اسلام اور غیر مسلم رعایا (قسط چہارم۔آخری)
مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ کے بعدوہ تمام شبہات جو اسلام کے عادلانہ نظام سیاست و حکمرانی کے متعلق پیش کیے جاتے ہیں بے حقیقت نظر آئیںگے
اسلام آزادیٔ تبلیغ کا زبردست حامی ہے
اگرچہ بعض متعصّب طبیعتیں رکھنے والے علماء اس بات کے قائل ہیں کہ اسلام تبلیغ اور تبدیلیٔ مذہب کا قائل نہیں لیکن درحقیقت ان لوگوں کا یہ دعویٰ سراسر بےبنیاد اور اسلامی اصول رواداری کے بالکل خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار لوگوں کو حق بات سننے اور حق بات سنانے کی دعوت دی ہے اور اس سچائی پر دلیل لانے کا مطالبہ کیا ہے جس کے ماننے پر کوئی اصرار کرے۔ چنانچہ فرمایا:
قُلۡ ہَلۡ عِنۡدَکُمۡ مِّنۡ عِلۡمٍ فَتُخۡرِجُوۡہُ لَنَا ؕ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا تَخۡرُصُوۡنَ(الانعام:149)
(27) اگر تمہارے پاس کوئی علم کی بات ہے تو اُسے نکالئے۔ بات یہ نہیں بلکہ تم ظنّیات کی پیروی کررہے اور اٹکل پچو باتیں کرتے ہو۔
پھر فرمایا
نَبِّئُوْنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
یعنی اگر تم سچے ہو تو مجھے کوئی علمی دلیل بتاؤ۔ صرف بےبنیاد دعووں سے کام نہیں چلے گا۔(انعام رکوع 17)
پھر دوسری جگہ فرمایا’’اگر تم اس قرآن کی سچائی کے متعلق شک کرتے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا اور کہتے ہو کہ یہ خود اُس نے اپنے پاس سے بنالیا ہے تو اس کی سورت جیسی ایک سورت ہی بناکر پیش کرو اور اس کام کے لئے اپنے ساتھ ماہرین علماء کو بھی شامل کرلو۔‘‘(بقرہ رکوع 3)
پس اگر اسلام ممانعت تبلیغ کا حامی ہوتا تو مخالفین کو دلائل بیان کرنے اور مقابلہ کے لئے اپنا بہترین کلام پیش کرنے کی کیوں دعوت دیتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ فرمایا:
قُلۡ اِنَّمَاۤ اَعِظُکُمۡ بِوَاحِدَۃٍ ۚ اَنۡ تَقُوۡمُوۡا لِلّٰہِ مَثۡنٰی وَ فُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوۡا ۟ مَا بِصَاحِبِکُمۡ مِّنۡ جِنَّۃٍ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا نَذِیۡرٌ لَّکُمۡ بَیۡنَ یَدَیۡ عَذَابٍ شَدِیۡدٍ۔…قُلۡ اِنۡ ضَلَلۡتُ فَاِنَّمَاۤ اَضِلُّ عَلٰی نَفۡسِیۡ ۚ وَ اِنِ اہۡتَدَیۡتُ فَبِمَا یُوۡحِیۡۤ اِلَیَّ رَبِّیۡؕ اِنَّہٗ سَمِیۡعٌ قَرِیۡبٌ۔(سبا:47+51)
(28) ان مخاطبین سے کہو کہ میں دردِ دل کے ساتھ تمہیں ایک بات کی تلقین کرتا ہوں کہ اکٹھے ہوکر اور اکیلے اکیلے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر تم غور کرو۔ اگر تم نفسانی جوش سے الگ ہوکر ایسا کروگے تو تم یقین کرلوگے کہ تمہارے ساتھی میں کسی قسم کا جنون نہیں۔ اور وہ تمہیں آنے والے ایک سخت عذاب کے متعلق خبردار کرنے آیا ہے…اور اگر میں گمراہ ہوں تو تمہیں اس کی اتنی فکر کیوں ہے۔ اور کیوں میرے پیچھے پڑگئے ہو۔ آخر اس گمراہی کا نقصان خود مجھے ہوگا۔ تمہارا تو کوئی نقصان نہیں۔ اور اگر مَیں سیدھے راستے پر ہوں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ میرا ربّ میری طرف وحی کرتا ہے۔ کیونکہ وہ میری تضرّعات کو سننے والا ہے اور اپنا قرب عطا کرنے والا ہے۔
اسلام مذہب کے بارہ میںطاقت کے استعمال کا قائل نہیں
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ کسی کی گمراہی کو ڈنڈے کے زور سے دُور کرنا اسلام کے نزدیک ایک بےمعنی بات ہے۔ پھر اگر دین کے بارہ میں زبردستی کرنا ہوتی تو اس کے لئے خود خدا کافی تھا۔ دوسروں سے اس کو مدد لینے کی ضرورت نہ تھی۔ چنانچہ وہ خود ہی فرماتا ہے ’’اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو زمین پر سب کے سب بسنے والے ایمان لے آتے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے باوجود طاقت اور حق کے جبر نہں کیا تو پھر تم کیوں لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرتے ہو۔‘‘(یونس :100)
سو جب خود خدا نے دین کے معاملے کو انسان کی مرضی پر چھوڑا ہے تو دوسروں کو سختی کرنے کا کیا حق ہے۔ غرض اسلام نہ خود دین میں زبردستی کا قائل ہے اور نہ ہی دوسروں کو ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ کیونکہ دینی دعوت کی بنیاد خالص ہمدردی اور دلی خیرخواہی پر ہونی چاہئے۔ اسی لئے جو لوگ تبلیغ کو طاقت کے زور سے روکتے ہیں ان کے مقابلے میں انبیاء نے ہمیشہ یہی کیا۔
اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ اَنَا لَکُمۡ نَاصِحٌ اَمِیۡنٌ۔ (الاعراف:69)
(29) میں تو اپنے ربّ کے پیغام پہنچانے آیا ہوں اور دلی خیرخواہی اور دیانت داری سے تمہاری بھلائی چاہنے والا ہوں۔
