عفو و در گزر…آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اُسوۂ حسنہ کی روشنی میں
تقریر صداقت احمد، مبلغ انچارج جرمنی برموقع جلسہ سالانہ جرمنی 2021ء
الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔ (آل عمران:135)
وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصہ کو دباجانے والے اور لوگوں سے درگزرکرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
عفو عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معانی معاف کرنے،بخش دینے،درگزرکرنےاور بدلہ نہ لینے کے ہیں۔ کسی کی زیادتی اوربرائی پر انتقام کی قدرت و طاقت رکھنےکے باوجود انتقام نہ لینا اور معاف کر دینا ہی حقیقی عفو کہلاتا ہے۔ عفو کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی معاف کردے خواہ طبیعت اس پر آمادہ نہ بھی ہو اور اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ دلی خوشی کے ساتھ معاف کرے اور ممکن ہو توقصوروار کے ساتھ کچھ احسان کا معاملہ بھی کرے۔
اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنہ میں سے ایک نام ’’العفو‘‘بھی ہےیعنی وہ ذات ہے جو گناہوں سے درگزر کرنے والی،گناہوں کو مٹانے والی اور ان کے بد اثرات کو زائل کرنے والی ہے۔ بندوں کو بھی حکم ہے کہ وہ اپنے آپ کو اخلاق ربانی سے متصف اور مزین کرنے کی کوشش کریں۔ عفو کی صفت کا دائرہ صفت غفور سے زیادہ وسیع ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی میں عفو کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں :’’دوسری قسم اُن اَخلاق کی جو ایصالِ خیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلا خُلق ان میں سے عفو ہے یعنی کسی کے گناہ کو بخش دینا۔ اس میں ایصالِ خیر یہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے وہ ایک ضرر پہنچاتا ہے اور اس لائق ہوتا ہے کہ اس کو بھی ضرر پہنچایا جائے، سزا دی جائے،قید کرایا جائے، جرمانہ کرایا جائے یا آپ ہی اس پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ پس اس کو بخش دینا اگر بخش دینا مناسب ہو تو اس کے حق میں ایصال خیر ہے اس میں قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے۔
الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (آل عمران:135) وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ (الشورى:41)
نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہیں۔ بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو۔لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخش دے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو۔ یعنی عین عفو کے محل پر ہو۔نہ غیر محل پر تو اس کا بدلہ پائے گا۔‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ351)
حضرات!عفو و درگزر انسانی اخلاق و اوصاف میں سے ایک نہایت ہی بلند پایہ اور عالی وصف ہے۔معاف کرنے سے دلوں سے کینہ، بغض، نفرت اورکدورت دور ہوتی ہیں،محبتیں پروان چڑھتی ہیں، انتقام لینے کا جذبہ ٹھنڈا پڑتا ہے، نفس کی اصلاح میں مد د ملتی ہےاور معاشرے میں سنجیدگی،امن و سکون اور پیار ومحبت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔اگر انتقام اور بدلہ لینے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو اس سےدنیا کا امن و سکون ختم ہو تا ہے۔ معاف کرنے والوں کو اللہ پسندکرتا ہے اور ان کا شمار اپنے محبوب بندوں میں کرتا ہےاور ایسا شخص لوگوں کی نظروں میں بھی مکرم اور قابل تعریف ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے ذاتی معاملات میں عفو و درگزر، اغماض و چشم پوشی سے کام لینے سے دل و دماغ اور افکار و خیالات پر نہایت عمدہ اور مثبت اثر پڑتاہے۔
