احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضورمنارۃ المسیح کی بنیادی اینٹ حضورکے دست مبارک سے رکھی جاوے تو بہت ہی مناسب ہے ۔فرمایاکہ …اب آپ ایک اینٹ لے آئیں میں اس پردعاکروں گا۔
ذرا ایک لمحہ……!
منارۃ المسیح کی تعمیروسنگ بنیادکی تفصیلات پرمبنی تاریخ اور خبروں کوغورسے پڑھا جائے تو اس میں ایک فقرے پرنظررک سی جاتی ہے ۔اور دل ودماغ حیرت واستعجاب کی وادی میں کھو ساجاتاہے ۔کہ اس فقرے کاکیامطلب ہوسکتاہے ؟ ایساکیوں ہوااور کیاہوا؟؟ اوروہ فقرہ یہ ہے کہ جب13؍مارچ کو بزرگان کا ایک وفد حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضرہواکہ آج مینارکاسنگ بنیادرکھاجارہاہے تواس پرجوحضورؑ نے فرمایا وہ بہت سارے سوال بھی پیداکرتاہے۔ابھی اوپر سنگ بنیادکے بارہ میں دی جانے والی خبرکا یہ حصہ ہم دوبارہ پڑھتے ہیں : ’’……بعدنمازجمعہ حضرت حجۃ اللہ المسیح الموعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضورہمارے مکرم دوست حکیم فضل الٰہی صاحب لاہوری۔مرزاخدابخش صاحب۔شیخ مولابخش صاحب ۔قاضی ضیاء الدین صاحب وغیرہ احباب نے عرض کی کہ حضورمنارۃ المسیح کی بنیادی اینٹ حضورکے دست مبارک سے رکھی جاوے تو بہت ہی مناسب ہے ۔فرمایاکہ ہمیں تو ابھی تک معلوم بھی نہیں کہ آج اس کی بنیادرکھی جاوے گی۔اب آپ ایک اینٹ لے آئیں میں اس پردعاکروں گا۔‘‘
اب نہ جانے یہ انتظامیہ کاتساہل تھا،لاپروائی تھی کوئی بھول چوک تھی لیکن تھی عجیب سی بات ………
بہرحال منارہ کاسنگ بنیادرکھاگیا۔ کافی گہری اورلمبی بنیادکنکریٹ سے مضبوط کی گئی۔اور تعمیرشروع ہوئی اور ساڑھے چارہزارروپے کی لاگت سے کوئی چھ سات فٹ تک تعمیرہوئی ہوگی کہ ایک اور روک پیداہوگئی ۔
منارۃ المسیح کی تعمیراورمقامی باشندگان کی طرف سے مخالفت
جب مینارکی تعمیرکے لیے جگہ کاانتخاب ہوگیاجوکہ مسجداقصیٰ کاصحن تھا جوکہ اس وقت قدرے غیرآباد ہونے کی وجہ سے گزرگاہ سی بن گئی تھی تو مخالف گروہ نے روڑے اٹکانے کی ایک کوشش کی ۔چنانچہ حضرت عرفانی صاحب ؓ لکھتےہیں :
’’حضرت کی خواہش یہ تھی کہ مسجد میں بنایاجاوے مگرمسجدکااحاطہ اس وقت بہت ہی چھوٹا تھاحضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کے مزارکے بالکل قریب اس کے احاطہ کی دیوارتھی باقی حصہ اگرچہ مسجدہی کاتھا مگرغیرآبادپڑے رہنے کے باعث وہ عام لوگوں کاگزرگاہ سابناہواتھا۔جب حضرت نے ارادہ فرمایاتواس حصہ کواحاطہ مسجدمیں شامل کرنے کاارادہ فرمایا۔بعض ہندوؤں نے جوہمیشہ سے مخالفت کے عادی تھے مخالفت کی لیکن آخرتائیدالٰہی نے انہیں خجل اورشرمندہ کیاوہ زمین مسجدکے ساتھ ملحق ہوگئی۔‘‘
(الحکم 14؍ فروری 1918ء نمبر 2 جلد 20صفحہ11-12)
تویہ وہ لوگ تھے کہ جن کی عقربی فطرت میں ہی مخالفت موجود تھی۔ جن کی آڑی ترچھی نظریں ہمیشہ تعاقب میں رہاکرتی تھیں کہ کب کوئی موقع ملے اوروہ کوئی ہنگامہ کوئی طوفان مخالفت کھڑاکریں۔ بظاہر نظر مقامی ہندویاکچھ سکھ ہوتے جن کی پشت پناہی شریکہ خاندان کرتایابعض ایک دو اور سرکردہ مقامی ہندو کررہے ہوتے تھے۔ بہرحال ایک گروہ نے ضلعی انتظامیہ میں شکایات کیں کہ یہاں جوایک منارہ بن رہاہے اس سے ہم مقامی ہمسایہ آبادی کے گھروں میں بے پردگی ہوگی اور ہماری Privacy متاثرہونے کاڈرہے لہذا اس مینارکی تعمیرروک دی جائے۔
Life of Ahmad میں موجودتفصیلات کے مطابق 6؍مارچ 1903ء کوبٹالہ سے ایک پولیس آفیسر نے مینار کی تعمیر کے خلاف ایک خفیہ رپورٹ بھیجی۔
17 اپریل 1903ء کو بڈھے شاہ، گھنیالعل، بورسنگھ، نارائن، اور دساورسنگھ وغیرہ نے انتظامیہ کے پاس اس مینارکی بابت شکایت کی کہ یہ مینارہمیں تکلیف اور نقصان دینے کے لیے تعمیرکیاجارہاہے ۔اس کے ساتھ انہوں نے ایک بڑے کاغذپر نقشہ کی صورت میں مینارکے ساتھ ان مکانات کوواضح کیاکہ جواس سے متاثرہوں گے اس لیے یہ میناریہاں سے کہیں اور تعمیرکیاجائے ۔