اسی طرح ایک اَور جگہ فرمایا:
رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ(النساء:166)
(30) یہ پیغامبر بشارت دینے والے اور خطرات سے آگاہ کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس لئے بھیجا ہے تاکہ وہ لوگوں کو بروقت آگاہ کردیں۔ اور اس طرح سے ان لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے خلاف کوئی حجّت باقی نہ رہے۔
یہ آیت کتنی واضح ہے۔ کیونکہ کفّار اگر اپنے دلائل پیش ہی نہیں کرسکتے تو پھر اللہ تعالیٰ کے خلاف اُن کی طرف سے حجّت قائم ہونے کے معنی ہی کیا تھے۔ علاوہ ازیں تبلیغ کو بالجبر روکنے والوں پر اللہ تعالیٰ سخت اظہار ناپسندیدگی کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا اَصۡحٰبَ الۡقَرۡیَۃِ ۘ اِذۡ جَآءَہَا الۡمُرۡسَلُوۡنَ۔ اِذۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہِمُ اثۡنَیۡنِ فَکَذَّبُوۡہُمَا فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوۡۤا اِنَّاۤ اِلَیۡکُمۡ مُّرۡسَلُوۡنَ۔ قَالُوۡا مَاۤ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا ۙ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحۡمٰنُ مِنۡ شَیۡءٍ ۙ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا تَکۡذِبُوۡنَ۔ قَالُوۡا رَبُّنَا یَعۡلَمُ اِنَّاۤ اِلَیۡکُمۡ لَمُرۡسَلُوۡنَ۔ وَ مَا عَلَیۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ۔ قَالُوۡۤا اِنَّا تَطَیَّرۡنَا بِکُمۡ ۚ لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہُوۡا لَنَرۡجُمَنَّکُمۡ وَ لَیَمَسَّنَّکُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ۔ قَالُوۡا طَآئِرُکُمۡ مَّعَکُمۡ ؕ اَئِنۡ ذُکِّرۡتُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ۔(یس:14تا20)
(31)یہ کفّار جو جبر کے حامی ہیں ان کےسامنے اس شہر کے لوگوں کی مثال پیش کیجئے جن کے پاس اللہ تعالیٰ کے رسول آئے لیکن انہوں نے ان کی باتوں کو سننے کی بجائے اُلٹا اُنہیں برا بھلا کہنا شروع کردیا اور کہا تم ہماری طرح کے انسان ہی تو ہو۔ پھر تمہیں کیسے یہ شرف حاصل ہوگیا۔ رحمٰن خدا نے تم پر کچھ بھی نازل نہیں کیا۔ تم یونہی جھوٹ بولتے ہو۔ ان رسولوں نے کہا ہمارا ربّ یقیناً جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف رسول بناکر بھیجے گئے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا۔ تم لوگ ہمارے اندر نحوست پھیلانے آئے ہو۔ اگر باز نہ آئے تو ہم تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کرڈالیں گے اور سخت سزا دیں گے۔ رسولوں نے جواب دیا کہ نحوست تو تم خود اپنے لئے مول لے رہے ہو کہ حق بات کو مانتے نہیں اور اُلٹا دھمکانے اور شور ڈالنے میں مصروف ہو۔
غرض یہ آیات بڑی وضاحت سے ثابت کررہی ہیں کہ اسلام نے نہ صرف آزادیٔ تبلیغ کی حمایت کی ہے بلکہ دوسروں کو پورے اعتماد کے ساتھ اپنے دلائل پیش کرنے کی دعوت دی ہے۔
کوئی قوم تبلیغ کی آزادی سے کیوں گھبراتی ہے
دراصل کوئی قوم کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ سے اس وقت گھبراتی ہے جب کہ اس کا اپنا مذہب یا تو اپنی صداقت کے دلائل پیش کرنے سے قاصر ہو اور عقلی معیار کے مطابق نہ ہو۔ یا پھر اس قوم کے مذہبی راہنماؤں نے اپنے فرض کی ادائیگی میں سخت کوتاہی سے کام لیا ہو۔اور اپنے عوام کو ان حقائق سے اچھی طرح آگاہ نہ کیا ہو جو اُن کے مذہب کی بنیاد ہیں۔ اور فطرتِ انسانی ان کی تلاش میں ہمیشہ سرگردان رہتی ہے کیونکہ جو مذہب دلائل کی دولت سے مالامال ہو اور ذہنِ انسانی کو مطمئن کرنے کے سامان اُسے میسّر ہوں وہ کبھی بھی دوسرے مذاہب کی تبلیغ سے متأثر نہیں ہوسکتا۔اسی طرح جس مذہب کے راہنما اپنے عوام کی صحیح علمی تربیت کرتے ہیں اور ان کی مذہبی ضروریات سے اُنہیں مطلع رکھتے ہیں۔ انہیںکسی مخالفانہ پراپیگنڈے سے گھبرانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کیونکہ اگر عوام پوری طرح اپنے مذہب سے واقف ہوں اور جو راہنمائی اس مذہب سے ان کو ملتی ہے اس پر وہ مطمئن ہوں اور اس کے ساتھ انہیں مادی پریشانیوں سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ ان کی اقتصادیات مضبوط ہوں اور ان کی سیاست شاہراہِ ترقی پر گامزن ہو تو پھر کوئی بھی مخالفانہ پراپیگنڈا انہیں گمراہ نہیں کرسکتا۔ اور نہ وہ خود اپنے لئے کسی نئی تبدیلی کی خواہش کرسکتے ہیں۔ درحقیقت کوئی شخص اسی وقت اپنا مذہب تبدیل کرتا ہے جبکہ کسی وجہ سے سابقہ مذہب کے متعلق اس کا اطمینان مفقود ہوجائے۔ اور وہ یہ خیال کرے کہ یہ اطمینان فلاں مذہب کے ذریعے اُسے حاصل ہوسکتا ہے۔ اس وجہ سے وہ اس نئے مذہب کو اپنی زندگی کا نصب العین بناتا ہے۔ اور نئے رشتے جوڑتا ہے۔ پس دوسرے مذاہب کی ترقی کو روکنے کا یہ طریق نہیں کہ ان مذاہب کی تبلیغ ہی روک دی جائے بلکہ صحیح اقدام یہ ہے کہ سچے مذہب کے دلائل سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے۔ اور خود اپنے عمل سے اُس کی صداقتوں کو ثابت کیا جائے۔ نیز سیاسی اور اقتصادی خوشحالی کو عام کیا جائے …اسی طرح قوم کی تنظیم مستحکم ہو۔ اور نصب العین سے اُسے والہانہ محبت ہو۔ جب تک قوم کے افراد میں یہ زندگی موجود ہو وہ کسی اور مذہبی تحریک کو قبول کرنے کا خیال تک اپنے دل میں نہیں لاسکتے۔ کیونکہ نئے مذہب اور نئی تحریک کی جگہ اُسی وقت بنتی ہے جبکہ عالمگیر ذہنی خلفشار نے عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو۔ وہ اقتصادی طور پر بدحال اور اخلاقی لحاظ سے تباہ حال ہوچکے ہوں اور ان حالات تک نوبت اُسی وقت پہنچتی ہے جبکہ علماء۔ مذہبی پیشوا اور سیاسی راہنما خود اِن بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور تعمیری لحاظ سے اس مشکل صورت حال کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ لیکن ایسے حالات میں اگر دوسرے مذاہب کی تبلیغ کو روک بھی دیا جائے تب بھی اصل خرابی دُور نہ ہوگی۔ اور مذہب سے عوام کی برگشتگی اور بددلی کا جو خدشہ پیدا ہوگیا ہے وہ بہرصورت موجود رہے گا۔ بعض لوگوں کی طرف سے اس اشکال کا یہ حل پیش کیا جاتا ہے کہ اسلام دوسرے مذاہب کو تبلیغ کی اجازت تو دیتا ہے لیکن تبدیلیٔ مذہب کو برداشت نہیں کرتا۔(ارتداد کی سزا۔ اسلامی قانون)لیکن یہ صورت پہلی صورت سے بھی بدتر ہے۔ کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام ذہنی انتشار اور روحانی بےاطمینانی پھیلانے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن اس بیماری کے علاج کو برداشت نہیں کرتا۔ تبلیغی آزادی کے دو ہی نتیجے برآمد ہوسکتے ہیں۔ یا تو تبلیغ کرنے والے کے دلائل کی کمزوری سے لوگ واقف ہوجائیں گے۔ یا یہ ماننے پر مجبور ہوں گے کہ تبلیغ کرنے والا اپنے مذہب کے مضبوط دلائل اور صداقت کے بیّن ثبوت رکھتا ہے۔ پہلی صورت میں تو تبدیلیٔ مذہب کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور دوسری صورت میں اس مذہب کی صداقت ذہنًا ماننے والوں کو اُس کے قبول کرنے سے روکنا بہت بڑی غلطی ہے۔ اس سے تو یہی بہتر ہے کہ سرے سے تبلیغ ہی بند کردی جائے۔ تاکہ لوگوں کو نہ کسی اور مذہب کے اصولوں سے واقفیت ہو اور نہ وہ اس جمود کو توڑنے کی ضرورت محسوس کریں۔
تبلیغ پر پابندی زوال قومی کا باعث ہے
لیکن ظاہر ہے کہ یہ اقدام قوم پر ذہنی جمود مسلّط کردے گا اور وہ جہالت کے عمیق گڑھے میں گرتی چلی جائے گی۔ کیونکہ درحقیقت مختلف قوموں کا تہذیبی تصادم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے علوم و فنون ترقی پاتے ہیں اور تہذیبیں عروج کے مراحل طے کرتی ہیں۔ اگر ہم اس ذریعہ کو بند کردیں تو علوم کے سرچشمے خشک ہوجائیں گے اور انسانی ذہن کھڑے پانی کی طرح اپنی تازگی کھوبیٹھے گا۔لیکن شگفتہ سوسائٹی کے لئے یہ ایک انتہائی ناموافق صورت ہے۔علاوہ ازیں یہ کوئی قابلِ فخر کارنامہ نہیں کہ کسی کو صرف اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت دی جائےا ور تبلیغ و اشاعت کے ذریعے اُسے اپنی تعداد میں اضافہ کرنے کا موقعہ نہ دیا جائے کیونکہ غلبہ حاصل کرنے کے بعد ازراہِ ترحم اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت دینا زیادہ سے زیادہ ایک رعایت کہلاسکتا ہے۔ لیکن انصاف اور رواداری کی اعلیٰ مثال اس سے قائم نہیں ہوسکتی حالانکہ عقیدے کی اشاعت کرکے دوسرے کو اپنا ہم خیال بنانے کی اجازت انسانی حقوق میں ایک نہایت اہم حق ہے اور اسی حق کو حاصل کرنے کے لئے آنحضرتﷺ کو لڑائیاں لڑنی پڑیں۔ آخر کفار مکّہ اور عرب کے قبائل کیا چاہتے تھے یہی کہ آنحضرتﷺ دوسروں کو اپنا ہم خیال بنانا چھوڑ دیں۔ ورنہ ہم اس اقدام سے اُنہیں بہ جبر روکیں گے۔ دوسری طرف آنحضرتﷺ کا مطالبہ یہ تھا کہ انسان کا یہ ایک بنیادی حق ہے اور مجھے اس کے استعمال کرنے سے روکنا سراسر ظلم ہے۔ چنانچہ ابوداؤد کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا ان لوگوں نے مجھے اپنے ربّ کا کلام پہنچانے سے روک دیا ہے۔