قران کریم اور احادیث میں متعدد مقامات پر عفو و درگزر سے کام لینے کی تلقین اور اس خلق سے متصف افراد کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے سورت آل عمران میں فرماتا ہے:
فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ ۔ (آل عمران:160)
(ترجمہ)پس اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کی وجہ سے تو ان کے لئے نرم ہو گیا۔ اور اگر تو تند خو اور سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گرد سے دور بھاگ جاتے۔پس ان سے درگزر کر اور ان کے لئے بخشش کی دعا کر…۔
سورت الاعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
خُذِ الۡعَفۡوَ وَ اۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡجٰہِلِیۡنَ۔ (الاعراف:200)
یعنی عفو اختیار کر اور معروف کاحکم دے اور جاہلوں سے اعراض کر
سورت النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنۡ تُبۡدُوۡا خَیۡرًا اَوۡ تُخۡفُوۡہُ اَوۡ تَعۡفُوۡا عَنۡ سُوۡٓءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیۡرًا۔ (النساء:150)
یعنی اگر تم کوئی نیکی ظاہر کرو یا اسے چھپائے رکھو یا کسی برائی سے چشم پوشی کرو تو یقیناً اللہ بہت درگزر کرنے والا (اور) دائمی قدرت رکھنے والا ہے۔
حضرات! غصے کو پی جانا اور قصوروار کا قصور معاف کرتے ہوئے اس سے درگزر کرنا بڑی ہمت کا کام ہے اور اس خُلق کو اپنانے والوں کو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں بہت سے انعامات سے نواز تاہے۔
جب ہم پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کی سیر تِ طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو عفو ودر گزر کا خلق آپؐ کی سیرت میں بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ آپؐ خدا تعالیٰ کی صفت’’عفو‘‘ کے کامل مظہر تھے۔ ساری زندگی آپ نے خدا کے احکام خذالعفو وامر بالعرف،
وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ
اور
دَعۡ اَذٰٮہُمۡ
کو حرز جان بنائے رکھا اور ایسے عفو و درگزر کا نمونہ دکھایا جو فقیدالمثال ہے۔ عفو بھی ایسا جو نہ صرف بر محل تھا بلکہ خاص طورپر ایسے وقت میں ظاہر ہوا جب آپ کو انتقام اور بدلہ لینے کی طاقت اور قوت بڑی شان کے ساتھ حاصل تھی لیکن قربان جائیں آپ کی ذات اقدس پر کہ آپ نے ہمیشہ صبر و تحمل، حلم و بردباری، عفو و درگزر اوررحمت کے پہلو کو اپنائے رکھااور کبھی انتقام کی پالیسی کو اختیار نہیں کیا۔ جو بھی آپ کے دربار میں معافی کا خواستگار بن کر آیا خالی ہاتھ نہ لوٹا۔ آپ نے عفو و درگزر کی ایسی روشن اور درخشندہ مثالیں قائم فرمائی ہیں کہ جن کا ذکر سن کر ہر شخص چاہے اس کا تعلق کسی مذہب و ملت سے ہو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
آنحضرت ﷺ کے عفوودرگزر کے بارے میں حضرت عائشہ ؓگواہی دیتے ہوئے فرماتی ہیں: ’’نبی کریم ﷺ نے کبھی اپنی ذات کی خاطر اپنے اوپر ہونے والی کسی زیادتی کا انتقام نہیں لیا‘‘
حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے آنحضرت ﷺ کے بارے میں توریت میں مذکور علامات پوچھی گئیں تو انہوں نے بیان کیا کہ’’وہ نبی تند خو اور سخت دل نہ ہو گا نہ بازاروں میں شور کرنے والا۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دے گابلکہ عفو اور بخشش سے کام لے گا‘‘۔
حضرت خدیجہ ؓ کے صاحبزادے ہند جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر تربیت رہے ہیں ان کا بیان ہے کہ’’رسول اللہ ﷺ دنیا اور اس کی اغراض کی خاطر کبھی غصے نہیں ہوتے تھے… اپنی ذات کی خاطر نہ کبھی آپ غصے ہوئے نہ بدلہ لیا‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے فرمایا : جب میں نے جنت میں اونچے اونچے محلات دیکھے تو جبرئیل سے پوچھایہ کن لوگوں کےلیے ہیں!انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ ان لوگوں کےلیے ہیں جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرتے ہوئے انہیں معاف کردیتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس کے پاس اس کا بھائی معذرت خواہ ہو کر آئے تو اس کا عذر قبول کرے خواہ صحیح ہو یا غلط۔اگر ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض پر نہ آئے۔
