دنیا میں پائیدار امن کے قیام کے لیے آنحضورﷺ کے بیان فرمودہ زرّیں اصول اور نمونہ (قسط سوم۔ آخری)
دشمنان اسلام کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ یہود اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی کو ناجائز طور پر اچھالتے اور اُسے ہوا دیتے ہیں جبکہ تاریخ اسلام میں محفوظ بے شمار واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح رسول اللہﷺ،خلفائے راشدین اور مسلمان قاضی یہود اور مسلمانوں کے مابین پیدا ہونے والے اختلافات کوقرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں پورے انصاف کے ساتھ حل فرماتے رہے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’بنو نظیر، مدینہ میں آباد ایک یہودی قبیلہ تھا۔یہ قبیلہ غزوۂ خندق کے دوران اپنے مسلم اتحادیوں سے غداری اور دھوکا دہی کی پاداش میں مدینہ سے نکالا جا چکا تھا۔ اگر چہ طالمود کی تعلیم کے مطابق ان کے اس سنگین جرم کی سزا صرف اور صرف موت تھی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر شفقت فرماتے ہوئے سزائے موت کی بجائے صرف مدینہ بدر کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ چنانچہ وہ مدینہ سے ہجرت کرکے خیبر کے مقام پر چلے گئے جہاں انہوں نے خیبر کے نام سے ایک نہایت مضبوط قلعہ تعمیر کیا۔ طاقت مجتمع کر لینے کے بعد انہوں نے خلاف اسلام سرگرمیوں کا از سر نو آغاز کردیا۔ اس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ مختصر یہ کہ ان کا یہ جارحانہ پن بالآخر غزوۂ خیبر کے ساتھ ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ جنگ سے پہلے جب مسلمانوںکی طرف سے نگران دستے کبھی کبھار اس علاقہ میں بھجوائے جاتے تھے تو ان میں سے ایک دستے نے ان کی ایک نو آبادی میں لوٹ کھسوٹ کی اور پھلوں کے کچھ باغات کو بھی نقصان پہنچایا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد تکلیف پہنچی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ نیز یہ تنبیہ بھی فرمائی کہ’’اللہ تعالیٰ تمہیں اہلِ کتاب کے گھروں میں ان کی اجازت کے بغیر داخل ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح ان کی خواتین کو قتل کرنا یا باغات میں سے پھل توڑنا بھی تمہارے لئے حرام ہے۔‘‘ (سنن ابودائو۔ کتاب الخراج والفیٔ والامارۃ باب فی تعشیر اھل الذمۃ اذا اختلفوا بالتجارۃ، روایت نمبر 3050۔دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، الطبعۃ الاولیٰ، اپریل 1999ء)مختصر یہ کہ ان کی شدید مذہبی عداوت کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عدلِ مطلق کی قرآنی تعلیم پر سختی سے کاربندرہے۔‘‘(عدل،احسان اور ایتاء ذی القربیٰ صفحہ 146۔اسلام انٹرنیشنل ٹلفورڈ یوکے 2009ء)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب سیرت خاتم النبیین ؐ میں رسول کریمﷺ کی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ’’محکمۂ قضاء و عدالت میں مسلم اور غیر مسلم رعایا کے حقوق قانونی رنگ میں تو مساوی تھے ہی مگر عملاً بھی انصاف کا ترازو کسی طرف جھکنے نہیں پاتا تھا۔ چنانچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب بنو نضیر کی جلا وطنی کے موقعہ پر انصار اور یہود کے درمیان اختلاف پیدا ہوا یعنی یہودی لوگ انصار کی اولاد کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے اور انصار انہیں روکتے تھے تو اس پر آنحضرتﷺ نے مسلمانوں کے خلاف اور یہود کے حق میں فیصلہ فرمایا۔ (ابودائود کتاب الجہاد باب فی الاسیر برہ علی الاسلام )‘‘(سیرت خاتم النبیین ؐصفحہ 655۔ناشر نظارت نشرو اشاعت قادیان۔ 2004ء)
پس اسلام نے غیرمسلموں کے ساتھ نہ تو کبھی ناواجب سختی کی ہے اور نہ ہی اپنے ماننے والوں کو اس کی تعلیم دی ہے۔حق یہ ہے کہ اسلامی طرز حکومت کے مطابق چلنے والے معاشرے میں ہمیشہ اُن کے حقوق کا خیا ل رکھا گیااور اُن پر ہر قسم کے ظلم کو ناجائز قرار دیا جاتا رہا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ’’رسول کریمﷺ کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک ذمی کافر کو قتل کردیا۔ اس پر رسول کریمﷺ نے حکم دیا کہ اس مسلمان کو قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور فرمایا ذمیوں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔( نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ جلد 4صفحہ 336) اسی بنا پر امام یوسف نے کتاب الخراج میں اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ عہد نبویؐ اور زمانۂ خلافتِ راشدہ میں ایک مسلمان اور ذمی کا درجہ تعزیرات اور دیوانی قانون کے لحاظ سے بالکل یکساں تھا۔ اور دونوں میں کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا تھا۔(کتاب الخراج صفحہ108) ایک دفعہ خیبر کے یہودیوں کی شرارتوں سے تنگ آکر بعض مسلمانوں نے اُن کے کچھ جانور لوٹ لئے اور اُن کے باغوں کے پھل توڑ لئے۔رسول کریمﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ اجازت نہیں دی کہ تم رضا مندی حاصل کئے بغیر اہل کتاب کے گھروں میں گھس جاؤ۔ اسی طرح تمہارے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ تم اُن کی عورتوں کو مارو یا اُن کے باغوں کے پھل توڑو۔ (ابودائود جلد 2صفحہ 424)ایک دفعہ بعض صحابہؓ نے سفر کی حالت میں جبکہ انہیں بھوک کی تکلیف تھی کفار کی چند بکریاں پکڑ لیں اور ذبح کرکے اُن کا گوشت پکانا شروع کردیا۔ رسول کریمﷺ کو معلوم ہوا تو آپ نے ہانڈیاں اُلٹ دیں اور فرمایا کہ لوٹ کی ہر چیز مردار سے بدتر ہے۔ (ابن ہشام جلد 2صفحہ 188) ایک دفعہ مشرکین کے چند بچے لشکر کی لپٹ میں آکر ہلاک ہوگئے۔رسول کریمﷺ کو اس کا بڑا صدمہ ہوااور آپؐ نے فرمایا مشرکین کے بچے بھی تمہاری طرح کے انسان ہیں۔ اس لئے خبردار بچوں کو قتل مت کرو۔ خبردار بچوں کو قتل مت کرو۔(مسند احمد بن حنبل جلد 4صفحہ24)‘‘(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 536تا537)
پس عدل و انصاف اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے اہم اصول ہیں جن کے بغیر کسی بھی معاشرے میں حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔اسلامی معاشرے میں بسنے والی غیر مسلم رعایا کواسلام کے نظام عدل میں برابر شریک کیا گیاہے اور اُنہیں وہی حقوق حاصل ہیں جو ایک مسلمان کو دیے گئے ہیں۔مندرج بالا آیت کریمہ میں غیرحکومتوں اور غیر قوموں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کا بنیادی اصول بتایا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا بنیادی اصول ہے جس پر کاربند ہوکر بین الملکی اور بین الاقوامی تعلقات کو خوشگوار رکھا جا سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو ایک ایسا دل عطاکیا تھا جوساری مخلوق کے لیے سراسر رحمت تھا۔آپؐ کی زندگی کا ہر پہلو مخلوق خدا کی ہمدردی اور اُن کی خیرخواہی کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھا اورآپؐ کی جودوسخاسب کے لیے عام تھی۔ہرکوئی آپؐ کے حسن واحسان سے بہرہ ورہوتا اور ہر کسی کو اس چشمۂ رحمت سے فیضاب ہونے کا موقع ملتا۔آپﷺ کی لائی ہوئی تعلیم میں غیر قوموں کے ساتھ تمدنی تعلقات قائم کرنے کی نہ صرف ہدایت موجود ہے بلکہ ان کے ساتھ انصاف سے پیش آنے کی نصیحت بھی فرمائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
لَا یَنۡہٰٮکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ ۔(الممتحنۃ:9)
اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا کہ تم اُن سے نیکی کرو اور اُن سے انصاف کے ساتھ پیش آئو۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اسلام نے دشمنوں کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں پر بھی قیام امن کی خاطر بدی کے برابر بدلہ لینے کی اجازت دی ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تم عفوودرگزر سے کام لو تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہارا یہ عمل زیادہ پسندیدہ قرار پائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ ۔(الشوریٰ:41)
اور بدی کا بدلہ، کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے۔ پس جو کوئی معاف کرے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والاہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے ۔ یقیناً وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
معاہدوں کی پابندی
دنیا میں قیام امن کی راہ میں ایک اور بڑی رکاوٹ معاہدوں کی پاسداری نہ کرنا ہے۔ ترقی کے اس دَور میں بظاہر مہذب کہلانے والی بڑی بڑی حکومتیں کمزور ملکوں سے جو معاہدے کرتی ہیں اُس میں ایک تو انصاف سے کام نہیں لیتیں دوسرے جب اپنا مطلب نکل آئے تو اُن معاہدوں کو یک طرفہ طور پر ختم کرکے کمزور ملکوں کو شدید نقصان سے دوچار کردیتی ہیں۔ا ٓنحضورﷺ پر نازل ہونے والی تعلیم میں امن کے قیام کے لیے تمام قوموں کے سامنے یہ راہ نما اصول بیان کیا گیا ہے کہ ہر حال میں معاہدوں کی پابندی کرنی چاہیےخواہ اس کے نتیجے میںکچھ نقصان ہی کیوں نہ اُٹھانا پڑئے۔ اللہ تعالیٰ غیر قوموں کے ساتھ تعلقات کے سلسلہ میں معاہدے کی پاسداری کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:
وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا۔(بنی اسرائیل:35)
اور عہد کو پورا کرو یقیناً عہد کے بارہ میں پوچھا جائے گا۔
پس قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاہدہ کرنے کے بعد کسی ایسے فعل کے مرتکب نہ ہوں جو اِن کو اپنے عہدو پیمان سے دُور لے جانے والا ہو۔ اسلام نے عہدو پیمان کی پابندی کا اس قدرلحاظ رکھا ہے کہ اگر کسی مسلمان قوم کا کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ معاہدہ ہوجائے اور پھر اس غیر مسلم قوم کے خلاف کوئی دوسری مسلمان قوم اُنہیں مدد کے لیے بلائے تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہرگز اپنی مسلمان قوم کی مدد کو نہ جائیں اور ہر حال میں اپنے معاہدے کی پاسداری کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یُہَاجِرُوۡا مَا لَکُمۡ مِّنۡ وَّلَایَتِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡاۚ وَ اِنِ اسۡتَنۡصَرُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ فَعَلَیۡکُمُ النَّصۡرُ اِلَّا عَلٰی قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ۔(الانفال:73)
اور وہ لوگ جو ایمان لائے مگر انہوں نے ہجرت نہ کی تمہارے لئے اُن سے دوستی کاکچھ جواز نہیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کر جائیں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد چاہیں تو مدد کرنا تم پر فرض ہے سوائے اس کے کہ کسی ایسی قوم کے خلاف (مدد کا سوال) ہو جس کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہوچکا ہو۔ اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس پر گہری نظر رکھنے والاہے۔
اسلامی حکومت میں بسنے والی غیر مسلم رعایا کے بارے میں آنحضرتﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
مَنۡ قَتَلَ مُعَاہِدًا لَمۡ یَرِحۡ رَائِحَۃَ الۡجَنَّۃِ وَاِنَّ رِیۡحَھَا تُوۡجَدُ مِنۡ مَّسِیۡرَۃِ أَرۡبَعِیۡنَ عَامًا۔(صحیح البخاری کتاب الجھاد بَاب اِثۡمُ مَنۡ قَتَلَ مُعَاھِدًا بِغیۡرِجُرۡمٍ حدیث3166)
جس نے ایسے آدمی کو قتل کیا جس سے معاہدہ ہو، اس نے جنت کی خوشبو نہ سونگھی بحالیکہ جنت کی خوشبو تو ایسی ہے کہ چالیس برس کی مسافت پر بھی محسوس ہوتی ہے۔
اسی طرح سنن نسائی کی روایت میں رسول کریمﷺ کے یہ الفاظ بیان ہوئے ہیں:
مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًا مُعَاھِدَۃً بِغَیۡرِ حِلِّھَا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ الۡجَنَّۃَ ۔
(سنن النسائی کتاب القسامۃ، باب تعظیم قتل المعاہد)جس نے معاہد نفس کو ناحق قتل کیا، اللہ اس پر جنت کو حرام کردے گا۔
رسول اللہﷺ کا ایک اور ارشاد مبارک ہے کہ
مَنۡ ظَلَمَ مُعَاھِدًا اَوِنۡتَقَصَہٗ اَوۡ کَلَّفَہٗ فَوۡقَ طَاقَتِہٖ اَوۡ اَخَذَ مِنۡہُ شَیۡئًا بَغَیۡرِ طِیۡبِ نَفۡسِہٖ فَاَنَا حَجَیۡجُہٗ یَوۡمَ الۡقِیَامَۃِ ۔
جو مسلمان کسی ایسے غیر مسلم پر جس کے ساتھ اسلامی حکومت کا معاہدہ ہے کوئی ظلم کرے گا یا اسے کسی قسم کا نقصان پہنچائے گا یا اس پر کوئی ایسی ذمہ داری یا ایسا کام ڈالے گا جو اس کی طاقت سے باہر ہے یا اس سے کوئی چیز بغیر اس کی دلی خوشی اور رضامندی کے لے گا تو اے مسلمانو سُن لو کہ مَیں قیامت کے دن اس غیر مسلم کی طرف سے ہوکر اس مسلمان کے خلاف خدا سے انصاف چاہوں گا۔(بخاری۔کتاب الجہادبحوالہ سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمدؓ صفحہ650۔نظارت نشرو اشاعت قادیان۔2004ء)
پس جس طرح قرآن کریم نے مومن کے ارادۃً قتل کی سزا جہنم بیان کی ہے۔ اسی طرح آنحضورﷺ نے معاہد قوم کے فرد کو ناحق قتل کرنے کی سزا جنت سے محرومی قرار دی ہے اور اس طرح آپ کی تعلیم میں انسانی حقوق کو برابر رکھا گیا ہے۔ جب نجران کے عیسائی اسلامی حکومت میں شامل ہوئے تو آنحضرتﷺ نے انہیں اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے اُس پر عمل کی مکمل مذہبی آزادی عطا کی۔