(32)منعونی ان ابلّغ کلام ربّی (ابوداؤد)پس یہ کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ جس حق کے حاصل کرنے کے لئے آپ کو لڑنا پڑا اور وہ حق جب آپ کو حاصل ہوگیا تو آپ نے نعوذباللہ دوسروں کو یہ حق دینے سے انکار کردیا۔ حالانکہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں احب للنّاس ماتحب لنفسک کہ ایمان کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ دوسروں کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ پس اسلام کے اصول فطرتاً اس نظریہ کی پُرزور تردید کرتے ہیں اور نصوص قرآنی اس خیال کو دھکّے دیتی ہیں۔ چنانچہ فرمایا:
دین کے بارہ میں کوئی جبر نہیں۔ کیونکہ ہدایت اور گمراہی ایک دوسرے سے ممتاز ہوچکی ہیں۔ اس لئے جب ایک شخص طاغوتی طاقتوں کا انکار کرتا ہے اور خلوصِ قلب سے بغیر کسی دباؤ کے ایمان لاتا ہے تو وہ ایک ایسے مضبوط کڑے کو پکڑے ہوئے ہیں جو ٹوٹنے کا نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کے زبانی اقرار کو سننے والا اور اُس کے دل کے اخلاص کو جاننے والا ہے۔(بقرۃ رکوع 34)
یہ نص آزادیٔ مذاہب کا واضح ترین اعلان ہے۔ اس پر کوئی غبار نہیں یہاں تک کہ خود مسلمان علماء نے اس آیت کے یہی معنی سمجھے۔ چنانچہ علامہ جصاص اپنی مایۂ ناز کتاب میں لکھتے ہیں:
یعنی لااکراہ صورت کے لحاظ سے گو خبر ہے لیکن حقیقت میں یہ امر ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اس میں حکم دیا ہے کہ دین کے بارہ میں کسی پر جبر نہ کرو۔
(احکام القرآن جصاص جلد1 صفحہ536)
چونکہ بعض علماء آزادیٔ مذہب کے قائل نہیں تھے اس لئے انہوں نے اس آیت کو منسوخ مانا۔اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ یہ آیت اپنی ذات میں آزادیٔ مذہب کا ایک واضح برہان تھی۔ باقی رہا آیت کی منسوخی کا عقیدہ تو بجائے خود یہ ایک باطل عقیدہ ہے اور خود اس زمانے کے علماء اس عقیدہ کے قائل نہیں رہے۔اسی لئے انہوں نے پرانے مسلک کو ترک کرکے اس آیت کی تاویل ایک نئے انداز میں پیش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں اسلام لانے پر مجبور کرنا یا اسلام چھوڑنے سے کسی کو جبراً روکنا درحقیقت اکراہ اور زبردستی کے ماتحت آتا ہی نہیں۔ کیونکہ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک مریض کو زبردستی دوائی پلائی جائے۔ چونکہ کفّار روحانی مریض ہیں اس لئے اگر وہ خوشی سے اس مرض کو دُور کرنے والی دوائی نہ پیئیں گے تو یہ دوائی انہیں جبراً پلائی جائے گی۔ سو یہ جبر دراصل جبر ہی نہیں بلکہ یہ تو نری خیرخواہی ہے۔ لیکن یہ تاویل جیسی کچھ مضبوط ہے اُسے ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا لکم دینکم ولی دین۔ نہ ماننے والو! تم اپنے دین پر قائم رہو میں اپنے دین پر قائم ہوں۔(الکافرون)
ایسے ہی ایک اور جگہ فرمایا ’’ہر قوم کے لئے ہم نے مقدّس عبادتگاہیں اور عبادت کے مخصوص طریقے تجویز کئے ہیں جہاں جانے اور اپنے مخصوص طریق سے عبادت کرنے کا انہیں پورا پورا حق ہے۔ پھر وہ آپ سے آپ کے معاملہ اور مسلک کے بارہ میں نامعلوم کیوں جھگڑتے اور تنازعے پیدا کرتے ہیں۔‘‘(الحج آیت 67)
پھر فرمایا’’تم میں سے ہر ایک گروہ کے لئے ہم نے ایک شریعت اور مذہب مقرر کیا ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ خود تم سب کو (بجبر) ایک ہی امّت بنادیتا۔ لیکن وہ چاہتا ہے کہ اُس نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں وہ تمہیں آزمائے۔ پس نیک اور رفاہِ عامہ کے کاموں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنے عمل سے اپنے مسلک کی سچائی اور افادیت کو ثابت کرو‘‘ (یعنی جبر کی بجائے تمہیں اشاعتِ حق کے لئے یہ راہ اختیار کرنی چاہئے)۔(آل عمران آیت 30)
ایک اور جگہ فرمایا ’’ان لوگوں کو جنہیں کتاب دی گئی اور ان لوگوں کو بھی جو اَن پڑھ ہیں کہہ دیجئے۔ کیا تم دلائل اور نشانات کو دیکھ کر اسلام لاتے ہو۔ پس اگر وہ تمہارے کہنے کے مطابق ایمان لے آئیں تو یقیناً وہ ہدایت پاگئے۔ اور اگر انہوں نے پیٹھ پھیرلی تو آپ کے ذمّہتو صرف پہنچادینا ہے۔
(ال عمران :21)
غرض اسلام کا یہ ایک مایۂ ناز کارنامہ ہے کہ وہ اصول جسے اقوام عالم آج اپنارہی ہیں اسلام نے پونے چودہ سو سال قبل اس کو اپنے دستور کا ایک اہم حصہ قرار دے کر تحریر و تقریر اور غوروفکر کی آزادی کو ہر انسان کا بنیادی حق مانا ہے۔
اسلام اور سیاست