(حاکم،کنز جلد3 صفحہ378)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی اور جو شخص دوسرے کے قصور معاف کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اور عزت دیتا ہے اور کسی کے قصور معاف کردینے سے عزت کم نہیں ہوتی۔(مسلم باب استحباب العفو)
حضرت معاذبن انس ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ تو قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھے اور جو تجھے نہیں دیتا اُسے بھی دے اور جو تجھے برا بھلا کہتا ہے اس سے تو درگزر کر۔
(مسند احمد بن حنبل)
حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک عرب نے ان سے ذکر کیا کہ جنگ حنین میں بھیڑ کی وجہ سے اس کا پاؤں آنحضرتﷺ کے پاؤں پر جا پڑا۔سخت قسم کی چپل جو میں نے پہن رکھی تھی اس کی وجہ سے آنحضرتﷺ کا پاؤں بری طرح زخمی ہوگیا حضورﷺ نے تکلیف کی وجہ سے ہلکا سا کوڑا مارتے ہوئے فرمایا: عبد اللہ! تم نے میرا پاؤں زخمی کردیا ہے اس سے مجھے بڑی ندامت ہوئی ہے ساری رات میں سخت بےچین رہا کہ ہائے مجھ سے یہ غلطی کیوں ہوئی۔ صبح ہوئی توکسی نے مجھے آواز دی کہ حضور ﷺ تمہیں بلاتے ہیں۔ مجھے اَور گھبراہٹ ہوئی کہ کل کی غلطی کی وجہ سے شاید میری شامت آئی ہے۔ بہر حال میں حاضر ہوا تو حضورﷺ نے بڑی شفقت سے فرمایا:کل تم نے میرا پاؤں کچل دیا تھا اور اس پر میں نے تم کوایک کوڑا ہلکا سامارا تھا اس کا مجھے افسوس ہے۔ یہ 80بکریاں تمہیں دے رہا ہوں یہ لو اور جو تکلیف تمہیں مجھ سے پہنچی ہے اس کو دل سے نکال دو۔(مسند دارمی باب فی سخاء النبیﷺ)
ایک موقعہ پر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ چند صحابہ کے ساتھ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:’’یارسول اللہ ہم مشرک تھے تو معزز تھے اور کوئی ہماری طرف آنکھ تک نہیں اٹھا سکتا تھا لیکن جب سے مسلمان ہوئے ہیں کمزور اور ناتواں ہوگئے ہیں اور ہم کو ذلیل ہو کر کفار کے مظالم سہنے پڑتے ہیں۔ پس یا رسول اللہؐ آپ ہم کو اجازت دیں کہ ہم ان کفار کا مقابلہ کریں۔‘‘آپ ﷺ نے فرمایا:
اِنِّیْ اُمِرْتُ بِالْعَفْوِفَلَا تُقَاتِلُوْا۔
یعنی مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عفو کا حکم ہے پس میں تم کو لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
ایک دفعہ زینب نامی ایک یہودی عورت نے بکری کی ران کے گوشت میں نہایت سریع الاثر زہر ملا کر آنحضرتؐ کی خدمت میں بھجوایا۔ پہلا نوالہ منہ میں ڈالتے ہی آپﷺ کو اس میں زہر کی موجودگی کا احساس ہو گیا۔ رسول کریمﷺ نے اس عورت کو بلایا اور پوچھا کہ تم نے اس گوشت میں زہر کیوں ملایا تھا۔ وہ عورت کہنے لگی۔ ہم نے سوچا اگر آپ سچے نہیں تو آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر سچے ہیں تو زہر آپ پر اثر نہیں کرے گا۔اب مجھ پر کھل گیا کہ آپ سچے ہیں اور میں یہاں موجود سب لوگوں کو گواہ ٹھہرا کر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتی ہوں۔ رسول کریم ﷺ نے اس عورت کو کمال شفقت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے معاف فرما دیا۔ آپؐ نے اپنی ذات کے لیے انتقام لینا پسند نہ فرمایا حالانکہ آخری عمر تک اس زہر کے اثر سے آپ تکلیف محسوس کرتے رہے۔ روایات میں آتا ہے کہ جب آپ آخری بیماری میں آخری سانس لے رہے تھے تو حضرت عائشہؓ سے فرمانے لگے’’اے عائشہ! مَیں اب تک اس زہر کی اذیت محسو س کرتا رہا ہوں جو خیبر میں یہودی عورت نے مجھے دیا تھا اور اب بھی میر ے بدن میں اس زہر کے اثر سے تکلیف اور جلن کی کیفیت ہے۔‘‘