معاہدہ یہ ہوا کہ وہ دو ہزار چادریں سالانہ مسلمانوں کو بطور جزیہ دیں گے نیز یمن میں خطرے کی صور ت میں تیس گھوڑے،تیس اونٹ، تیس ہتھیار ہر قسم کے یعنی تلوار،تیر،نیزے عاریتاً مسلمانوں کو دیں گے۔ جو مسلمان بعد استعمال واپس کردیں گے۔مسلمان ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کریں گے۔ان کے تمام مالکانہ حقوق مسلّم ہوںگے۔ان کا کوئی گرجا گرایا نہیں جائے گا، نہ ہی کسی اسقف یا کسی پادری کو بے دخل کیا جائے گا۔اور نہ ان کے حقوق میں کوئی تبدیلی یا کمی بیشی ہوگی، نہ ہی اُن کی حکومت اور ملکیت میں۔نہ انہیں ان کے دین سے ہٹایا جائے گا۔جب تک وہ معاہدہ کے پابند رہیں گے۔ان شرائط کی پابندی کی جائے گی اور ان پر کوئی ظلم یا زیادتی نہیں ہوگی۔(ابوداؤد کتاب الخراج باب اخذ الجزیہ والطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1صفحہ266)
انسانی مساوات کے ذریعہ امن کا قیام
دنیا میںبڑے بڑے فسادات کی ایک بڑی وجہ قومی تفاخرہے۔موجودہ دَور میں بظاہر Racismکو برا خیال کیا جاتا ہے اوراسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن دنیا کے اکثروبیشتر معاشروں میں Racismنہایت بھیانک شکل میں اپنا زہر گھول رہا ہے۔ جس کی وجہ سے انسانوں کے درمیان دُوریاں بڑھ رہی ہیں اور نفرت کی چنگاریاں شعلہ ٔ جوّالا کا روپ دھار تی جا رہی ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ Racismکے نتیجے میں انسانی امن کو پیش خطرات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’آج دنیا میں جتنے فسادات ہیں اور انسان کو انسان سے جتنے خطرات لاحق ہیں ان میں جو بھی محرکات کارفرما ہیں، ان میں قومی برتری کا احساس سب سے طاقتور اور خطرناک محرک ہے۔اس کو Racismیا Racialismکہاجاتا ہے۔ یہ Racismاگرچہ بظاہر ناپسند کیا جاتا ہے لیکن آج بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح نازی دور میں جرمنی میں ہوا کرتا تھا۔یہ Racismسفید بھی ہے اور سیاہ بھی۔ اور سفید قوموں کے خلاف جو افریقن ممالک میں نفرتوں کے لاوے ابلتے رہتے ہیں، اس کو Blackیا سیاہ فام Racismکہا جاتا ہے۔ افسوس ہے کہ اب تک دنیا اس بھوت کے چنگل سے آزاد نہیں ہوسکی۔
یہ کوئی ایسا پودا نہیں ہے جسے آسانی سے اکھاڑ پھینک دیا جائے لیکن سب اہل حق جو سچ بات کو دیکھنا اور پہچاننا جانتے ہیں ان کو علم ہے کہ باوجود ہر قسم کی تقریروں اور Racismکے خلاف باتوں کے جگہ جگہ Racismکی جڑیں مختلف شکلوں میں مغرب کے تمام ممالک میں بھی پائی جاتی ہیں اور مشرق کے تمام ممالک میں بھی پائی جاتی ہیں۔ کوئی دنیا کا خطہ ایسا نہیں جہاں نہ پائی جاتی ہوں۔ یہ ایسا زہر اور سخت جان پودا ہے کہ یہ معاشروں میں نہیں، فلسفوں میں بھی بڑی خاموشی کے ساتھ داخل ہوجاتا ہے۔ وہ ماہرین جو گہری نظر سے مغرب اور سفید فام روس اور چین کے تعلقات کا مطالعہ کرتے ہیں، خوب جانتے ہیں کہ دونوں مغرب اور سفید فام روس سفید Racismکو اشتراکیت پر ترجیح دیں گے اگر اشتراکیت کے پھیلاؤ کے ساتھ زرد فام چین اس دنیا پر غالب آجاتا ہے۔ دونوں ہی اپنی سفید فام برتری کو اس بات پر ترجیح دیں گے کہ اشتراکیت زرد فام چین سے متعلق ہوکر دنیا پر غالب آئے۔ کسی قیمت پر بھی وہ زرد فام چین کا دنیا پر غلبہ برداشت نہیں کرسکتے۔‘‘(عدل، احسان اور ایتاء ذی القربیٰ صفحہ 229تا230خطاب بر موقع جلسہ سالانہ یوکے 24؍جولائی 1988ء)
نبی کریمﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کے مطابق نسل پرستی کی ہر شکل نہایت مکروہ اور امن عالم کے لیے زہر قاتل ہے۔اسلامی تعلیم کے مطابق کوئی انسان اپنے خاندان، قبیلہ اور رنگ و نسل کی وجہ سے ممتاز نہیں ہوجاتااور نہ ہی پیدائشی طور پر کوئی انسان پاک یا ناپاک ہوتا ہے بلکہ بحیثیت انسان سب یکساں اور مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسانوں کے درمیان قوموں اور قبائل کا فرق صرف تعارف اور پہچان کے لیے ہے۔ ہاں البتہ اگر کوئی فرق ہے تو وہ تقویٰ اور پرہیز گاری کے اعتبار سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ۔(الحجرات:14)
اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا(اور) ہمیشہ باخبر ہے۔
بانیٔ اسلام حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ نے خطبہ حجۃالوداع کے موقع پر انسانی عظمت و اقدار کے منافی تمام جاہلانہ رسموں کو یکسر ختم کرتے ہوئے انسانیت کی سربلندی کے لیے ایک ایسا ضابطہ ٔحیات پیش کیا جو عظمت انسانی کو چار چاند لگانے والا ہے۔اُس منشور میں خاص طور پر پسماندہ طبقات کو اُس ذلت، پستی، ظلم، تشدد اور استحصال سے نجات دی گئی ہے جس کا وہ صدیوں سے شکار تھے۔آپؐ نے ان کمزور طبقات کو عزت وشرف کے اُس مقام پر لا کھڑا کیا جو دنیاوی طورپر معزز سمجھنے والوں کو حاصل تھا گویا تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ ایک ایسا عالمی چارٹر پیش کیا گیا جو برابری اور مواخات کے زرّیں اصولوں پر مبنی ہے۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے کائنات کے جوہر کاملﷺ کے ذریعہ دَورِجاہلیت کے تمام امتیازات کو ختم کرکے ہر انسان کو اُس کے اصل مقام پر فائز کردیا ہے۔ آنحضورﷺ نے یہ اعلان عام فرمایا کہ
