) سے اُن کے پچھلوں کو بھى تتربتر کردے تاکہ شاىد وہ نصىحت پکڑىں اور اگر کسى قوم سے تُو خىانت کا خوف کرے تو اُن سے وىسا ہى کر جىسا اُنہوں نے کىا ہو اللہ خىانت کرنے والوں کو ہرگز پسند نہىں کرتا۔
چنانچہ میثاق مدینہ میں شامل یہودی قبائل بنوقینقاع، بنوقریظہ اور بنونضیرکومسلسل عہد شکنی کے نتیجے میں بالآخرمدینہ بدرکرناپڑا۔
(مسلم کتاب الجہاد باب إِجْلَاءِ الْيَهُودِ مِنَ الْحِجَازِ)
پابندیٔ معاہدات میں اسوۂ رسولﷺ
رسول اللہﷺ نے جتنے بھی معاہدات یا امان نامے عطا فرمائے ان کا بنیادی مقصد دشمنوں کے حقوق کا قیام تھا۔ چنانچہ اس کےلیے آپ نے اپنے صحابہ کو اس کی پابندی کا عملی نمونہ بھی عطا فرمایا۔
حالت جنگ میں آپﷺ کےپابندی معاہدہ اور پاسداریٔ عہد کی ایک اعلیٰ مثال جنگ بدر کے موقع کی ہے۔ جس کے متعلق حضرت حذیفہ بن یمانؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بدر میں آنے سے کسی چیز نے نہ روکا۔ میں اور میرے والدحسیل روانہ ہوئے کہ کفار قریش نے ہمیں آن پکڑا اور کہا کہ تم محمدﷺ کے پاس جانا چاہتے ہو۔ تو ہم نے کہا کہ ہم ان کے پاس نہیں بلکہ مدینہ جانا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے ہم سے اللہ کا نام لے کر عہد اور اقرار لیا کہ ہم پھر مدینہ کو جائیں گے اور محمدﷺ کے ساتھ ہوکر نہیں لڑیں گے۔ جب ہم رسول اللہﷺ کے پاس آئے تو ہم نے یہ سارا واقعہ بیان کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ’’تم دونوں مدینہ چلے جاؤ ہم ان کے عہد کی پاسداری کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے مدد چاہیں گے۔ ‘‘
(صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب الوفاء بالعھد)
دوسری مثال حالت امن میں صلح حدیبیہ کے موقع کی ہے جب رسول اللہﷺ اور(قریش کا نمائندہ)سہیل بن عمرو حدیبیہ میں دس سال کے لیے صلح کی دستاویز لکھ رہے تھے اورابھی معاہدہ مکمل نہ ہواتھا کہ اسی سہیل کے بیٹے ابوجندلؓ مکہ سے فرار ہوکر بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے وہاں آپہنچے۔ سہیل نے معاہدہ کی اس شرط کے مطابق اپنے بیٹے کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ صحابہؓ اس پر رضامند نہ تھے۔ سہیل نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا تو صلح بھی نہیں ہو سکتی۔ نبی کریمﷺ نے اس کی شرط کوتسلیم کرتے ہوئے ابوجندل بن سہیلؓ کو ان کے والد سہیل بن عمرو کے سپرد کردیا۔ چنانچہ(مدت صلح میں مکہ سے فرار ہوکر)جو بھی آتا نبی کریمﷺ (معاہدہ کاپاس رکھتےہوئے)اسے واپس کر دیتے، خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوتا۔
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة الحدیبیة)
اسی طرح عتبہ بن اسیدؓ جوابوبصیرکی کنیت سے مشہور تھےان کو بھی آپؐ نےمدینہ سے مکہ واپس بھجوایالیکن راستہ میں انہوں نے قریش کے ایک سپاہی کو قتل کردیا اورساحل پرمقام عیص میں جاکر ڈیرہ ڈال لیا۔ چنانچہ مکہ سے قریش کے مظالم سے تنگ آکر فرار ہونےوالےصحابہؓ ابوبصیر کے پاس اکٹھے ہونے لگے اور ایک مضبوط گروہ بن گئے۔ مجبوراً قریش کو معاہدہ صلح حدیبیہ کی اس شق کو ختم کرنا پڑا۔
