خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍ اکتوبر 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اُن دس افراد میں شامل تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت عطا فرمائی تھی

٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پرتمام صحابہ کا اجماع ہوا کہ کل انبیاء وفات پا گئے ہیں

٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو ضرور عمربن خطابؓ ہوتے

٭ حضرت عمرؓ کا درجہ صحابہ میں اس قدر بڑا ہے کہ بعض اوقات اُن کی رائے کے موافق قرآن شریف نازل ہو جایا کرتا تھا

٭ مکرم ڈاکٹر سید تاثیر مجتبیٰ صاحب (فضلِ عمر ہسپتال ربوہ) کی وفات پر ان کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍ اکتوبر 2021ء بمطابق 29؍اخاء1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 29؍ اکتوبر 2021ءکو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت صہیب احمد صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دس افراد کو جنت کی بشارت عطا فرمائی تھی ان میں حضرت عمرؓ کے علاوہ ابوبکرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ ، عبدالرحمن ؓبن عوف،سعدؓ بن ابی وقاص،سعیدؓ بن زید اور ابوعبیدہ بن جراح ؓ شامل ہیں۔حضرت ابوموسیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کےایک باغ میں تھا کہ وہاں حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمرؓ آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق میں نے اُنہیں جنت کی بشارت دی جس پر اُنہوں نے الحمدللہ کہا۔لیکن حضرت عثمان ؓ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو جنت کی بشارت دو باوجود ایک مصیبت کے جو اسے پہنچے گی۔حضرت عثمانؓ نے بھی الحمد للہ کہا۔ پھر کہا مصیبت سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ ہی سے مدد طلب کی جا سکتی ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک بار میں سویا ہوا تھاتو اپنے آپ کو جنت میں ایک محل کے پاس دیکھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ محل عمربن خطابؓ کا ہے۔ اُن کی غیرت کا خیال آتے ہی میں واپس چلا آیا۔ یہ سُن کر حضرت عمرؓ روئے اور کہا یا رسول اللہ ؐ!کیا میں آپؐ سے غیرت کروں گا۔آپؐ کیوں واپس آگئے برکت بخشتے۔حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علیین والوں میں سے کوئی شخص جنت والوں پر جھانکے گا تو اس کے چہرے کی وجہ سے جنت جگمگا اٹھے گی۔ حضرت ابوبکر ؓاور حضرت عمر ؓبھی ان میں سے ہیں ۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ انبیاء اور مرسلین کےعلاوہ جنت کے اوّلین اور آخرین کے تمام بڑی عمر کے لوگوں کے سردار ہیں ۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو ضرور عمر بن خطابؓ ہوتے۔حضرت عائشہؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایات ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے کوئی محدث ہے تو وہ عمربن خطابؓ ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ استعاروں سے کام لیتا ہے اور طبع ،خاصیت اور استعداد کے لحاظ سے ایک کا نام دوسرے پر وارد کر دیتا ہے۔ایک حدیث کے مطابق جس شخص کی روحانی حالت عمر ؓ کے موافق ہو گئی وہ ضرورت کے وقت پر محدث ہو گا۔ چنانچہ اس عاجز کو بھی ایک مرتبہ الہام ہوا تھا کہ انت محدث اللّٰہ۔ فیک مادة فاروقیة۔ یعنی تو محدث اللہ ہے تجھ میں مادۂ فاروقی ہے۔

حضرت ابوبکر ؓکے دور میں جنگ یمامہ میں جب ستّر حفاظِ قرآن شہید ہوئے تو حضرت عمرؓ نے حفاظت اور تدوین قرآن کی تجویز دی اور پھر زید بن ثابت ؓنے تدوین کا کام شروع کیا۔ حضرت ابوعبیدہ ؓکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجر صحابہ میں سے ابوبکرؓ، عمرؓ،عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، سعدؓ، ابن مسعودؓ،حذیفہؓ، سالمؓ، ابوہریرہؓ،عبداللہ بن سائبؓ، عبداللہ بن عمرؓاور عبداللہ بن عباسؓ کا حفظ ثابت ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض وحییں حضرت عمرؓ کی موافقت کی وجہ سے ہوئیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عمرؓ سے مروی تین موافقات کا ذکر ہے ۔ مقام ابراہیم ؑ کو نماز گاہ بنانے پر آیت

وَ اتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبۡرٰہٖمَ مُصَلّی

نازل ہوئی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیویوں کے پردہ کرنے کی تجویز دینے پر پردے کی آیت نازل ہوئی۔اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا بوجہ غیرت آپؐ کے متعلق ایکا ہونے پر حضرت عمرؓ نے اُن کو کہا کہ اگر تمہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طلاق دے دیں تو اُن کا ربّ تم سے بہتر بیویاں اُن کو بدلہ میں دے گا۔ اس پر آیت