مکہ میں ایک دفعہ شدید قحط پڑ گیا اور مکہ کے لوگ غذا اور غلہ کی قلت کے باعث شدید تکلیف کا شکار تھے۔ خصوصاً غرباء کا تو برا حال تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جان کے سخت دشمن تھے اور جنہوں نے ہمارے پیارے آقا ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو شدید تکالیف میں مبتلا رکھا تھا لیکن آنحضرت ﷺ اپنے دشمنوں کو تکلیف میں دیکھ کر بےچین ہو جاتے ہیں۔ اپنے مولیٰ سے ان کی تکلیف کے دور ہونے کے لیے صرف دعا ہی نہیں کرتے بلکہ ان جانی دشمنوں کی مالی امداد بھی کرتے ہیں اور کچھ چاندی ا ن کے لیے بھجواتے ہیں۔
جنگ بدر میں کافروں کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے اور 70 قید ی پکڑے گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے اور مکہ سے دور صرف اس مقصد کے لیے آئے تھے کہ مسلمانوں کی بیخ کنی کی جائے۔اب مسلمانوں کے پاس موقع تھا کہ ان دشمنوں سے ان کی زیادتیوں کا گن گن کا بدلہ لیتے۔ لیکن نہ ان سے بدلہ لیا جاتا ہے اور نہ انہیں ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ اس کے برعکس دربار نبوی سے یہ حکم صادر ہوتا ہے کہ ان قیدیوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا سلوک کیا جائے اور ان کے آرام کا پورا پورا خیال رکھاجائے۔ صحابۂ رسول جو اپنے آقا کی طرف سے آنے والے ہر حکم اور نصیحت پر عمل کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے اس شان کے ساتھ اس حکم پر عمل کرتے ہیں کہ تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔
ایک قیدی ابو عزیر بن عمیر کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے حکم کی وجہ سے انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے لیکن خود کھجور وغیرہ کھا کر گذارہ کر لیتے تھے اور کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ ان کے پاس اگر روٹی کا چھوٹا ٹکڑا بھی ہوتا تھا تو وہ مجھے دے دیتے تھے اور خود نہیں کھاتے تھے اور اگر میں کبھی شرم کی وجہ سے واپس کردیتا تو وہ اصرار کے ساتھ پھر مجھ کو دے دیتے تھے۔
حضرات ! ذرا غور فرمائیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں جنگی قیدیو ں کو قتل کردینے یا مستقلاً قید کر لینے کا رواج ہو۔ جہاں قیدیوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک ان کے دستور کا حصہ ہواور مزید یہ کہ حضرت عمرؓ جیسے کبار صحابی ان قیدیوں کے قتل کے حامی بھی ہوں۔ ان ساری باتوں کے باوجود ہمیں رحمت عالم حضرت محمد ﷺ کا خلق عفو اس شان کے ساتھ ظہور میں آتا نظر آتا ہے کہ آپ ان قیدیوں کو نہ صرف فدیہ لےکر رہا کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ نرم اور پرشفقت سلوک کی نصیحت بھی فرماتے ہیں۔
ان قیدیوں میں ایک شخص سہیل بن عمرو بھی تھا جو قریش کے سرداروں میں سے تھا اور اس کی زبان بہت تیز اور کلام بہت پُر اثر تھا یہ آنحضرت ﷺ کے خلاف تقاریر کیا کرتا تھا۔ اب وہ قید ہو کر مسلمانوں کے قبضہ میں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ اس کے اگلے دانت نکلوا دینے چاہئیں تاکہ یہ آنحضرت ﷺ کے خلاف فتنہ انگیز تقاریر نہ کرسکے۔ آنحضرت ﷺ نے اس تجویز کو ناپسند فرمایا اور اسے معاف کردیا اور فرمایا:عمر تمہیں کیا معلوم کہ خدا آئندہ اسے ایسے مقام پر کھڑا کرے جو قابل تعریف ہو۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقعہ پرسہیل مسلمان ہو گیا اور آنحضرت ﷺ کی وفات پر اس نے متزلزل لوگوں کو بچانے کے لیے اسلام کی تائید میں نہایت پراثر خطبے دیے جس سے بہت سے ڈگمگاتے ہوئے لوگ بچ گئے۔
