میاں بیوی کا تعلق!
الفضل قادیان کے کالم تَادِیْبُ النِّساءسے ایک انتخاب
میاں بیوی کا تعلق کوئی معمولی سا تعلق نہیں۔ ایک دن کا تعلق بھی ہو تو انسان کو احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ پھر جہاں سالہا سال کا تعلق نہیں بلکہ عمر بھر کا تعلق ہو وہاں اگر کشیدگی ہو تو زندگی کیسی تلخ گزرتی ہے۔
مگرافسوس ہے کہ جیسا یہ تعلق اہم ہے اور جیسا یہ تعلق ایک عرصہ دراز تک قائم رہنے والا ہے، اتنی اس کے درست رکھنے کی طرف توجہ نہیں کی جاتی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کے لمبے تعلق کی وجہ سے تصنع اور بناوٹ سے کام نہیں چل سکتا کیونکہ ایک دو دن کے لئے تو انسان کوشش کرسکتا ہے کہ اپنے خلاف منشاء بات دیکھ کر اس پر صبر کرے ۔ لیکن سالہا سال تک کے لئےتصنع سے کام نہیں لیا جاسکتا ۔ اور ایسا کرنا انسانی طاقت سے زیادہ ہے۔ پس ضرورت ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات کے قائم رکھنے کے لئے بجائے تصنع اور بناوٹ کے سچائی اور اخلاق کی طرف زیادہ توجہ کی جائے ورنہ خطرناک نتائج کا نکلنا بعید نہیں ہو گا ۔ بلکہ اخلاص کے بغیر اگر برے نتائج نہ پیدا ہوں تو تعجب کا مقام ہوگا ۔
ریل میں چند گھنٹوں کے لئے مختلف طبع کا اجتماع ہوتا ہے لیکن جب کوئی شخص کسی کو اپنے منشا ءکے خلاف کارروائی کرتا ہوا دیکھتا ہے تو صبر نہیں کر سکتا ۔ اور وہیں ٹوک دیتا ہے۔ بلکہ بارہاجنگ و جدل تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اور ہاتھا پائی شروع ہوجاتی ہے ۔ شرفاء اگر عملی طور سے اظہار نفرت سے پرہیز کرتے ہیں تو دل میں ضرور کڑھتے ہیں اور ان کو اس جگہ بیٹھنا دوبھر معلوم ہوتا ہے ۔ اور طبیعت اکتا جاتی ہے ۔ پھر میاں بیوی اگر ایک دوسرے سے متنفر ہوں اور ایک دوسرے کے کاموں کو نگاہ نفرت سے دیکھیں تو ان کی زندگیاں کیسی تلخ ہوں گی۔
فساد کی صورت میں دو نتائج میں سے ایک نتیجہ ضرور پیدا ہوگا یا تو میاں بیوی لڑ بِھڑ کر ایک دوسرے سے جدائی کی فکر کریں گے ۔ اور یہ جدائی دونوں کے لئے دکھ کا موجب ہو گی۔ اور یا ایک دوسرے پر غالب آجائے گا اور جدائی تو نہ ہو گی مگر ایک یا دونوں ہر وقت کڑھتے رہیں گے ۔ اور اس طرح ان کی صحت اور ان کے اخلاق پر نہایت برا اثر پڑے گا۔
چنانچہ جن میاں بیوی کے تعلقات خراب ہوتے ہیں اکثر ان کی صحتیں بھی خراب ہوتی ہیں۔اور چونکہ اس ملک میں عورتوں کے حقوق کی کافی نگہداشت نہیں ہوتی، بارہا دیکھا گیا ہے کہ مرد تو اپنے اقتدار کی وجہ سے تھوڑا دکھ پاتا ہے مگر عورت کڑھ کڑھ کر کسی سخت مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے اورسل یا دق میں گرفتار ہو کر عین جوانی میں اس دنیا سے گزر جاتی ہے ۔
مگر عورت تو اپنی کمزوری یا حیا کی وجہ سے اپنے دکھ کو زیادہ محسوس کرتے ہوئے جان دے ہی دیتی ہے۔ مرد بھی کچھ کم سزا نہیں پاتا اورگواپنے دکھ کے اظہار کے لئے عورت کو ہی تختہ مشق بنا تا ہے مگر اس کے دل پر بھی اداسی اور تنہائی کا جو خوفناک اثر پڑتا رہتا ہے ۔اس سے رفتہ رفتہ اس کے اخلاق کا بھی ستیا ناس ہو جاتا ہے ۔اور اس کی صحت بھی جلدہی جواب دینے لگتی ہے ۔