اس کے بعد ہم ذمی رعایا کے سیاسی حقوق کو لیتے ہیں۔ دراصل اس قسم کے سیاسی حقوق کی تعیین کا دارومدار طرز حکومت کی نوعیت پر ہے۔ جیسی طرزِ حکومت ہوگی اسی کے مطابق حقوق کی تفاصیل بھی طَے ہوں گی۔ اس اعتبار سے اسلام کا ایک نظام تو وہ ہے جسے خلافتِ راشدہ یا خلافت علیٰ منہاج النبوّۃ کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اصولاً یہ ایک خالص مذہبی تنظیم ہے لیکن اگر اس نظام میں سیاست بھی شامل ہو جیسا کہ آغاز اسلام میں ہوا تو پھر مذہبی اقتدار کے ساتھ ساتھ سیاسی اقتدار بھی خلیفۂ وقت کی ذات میں مرتکز ہوگا۔ اور اس وجہ سے خلافت کے لئے منتخب شخصیت مذہبی پیشوائیت کےساتھ ساتھ سیاسی لحاظ سے بھی خلیفۃالمسلمین کے اعزاز کی حامل ہوگی۔ یہ خلیفہ اپنی مذہبی پوزیشن کی وجہ سے تازندگی اقتدار کا حقدار سمجھا جائے گا۔ اس میں شک نہیں کہ یہ اقتدار عوام ہی کی طرف سے اس شخص کے سپرد کیا جاتا ہے لیکن اس سپردگی کے بعد عوام کا اصل مقام اطاعت و اخلاص ہے۔ تقابل اور مدافعت نہیں۔ کیونکہ انتخاب کے بعد وہ خلافت کے مشیر تو بن سکتے ہیں لیکن امورِ مملکت میں انہیں فیصلہ کُن حیثیت حاصل نہیں ہوسکتی۔ خلیفہ وقت ملکی نظم و نسق کے چلانے کے لئے اپنے افسر خود منتخب کرے گا۔ مجلس وزراء کا انتخاب بھی کُلّی طور پر اُس کے اپنے اختیار میں ہوگا۔ رعایا کے کسی قابل فرد کو وہ کیا اختیار دیتا ہے یہ بھی اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہوگا۔ وہ بےشک شریعت کا پابند ہے۔ لیکن شریعت کی تشریح اس کا اپنا کام ہے۔ علماء صرف مشیر ہیںا ور عوام مامور ہیں کہ خلیفۂ وقت کی تشریح کو بطور مذہبی سند مانیں اور اس کے فیصلوں کو عملاً مذہب کا ایک اہم حصہ تسلیم کریں۔ ظاہر ہے کہ اس پوزیشن کے لئے کسی غیرمسلم کے انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
خلافتِ راشدہ اور غیرمسلموں کے سیاسی حقوق
لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ خلافتِ راشدہ میں غیرمسلم کو کوئی سیاسی حق مل ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ خلیفۂ وقت کو کامل طور پر یہ اختیار حاصل ہے کہ مملکت کی بہبودی کے لئے ذمی رعایا کے کسی قابل فرد کو وہ کوئی انتظامی یا فوجی عہدہ دے۔ یا اُن کے دوسرے سیاسی حقوق کی تعیین کرے۔ نہ صرف یہ کہ اس بارے میں اُس پر کوئی پابندی نہیں بلکہ اگر وہ ایسا کرے تو اُس کا یہ اقدام اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے عین مطابق ہوگا جس میں وہ فرماتا ہے۔ جو لوگ تم سے دین و مذہب کی وجہ سے برسرپیکار نہیں ان سے حسنِ سلوک اور منصفانہ رواداری کا طریق اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ انصاف پسند لوگوں سے محبت رکھتا ہے۔ وہ تو تمہیں اُن لوگوں سے تعلّقات مؤدت رکھنے سے روکتا ہے جنہوں نے محض دینی اختلاف کی وجہ سے تم سے جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا۔ اور جو مسلمان ایسے دشمنوں سے تعلقاتِ محبت رکھیں گے وہ ظالم اور غدّار سمجھے جائیں گے۔(ممتحنہ رکوع 3)
باقی رہا یہ سوال کہ کبھی ایسا ہوا بھی ہے تو یہ ایک بالکل غیرمتعلق سوال ہے۔ کیونکہ عمل کا تعلق سراسر حالات سے ہے۔ اگر حالات اجازت دیں تو مذہباً اس میں کوئی رکاوٹ نہیں اور اگر حالات اجازت نہ دیں یا دنیا اس طرزِ حکومت سے متعارف نہ ہو تو مثال کا نہ ملنا موجبِ اعتراض نہیں۔ کیونکہ اصل سوال بلحاظ نص ممانعت کا ہے جو کسی لحاظ سے ثابت نہیں۔ نیز اس آیت کی تفسیر کے تعلق میں حضرت اورنگ زیب عالمگیرؒ کی رائے اور اُن کا طرزِ عمل ہم پہلے کسی جگہ نقل کر آئے ہیں۔ اسی طرح اس کتاب کے سابقہ صفحات میں ہم اس امر کی متعدد مثالیں بھی تحریر کرآئے ہیں کہ خلفائے راشدین اور بعد کی حکومتوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قابل غیرمسلم افراد کو حکومت کے ذمہ دارانہ عہدوں پر فائز کیا۔ حضرت عثمانؓ کے متعلق روایت ہے کہ انہوںنے اپنے عہد خلافت میں جران بن ابان نامی ایک عیسائی کو اپنی نگرانی میں نہایت عمدہ تعلیم دلوائی اور بعد میں اُسے اپنا میرمنشی مقرر کیا جو نہایت ہی ذمہ داری کا عہدہ تھا۔ اسی طرح حضرت امیر معاویہؓ نے ایک قابل عیسائی ابنِ اثال کو حمص کا گورنر مقرر کیا تھا۔ اسی طرح ایک اَور غیرمسلم منصور رومی مالیات کے ذمہ دار عہدوں پر فائز رہا۔
(تاریخ یعقوبی جلد2صفحہ 265۔ خطط الشام کرد علی جلد1صفحہ 143)
ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیت المال کے لئے اکؤنٹنٹ کی ضرورت تھی۔ آپ کے سامنے ایک عیسائی کا نام لیا گیا تو آپ نے فرمایا اس کے متعلق جاسوسی کا شبہ ہے۔
اسی طرح ایک موقعہ پر آپؓ نے فرمایا یہ لوگ رشوت لینے کے عادی ہیں۔
(ازالۃالخلفاء عن خلافۃ الخلفاء مقصد دوم صفحہ 75 و 195)
حضرت عمرؓ کی اس تصریح سے ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک کسی کا صرف غیرمسلم ہونا حصولِ عہدہ کے لئے وجۂ مانع نہ تھا بلکہ ان کے وہ معائب باعثِ رکاوٹ تھے جو اگر کسی مسلمان میں بھی ہوتے تو اس کو بھی کوئی ذمہ داری کا کام نہ دیا جاتا۔