آنحضرت ﷺ جب طائف کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے گئے، آپ کے ساتھ زید بن حارثہؓ بھی تھے۔ دس دن تک آپ طائف کے رؤساء کو اسلام کا پیغام پہنچاتے رہے۔بدقسمتی سے سب نے ہی آپ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کیا اور آپ کے ساتھ نہایت گستاخانہ اور تمسخرانہ سلوک کے بھی مرتکب ہوئے۔ اس شہر کے بدبخت رئیس عبدیا لیل نے واپسی پر شہر کے آوارہ لوگ آپؐ کے پیچھے لگا دیے۔ یہ لوگ آنحضرت ﷺ کے پیچھے شور و غوغا کرتے رہے اور مسلسل تین میل تک آنحضرت ﷺ پر پتھر برساتے رہے۔ آپ کو اس قدر زخمی کیا کہ آپ کا سارا بدن خون سے تر بہ تر ہوگیا۔ یہ دن آنحضرت ﷺ کی زندگی کا سخت ترین دن تھا۔
آپؐ نے اس ضعف اور کمزوری کی حالت میں عتبہ بن ربیعہ کے باغ میں پناہ لی اور ایک سایہ میں کھڑے ہو کر یہ دعا کی:
اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضَعْفَ قُوَّتِی وَ قِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَ ھَــــوَ انِی عَــــلٰی النَّاسِ اللھم یَا اَرْحَــــمَ الرّٰحِمِیْنَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّی۔
یعنی اے میر ے رب میں ضعف قوت اور قلت تدبیر اور لوگوں کے مقابلہ میں اپنی بے بسی کی شکایت تیرے ہی پاس کرتا ہوں۔ اے میرے خدا تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے اور کمزورں اور بے کسوں کا تو ہی نگہبان اور محافظ ہے اور تو ہی میر ا پروردگار ہے۔
عرش کے خدا نے آپ کی فریاد کو شرف قبولیت بخشا۔ اس کی غیرت اپنےنبی کے لیے حرکت میں آئی اور اس نے پہاڑوں کا فرشتہ آپ کے پاس بھیجا کہ اگر نبی کریم ﷺ اجازت دیں تو اس ظالم بستی کے لوگوں کو دو پہاڑوں کے درمیان رکھ کر ملیا میٹ کر دیا جائے۔
کوئی اور ہوتا تو ضرور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ظالموں سے ان کے ظلم کا انتقام لیتا۔ لیکن اس خلیق اور رحیم رسول ﷺکے حیرت انگیز عفو کی شان تو ذرا ملاحظہ فرمائیں۔ آپؐ اس ظاہر ہونے والے فرشتے کو فرماتے ہیں کہ نہیں نہیں ان لوگوں کو تباہ نہیں کرنا۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے ایسے لوگ پیدا کردے گا جو خدائے واحد کی عبادت کرنے والے ہوں گے۔
عبداللہ بن ابی بن سلول منافقین کا سردار تھا۔ بظاہر تو یہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتا تھا لیکن اس کا دل ایمان کی دولت سے خالی تھا۔ یہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ سخت کینہ اور بغض رکھتا تھا۔ جہاں بھی اسے موقع ملتا یہ اسلام اور آنحضرت ﷺ سے اپنی نفرت کا اظہار کرتااوراپنے قول و فعل سے اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا۔ اس کی فتنہ انگیزی سےسب مسلمان واقف تھے۔ رحمت عالم حضرت محمد رسول اللہﷺ نے اس کی گستاخیوں اور شوخیوں کو کمال صبر سے برداشت کیا اور ہمیشہ ہی صرف نظر فرماتے رہے۔
ایک جنگ کے موقعہ پر تو اس نے گستاخی میں حد ہی کردی اور نبی کریم ﷺ کو نعوذ باللہ مدینہ کا ذلیل ترین شخص قرار دیا اور اپنے بارے میں یہ تعلیکی کہ وہ مدینہ کا معزز ترین شخص ہے اور یہ کہ وہ آنحضرت ﷺ کو مدینہ سے نکال دے گا۔ اس بات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورت المنافقون میں ان الفاظ میں کیا ہے:
یَقُوۡلُوۡنَ لَئِنۡ رَّجَعۡنَاۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ لَیُخۡرِجَنَّ الۡاَعَزُّ مِنۡہَا الۡاَذَلَّ۔(المنافقون:9)
