اُس نے یہ فیصلہ فرمایا کہ عیسیٰؑ کا بھی دوسرے نبیوں کی طرح رفع ہوا ہے
امام الزماں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’افسوس ہمارے مخالف حضرت عیسیٰؑ کو دوبارہ لاتے ہیں۔ نہیں سمجھتے کہ مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کو فخر مشابہت حاصل ہو نہ یہ ذلّت کہ کوئی اسرائیلی نبی آوے تا اُمّت اصلاح پاوے۔
علاوہ اس کے یہ نہایت بیہودہ خیال ہے کہ ایسے لغو اعتقاد پر زور دیا جاوے جس کی خدا کی کتاب میں کوئی نظیر نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھنے کی درخواست کی گئی جیسا کہ قرآن شریف میں مذکور ہے۔ مگر وہ یہ کہہ کر نامنظور کی گئی کہ
قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا(بنی اسرائیل :94)۔
تو کیا عیسیٰؑ بشر نہ تھا کہ اُس کو بغیر درخواست کے آسمان پر چڑھایا گیا۔ پھر قرآن شریف سے تو صرف رفع اِلی اللّٰہ ثابت ہے جو ایک روحانی امر ہے نہ رفع الی السماء اور یہودیوں کا اعتراض تو یہ تھا کہ جو شخص لکڑی پر لٹکایا جاوے اُس کا رفع روحانی دوسرے نبیوں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف نہیں ہوتا اور یہی اعتراض رفع کرنے کے لائق تھا۔ پس قرآن شریف نے کہاں اس اعتراض کو دفع کیا ہے یعنی اس تمام نزاع کی بنیاد یہ تھی کہ یہودی کہتے تھے کہ عیسیٰؑ مصلوب ہوگیا ہے اور جو شخص مصلوب ہو اُس کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوتا اس لئے عیسیٰؑ کا اور نبیوں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف رفع روحانی نہیں ہوا۔ لہٰذا وہ مومن نہیں ہے اور نہ نجات یافتہ ہے اور چونکہ قرآن اِس بات کا ذمہ وار ہے کہ پہلے جھگڑوں کا تصفیہ فرماوے۔ لہٰذا اُس نے یہ فیصلہ فرمایا کہ عیسیٰؑ کا بھی دوسرے نبیوں کی طرح رفع ہوا ہے۔ خدا نے تو ایک جھگڑے کا فیصلہ کرنا تھا۔ پس اگر خدا تعالیٰ نے ان آیتوں میں یہ فیصلہ نہیں کیا تو پھر بتلاؤ کہ کس مقام میں یہ فیصلہ کیا۔ کیانعوذ باللہ اس طرح کی بدفہمی خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہو سکتی ہے کہ جھگڑا تو یہود کی طرف سے روحانی رفع کا تھا اور خدا یہ کہے کہ عیسیٰؑ مع جسم دوسرے آسمان پر بیٹھا ہے۔ظاہر ہے کہ نجات کیلئے مع جسم آسمان پر جانا شرط نہیں صرف روحانی رفع شرط ہے۔
پس اس جگہ اس جھگڑے کے فیصلہ کیلئے یہ بیان کرنا تھا کہ نعوذ باللہ عیسیٰؑ لعنتی نہیں ہے بلکہ ضرور رفع روحانی اس کو نصیب ہوا ہے۔ ماسوا اس کے قرآن شریف میں جو رفع کے پہلے توفّی کا لفظ لایا گیا ہے۔یہ صریح اس بات پر قرینہ ہے کہ یہ وہ رفع ہے جو ہر ایک مومن کو موت کے بعد نصیب ہوتا ہے۔ اور توفی کے یہ معنی کرنا کہ زندہ آسمان پر حضرت عیسیٰؑ اٹھائے گئے یہ بھی یہودیوں کی طرح قرآن شریف کی تحریف ہے۔ قرآن شریف اور تمام حدیثوں میں توفّی کا لفظ قبض رُوح کے بارہ میں استعمال پاتا ہے۔ کسی مقام میں ان معنوں پر استعمال نہیں ہوا کہ کوئی شخص مع جسم زندہ آسمان پراُٹھایا گیا۔
ماسوا اس کے ان معنوں سے تو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ قرآن شریف میں عیسٰیؑ کی موت کا کہیں ذکر نہیں اور اس نے کبھی مرنا ہی نہیں کیونکہ جس جگہ اور جس مقام میں حضرت عیسیٰؑ کی نسبت توفّی کا لفظ ہوگا وہاں یہی معنی کرنے پڑیں گے کہ مع جسم آسمان پر چلا گیا یا جائیگا۔ پھر موت اس کی کس طرح ثابت ہوگی۔
علاوہ اس کے اگر دنیا میں دوبارہ انسان آسکتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو یہودیوں کے سامنے شرمندہ کیوں کیا۔ کیونکہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعویٰ مسیحیت کیا تو یہودیوں نے یہ حجّت پیش کی تھی کہ تجھے ہم سچا مسیح نہیں مان سکتے کیونکہ ملا کی نبی کی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ سچا مسیح جس کے آنے کا وعدہ دیا گیا ہے جب وہ آئے گا تو ضرور ہے کہ اُس سے پہلے الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آوے۔ مگر الیاس نبی اب تک دوبارہ دنیا میں نہیں آیا اِس لئے ہم تجھے سچا نہیں سمجھ سکتے۔ تب حضرت مسیح نے اُن کو یہ جواب دیا کہ وہ الیاس جو آنے والا تھا وہ یوحنّا نبی ہے۔ جس کو اہل اسلام یحییٰ کر کے پکارتے ہیں۔ اِس جواب پر یہود سخت ناراض ہوگئے اور حضرت عیسٰیؑ کو مفتری اور کاذب قرار دیا چنانچہ اب تک وہ اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ قیامت کے دن ہمیں پوچھے گا کہ اس شخص کو تم نے قبول نہیں کیا تو ہم ملا کی نبی کی کتاب اُس کے آگے رکھ دیں گے اور عرض کریں گے کہ یا الٰہی جبکہ تو نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ جب تک الیاس نبی دوبارہ دنیا میں نہ آوے وہ سچا مسیح جس کا بنی اسرائیل سے وعدہ ہے مبعوث نہیں ہوگا۔ پس الیاس نبی دوبارہ دنیا میں نہ آیا اس لئے ہم نے اس شخص کو قبول نہ کیا۔ ہمیں یہ نہیں کہا گیاتھا کہ جب تک الیاس کا مثیل نہ آوے سچا مسیح نہیں آئے گا۔ بلکہ ہمیں کہا گیا تھا۔ کہ سچے مسیح کے پہلے سچ مچ الیاس کا دوبارہ آنا ضروری ہے سو وہ بات پوری نہ ہوئی۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ17تا 19)