مکرم میراللہ بخش صاحب تسنیمؔ
اِس زیست کے خونی منظر پر کچھ خون کے آنسو رو جاؤں
آپ کا نام میراللہ بخش اورتسنیمؔ تخلص تھا۔ آپ 1904ء میں تلونڈی راہوالی (گوجرانوالہ کینٹ ) ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے ۔
آپ کے آباو اجداد دو صدی پیشتر کشمیر سے ہجرت کر کے موضع تلونڈی راہوالی میں سکونت پذیر ہوئے۔تلونڈی راہوالی میں آپ کے خاندان کا اوّلین پودا لگانے والے دو باپ بیٹا بزرگوار مکرم قادر میر صاحب (باپ) اورمکرم ظفر میر صاحب (بیٹا) تھے۔آپ نےابتدائی تعلیم تلونڈی راہوالی میں حاصل کی اورانگریزی میں ایف اے تک تعلیم پائی پھر پنجاب سے منشی فاضل کیا۔دو سال تک انجمن حمایت اسلام کے طبیہ کالج (اسلامیہ کالج ) لاہور میں طبیہ کلاسز میں طب کی تعلیم حاصل کی اور مکرم جناب حکیم علی احمد صاحب نیّر واسطی کے مطب میں نسخہ نویسی کی۔دہلی میں مفتی کفایت اللہ صاحب مرحوم کے مدرسہ امینیہ میں چند سال تک مذہبی تعلیم حاصل کی اور علوم عربیہ کا مطالعہ کیا اور وہیں چند ماہ کے لیے جمعیت العلمائے ہند کے آرگن ’’الجمیعۃ‘‘میں مترجم کے فرائض انجام دیے۔ گیارہ سال اپنے گاؤں تلونڈی راہوالی میں ایک لوئر مڈل سکول میں بطور استاد خدمات بجا لانے کا موقع ملا۔ دوسری جنگ عظیم (1939ءتا 1945ء) کے دوران آپ فوج میں بطور ہیڈ کلرک بھرتی ہوئے اور پاکستان بننے پر 1947ء میں ریٹائرڈ ہو کرواپس لَوٹے۔واپس لوٹ کر آپ نے بطور طبیب کام شروع کیا جو کہ وفات تک جاری رہا۔مطالعہ کا اتنا شوق تھا کہ آپ کی ذاتی لائبریری میں سینکڑوں کی تعداد میں کتب موجود تھیں۔
آپ نے سولہ سترہ سال کی عمر میں ہی شعر کہنے شروع کر دیے تھے۔ اپنی موزونیٔ طبع اور علمی و ادبی رجحان کے باعث آپ جلد قادر الکلام شعراء کی صف میں آ کھڑے ہوئے۔ آپ بڑے عالم فاضل تھے اور پنجابی ، اردو، فارسی ، عربی ، انگریزی اور گورمکھی زبانوں میں بہت مہارت رکھتے تھے۔فن شعر میں آپ نے کسی شاعر سے تلمذ اختیار نہیں کیا البتہ دوران قیام دہلی آپ نے اپنی چند غزلیات نواب سراج الدین خان صاحب دہلوی کو دکھائیں اور اصلاح لی۔آپ کا منظوم کلام کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہے لیکن بہت تھوڑا کلام اخبارات و رسائل کی زینت بن سکا ہے۔ آپ کا میلان طبع نظم کی طرف زیادہ ہے۔ غزل کے میدان کو آپ نے اپنی جولانگاہ نہیں بنایا۔الا ما شاء اللہ۔
آپ پیدائشی احمدی نہیں تھے بلکہ 1930ء میں آپ کو سلسلہ احمدیہ سے وابستہ ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔ سلسلے میں شمولیت سے قبل آپ نے ہر رنگ کی نظمیں لکھیں لیکن حلقہ بگوشِ احمدیت ہونے کے بعدآپ کی شاعری پر مذہبی رنگ غالب ہوتا چلا گیا۔ آپ کو اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شعر کہنے کی مہارت حاصل تھی۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے از راہِ شفقت ایم ٹی اے کے ایک پروگرام میں چند شاعروں کا تعارف کروایا تھا۔ آپؒ نےمحترم میر اﷲ بخش صاحب تسنیمؔ کا ذکران الفاظ میں فرمایا کہ میر اﷲ بخش صاحب تسنیمؔ ہیں۔ اِن کو تو مجھے یاد ہے میں نے کئی دفعہ سُنا خود اِن کی زبان سے۔ اُردو اور پنجابی دونوں میں بہت خوب کہتے تھے اور ایسا مزاج تھا کہ عوامی دلچسپی کے شاعر تھے یعنی عوام ان کے کلام کو سمجھتے اور فریفتہ ہو جایا کرتے تھے اور پڑھنے کی طرز بھی بڑی زندہ طرز تھی۔