اس کی اس گستاخانہ حرکت نے صحابہ کے دلوں کو زخمی کر دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس گستاخ رسول کو اس کی گستاخی کی سزا ملنی چاہیے۔ بعض ان میں سے اس کے قتل کا ارادہ کرنے لگے یہاں تک کہ عبداللہ کا اپنا بیٹا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے باپ کو اس حماقت کی پاداش میں قتل کرنے کی اجازت چاہی۔ لیکن قربان جائیں ہم اس پاک اور مقدس ہستی کے جس کا عفو بےمثل تھا۔ آپ نے نہ صرف یہ کہ عبداللہ کو سز ا دینے کی اجازت نہیں دی بلکہ بدستور اس کے ساتھ رحمت، شفقت اور احسان کا سلوک فرماتے رہے۔ جب وہ فوت ہوا تو آپؐ نے اپنی قمیص اس کے کفن کے لیے عنایت فرمائی اور باوجود حضرت عمر کی مخالفت کے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے تشریف لے گئے۔
اپنی توہین کرنے والے عبداللہ کے ساتھ آپ کا یہ سلوک جہاں ایک طرف آپ کی بے انتہا رحمت کا آئینہ دار ہے وہاں دوسری طرف ہمارے لیے مشعل راہ بن کر ہماری راہ نمائی کررہا ہے۔کتنے ہی بد قسمت ہیں وہ لوگ جو آنحضرت ﷺ کے اس حسین اسوہ کو اپنانے کے بجائے محاربانہ کارروائیوں کے ذریعہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کے مقدس نام کو بدنام کرنے کی مذموم حرکتیں کر رہے ہیں۔
آنحضر ت ﷺ نے مکہ پرچڑھائی کے اراد ے کو بعض حکمتوں کی بنا پر خفیہ رکھا ہوا تھا اور اس کے لیے خاموشی سے تیاری ہو رہی تھی۔اس دوران ایک صحابی حاطب بن بلتعہ نے مکہ جانے والی ایک عورت کے ذریعہ قریش کو خط لکھ کر یہ اطلاع بھجوادی کہ آنحضرت ﷺ کا لشکر تیار ہے یہ معلوم نہیں کہاں کا قصد ہے مگر تم اپنا بچاؤ کر لواور میرا مقصد اس خط سے تم پر ایک احسان کرنا ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی رسول اللہﷺ کو اس مخبری کی اطلاع کردی۔ آپ نے گھوڑ سواروں کا ایک دستہ حضرت علی ؓکی سرکردگی میں اس عورت کے تعاقب میں بھیجا اور وہ یہ خط واپس لے آئے۔ اب رسول کریم ﷺ نے حاطب کو بلا کر پوچھا تم نے یہ کیا کیا۔ حاطب نے سچ سچ کہہ دیا کہ یا رسول اللہؐ میں قریش میں سے نہیں ہوں مگر اس خط کے ذریعے میں قریش پر احسان کرنا چاہتا تھاتاکہ وہ مکے میں میرے گھر بارکی حفاظت کریں۔
حضرت عمرؓ اس مجلس میں موجود تھے۔ اُنہوں نے کہا:یارسول اللہؐ! مجھے اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ مگر جانتے ہو وہ رحیم و کریم رسول ﷺ کیا جواب دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں :نہیں نہیں حاطب سچ کہتا ہے اسے کچھ نہ کہو۔
حضرت عمر ؓنے عرض کیا یا رسول اللہؐ! اس نے مومنوں کے ساتھ خیانت کی ہے مجھے اس کی گردن مارنے دیجیے۔ آپؐ نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا:عمر تم جانتے نہیں یہ شخص جنگ بدر میں شامل ہواتھا اور عرش کا خدا جو اصحاب بدر کے حالات سے خوب واقف ہے ان کے حق میں فرماتا ہے:
اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّۃُ
کہ جو چاہو کرو تمہارے لیے جنت واجب ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے بدریوں کے دلوں میں گناہ کی ایسی نفرت ڈال دی ہے کہ بالارادہ ان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہو سکتا۔
اس رؤف و رحیم رسول ﷺ کی شفقت بے پایاں کا یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھ کر حضرت عمرؓ بے اختیار رونے لگے۔ ان کی حیرانی بجا تھی کہ اپنی زندگی کے اہم، نازک ترین اور تاریخ ساز موڑ پرکوئی بھی فاتح اپنے مقصد کی راہ میں حائل کسی بھی روک کو قطعاً برداشت نہیں کیا کرتا۔ ایسے مواقع پر تو سابقہ خدمات کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی اور آئندہ خطرے سے بچنے کے لیے کم از کم احتیاط یہ سمجھی جاتی ہے کہ ایسے قومی مجرم کوزیر حراست رکھا جائے۔ لیکن دیکھو اس دربار عفو و کرم کی شان تو دیکھو جس سے حاطب کے لیے بھی مکمل معافی کا اعلان جاری ہوا۔
ابو سفیان قریش کے سرداروں میں سے تھا اور اسلام کا سخت دشمن تھا مسلمانوں کے خلاف اس کے جرائم کی فہرست بہت لمبی تھی۔ یہ ابو سفیان ہی تھا جو غزوہ احد کے موقع پر