27اپریل 1903ء کوحکم چند،لبھورام، سالنگ رام، مرزاعلی شیربیگ،اور مرزا امام الدین نے انتظامیہ کودوبارہ مینارکی بابت شکایتی رپورٹ دی۔مؤخرالذکر دو اشخاص نے یہ بھی کہا کہ مسجدتوتمام مسلمانوں کے لیے وقف ہے ۔اس لیے اس مسجدکے اندر مرزاصاحب اپنی ایک عمارت تعمیرکررہے ہیں جوکہ ان کاحق نہیں ہے ۔
اس پرتحصیلداربٹالہ نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام سے اس کی بابت پوچھا تو آپؑ نے27اپریل 1903ء کوتحصیلدارکوجوتحریری جواب دیا وہ لائف آف احمدؑ کے مطابق یہ تھا:
Received your letter. You have enquired about the Minaret, so I have to state that the construction of the Minaret in a corner of our big mosque commenced about two months ago.The work of excavation actually commenced on March 3rd, 1903. Up till now the building has cost Rs. 1,100. The total expenditure, including the making of bricks, is Rs. 4300. The kiln was begun on April 22nd, 1901. All the people of Qadian knew that the Minaret would be built in the mosque. The complaint at this stage of construction is based only on personal enmity. The building of the Minaret does not interfere with anybody’s purdah. A Minaret goes up just like a pillar and there is no room on top for residence. No one lives on top. The authorities can visit the site themselves and see it. In the neighbourhood there exist already very high residential buildings. Their height is not less than that of a minaret. People are living in the upper stories of these high buildings. Of such are the following (1) Haveili of Deputy Shankar Das, deceased (2) Haveili of Mirza Nizam Din and Imam Din (3) Haveili of Mirza Sultan Ahmad (4) Haveili of Leekar Jhewar (5) Haveili of Lahna Singh Subeidar (6) Haveili of Sabir Ali Shah (7) Haveili of Mohd Ali Shah (8) Haveili of Nihal Singh (9) Haveili of Buddhei Shah Khatri (10) Haveili of Bishan Das Kalia (11) Haveili of Radha Abrol, which contains the post office (12) Haveili of Kanshi Shangari (13) Haveili of Gurbakhsh Khatri. These are all high buildings, from the tops of which the houses of the poor people are all exposed. The people are living in them. But the Minaret will only be a kind of thin pillar. No one can live on it. There is no possibility of interference with purdah. The poor people of this village do not even observe purdah. And the well-to-do people have their own high buildings which are not lower than minarets. In the end, I have to submit that the Minaret is attached only to the mosque, and a lamp will be fitted on it to provide light for the mosque.
(Life of Ahmad ,P572.573)
مرزا نظام الدین نے یکم مئی 1903ء کوانتظامیہ کودوبارہ توجہ دلائی اور یہ بھی لکھا کہ مرزاصاحب نے ایک نیافرقہ بنایاہواہے جوامن عامہ کے لیے بھی خطرہ ہے اور جو مینار بنایاجارہاہے اس کے گرنے سے انسانی جانوں کوبھی خطرہ لاحق ہے ۔
اس پر8مئی 1903ء کوگورنمنٹ کی طرف سے تحصیلدار بٹالہ موتی رام کو تحقیقات کے لیے قادیان بھیجاگیا۔جس کے قدرے متعصبانہ اور جانبدارانہ رویہ پراگلے ہی روزقادیان کے 30 احمدی افرادکی طرف سے ایک میموریل بھیجاگیا۔
٭…٭(باقی آئندہ)٭…٭