خلافتِ راشدہ کے قیام کے لئےخاص ماحول ضروری ہے
لیکن درحقیقت اس زمانہ میں اس قسم کی گفتگو صرف ایک علمی بحث ہے۔کیونکہ اس قسم کی حقیقی اور سیاسی اقتدار رکھنے والی خلافت راشدہ خاص حالات اور خاص ماحول کے مطابق ہی معرضِ وجود میں آسکتی ہے۔ اسلام کبھی بھی حقائق کی دنیا سے بے تعلق ہوجانے کے لئے مجبور نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ وسعت اور طاقت کے مطابق ہی مکلّف بناتا ہے۔ جو بات کسی کے دائرۂ اختیار میں نہیں اور ماحول اُسے نہیں اپناتا اس کے فوری قیام کی جدوجہد کرنا اپنی طاقتوں کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔اس لئے ایسے حالات میں اسلام کا یہ حکم کارفرما ہوگا کہ جتنا تم کرسکتے ہو کرو اور باقی کے لئے جائز حدود کے اندر اپنی کوششیں جاری رکھو اور خدا سے مدد کے لئے دعائیں کرتے چلے جاؤ۔ اس کا یہ حکم نہیں کہ اگر پورا نہیں کرسکتے تو ادھورا بھی نہ کرو۔ اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاؤ۔ یا انہونی چیزوں کے پیچھے پڑ کر اپنی طاقتوں کو ضائع کردو۔ خلفائے راشدین کے بعد مسلمان علماء کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ حکومتی دائرہ میں بھی خلافت علیٰ منہاج النبوّۃ قائم ہو۔لیکن تیرہ سو سال کی اس طویل جدوجہد کا جو نتیجہ ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ایسا کیوں ہوا۔ صرف اس لئے کہ ایسی خلافت کے لئے صحیح ماحول پیدا کئے بغیر یہ کوششیں کی گئیں۔خلافت راشدہ کے بعد اس سارے عرصہ میں سوائے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے ایک بھی ایسا خلیفہ نہیں ہوا جس کی مسلمانوں نے کوئی مذہبی پوزیشن تسلیم کی ہو۔اور اس کے فیصلوں کو بطور مذہبی سند کے مانا ہو۔ یہ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ مسلمان علماء کی کوششوں نے اس سلسلہ میں غلط سمت اختیار کرلی تھی۔ اور ماحول سے بےنیاز ہوکر انہوں نے کامیابی حاصل کرنے کی جدوجہد کی تھی اس لئے آخر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کی شہادت کےبعد اسلام کی اجتماعی قوّت دو حصوں میں بٹ گئی تھی۔ مذہبی حصہ علماء کے اقتدار میں تھا اور اس بارے میں وہی سند تسلیم کئے جاتے تھے۔ سیاسی حصہ پر زیادہ ہوشیار گروہ نے تسلّط جمالیا اور اس میں انہوں نے من مانی کی۔لیکن جب تک دونوں طاقتوں میں تعاون کی روح کارفرما رہی اسلام کی اشاعتی وسعت بھی بڑھتی چلی گئی اور اس میں کوئی خاص رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی۔ لیکن جب اس تعاون میں بھی رخنے پڑنے لگے تو یہ ترقی رک گئی۔ بہرکیف اب موجودہ حالات میں صرف مذہب کی بنیاد پر یہ اصول طے کرنا کہ فلاں فلاں سیاسی عہدے غیرمسلم اقلیت کو نہ دئے جائیں اور اُن سے جزیہ کے نام سے کوئی مذہبی ٹیکس وصول کیا جائے درست نہیں ہوگا۔ خصوصاً ایسا ملک جس کی آزادی مشترکہ جدوجہد کی وجہ سے معرضِ وجود میں آئی ہو۔ اس میں مذہب کے نام پر تفریق اور سیاسی حقوق میں کمی بیشی اسلامی اصول ِ انصاف کے یقیناً خلاف ہوگی اور سیاست کاری کے اصول بھی اس کی تائید نہیں کریں گے۔
پس ان حالات اور موجودہ ماحول میں جو اقدام مناسب ہے اور جس کی اسلامی اصول تائید کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے اندر ایسی قابلیتیں پیدا کریں جو انہیں حکومت کرنے کا اہل بنادیں۔ اگر وہ یہ مقام حاصل کرلیں تو پھر بغیر اس کے کہ آئین میں ایسی کوئی دفعہ شامل کی جائے عملاً تمام کلیدی عہدے خودبخود ملک کے قابل ترین افراد کے لئے ہی مختص ہوں گے اور اس کے لئے مسلمانوں کو کسی لفظی تحفّظ کی ضرورت نہ ہوگی۔ لیکن اگر مسلمان اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی باہمی تفرقہ کی وجہ سے غیرمسلم رعایا کی سازشوں کا شکار ہوجائیں اور اُن کے ہاتھوں فروخت ہوکر اپنی زبردست طاقتوں کو بےاثر بنادیں تو اس میں قصور غیرمسلموں کا نہیں بلکہ خود مسلمانوں کے اُن سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کا ہے جنہوں نے صرف مذہب کو بدنام کرنا سیکھا ہے، مذہب سے کام لینا نہیں سیکھا۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ اگر پستی اس حد تک آگئی ہو تو پھر کوئی لفظی تحفظ بھی کسی کو پیش آمدہ تباہی سے نہیں بچاسکتا۔