اُعْلُ ھُبَل اُعْلُ ھُبَل
اور
لَنَا عُزَّی وَلَا عُزَّی لَکُم
کے نعرے لگا تا تھا۔ فتح مکہ سے قبل جب حضرت عمرؓ کی سرکردگی میں مسلمانوں کا ایک دستہ گشت کر رہا تھا تو انہوں نے ابوسفیان کو پکڑ لیا اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت عمر ؓنےاس دشمن اسلام کو قتل کرنا چاہا لیکن آنحضرت ﷺ تو اس کے لیے پہلے سے امن کا اعلان کر چکے تھے کہ ابوسفیان بن حرب کسی کو ملے تو اسے کچھ نہ کہا جائے۔
حضرات! آپ فاتحین عالم کے اس دستور سے واقف ہوں گے جس کا نقشہ قرآن کریم میں یوں بیان ہوا ہے:
اِنَّ الۡمُلُوۡکَ اِذَا دَخَلُوۡا قَرۡیَۃً اَفۡسَدُوۡہَا وَ جَعَلُوۡۤا اَعِزَّۃَ اَہۡلِہَاۤ اَذِلَّۃً ۚ وَ کَذٰلِکَ یَفۡعَلُوۡنَ۔(النمل:35)
کہ شہروں میں داخلے کے وقت آبادیوں کو ویران اور ان کے معزز مکینوں کو بے عزت اور ذلیل کر دیا جاتا ہے۔
تاریخ عالم کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فاتحین کے ہاتھوں مفتوح قوم کو ذلیل کیا گیا۔ ان کے گھروں اور قلعوں کو مسمار کردیا گیا۔ ان کے اموال اور جائیدادوں کو بے دریغ لوٹا گیا۔کہیں ہمیں انسانی کھوپڑیوں کے مینار دکھائی دیتے ہیں تو کہیں دلوں کو ہلا دینے والی ظلم و بربریت کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔ فاتحین عالم کے برعکس فتح مکہ کے موقع پر ہمیں آنحضرت ﷺ کے خلق کی وہ عظیم الشان فتح نظر آتی ہے جو مفتوح قوم کے ساتھ حسن سلوک، عفو، رحم اور احسان سے عبارت ہے۔اس دن نہ کسی کو ہلاک کیا گیا اور نہ ہی کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے ہاں اس دن ہمیں ایسے پر شوکت مینار نظر آتے ہیں جو آنحضرت ﷺ کے عفو عام اور رحمت تام سے روشن کیے گئے۔
حضرات!حضرت یوسف علیہ السلام نے تو اپنے بھائیوں کو معاف کیا تھا لیکن ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے خون کے پیاسے دشمنوں کےنا قابل معافی جرائم سے درگزر کرتے ہوئے عام معافی کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا:
إذْهَبُوْا فَأَنْتُمْ الطّلَقَاء لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم
کہ جاؤ تم آزاد ہو آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔
یہ فتح در اصل آپ کے اخلاق کی فتح تھی جس نے آپ کے اہل وطن کے دل جیت لیے۔اس موقع پر دس ایسے اشخاص تھے جن کے بھیانک جرموں کی بنا پر انہیں آنحضرت ﷺ نے واجب القتل قرار دیا تھا۔ ان میں سے جو بھی آنحضرت ﷺ کے دربار میں معافی کا طالب بن کر آیا اسے معاف کر دیا گیا۔
عبداللہ بن سعد بن ابی سرح جب حضرت عثمانؓ کی پناہ میں آکر معافی کا طالب ہو اتو اسے معاف کردیا گیا۔ وہ مسلمان ہو گیا لیکن اپنے سابقہ جرموں کی وجہ سے شرمندہ تھا اور آنحضرت ﷺ کے سامنے آنے سے کتراتا تھا۔ اس رحیم و کریم اور بلند حوصلہ رسول نے اسے محبت بھرا پیغام بھجوایا کہ اسلام اس سے پہلے کے گناہ معاف کردیتا ہے۔
ان واجب القتل لوگوں میں سے ایک ھبار بن الاسود بھی تھا جو کہ آپ ﷺ کی پیاری صاحبزادی حضرت زینبؓ کا قاتل تھا۔جب وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور رحم کی بھیک مانگتے ہوئے عرض کیا کہ آپ کے عفو اور رحم کا خیال مجھے آپ کے پاس لایا ہے۔ عفو و رحم کے پیکر نے اپنی بیٹی کے قاتل سے درگزر فرمایا اور کمال حوصلے سے اس کو معاف کردیا۔
عکرمہ بن ابی جہل جو ساری زندگی آپؐ کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو تنگ کرتا رہا۔ آپؐ پر جنگیں مسلط کیں۔ مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روکا۔ صلح حدیبیہ کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ فتح مکہ کے موقع پر امن کے عام اعلان کے باوجود ہتھیار نہ ڈالے اور حرم میں خون ریزی کا مرتکب ہوا۔ جب آپؐ کے دربار میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے نہ صرف اس کو معاف فرما دیا بلکہ آپ دشمن قوم کے اس سردارکے احترام کے لیے کھڑے بھی ہوگئے اور اس پر شفقت فرمائی۔وہ آپؐ کے اس حسن سلوک کی وجہ سے بے اختیار کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیااور بقیہ ساری عمر اسلام کی خدمت میں گزار دی۔