معاہدہ حدیبیہ کی ایک شق یہ تھی کہ مسلمان آئندہ سال عمرہ کرنے مکہ آئیں گے اور تین دن کے اندر مکہ کو خالی کردیں گے۔ چنانچہ اگلے سال جب نبی کریمؐ عمرہ قضا کے لیے مکہ آئے تو قریش نے مکہ خالی کردیا۔ حویطب بن عزیٰ بیان کرتے ہیں کہ میں اور سہیل بن عمرو مکہ میں رہے تاکہ تین دن کے بعد مسلمانوں سے حسب معاہدہ مکہ خالی کرواسکیں جب تین دن گزر گئے تو میں نے اور سہیل نے رسول اللہؐ کو یاد کروایاکہ آج شرط کے مطابق مسلمانوں کو مکہ خالی کرنا ہوگا۔ آنحضورؐ نے اسی وقت بلالؓ کو حکم فرمایا کہ اعلان کردیں کہ آج غروب آفتاب کے بعد کوئی مسلمان جو ہمارے ساتھ عمرہ کرنے مکہ آیا ہے مکہ میں نہ رہے اور بڑی سختی سے اس کی پابندی کی گئی۔
(مستدرک حاکم جزء3 صفحہ 561بحوالہ اسوۂ انسان کاملؐ )
رسول اللہﷺ نے اپنی ساری زندگی میں کبھی کسی معاہدہ کی خلاف ورزی نہ کی۔
اسی طرح نجران کے نصاریٰ سے بھی جو معاہدات ہوئے ان کی پابندی و ایفاکی نگرانی کےلیے ان کی درخواست پر آپﷺ نے حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کو’’ امین الامت‘‘ کا خطاب دیتے ہوئے وہاں بھجوایا اور انہوں نے واقعی اس خطاب کاحق ادا کردکھایا۔
(بخاری کتاب المغازی باب قِصَّةِ أَهْلِ نَجْرَانَ)
الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے پابندیٔ معاہدات میں بھی ایک مثالی نمونہ پیش فرمایاہے اور معاہدین کے جان و مال اور عزت کی ہر طرح سے حفاظت فرمائی۔
حالت امن میں دشمنوں کے حقوق کا خیال
قریش مکہ جو آپ کے رحمی رشتہ دار بھی تھے انہوں نے آپﷺ کی جان ومال و عزت کی بربادی میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی اور آپؐ کے تمام بنیادی حقوق سلب کرلیے تھے۔ ریاست مدینہ قائم ہونے کے بعد جب بھی انہیں کسی قسم کی امداد کی ضرورت ہوئی تو رسول اللہﷺ نے ان کی طرف فوری مدد روانہ فرمائی اور ایتاء ذی القربیٰ کے حقوق کو پورا فرمایا۔ آپﷺ فرماتے تھے کہ ’’بے شک قریش کی فلاں شاخ کے لوگ میرے دوست نہیں رہے، دشمن ہوگئے ہیں مگر آخر میرا اُن سے ایک خونی رشتہ ہے، میں اس رحمی تعلق کے حقوق بہرحال ادا کرتا رہوں گا۔ ‘‘
(بخاری کتاب الادب باب تُبَلُّ الرَّحِمُ بِبَلاَلِهَا)
چنانچہ جب بھی اہل مکہ کو رسول اللہؐ کی مدد کی ضرورت ہوئی۔ آپؐ نے ان سے احسان کا سلوک فرمایا۔ مکّہ میں قحط پڑا اور وہ رحمی رشتہ کا واسطہ لے کر آئے تو آپؐ نے بارش کے لیے دعا کی جس سے قحط دور ہوگیا۔
(بخاری کتاب التفسیر باب سورت الروم)
اسی طرح ایک موقع پر آپﷺ نے دوران قحط مکہ میں پانچ سو دینار کی امداد بھجوائی اوراپنے جانی دشمنوں کے متعلق حکم دیا کہ ابوسفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ اس امداد کو مکہ کے محتاجوں میں تقسیم کریں۔ چنانجہ ابوسفیان اور صفوان نے اس پیشکش کو قبول کیا۔
(شرح السير الكبيرللسرخسی جزء1 صفحہ 96)
قبیلہ بنی حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال جب اسلام قبول کرنے کے بعد مکہ گئےتوکسی نے انہیں صابی کہہ دیاجس پر آپ نے کہا کہ میں مسلمان ہوکر محمد رسول اللہؐ پر ایمان لایا ہوں۔ خدا کی قسم تمہارے پاس میرے علاقہ یمامہ سے غلہ کا ایک دانہ نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت عطانہ فرمائیں۔
(بخاری کتاب المغازی باب وفد بنی حنیفة)