یَا أَیُّھَاالنَّاسُ أَلَا اِنَّ رَبَّکُمۡ وَاحِدٌ وَاِنَّ أَبَاکُمۡ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضۡلَ لِعَرَبِیِّ عَلَی أَعۡجَمِیِّ وَلَا لِعَجَمِیِّ عَلَی عَرَبِیِّ لِأَحۡمَرَ عَلَی أَسۡوَدَ وَلَا أَسۡوَدَ عَلَی أَحۡمَرَ اِلَّا بِالتَّقۡوَی۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 411۔مؤلف ابوعبداللہ احمد بن حنبل۔ناشر دارالفکر بیروت روایت23536)اے لوگو! تمہارا ربّ ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔ اورکسی کالے کو کسی سرخ پر اور کسی سرخ کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے سوائے تقویٰ کے۔
اس ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’آنحضرتﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی عربی کو غیر عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ نہ ہی کسی غیر عربی کو عربی پر کوئی برتری ہے۔ آپﷺ نے سکھایا کہ کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے نہ ہی کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے۔ چنانچہ اسلام کی یہ واضح تعلیم ہے کہ تمام قوموں اور نسلوں کے لوگ برابر ہیں۔ آپؐ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ سب لوگوں کو بلا امتیاز اور بلا تعصب یکساں حقوق ملنے چاہئیں۔ یہ وہ بنیادی اور سنہری اصول ہے جو بین الاقوامی امن اور ہم آہنگی کی بنیاد رکھتا ہے۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ ،صفحہ 75)
اس طرح تاریخ عالم میں پہلی مرتبہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ہم پلہ قرار دے کر انسانی مساوات اور امن عالم کا ایسا منشور پیش کیا گیا جس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں پائی جاتی۔اسلام نے انسانوں کے درمیان پائے جانے والے تمام امتیازات کو ختم کرکے انہیںباور کرا دیاکہ قومی ونسلی تفریق کا مقصد باہمی معرفت و الفت کا حصول ہے، نہ کہ اجنبیت اور نفوز کا موجب۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اگر کسی کو کوئی شرف حاصل ہے تو وہ تقویٰ کی بنا پر ہے۔رسول کریمﷺنے صرف امن عالم کا منشور ہی پیش نہیں کیا بلکہ آپ کی تعلیم میں ایسے راہ نما اصول متعین فرمادیے گئے ہیںکہ جن پر عمل پیرا ہونے سے دنیا میں مستقل امن کا قیام ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ۔(الحجرات:12)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو!(تم میں سے ) کوئی قوم کسی قوم پر تمسخر نہ کرے۔ ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخرکریں)۔ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔ اور اپنے لوگوں پر عیب مت لگایا کرو اور ایک دوسرے کو نام بگاڑ کر نہ پکارا کرو۔ ایمان کے بعد فسوق کا داغ لگ جانا بہت بری بات ہے۔ اور جس نے توبہ نہ کی تو یہی وہ لوگ ہیں جو ظالم ہیں۔
دنیا کے اکثر معاشروں میں نسلی، لسانی، گروہی،علاقائی اور مذہبی برتری کی بناپراپنے سے کمتر سمجھے جانے والے لوگوں کا تمسخر اڑا نا اور انہیں اپنے سے حقیر اور کمتر خیال کرتے ہوئے اُن کے متعلق نازیبا الفاظ اورکلمات کا استعمال عام سی بات ہے۔ بعض علاقوں میں حقیر سمجھے جانے والے لوگوں اور قوموں کے متعلق مختلف قسم کےلطیفے بناکر اُن کی تحقیر کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی اکثریت احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہے۔اس طریق سے انسانی طبقوں میں بغض وعناد اور نفرت کی دیواریں کھڑی ہوجاتی ہیں اور دشمنیاں بڑھ جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے ان تمام باتوں سے سختی سے منع فرمایا ہے جو شرفِ انسانی کے منافی ہوں۔
حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیﷺ نے فرمایا:
اِنَّ مِنۡ أَرۡبَی الرِّبَا الۡاسۡتِطَالَۃَ عِرۡضِ المُسۡلِمِ بِغَیۡرِ حَق
(سنن ابوداؤد کتاب الأدب بَابٌ فِی الۡغِیۡبَۃِ)سب سے بڑا سود یہ ہے کہ انسان ناحق کسی کی عزت سے کھیلے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب مجھے معراج کرائی گئی تو میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے جو اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔ میں نے پوچھا اے جبریل! یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ وہ ہیں جو دوسرے لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتوں سے کھیلتے تھے۔