حضرت حمزہؓ کو شہید کرنے والے وحشی اور اسی طرح حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی ہند کو بھی آنحضرت ﷺ نے عالی ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف فرما دیا۔اور یوں ہمیشہ کے لیے ان کے دل جیت لیے۔اور آپؐ کی فتح بھی دراصل دلوں کی ہی فتح تھی۔ ایسا عفو ودرگزر کا نمونہ کہ جس کی مثال تاریخ عالم سے ملنا ممکن نہیں۔
معزز حاضرین و ناظرین ! معاشرتی زندگی میں باہم پیار و محبت اوراُخوّت و بھائی چارے کی فضا کے قیام کےلیے عفوو درگزر نہایت درجہ اہم خُلق ہے۔اِس کےمطلب اور مفہوم کے علاوہ اِس کے بارے میں قرآنِ کریم سے ارشاداتِ ربانی آپ کی خدمت میں پیش کیے گئے۔اِسی طرح ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ کی سیرتِ طیبہ سے آپ کے اُسوۂ حسنہ کی چند مثالیں بھی پیش کی گئیں۔اِن کی روشنی میں جب ہم اپنا اپناجائزہ لیتے ہیں اور اپنا محاسبہ کرتے ہیں تو ہمیں اپنے عمل میں بہتری کی بہت گنجائش نظر آتی ہے۔ ہم نے سنا کہ آپ ﷺ تو اپنے جانی دشمنوں تک کو بھی معاف کر دیا کرتے تھےلیکن ہم میں سے بعض اپنے نہایت قریبی بلکہ رحمی رشتے داروں تک کے قصور معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ بڑے دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی ماں کا دودھ پینے والے اور ایک ہی صحن میں کھیلنےوالے بعض بہن بھائیوں کی آپس میں رنجشیں اور ناراضگیاں چل رہی ہیں اورسالہا سال سے آپس میں قطع تعلق کیے بیٹھے ہیں۔پس ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کریں اور درگزر سے کام لیں۔اپنا حق چھوڑ دیں لیکن اپنے بھائی کو اپنے حق کےلیے نہ چھوڑیں۔ خود سے کوئی غلطی ہو جائے تو معذرت کر لیں اور معافی مانگ لیں۔ دوسرا معافی کا طلب گار ہو تو کھلے دل سےاُسے معاف کر دیں۔اِس عظیم خُلق کے حوالے سے کسی نے کیا خوب کہا ہے :
نُسخہ بڑا ہے کیمیا یہ آزمانا چاہیے
جنگ ہو اپنوں سے گر تو ہار جانا چاہیے
عفو اور درگزر کرنا سنّتِ ابرار ہے
معاف کرنا اور غصے کو دبانا چاہیے
دل کو اپنے صاف کر کے اور ضد کو چھوڑ کر
گرکوئی چاہے منانا، مان جانا چاہیے
اپنے حق کی ہی طلب رکھنا کوئی خوبی نہیں
فرض اپنا جان کر رشتہ نبھانا چاہیے
پھول الفت کے سارے اور کہتا ہے حریم
دل کے باغیچے میں اِن کو بھی لگانا چاہیے
اب آخر پر خاکسار امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاکیزہ کلمات اِس دعا کے ساتھ پیش کر کے اپنی تقریر کو ختم کرتا ہےکہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِن نصائح پر عمل کرنے کی کما حقہ توفیق عطا فرمائے۔ آپ علیہ السلام اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو۔ کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ۔نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازہ سے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہوسکتا۔کیا ہی بد قسمت ہے وہ شخص جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں۔تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ سے دو بھائی۔تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بد بخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا۔سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں۔‘‘
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 12)
٭…٭…٭