ثمامہ اپنے وطن یمامہ واپس تشریف لائے اورقریش کےلیے گیہوں کی برآمد بندکردی۔ قریش کو تو جان کے لالے پڑگئے انہوں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں خط لکھا کہ ’’آپ دوسروں کو صلہ رحمی کی ہدایت فرماتے ہیں اور خود قطع رحمی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ‘‘ اس پر رسول اللہﷺ نے ثمامہ کی طرف یہ خط لکھوایا کہ ’’قریش کےلیے گیہوں کی برآمد میں مداخلت مت کرو۔ ‘‘(سیاسی وثیقہ جات اردو ترجمہ صفحہ48)
غیرحربی دشمنوں سے نیکی کاحق
پھراللہ تعالیٰ نےایسے دشمن جومسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کی شر انگیزی یا جنگ وغیرہ نہیں کرتے، قرآن شریف نےان کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف سے معاملات طے کرنےکی تعلیم دی اور فرمایا:
لَا یَنۡہٰٮکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ۔ (الممتحنة: 9)
اللہ تمہىں ان سے منع نہىں کرتا جنہوں نے تم سے دىن کے معاملہ مىں قتال نہىں کىا اور نہ تمہىں بے وطن کىا کہ تم اُن سے نىکى کرو اور اُن سے انصاف کے ساتھ پىش آؤ ىقىناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے۔
رسول اللہﷺ نےایک دفعہ مشرک مہمان کی خود مہمان نوازی کرتے ہوئےاسے سات بکریوں کا دودھ پلایا۔ (ترمذی کتاب الاطعمہ)ایک دفعہ ریشم کا لباس تحفہ آیا تورسول کریمؐ نے حضرت عمرؓ کو دےدیاجوانہوں نے اپنے مشرک بھائی کو بطورتحفہ دے دیا۔ (بخاری کتاب اللباس)اسی طرح رسول اللہﷺ نےحضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کواپنی مشرکہ والدہ سے حسن سلوک کا حکم دیا۔ (بخاری کتاب الادب)
مقاتلین یعنی حربی دشمنوں سے جنگ کا حکم
لیکن ایسے دشمنان اسلام جنہوں نےآپﷺ کے خلاف اعلان جنگ کیااور اس میں پہل کی ان سےجنگ کرنے کا حکم دیاگیاجیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ۔ (البقرہ: 191)
اور اللہ کى راہ مىں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کرتے ہىں اور زىادتى نہ کرو ىقىناً اللہ زىادتى کرنے والوں کو پسند نہىں کرتا۔
لیکن پھر بھی ان سے بھی زیادتی کرنے سے منع فرمایا۔
حالت جنگ میں دشمنوں کے حقوق کا خیال
رسول اللہﷺ نے زمانۂ جنگ میں بھی دشمنوں کے حقوق کا ہرطرح خیال رکھا اور اخلاق کریمانہ کا اس قدر شاندار نمونہ دکھایا کہ آج کی مہذّب اقوام بھی اسی پر عمل کرتی نظر آتی ہیں۔ آنحضورﷺ قیام امن کےلیے ہروقت کوشاں رہتے تھےاس کےلیے انہوں نے کفار مکہ، یہود و نصاریٰ سے معاہدات صلح میں پہل کی اور جنگ و جدل سے بچنے کی ہر ممکن کوشش فرماتے۔ آپﷺ فرمایاکرتے:
’’لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللّٰهَ العَافِيَةَ‘‘
(صحيح البخاري کتاب التمنی بَابُ كَرَاهِيَةِ تَمَنِّي لِقَاءِ العَدُوِّ)
یعنی دشمن سے مڈبھیڑ ہونے کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت کی دعا مانگا کرواوراگر جنگ ناگزیر ہوجائے تو ڈٹ کر مقابلہ کرو۔
چنانچہ ہرچند کے آپؐ صلح کے خواہاں ہوتے تھےلیکن جہاں جنگ کرنا ناگزیر ہوگیا تو مدافعتی جنگ بھی کی اور اس میں بھی اپنے مخالفین سے رحمت و شفقت کا سلوک فرمایا اور دشمنوں کے حقوق قائم فرمائے۔
صلح کی پیش کش قبول کرنے کاحق
بانیٔ اسلامﷺ نے دشمنوں کے حقوق میں سے ایک حق یہ قائم فرمایا کہ اگر دشمن لڑائی پر آمادہ نہ ہو اورصلح کی پیشکش کرے تو اسے فوری قبول کرلینا چاہیے۔ جیساکہ قرآن شریف میں بیان ہے:
اِلَّا الَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ اِلٰی قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ اَوۡ جَآءُوۡکُمۡ حَصِرَتۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَنۡ یُّقَاتِلُوۡکُمۡ اَوۡ یُقَاتِلُوۡا قَوۡمَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَسَلَّطَہُمۡ عَلَیۡکُمۡ فَلَقٰتَلُوۡکُمۡ ۚ فَاِنِ اعۡتَزَلُوۡکُمۡ فَلَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ وَ اَلۡقَوۡا اِلَیۡکُمُ السَّلَمَ ۙ فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ سَبِیۡلًا۔ (النساء: 91)
سوائے ان لوگوں کے جو اىسى قوم سے نسبت رکھتے ہىں جن کے اور تمہارے درمىان عہد و پىمان ہىں ىا وہ اس حالت مىں تمہارے پاس آئىں کہ ان کے دل اس بات پر انقباض محسوس کرتے ہوں کہ تم سے لڑىں ىا خود اپنى ہى قوم سے لڑىں اور اگر اللہ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کر دىتا پھر وہ ضرور تم سے قتال کرتے پس اگر وہ تم سے الگ رہىں پھر تم سے قتال نہ کرىں اور تمہىں امن کا پىغام دىں تو پھر اللہ نے تمہىں ان کے خلاف کوئى جواز نہىں بخشا۔
اسی طرح فرمایا:
وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَہَا وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ (الانفال: 62)
اور اگر وہ صلح کے لئے جُھک جائیں تو تُو بھی اُس کے لئے جُھک جا اور اللہ پر توکل کر۔ یقیناً وہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
رسول اللہﷺ نے اپنی زندگی میں اسی پر عمل کیا۔ میثاق مدینہ، صلح حدیبیہ ودیگر معاہدات وغیرہ اس کے بہترین عکاس ہیں۔
سفارتی تعلقات کا حق اور احترام
دشمنوں کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کےساتھ سفارتی تعلقات قائم رکھے جائیں۔ ان کےسفیروں سے حسن سلوک کیا جائے اور ان کا خیال رکھاجائے۔ مدینہ کے اردگردقبائل سے اکثر معاہدات سفارتی تعلقات کے ذریعہ ہوئے۔ قبیلہ جہینہ، بنوزراعہ، بنوغفار، بنوضمرة، بنواشج وغیرہ سےسفراء کے ذریعہ معاہدات امن ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے سفارت کی تکریم اسلامی حکومت کی ذمہ داری قرار فرمائی اور اس کی خاص تلقین فرمائی کیونکہ اگر کوئی ملک کسی سفیر سے بدسلوکی یااسے قتل کرے تو اسے اعلان جنگ سمجھا جاتا ہے۔ جیساکہ جنگ موتہ کی وجہ بھی یہ تھی کہ حاکم غسان رومی گورنرشرحبیل بن عمروغسانی نے رسول اللہﷺ کے قاصدحضرت حارث بن عمیرؓ کوگرفتارکرکے شہید کردیاتھا۔
(سیرة النبیؐ از شبلی نعمانی حصہ اول صفحہ339)
قبل از اسلام سفیروں کا قتل منع نہیں تھا۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہﷺ نے جو سفیر پہلے بھیجا اس کے اونٹ کو قریش نے مارڈالااور قاصد کو بھی قتل کرناچاہا لیکن باہر والوں نے بچالیا۔
(سیرت النبیؐ از شبلی نعمانی حصہ اول صفحہ 363)
پھر آپﷺ نے اپنا سفیر حضرت عثمانؓ کو مقرر فرمایااور جب آپﷺ نے اپنے سفیرحضرت عثمانؓ کی شہادت کی افواہ سنی تو چودہ سو صحابہ سے آپؓ کا بدلہ لینے کے لیےبیعت رضوان لی۔
مسیلمہ کذاب کےدوسفیر(ابن نواحہ اور ابن اثال)رسول اللہﷺ کی خدمت میں مسیلمہ کذاب کا خط لےکر آئےاور گستاخانہ گفتگو کی تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’اگر یہ نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہ کیے جائیں تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا۔ ‘‘