آپ ایک استاد ، ایک فوجی ، ایک طبیب ، ایک مبلغ، ایک مناظر ، ایک شاعراور ایک خادم خلق اور نافع الناس وجود تھے۔تبلیغ ، مالی قربانی اور خدمت خلق آپ کے اوصاف تھے اور آپ کو ان نیکیوں کے حاصل کرنے کا جنون تھا۔13؍فروری 1977ء کوآپ کی وفات ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مکرم شیخ خادم حسین صاحب نیارؔ سابق سیکشن آفیسر وزارتِ خارجہ پاکستان آپ کے ہم مکتب رہے اور انہی کے ذریعہ آپ کو1930ءمیں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی اور احمدیت کے نور سے منوّر ہونے کے بعدآپ نے اس نور کو صرف اپنے تک محدود رکھنا گوارا نہ کیابلکہ اپنے ماحول کو بھی اس آسمانی نور سے روشن کیا۔آپ کے قبول احمدیت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے محترم شیخ خادم حسین صاحب ریٹائرڈ سیکشن آفیسر وزارت خارجہ پاکستان تحریرفرماتے ہیں کہ میں موقع ملنے پر اپنے عزیز دوست (محترم میر اللہ بخش صاحب تسنیمؔ)کو تبلیغ کرنے کی کوشش بھی کرتا ۔ اس عقیدے کے ساتھ کہ میری یہ حقیر کوشش شاید اللہ کریم کی بارگاہ میں بطور صدقہ کے قبول ہو کر میری مشکل کشائی کا باعث ہو جائے اور مجھے میرے مقصود کے قریب لے جائے (یعنی ملازمت مل جائے) مگر آنمکرم میری تبلیغ مطلقاً نہ سنتے ۔ یہاں تک کہ اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لیتےتھے مگر ان کے اس رویہ سے میری نیک امید نہ ٹوٹ سکی ۔ محبت کا رشتہ تو تھا ہی۔ دعائیں کرتا رہا۔
مسجد امینیہ کے سامنے مکرم میر مہد ی حسن صاحب مرحوم کی دکان بنا م ’’احمدیہ فرنیچر سٹور‘‘ تھی ۔ ان کے پاس الفضل اخبار آتا تھا اور میں فرصت کے لمحات میں وہاں جا کر اخبار کو دیکھتا تھا ۔ وہاں پر ہمارے ایک نہایت ہی مخلص اور جوشیلے دوست جو پیدائشی مبلغ معلوم ہوتے تھے یعنی خان فضل محمد خان صاحب شملوی۔ یہ بھی جمعہ کے روز وہاں آیا کرتے تھے۔ موصوف تبلیغ کے سلسلے میں قربانی کرنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتے تھے ۔انہیں ایام میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے آزادی پر ایک خطبہ ارشاد فرمایا تھا جو الفضل میں شائع ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے وہ میرے مطالعہ میں آیا اور اس کے موثر دلائل سے متاثر ہو کر میں نے فیصلہ کیا کہ میر صاحب کو اس کے پڑھنے کے لیے تحریک کروں گا ۔ جب میں اخبار لے کر میر صاحب کے پاس گیا تو انہیں ازراہ ہمدردی اور محبت یوں عرض کیا کہ آپ مجھ حقیر کی بات تو سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے لیکن اگر میری درخواست پر ہمارے حضرت صاحب کا یہ خطبہ جو آپ کے پسندیدہ موضوع پر ہے پڑھ لیں تو میں بہت ممنون اور دعا گو ہوں گا۔ ان کے علمی ذوق اور تصرّف الٰہی نے انہیں میری اس درخواست کو قبول کرنے کے لیے مجبور کر دیا اور اخبار لے کر انہوں نے اس خطبہ کو توجہ سے پڑھا۔ اگلے دن میر صاحب نے مجھ سے اظہار کر دیا کہ مجھے آزادی کا مسئلہ سمجھ میں آگیا ہے۔ اور یہ وہ مبارک لمحات تھے جن میں میر صاحب مکرم کی سعید طبیعت پلٹا کھا کرحق کی جویا ہوگئی۔ جلسہ سالانہ قادیان کے ایام نزدیک تھے۔میں نے انہیں جلسہ سالانہ میں شرکت کی تحریک کی جسے ان کی حق کے لیے مضطرب طبیعت نے قبول کیا اور میں چونکہ ان دنوں تازہ تازہ عارضی طور پردفتر پرائیویٹ سیکرٹری وائسرائے ہند میں ملازم ہوا تھا اس لیے ان کے ہمراہ جلسے پر جانے سے معذور تھامگر ان کے سفر اور قیام قادیان کے لیے خرچ کی ذمہ داری مکرم فضل محمد خان صاحب شملوی نے قبول کر لی اور میر صاحب کا یہ پروگرام مکرم خان صاحب کی انتہائی خوشی کا باعث ہوا ۔ بالآخر وہ دن آپہنچا جبکہ میر صاحب نے بذریعہ ٹرین دہلی سے بٹالہ روانہ ہونا تھا۔ میں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس سالکِ راہِ مولیٰ کا بستر بغیر کسی مزدور کی مدد کے بطور قُلی مسجد امینیہ سے سٹیشن تک اٹھا کر لے جاؤں گا۔ سو الحمدللہ یہ خوشی اور عزت مجھے نصیب ہوئی ۔ثم الحمد للہ ۔
قادیان کے روحانی اور للّٰہی ماحول نے ان پر ایسا اثر کیا کہ قبولِ احمدیت کے بغیر چارہ نہ رہا اور انہوں نے قادیان کے اس ماحول کے بارے میں اشعار بھی کہے اور پھر احمدیت ایسے رگ و ریشہ میں سمائی کہ تبلیغ کا ایک خاص شوق پیدا ہوا ۔
طب کے ساتھ ساتھ تمام دن دواخانہ میں تبلیغی مجلس لگی رہتی تھی۔ایک دوست کو جو آخری عمر میں بینائی سے محروم ہو گئے تھےاور صوفیانہ مزاج رکھتے تھےگھر سے آتے ہوئے ہمیشہ باقاعدگی سے ان کے گھر سے ساتھ لے آتے اور دوپہر کو مطب کے وقفہ کے دوران ساتھ ہی لے جاتے اور دوپہر کے کھانے کے بعد واپسی پر پھر ان کو ساتھ لے آتے۔وہ والد صاحب کے مطب پر ہی اپنا وقت گزارتے اس طرح ان کے بعض مرید اور دوست بھی ان کو ملنے وہیں آ جاتے ۔ دن بھر معالجہ کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا درس بھی جاری رہتا۔درس کے دوران سوالات کے جوابات بھی دیے جاتےاور یوں روزانہ آپ کے مطب پر ایک تبلیغی مجلس بھی جاری رہتی۔ آپ کی وفات تک یہ سلسلہ بلا ناغہ جاری رہا۔آپ کی وفات بھی مطب پر ہی ہوئی۔یہ صبح کا وقت تھا اور اس وقت بھی آپ کے یہ دوست آپ کے پاس ہی بیٹھے تھے۔