میاں بیوی کا ایک دوسرے کو ناپسند کرنا یا ایک دوسرے کے افعال سے نا خوش ہونا ایک جہنم ہے۔ دنیا کا کوئی دکھ اس کے مشابہ نہیں ہو سکتا ۔ ہر ایک عذاب کی تکلیف کو دور کرنے کے لئے دل بہلاؤ کا سامان موجود ہےمگر اس غم کو مٹانے کا کوئی سامان نہیں ۔ مگر ایک سامان جو فطرتاً ان کے خالق نے کیا ہے اور وہ یہ ہے ۔
عَسَیٰ اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًاوَّ یَجْعَلُ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا۔
قریب ہے۔ کہ تم ایک چیز کو برا اور ناپسند جانو لیکن خدا تعالیٰ اس میں خیر کثیر ڈال دے ۔ میاں بیوی کےکڑھنے کی وجہ تو یہی ہو سکتی ہے کہ انہیں وہ افعال جو میاں بیوی سے سرزد ہوتے ہیں نا پسند ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ناپسند ہیں تو ہوا کریں۔ تم سے ہم وعدہ کرتے ہیں اگر تم ہماری خاطر آپس میں نیک سلوک کرو۔ اگر ایک دوسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کرو۔ اگر ایک دوسرے کے عیب کی پردہ پوشی کرو۔ اگر ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔ تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے دکھ کو چین سے اور غم کو خوشی اور رنج کو فرحت سے اور درد کو آرام سے اور مصیبت کو انعام سے اور شر کو خیر سے بدل دیں گے ۔
جس خیرکو اللہ تعالیٰ کثیر کہتا ہے اس کی انتہا کو کون پہنچ سکتا ہے۔ واقعہ میں اگر انسان اس بات پر غور کرے کہ میں نے ساری عمر فلاں شخص سے مل کر رہنا ہے تو اس کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ صبر سے کام لے۔ ایک دن کا دکھ ہو تو برداشت ہوجائے۔ دو دن کا دکھ ہو تو برداشت ہو جائے۔یہ رات دن کا دکھ کیوں کر برداشت ہو سکے۔ پس جب اس دکھ سے چھٹکارا نہیں تو کیوں وہ صورت اختیار نہ کر لے جس سے یہ دکھ کم ہو۔
دکھ بھی اسی قدر محسوس ہوتے ہیں جتنا انہیں کوئی محسوس کرے۔ اگر انسان سمجھ لے کہ اس مصیبت سے میرا چھٹکارا تو ہونا نہیں چلو راضی بہ رضا ہو کر رہو تو دکھ کا اظہار بہت کچھ کم ہو سکتا ہے۔ پس اگر میاں بیوی اپنی ناپسندیدہ باتوں پر کڑھنا اور جلنا اسی وجہ سے چھوڑ دیں کہ جب یہ آفت پڑ گئی ہے تو اسے کسی طرح برداشت کرنا چاہئے ۔ اور کوشش کرکے اس پر زیادہ غور کرنا چھوڑ دیں اور احساس کو ذرا کم کر لیں تو خود بخود مصیبت ہلکی ہو جائے تو اور اگر کوشش کر کے ایک دوسرے کو خوش کرنا چاہیں اور ایک دوسرے کے عیبوں کو معاف کرنے کی عادت ڈالیں تو تھوڑے ہی دنوں میں مساوات ہوجائے گی اور برداشت کی عادت پیدا ہو جائے ۔اور جو خدا تعالیٰ کا وعدہ خیر کثیردینے کا ہے میاں بیوی اس کے مستحق ہو جائیں ۔غرضیکہ میاں بیوی کا رشتہ ایسا ہونا چاہئے کہ وہ دوسروں کی نسبت ایک دوسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کریں ۔
(الفضل قادیان دار الا مان ،19 نومبر 1913 ء صفحہ11)