(ابوداؤد کتاب الجہاد باب الرسل)
سفارتی تعلقات اور اس کے آداب کی آپﷺ کے نزدیک اتنی اہمیت تھی کہ اس کی خصوصی تاکید فرمایاکرتے۔ آپﷺ کایہ فیصلہ کہ سفیر قتل نہ کیاجائے، آج تک دنیا میں نافذ العمل ہے۔
ابو رافع قبطیؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے قریش نے رسول اللہؐ کی خدمت میں سفیر بناکر بھجوایا۔ رسول کریمؐ کو دیکھ کر میرے دل میں اسلام کی سچائی گھر کر گئی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میں قریش کی طرف لوٹ کر واپس نہیں جانا چاہتا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا میں عہد شکنی نہیں کرتا اور نہ ہی سفیر کو روکتا ہوں۔ آپ اس وقت بہر حال واپس چلے جاؤپھر اگربعد میں یہی ارادہ ہو کہ اسلام قبول کرنا ہے تو وہاں جاکر واپس آجانا۔ چنانچہ یہ قریش کے پا س لوٹ کر گئے اور بعد میں آکر اسلام قبول کیا۔
(ابوداؤدکتاب الجہاد باب 163 بحوالہ اسوۂ انسان کاملؐ )
آغازجنگ سے قبل دشمنوں کےحقوق
جنگ کےلیے جب فوجیں کسی جگہ پڑاؤ ڈالتی ہیں توحفاظتی نقطہ نظر سےاردگرد کے راستے بندکردیتی ہیں اوردشمن علاقے کے لوگوں کو لوٹنا اورراہزنی ان کا عام وطیرہ ہوتا ہے۔ لیکن رسول اللہﷺ نےدوران جہادان امور سے منع فرمایا اور یہاں تک اس کی تحدی فرمائی کہ اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کا جہادجہاد ہی نہیں۔ چنانچہ حضرت معاذ بن انسؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فلاں اور فلاں غزوہ کیا تو لوگوں نے پڑاؤ کی جگہ کو تنگ کر دیا اور راستے مسدود کر دیے تورسول اللہﷺ نے ایک منادی کو بھیجا جو لوگوں میں اعلان کر دے کہ جس نے پڑاؤ کی جگہیں تنگ کر دیں، یا راستہ مسدود کر دیا تو اس کا جہاد نہیں ہے۔
(سنن أبي داؤد کتاب الجہاد بَابُ مَا يُؤْمَرُ مِنَ انْضِمَامِ الْعَسْكَرِ وَسَعَتِهِ)
اسی طرح راستے کے درمیان میں نماز پڑھنے اور اس پر پڑاؤ ڈالنےسےبھی منع فرمایا۔ (مسنداحمدجزء3 صفحہ305)
جنگ سے پہلے تین شرائط کی پیشکش
فتح مکہ کے بعد حربی دشمنوں کے متعلق آپﷺ نے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا: ’’جب مشرکوں میں سے اپنے کسی دشمن سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان کو تین باتوں میں سے کسی ایک کی طرف بلاؤ۔ ان میں سے کسی ایک بات کو بھی وہ قبول کرلیں تو ان پر حملے سے رُک جاؤ۔
1۔ اوّل انہیں اسلام کی دعوت دو۔ اگر وہ قبو ل کرلیں تو ان پر حملہ کرنے سے گریز کرو۔
2۔ پھر ان کو اپنے وطن سے مسلمانوں کے دارالہجرت کی دعوت دیں اگر وہ اسے قبول کریں تو جو حقوق اور فرائض مہاجرین کے ہیں وہ ان کے ذمہ ہوں گے۔ اگر وہ ہجرت پر آمادہ نہ ہوں تو انہیں بتاؤ کہ خانہ بدوش مسلمانوں کی طرح ان کے حقوق ہوں گے۔ مومنوں پر جو احکام لاگو ہیں وہی ان پر بھی ہوں گے۔ اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں گے تو مال غنیمت وغیرہ سے حصہ پانے کے حقدار ہوں گے۔
3۔ اگر اس بات سے بھی انکار کریں تو ان سے اپنے مذہب پر قائم رہ کر اسلامی حکومت کی اطاعت کرتے ہوئے جزیہ کا مطالبہ کرو اگر وہ قبول کرلیں توتم بھی اسے قبول کرکے حملہ سے رُک جانا لیکن اگر وہ ان تمام شرائط صلح سے انکاری ہوں تو پھر اللہ کا نام لے کر ان سے جنگ کرو۔ ‘‘
(صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر بَابُ تَأْمِيرِ الْإِمَامِ بحوالہ اسوۂ انسان کامل)
دوران جنگ دشمنوں کےحقوق کی حفاظت
رسول اللہﷺ نے دوران جنگ بھی دشمنوں کے حقوق قائم فرمائے۔ جن میں سےایک اہم حق یہ ہے کہ اگر دوران جنگ دشمن کسی بھی سبب سے اپنے اسلام کا اظہارکردے تواس سے جنگ نہ کی جائے۔
اظہار اسلام پر جنگ سے دستبرداری
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوۡا وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا۔ (النساء: 95)
اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! جب تم اللہ کى راہ مىں سفر کر رہے ہو تو اچھى طرح چھان بىن کر لىا کرو اور جو تم پر سلام بھىجے اس سے ىہ نہ کہا کرو کہ تُو مومن نہىں ہے۔
رسول اللہﷺ نے اس حکم الٰہی پر بخوبی عمل کرکے اپنی امت کو نمونہ دیا۔ چنانچہ حضرت اسامہ بن زیدؓ نے ایک دفعہ ایک جنگ میں ایک دشمن کو پکڑا تو اس نے کلمۂ توحید پڑھ دیا۔ لیکن حضرت اسامہؓ نے اسے قتل کر دیا۔ جب آنحضورؐ کے سامنے اس واقعہ کاذکر ہوا توآپؐ نے فرمایا:اے اسامہ! تم نے اسے کلمہ ٔتوحید پڑھ لینے کے باوجود قتل کردیا؟ انہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسولؐ ! اس نے ہتھیار کے ڈر سے ایسا کہا تھا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا:
اَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہِ حَتَّی تَعْلَمَ اَقَالَھَا اَمْ لَا۔
کہ کیا تو نے اس کا دل چیر کے دیکھا تھا کہ اس نے دل سے کہا یا نہیں؟ آپؐ بار بار یہ بات دہراتے جاتے تھے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضورؐ کی اس ناراضگی سے سوچا کہ کاش میں آج سے قبل مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا۔
(بخاری کتاب المغازی باب اسامہ بن زیدؓ )
حضرت مقداد بن عمرو کندیؓ بدر کی لڑائی میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ اگر کسی موقع پر میری کسی کافر سے ٹکر ہو جائے اور ہم دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں اور وہ میرے ایک ہاتھ پر تلوار مار کر اسے کاٹ ڈالے، پھر وہ مجھ سے بھاگ کر ایک درخت کی پناہ لے کر کہنے لگے ’’میں اللہ پر ایمان لے آیا۔ ‘‘تو کیا یا رسول اللہ! اس کے اس اقرار کے بعد پھر بھی میں اسے قتل کر دوں؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ پھر تم اسے قتل نہ کرنا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ پہلے میرا ایک ہاتھ بھی کاٹ چکا ہے؟ اور یہ اقرار میرے ہاتھ کاٹنے کے بعد کیا ہے؟ آپﷺ نے پھر بھی یہی فرمایا کہ اسے قتل نہ کرنا، کیونکہ اگر تو نے اسے قتل کر ڈالا تو اسے قتل کرنے سے پہلے جو تمہارا مقام تھا اب اس کا وہ مقام ہو گا اور تمہارا مقام وہ ہو گا جو اس کا مقام اس وقت تھا جب اس نے اس کلمہ کا اقرار نہیں کیا تھا۔
(بخاری کتاب المغازی حدیث نمبر4019)