پھر اگر عقل سے کام لیا جائے۔ اور قوم کو مذہب کی افادیت پر یقین کامل ہو تو مذہب کا نام لئے بغیر آئین و قانون کوسو فی صد مذہبی بنایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جن سیاسی اصولوں کی اسلام تائید کرتا ہے یہ ممکن نہیں کہ انسان کی عقل معتدل ان کی تائید نہ کرے۔ اور غیرمسلم اقوام کم از کم عقل معتدل سے عاری نہیں۔ اس لئے اگر صحیح رنگ میں یہ اصول اُن کے سامنے پیش کئے جائیں تو وہ یقیناً ان کی تائید کریں گی۔اس صورت میں مسلمان ان قواعد کو اسلامی اصول کہیں گے۔ اور غیرمسلم ان کا نام ملکی سلامتی کا بنیادی آئین رکھیں گے۔الفاظ الگ الگ ہوں گے لیکن حقیقت ایک ہوگی۔ اور اگر حالات کی مجبوری کے اعتبار سے واقعہ میں کسی ملک کی اکثریت کو لفظی تحفّظات کی ضرورت ہے تو پھر یہ کیا لازمی ہے کہ ان تحفّظات کو مذہب کا نام لے کر حاصل کیا جائے۔ یہ تحفّظات اگر ملکی مصلحت کا تقاضا ہیں تو اُنہیں خالص سیاسی بنیادوں پر بھی بِلاجھجک اپنایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ قومیں اپنا آئین مصالح ملکی کے پیش نظر ہی بنایا کرتی ہیں۔ اس لئے اگر مصلحت کا تقاضا ہے کہ اقلیتی فرقوں پر ان کی وفاداری کے معیار کے مطابق کچھ پابندیاں عائد کی جائیں تو اس کا ہر ملک کو حق ہے۔ لیکن اس کے لئے مذہب کا نام بیچ میں لانا ضروری نہیں۔ بےشک مذہب ملکی مصلحت کے خلاف نہیں لیکن وہ اپنے نام کے بےجا استعمال اور اسے مطلب براری کا ذریعہ بنائے جانے کے ضرور خلاف ہے۔
اسلام اور وضع قانون
اس کے بعد ہم وضع قانون کے سوال کو لیتے ہیں۔عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ دنیا میں جو آئین ساز یا قانون ساز ادارے بنتے ہیں وہ خودمختار اور ہر قسم کے آئین کے بنانے میں آزاد ہوتے ہیں۔ لیکن اسلام اس قسم کی آئین سازی کی اجازت نہیں دیتا۔ کیونکہ اس کے نزدیک قانون صرف حاکمِ مطلق یعنی خالقِ دوجہاں ہی بناسکتا ہے۔ حکم دینا یا کوئی اصول بنانا اُسی کا کام ہے۔ نہ انسان کو یہ حق حاصل ہے اور نہ ہی وہ اپنی قابلیتوں کے اعتبار سے ایسا کرہی سکتا ہے۔ اس کا علم محدود ہے۔ وہ وقتی خواہشات سے مغلوب ہوجاتا ہے اور جنبہ داری کا آسانی سے شکار ہوسکتا ہے۔اس لئے ایسی کمزوریوں کا پُتلا وجود اس قسم کا قانون کب بناسکتا ہے جو عالم گیر بھی ہو اور ہمہ گیر بھی۔ اور اس کے ساتھ سب کے لئے یکساں مفید بھی۔ نیز سب سے اس میں انصاف بھی کیا گیا ہو۔ لیکن درحقیقت یہ ایک محض اصطلاحی اُلجھن ہے۔ واقعات کی دنیا میں جب ہم آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ دونوں قسم کی مجالسِ مقنّنہ کے سامنے اگرچہ کام کا ایک وسیع میدان موجود ہے۔ لیکن کامل اختیارات نہ اُس کے پاس ہیں نہ اس کے پاس۔ جمہوری اقوام اپنے آئین و قانون کی ترتیب کے لئے جو مجالس منتخب کرتی ہیں اُن کے خود مختار ہونے کے یہ معنی ہرگز نہیں ہوتے کہ وہ جو آئین چاہیں بناڈالیں۔ خواہ وہ ملک کی تباہی پر ہی منتج کیوں نہ ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ تمام مجالس اپنے اس ماحول کی پابند ہوتی ہیں جس کے اندر ان کی تشکیل ہوئی ہے۔ وہاں کے لوگوں کا تمدّن ملک کے مخصوص جغرافیائی حالات۔ باشندوں کے ذہنی رجحانات۔ غرض متعدّد امور ان مجالس کی عقلوں کو ایک خاص نہج کے مطابق آئین بنانے کا پابند بناتے ہیں۔ کوئی اسمبلی اپنے ملک کے لئے اس بنا پر آئین نہیں بناتی کہ وہ من کلّ الوجوہ آزاد ہے۔ اور سلطنت کو تباہ بھی کرسکتی ہے۔ کیونکہ آئین ملک کی حفاظت کے لئے بنائے جاتے ہیں، تباہی کے لئے نہیں۔ اسی طرح کسی اسلامی مملکت کی مجلس آئین ساز بےشک قرآنی ہدایات کی پابند ہوگی لیکن جس طرح دنیا کی مجالس مختص ماحول کی پابند ہوتے ہوئے آزاد اور خودمختار ہیں۔ اسی طرح اسلامی ملک کی مجالس قرآنی ہدایات کی پابند ہوتے ہوئے آزاد و خودمختار ہوں گی۔ کیونکہ قرآن کریم کی ساری ہدایات عالم گیر اور فطرتی ہیں۔اور انسان کی عقل معتدل ان پر مطمئن ہے۔ اس لئے یہ ہدایات ملک کے باشندوں کے احساسِ آزادی میں روک نہیں اور آزادی و خودمختاری کی ساری بنیاد ہی اس احساس کے زندہ رہنے پر ہے۔
بات یہ ہے کہ قرآن و سنت نے جہانبانی کے اصول بیان کئے ہیں اور تفاصیل کو زمانہ اور ملک کے حالات پر چھوڑ دیا ہے تاکہ لوگ اپنے اپنے مخصوص ماحول کے مطابق تفاصیل میں مناسب تبدیلیاں کرلیں۔اسلامی فقہ میں اسی اصول کی بناء پر یہ قاعدہ وضع کیا گیا ہے۔لا ینکر تغیر الاحکام بتغیرالازمانیعنی زمانہ کی تبدیلی سے احکام میں تبدیلی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