عَسٰی رَبُّہٗۤ اِنۡ طَلَّقَکُنَّ اَنۡ یُّبۡدِلَہٗۤ اَزۡوَاجًا خَیۡرًا مِّنۡکُنَّ

نازل ہوئی۔صحیح مسلم میں منافقین کا جنازہ نہ پڑھنے اور سنن ترمذی میں شراب کی حرمت کے بارے میں حضرت عمر ؓکا وحی قرآنی سے موافقت کا ذکر ملتا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کا درجہ صحابہ میں اس قدر بڑا ہے کہ بعض اوقات ان کی رائے کے موافق قرآن شریف نازل ہو جایا کرتا تھا۔ اور ان کے حق میں یہ حدیث ہے کہ شیطان عمر ؓکے سائے سے بھاگتا ہے۔ دوسری یہ حدیث ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتا۔ تیسری یہ حدیث ہے کہ پہلی امتوں میں محدث ہوتے رہے ہیں اگر اس امت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمرؓ ہے۔

حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک صحابی عبد اللہ بن زید ؓ کو وحی کے ذریعہ سے اذان سکھائی۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے یہی اذان سکھائی تھی مگر بیس دن تک میں خاموش رہا اس خیال سے کہ ایک اور شخص رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات بیان کر چکا ہے۔سنن ترمذی کی ایک روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی خواب کا بتایا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ بات زیادہ پختہ ہے اور اب مزید تصدیق ہوگئی۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر گئےتو دیکھا کہ چٹائی پر لیٹنےکی وجہ سے چٹائی کے نشان آپؐ کی پیٹھ پر لگے ہوئے ہیں۔حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ قیصر اور کسریٰ تو آرام کی زندگی بسر کریں اور آپؐ تکلیف میں۔ آنجنابؐ نے فرمایا کہ مجھے اس دنیا سے کیا کام۔ میری مثال اس سوار کی سی ہے جو شدت گرمی کے وقت ایک اونٹنی پر جا رہا ہے اور جب دوپہر کی شدت نے اس کو سخت تکلیف دی تو وہ اسی سواری کی حالت میں دم لینے کے لیے ایک درخت کے سائے کے نیچے ٹھہر گیا اور پھر چند منٹ کے بعد اسی گرمی میں اپنی راہ لی۔

ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ ادا کرنے کی اجازت چاہی تو آپؐ نے اجازت دی اور فرمایا :اے میرے بھائی ہمیں اپنی دعا میں نہ بھولنا ۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ یہ ایسا کلمہ ہے کہ اگر مجھے اس کے بدلے میں ساری دنیا بھی مل جائے تو اتنی خوشی نہ ہو۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پرحضرت عمرؓ کو خیال پیدا ہوا کہ آپؐ زندہ ہیں اور دوبارہ تشریف لائیں گے اور آپؓ اس شخص کی گردن اڑانے کو تیار تھے جو اس کے خلاف کہے لیکن جب حضرت ابوبکر ؓ نے کل صحابہ کے سامنے یہ آیت پڑھی کہ

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ۔

تو حضرت عمر ؓفرماتے ہیں کہ میرے پاؤں کانپ گئے اور میں صدمے کے مارے زمین پر گر گیا ۔ پس اگر کوئی نبی زندہ موجود ہوتا تو یہ استدلال درست نہیں تھا ۔ حضرت عمرؓ کہہ سکتے تھے کہ حضرت مسیح ابھی زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیوں زندہ نہیں رہ سکتے مگر سب صحابہ کا سکوت اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت مسیح فوت ہو چکے ہیں۔

حضرت عمر ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل پیروی کیا کرتے تھے۔حجر اسود کو کہاکرتے تھے کہ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے ہرگز نہ چومتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کے قیدی آزاد کیے تو حضرت عمرؓ نے بھی ایک قیدی لڑکی کو فوراًآزاد کردیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی ایک جماعت کا نام لےکر حضرت حذیفہ ؓ کوبتایا کہ مجھے ان اشخاص کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کیا گیا ہے ۔ چنانچہ حضرت عمرؓ اپنے دور خلافت میں صرف اُس شخص کی نماز جنازہ ادا کرتے جس کی حضرت حذیفہؓ پڑھتے بصورت دیگراُس کی نماز جنازہ ترک کر دیتے۔حضرت عمرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو ظاہراً پورا کرنے کے لیے کِسریٰ کے کڑے ایک صحابی کو پہنادیے۔

حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک رؤیا سےاستدلال کیا کہ دنیاوی فتوحات اور عظمت جو مسلمانوں کو حضرت عمرؓ کے ذریعہ سے نصیب ہوئی وہ علم نبوی ؐکا ایک بچا ہواحصہ تھا جو حضرت عمر ؓکو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تھا۔ حضرت مالک بن اغوال ؓسے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓنے فرمایا اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے ،اپنے نفس کو تولو قبل اس کے کہ تمہیں تولا جائے اور سب سے بڑھ کر بڑی پیشی کے لیے تیاری کرو۔حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر ؓ کو اس وقت دیکھا جب آپؓ امیر المومنین تھے کہ آپؓ کے کندھوں کے درمیان قمیص میں چار چمڑے کے پیوند دیکھے۔ یہ ذکر ابھی آئندہ بھی چلے گا ان شاء اللہ۔

حضور انور نے آخر میں مکرم ڈاکٹر تاثیر مجتبیٰ صاحب (فضل عمر ہسپتال) ربوہ کی وفات پر ان کا ذکر ِخیرفرماتے ہوئے اُن کی جماعتی خدمات کا بھی تذکرہ فرمایا اور بعد نماز جمعہ اُن کا نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button