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ یمن سے حضرت علی بن ابی طالبؓ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں سونے کے چند ڈلے بھیجے۔ نبی کریمﷺ نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ اس پرایک شخص نے کہا کہ ان لوگوں سے زیادہ ہم اس سونے کے مستحق تھے۔ اور ایک اورشخص نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ سے ڈریے۔ آپؐ نے فرمایا کہ افسوس تجھ پر، کیا میں اس روئے زمین پر اللہ سے ڈرنے کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں؟ پھر وہ شخص چلا گیا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں کیوں نہ اس شخص کی گردن مار دوں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو۔ اس پر حضرت خالدؓ نے عرض کیا کہ بہت سے نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے دل میں وہ نہیں ہوتا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اس کا حکم نہیں ہوا ہے کہ لوگوں کے دلوں کی کھوج لگاؤں اور نہ اس کا حکم ہوا کہ ان کے پیٹ چاک کروں۔
(بخاری کتاب المغازی بَابُ بَعْثِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، وَخَالِدِ بْنِ الوَلِيدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، إِلَى اليَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الوَدَاعِ)
اسی طرح حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب کسی قوم پر چڑھائی کرتے تو اس وقت تک کوئی اقدام نہ فرماتے جب تک صبح نہ ہو جاتی، جب صبح ہو جاتی اور اذان کی آواز سن لیتے تو رک جاتے اور اگر اذان کی آواز سنائی نہ دیتی تو صبح ہونے کے بعد حملہ کرتے۔
(بخاری کتاب الجہاد والسیر باب دعاء النبی الی الاسلام والنبوة)
پس رسول اللہﷺ کا یہ اسوۂ حسنہ تمام مسلمانوں کے لیے قابل تقلید ہے کہ جو شخص اپنے اسلام کا اظہار کرے اورمسلمان ہونے کا اقرار کرے تواسے مسلمان سمجھنا چاہیے اور اس سے کافروں والا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔
پناہ کا حق
پناہ دینایاامان دینا معاہدے کی ہی ایک قسم ہے۔ اور یہ حق بانیٔ اسلام نے قرآنی حکم کے مطابق دشمنوں کو عطافرمایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ (التوبة: 6)
اور مشرکوں مىں سے اگر کوئى تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے۔
یہ پناہ خواہ میدان جنگ میں ہو یا حالت امن میں۔ اس کااحترام لازم ہے۔ رسول کریمؐ نے تومسلمان عورت کی دی ہوئی پناہ کا بھی پاس رکھا۔ حضرت امّ ہانی بنت ابی طالبؓ نے فتح مکہ کے موقع پر رسول کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ ہبیرہ کے بیٹے (جعدہ) کو پناہ دے چکی ہیں۔ جبکہ حضرت علیؓ اس کے خلاف ہیں اورکہتے ہیں کہ میں اسے قتل کیے بغیرنہیں رہوں گا۔ اس پررسول کریمؐ نے فرمایا اے ام ہانیؓ ! جسے تم نے پناہ دےدی اسے ہماری طرف سے بھی پناہ ہے۔
(بخاری کتاب الجزیة باب امان النساء)
اسی طرح فتح مکہ سے قبل ابو سفیان کوحضرت عمرؓ کی سرکردگی میں مسلمانوں کے گشتی دستے نے پکڑ لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ اس موقع پرحضرت عمرؓ نے دشمن اسلام ابو سفیان کو قتل کرنا چاہا لیکن آنحضرتؐ اسے پہلے ہی امان دےچکے تھے کہ ابوسفیان بن حرب کسی کو ملے تو اسے کچھ نہ کہا جائے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 4صفحہ 90)اسی طرح حضرت عباسؓ نے بھی ابو سفیان کو پناہ دی۔
صفوان بن اُمیّہ جو ایک حربی مشرک تھا فتح مکہ کے بعدفرار ہوگیا۔ اس کے چچا عمیر بن وہبؓ نے رسول اللہؐ سے اس کے لیے امان طلب کی۔ رسول اللہﷺ نے اسے بخوشی امان عطا فرمائی۔
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