فقہی اختلافات کا یہ سمندر ہمارے اس نظریہ کی صداقت کے لئے ایک ناقابلِ تردید دلیل ہے۔ کیونکہ اگر تفاصیل کو خود قرآن و سنّت نے طَے کردیا تھا تو پھر اس اختلاف کے لئے کون سی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔پس یہ اختلاف پیدا ہی اس لئے ہوا کہ تفاصیل کو شریعت نے خود مسلمانوں کی اجتہادی استعدادوں پر چھوڑ دیا تھا۔ اور بالآخر یہی آزادی متعدّد اور بعض اوقات بالکل متضاد نظریوں کا منبع بنی۔ آج کل کے علماء دراصل اجتہاد اور وضعِ قانون کے حق کے منکر نہیں بلکہ اصلاً اُن کا مطالبہ یہ ہے کہ یہ حق ان کے مخصوص طبقہ کو دیا جائے۔ کیونکہ وہی قرآن و سنّت کے منشاء کو سمجھ سکتے ہیں اور اس کا علم رکھتے ہیں۔ لیکن اسلام میں اس قسم کی طبقات پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔علماء اپنی قابلیت اور افادیت پبلک پر واضح کرکے اسے اپنے حق میں کرسکتے ہیں۔ اور اس طرح سے منتخب ہوکر صحیح طریق سے یہ حق لے سکتے ہیں۔ نیز جیسا کہ ہم نے لکھا ہے غوروفکر کا دارومدار دراصل عقلِ معتدل پر ہے۔ اور اس سے ملک کے تمام قابل افراد اپنے اپنے دائرہ کے اندر حصۂ وافر رکھتے ہیں اور اپنے بھلے بُرے کی سوچ سکتے ہیں اور جہاں تک غلطی کا سوال ہے وہ جس طرح دوسرے علوم کے قابل افراد کرسکتے ہیں اسی طرح مذہبی علماء سے بھی اس کا اتنا ہی امکان ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ قانون سازی کے سارے اختیار صرف علماء کے ایک مخصوص طبقہ کو دے دئے جائیں۔ درحقیقت علماء کا اصل کام یہ ہے کہ اسلامی احکام کی پوری جدّوجہد کے ساتھ اشاعت کی جائے تاکہ ملک کے تمام باشندے مناسب حد تک اسلام سے واقف ہوجائیں اور اُن کا ذہن اسلامی بن جائے۔ اس کے بعد اُن کا فکر اسلامی ہوگا۔اور اُن کے تمام فیصلے اسلامی اصولوں پر مبنی ہوں گے۔ باقی رہا علماء کا یہ اعتراض کہ جو لوگ اسلام کا علم نہیں رکھتے وہ اسلام کی منشاء کے مطابق اسلام کے قانون کیسے بناسکتے ہیں۔ تو دراصل یہ آج کل کی آئین ساز اور قانون ساز مجالس کے طریق کار سے اُن کی ناواقفیت پر مبنی ہے۔ آئین و قانون کی ہر جُز ماہرین کے غوروفکر ک بعد پیش کردہ بِل کا حصہ بنتی ہے اور اُن ماہرین میں قابل علماء کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اخبارات اور دوسرے لٹریچر کے ذریعے بھی ممبران اسمبلی کو صحیح صورت حال سے آگاہ کیا جاسکتا ہے۔ اور رائے عامہ کو ہموار کرکے اُن پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ سو ایسے حالات میں بعض علماء کی طرف سے مخصوص اقتدار کا مطالبہ حق بجانب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پس اس زمانے کے علماء کا نہ تو یہ مطالبہ درست ہے اور نہ ہی اُن کا یہ کہنا صحیح ہے کہ
’’حکم دینے اور قانون بنانے کے اختیارات تمام انسانوں سے فرداً فرداً اور مجتمعا سلب کرلئے گئے ہیں۔‘‘
اور اسلام میں وضعِ قانون کی کوئی گنجائش نہیں۔دراصل فرق صرف نقطۂ نظر میں ہے اور ادائے مطلب میں اختلاف ہے۔ کیونکہ دوسری اقوام جب قانون بناتی ہیں تو یہ کہتی ہیں کہ یہ قانون خود انہوںنے بنایا ہے اور اسلامی مجالس جب قانون بنائیں گی تو کہا جائے گا کہ یہ قانون قرآن کریم کی فلاں نص کی روشنی میں بنایا گیا ہے۔ اس لئے یہ اسلام کا قانون ہے، بندوں کا قانون نہیں۔ غوروفکر نے دونوں جگہ کام کیا ہے۔ دونوں صورتوں میں عقل کو کام میں لایا گیا۔ لیکن ایک جگہ عقل شیطان کے قبضہ میں ہے اور مجبور ہونے کے باوجود اپنے آپ کو فرعون قرار دیتی ہے۔ اور دوسری جگہ عقل سراپا عجز و انکسار بن کر خدائے ذوالجلال کے حضور سربسجود ہے اور رحمٰن خدا سے صحیح راہنمائی کے لئے دست بدعا ہوتی ہے۔ اس موقع پر اس امر کی تصریح بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کی سلطنت میں غیرمسلموں کو مجالسِ قانون ساز میں کوئی نمائندگی حاصل ہوگی یا نہیں؟ اس سوال کا جواب سطور بالا میں موجود ہے۔ یعنی جو حصے خالص مذہب سے تعلق رکھتےہیں، ظاہر ہے کہ اُن کے بارہ میں کسی غیرمسلم سے رائے لینے کے کوئی معنی ہی نہیں۔ لیکن آئین کے جن حصّوں کا تعلق عام ملکی امور سے ہے اُن کے متعلق آئین کی ترتیب میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ غیرمسلم کو بھی نمائندہ منتخب کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اسلام کا آئین عقلِ معتدل کے دائرہ سے باہر نہیں جاسکتا۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ وہ آئین اپنی موزونیت کے لئے غیرمسلمانوں کی تائید حاصل کرنے سے قاصر رہے۔
الغرض یہ ساری باتیں حالات اور ملک کی سیاسی پوزیشن سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور اسلام اس بارے میں ملک کے باشندوں کو پوری آزادی دیتا ہے۔ کیونکہ اسلام کا نظامِ حکومت حقیقت پسندی پر مبنی ہے۔ وہ ایک عظیم صداقت ہے جسے تسلیم کرنا شرفِ انسانی کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے پھیلانے کی توفیق دے اور ہر غلطی سے محفوظ رکھے۔ آمین!
٭…٭…٭