(سنن ابوداؤد کتاب الأدب بَابٌ فِی الۡغِیۡبَۃ)
جناب کونسٹن درجبل جارجیو (وزیر خارجہ رومانیہ) نے اپنی کتاب ’’ محمد‘‘میں رسول اللہﷺ کے لائے ہوئے انقلاب کو دنیا کا عظیم ترین انقلاب قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:’’عربستان میں جو انقلاب حضرت محمدؐ برپا کرنا چاہتے تھے وہ انقلاب فرانس سے کہیں بڑا تھا۔ انقلاب فرانس فرانسیسیوں کے درمیان مساوات پیدا نہ کرسکا مگر پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے انقلاب نے مسلمانوں کے درمیان مساوات قائم کردی اور ہر قسم کے خاندانی طبقاتی اور مادی امتیازات کو مٹا دیا۔‘‘(پیغمبر اسلام غیر مسلموں کی نظر میں،صفحہ 153)
مذہبی رواداری کے ذریعہ امن عالم کا قیام
تاریخ عالم اور مذاہب کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے رسول کریمﷺ کے ذریعہ مذہبی آزادی کی روایت قائم ہوئی اور آپؐ نے سب سے پہلے مذہبی رَواداری کا درس دیا۔اسلام کی امن پسندی کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسلام ایک تبلیغی دین ہے جس کی تعلیم دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ہے لیکن اس کے باوجود اسلام نے مذہب کے معاملہ میں کسی انسان پر کوئی پابندی یا قدغن نہیں لگائی بلکہ ہر انسان کو اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کا اختیار دیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ۔(الکافرون:7)
تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین۔
گویا اسلام نے مذہب کو ہرانسان کا ذاتی فعل قرار دیاہے۔اللہ تعالیٰ نے بانی اسلامﷺکے ذریعہ یہ اعلان عام فرمایا ہے کہ
الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ (الکہف:30)
حق وہی ہے جو تمہارے ربّ کی طرف سے ہو۔ پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کردے۔
اسلام نے مذہبی رواداری کے سلسلے میں جس کھلے دل کا مظاہرہ کیا ہے اس کی ادنیٰ سی مثال کسی دوسرے مذہب یا فرقے میںدکھائی نہیں دیتی۔ لیکن اس کے باوجود امن کے دشمن، اسلام کو بدنام کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔اس کے بالمقابل بانی اسلامﷺنے دشمنوں کی زیادتیوں کے باوجود اپنے ماننے والوں کوصبرو تحمل اور برداشت کادرس دیاہے اورانہیں عفو ودرگزر کا حکم دے کر اُن کے دلوں کو ہر انسان کے لیے نرم بنا دیا ہے تاکہ اُس کے اس پسندیدہ رویے سے معاشرے میں امن وسکون اور بھائی چارے کی فضا قائم کی جاسکے۔چنانچہ قرآن کریم کے ذریعہ سلامتی کے اس پیغام میں مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ غیرقوموں اور مذاہب والوں کی دشمنی کے باوجود،اُن کی تمام تر زیادتیوں اور تکلیفوں کے باوجود تم نے زیادتی سے کام نہیں لینا اور انصاف کوہاتھ سے جانے نہیں دینا۔
وَلَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ اَنۡ صَدُّوۡکُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اَنۡ تَعۡتَدُوۡا۔(المائدۃ:3)
اور تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تمہیں مسجدِ حرام سے روکاتھا اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کرو۔
ایک مرتبہ نجران کا عیسائی وفد مذہبی مباحثے کےلیے مدینہ آیا تو رسول کریمﷺ نے انہیں اپنی مسجد میں عبادت کی اجازت مرحمت فرمائی اور اس طرح مذہبی رواداری کی ایسی مثال قائم فرمائی جو اس سے پہلے مذاہب عالم میں مفقود تھی۔اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تفسیر کبیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’نجرا ن کے نصاریٰ کا ایک وفد رسول کریمﷺ کے پاس الوہیت مسیح کی تائید میں بحث کرنے کے لئے آیا مگر باوجود اس کے کہ وہ لوگ شرک کی تائید کے لئے آئے تھے جب اُن کی عبادت کا وقت آیا تو رسول کریمﷺ نے انہیں مسجد نبوی میں ہی اپنے طریق پر عبادت کرنے کی اجازت دے دی اور انہوں نے سب کے سامنے مشرق کی طرف منہ کرکے نماز ادا کی۔ (زادالمعاد جلد 2صفحہ 35و سیرۃ ابن حشام جلد اوّل صفحہ209)اس سلوک کو دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ رسول کریمﷺ لوگوں کی جانیں لینے کے لئے اور اُن پر ظلم کرنے کے لئے آئے تھے۔ جو جانیں لینے کے لئے آیا کرتا ہے کیا وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی مسجد میں غیر مذاہب والوں کو عبادت کی اجازت دے سکتا ہے اور مسجد بھی وہ جس کے متعلق آپ نے اٰخرالمساجد فرمایا ہے۔اور جس میں نماز پڑھنا دوسری مساجد کی نسبت بہت زیادہ قابل ثواب قرار دیا ہے۔ اس مسجد میں خدا تعالیٰ کے نبی ؐ کی موجودگی میں اور اُس نبی ؐ کی موجودگی میں جو خدا تعالیٰ کی توحید قائم کرنے کے لئے آیا تھا۔ نصاریٰ صلیبیں رکھ کر عبادت کرنا چاہتے ہیں اور آپ فرماتے ہیں کیا ہرج ہے بیشک کرلو۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 530)
اسی طرح مکہ کی فتح کے بعد طائف سے بنو ثقیف کا ایک وفد آیا تو حضور نبی کریمﷺنے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کی خاطر تواضح کا خاص اہتمام فرمایا۔اس پر بعض لوگوں نے سوال اُٹھایا کہ یہ تو مشرک لوگ ہیں ان کو مسجد نبوی میں نہ ٹھہرایا جائے کیونکہ قرآن کریم نے مشرکین کو نجس یعنی ناپاک قرار دیا ہے۔ اس پر حضور نبی کریمﷺنے فرمایا: اس آیت میں ظاہری ناپاکی کی بجائے دل کی ناپاکی کی طرف اشارہ ہے۔ (احکام القرآن للجصاصفحہ جلد3صفحہ109)
ایک فرانسیسی مؤرخ ارنسٹ رینان (Ernest Renan) لکھتا ہے:
’’In short, Mahomet appears to us a man amiable, sensible, faithful, and free from hatred. His affections were sincere; his character in general inclined to benevolence. When they took his hand in greeting, he responded cordially, and was never the first to let go. He saluted little children, and showed great tenderness of heart for women and the weak.’’Paradise,‘‘said he,’’is at the feet of mothers‘‘(Studies of Religious History by Ernest Renan, by William Heinemann London 1893,pg.175)
اس کامفہوماً ترجمہ یہ ہے کہ محمد(ﷺ) ہمارے سامنے ایک محبت کرنے والے، معقول، باوفا اور نفرت کے جذبات سے پاک انسان کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ آپ کی محبت پر خلوص تھی اور آپ کی طبیعت میں رحم کی طرف زیادہ جھکائو تھا۔ جب وہ (عرب کے لوگ) آپ کا ہاتھ مصافحہ کرنے کے لیے پکڑتے تو آپ نہایت گرمجوشی سے اس کا جواب دیتے اور کبھی پہلے اپنا ہاتھ نہیں چھڑاتے تھے۔ آپ چھوٹے بچوں کو سلام کرتے اور کمزورں اور عورتوں سے بہت زیادہ شفقت سے پیش آتے۔ آپ نے فرمایا:’’جنت مائوں کے قدموں تلے ہے۔‘‘
پیشوایان مذاہب کے احترام کا سبق
آنحضورﷺنے اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیا ہے کہ دنیا میںجہاں کہیں اللہ تعالیٰ کا کوئی فرستادہ یا رسول نازل ہوا ہے اُس پر ایمان لاؤ اور اُنہیں خدا تعالیٰ کا مقرب جانتے ہوئے اُن کی عزت کرو اوراپنے دل میں اُن کا احترام کرو تاکہ اس کے نتیجے میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے دلوں میں اچھے جذبات پیدا ہوں اور باہمی تعلقات خوشگوار رہیں۔سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے۔ خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میںیا کسی اور ملک میں۔ اور خدا نے کروڑ ہا دلوں میں ان کی عظمت بٹھا دی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کردی اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا۔یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اس اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے۔‘‘(تحفہ قیصریہ،روحانی خزائن جلد 12صفحہ 259)
اسی طرح آنحضورﷺ نے مذہبی بحثوں میں اختلاف کی صورت میں دوسرے مذاہب کی قابل احترام ہستیوں کے احترام کی تعلیم دی ہے۔یہ مذاہب کو مذاہب کے قریب لانے کے لیے ایک راہ نما اصول ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے دنیا میں امن کی کوششوں کو بہت تقویت ملے گی۔ ایک مرتبہ مدینہ میں ایک مسلمان اور یہودی کے مابین رسول خداﷺ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت کا معاملہ اٹھا تو آپؐ نے کمال فراخدلی اور عاجزی کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا:لَا تُخَیِّرُوۡنِیۡ عَلٰی مُوۡسٰییعنی مجھے موسیٰ ؑ پر فضیلت مت دو۔(بخاری کتاب الخصومات،باب مایذکر فی الاشخاص والخصومۃ بین المسلم والیہود، حدیث نمبر2411)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اسی طرح کے ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:’’آپ غیر مذاہب والوں کے احساسات کا بھی بے حد خیال رکھتے تھے۔ایک دفعہ حضرت ابوبکر ؓکے سامنے کسی یہودی نے کہہ دیا کہ مجھے موسیٰ ؑکی قسم جسے خدا نے سب نبیوں پر فضیلت دی ہے۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓنے اُسے تھپڑ مار دیا۔ جب اس واقعہ کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی تو آپ نے حضرت ابوبکر ؓ جیسے انسان کو زجر کی۔ غور کرو مسلمانوں کی حکومت ہے۔رسول کریمﷺپر حضرت موسیٰ ؑ کو ایک یہودی فضیلت دیتا ہے اور ایسی طرز کلام کرتا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓجیسے نرم دل انسان کو بھی غصہ آجاتا ہے اور آپ اسے طمانچہ مار بیٹھتے ہیں۔ مگر رسول کریمﷺ انہیں ڈانٹتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ اُسے حق ہے کہ جو چاہے عقیدہ رکھے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 531)
آنحضورﷺ کی بعثت کے اوّلین مقصدمیںتوحید باری تعالیٰ کا قیام اور اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت شامل ہیں۔ لیکن اس کے باوجود امن عالم کی خاطر آپؐ کے پیدا کرنے والے نے آپؐ کے ذریعہ یہ تعلیم نازل کی ہے کہ اپنے ماننے والوں کو مشرکوں کے بتوں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع فرمادیجئے۔ کیونکہ مسلمانوں کے اس عمل سے مشرکوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی اور اُن کے اندر بے چینی پیدا ہوگی جس سے معاشرے کا امن خراب ہوسکتا ہے۔ ا للہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ …۔(الانعام:109)
اور تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ورنہ وہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے اللہ کو گالیاں دیں گے۔
سوامی لکشمن پرشاد ایک نوجوان ہندومصنف تھے۔ آپ حصار(بھارت) سے ایک طبی رسالہ ’’آب حیات‘‘ بھی نکالتے تھے اور ’’ کرشن کنور‘‘کے نام سے اس کی ادارت کرتے تھے۔ آپ اپنی کتاب’’ عرب کا چاند‘‘ میں لکھتے ہیں:’’پیغامبرِ امن کے دل کی عمیق ترین گہرائیوں میں صلح وآشتی کے جذبات کا ایک بحربیکراں موجزن تھا مندرجہ ذیل دو باتیں بھی اسی بحر کی دو امن باش لہریں ہیں۔ نگارش معاہدہ کی خدمت حضرت علی کے سپرد ہوئی آپ نے حسب قاعدہ اسلامی
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
سے آغاز کیا تو سہیل بن عمرو معترض ہوا کہ عرب کے قدیم طرز نگارش کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے
بِاسۡمِکَ اَللّٰھُمَّ
سے شروع کرو۔ہم تمہارے اس اسلامی قاعدے کو تسلیم نہیںکرتے۔ حضور انور نے فرمایا اچھا علی جس طرح یہ چاہتے ہیں اسی طرح لکھ دو۔ حضرت علی نے قدیم روش کے مطابق معاہدہ کی پیشانی پر
بِاِسۡمِکَ اَللّٰھُمَّ
لکھ دیااس کے بعد معاہدہ کی شرائط میں جب حضور انور کا نام ’’محمد رسول اللہ ‘‘لکھا تو سہیل بن عمرو نے اس پر بھی اعتراض کیا کہ محمد رسول اللہ مت لکھ فقط محمدبن عبداللہ لکھو کہ یہی بات تو بنائے مخاصمت ہے اگر ہم محمد کو رسول اللہ تسلیم کرلیں تو پھر مصالحت ہی نہ ہوجائے۔ حضور انورؐ نے فرمایا سہیل تم میری تکذیب کرتے ہو مگر خدا کی قسم میں اللہ کا رسول ہوں اس کے بعد حضرت علی ؓسے فرمایا کہ رسول اللہ کے لفظ کو قلم زن کردو اور اس کی بجائے بن عبداللہ لکھ دو مگر حضرت علی کی محبت فراواں نے جو آپ کو حضور انور سے وابستہ کئے ہوئے تھی اس بات کو گوارا نہ کیا کہ وہ اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کے لفظ پر قلم پھیردے جب حضرت علی ؓ متامل نظر آئے تو حضور نے فرمایا کہ مجھے دکھائو کہ وہ لفظ کہاں ہے میں خود اس کو قلم زن کئے دیتا ہوں۔ حضرت علی نے اس مقام پر انگلی رکھ دی جہاں رسول اللہ کا لفظ لکھا ہواتھا اور رسول اللہ نے خود قلم اٹھا کر صلح وآشتی کی خاطر اس لفظ کو کاٹ دیا۔ آہ جذبہ مصالحت کا کس قدر فقید المثال نمونہ۔‘‘(عرب کا چاند از سوامی لکشمن پرشاد صفحہ 374مطبوعہ المطبعۃ العربیہ لاہور)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلمان کس قدر خوش قسمت قوم ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کی صورت میں ایک ایسا عظیم وجود اور راہ نما عطا فرمایاہے جواُن کی جسمانی اور روحانی زندگی کے لیے بہترین رول ماڈل ہے۔ آنحضورﷺ کی ذات اقدس تمام مخلوقات کے لیے سراپا امن وعافیت ہے جس کے انواروجمال جا بجا منکشف ہوکر ایک عالم کو منور کررہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کے ماننے والے اِن انواروجمال سے خود بھی فائدہ اٹھائیں اور دنیا میں قیام امن کے لیے آپ کی تعلیم پر خود بھی عمل پیرا ہوں اور اسے ساری دنیا میں پھیلانے کے لیے کوشش جاری رکھیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