اُس وقت تلونڈی راہوالی میں صرف آپ ہی تعلیم یافتہ تھےلہٰذا نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد آپ سے انگریزی، فارسی اور دیگرمضامین پڑھنے کے لیے آتی تھی۔دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ ان کو احمدیت کی تعلیم سے بھی روشناس کراتے۔بہت سے نوجوانوں نے آپ کی تبلیغ کے نتیجے میں احمدیت قبول کی۔ان میں سے ایک نوجوان محترم محمد یونس خان صاحب بھی تھے جو آپ کی وفات کے بعد تلونڈی راہوالی کے صدر جماعت بھی بنے جو تا دمِ واپسیں اس خدمت کو انجام دیتے رہے۔ آپ کی تبلیغ کا دائرہ صرف ایک مخصوص طبقہ تک ہی محدودنہ تھابلکہ عام و خاص سب کو ہی اس آسمانی ہدایت سے متعارف کرواتے۔ایک مولوی صاحب جن کا نام مولوی محمد شفیع تھااکثر آپ کے پاس آتے اور کئی دن قیام کرتےبعض دفعہ آپ اپنے گھر کی چھت پر اور مسجد میں بھی ان کا وعظ کروایاکرتے تھے۔وہ دن کا سارا وقت والد صاحب کے مطب پر گزارا کرتے تھے اور علمی اور مذہبی گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا درس بھی جاری رہتا تھا۔ ایک دفعہ مسجد اہل حدیث کے امام مولوی محمد رفیق سلفی صاحب کے ساتھ مناظرہ بھی ہواجس میں دونوں طرف سے کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔مناظرے کے بعد محترم میر صاحب کے بہنوئی محترم محمد شریف صاحب( جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا اور غالباً انہیں کے ایماپر یہ مناظرہ ہوا تھا) نےمولوی صاحب کو برملا کہا کہ آپ میر صاحب کے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکے۔
آپ زندگی بھر خدمت دین کے ساتھ ساتھ خدمت خلق بھی کرتے رہے۔خاموشی سے غرباءکی مدد کرتے۔مستحق لوگوں کو ادویات مفت فراہم کرتے بلکہ اس سے بڑھ کر ان کی اچھی خوراک کے لیے انہیں رقم بھی دیتے۔
آپ کے فرزند محترم میر عبداللطیف صاحب جو جرمنی میں مقیم ہیں بیان فرماتے ہیں کہ 2011ء میں پاکستان کے دورہ کے دوران خاکسار کو ایک غیر احمدی مسلمان دوست ایک نوجوان عرضی نویس کے پاس لے گئےاور میرا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ میں محترم میر اللہ بخش صاحب تسنیمؔ کا بیٹا ہوں ۔ اس پر اس عرضی نویس نوجوان دوست نے میرے والد صاحب کے ذکر کے حوالے سے اپنے دادا جان کا ایک واقعہ سناتے ہوئے بیان کیا کہ میرے دادا جان 1947ء میں انڈیا سے ہجرت کر کے راہوالی میں آ کر مقیم ہوئےتو میری دادی جان سخت بیمار ہو گئیں۔میرے دادا جان محترم میر صاحب کو علاج کی غرض سے بلا کر لائے۔ جب محترم میر صاحب میرے دادا جان کے ساتھ گھر تشریف لائے تودیکھا کہ میری دادی جان زمین پر لیٹی ہوئی ہیں۔ محترم میر صاحب نے دریافت کیا کہ پہلے یہ فرمائیے کہ یہ زمیں پر کیوں لیٹی ہوئی ہیں۔ اس پر دادا جان نے بتایا کہ ہم سب کچھ لٹا کر انڈیا سے ہجرت کر کے آئے ہیں اور ہمارے پاس چارپائی تک نہیں ہے۔ اس پر محترم میر صاحب نے فرمایا کہ علاج تو بعد میں ہو گا میں پہلے چارپائی کا انتظام کرتا ہوںکیونکہ علاج کے ساتھ ساتھ آرام کرنابھی بہت ضروری ہے۔چنانچہ آپ اسی وقت اپنے گھر تشریف لے گئے اور خود اپنے گھر سے چارپائی اٹھا کر لے آئے۔نہ صرف ادویات بلا معاوضہ مہیا کیں بلکہ دوسری ضروریات کا بھی انتظام فرمایا۔میرے دادا جان کے اصرار کے باوجود ایک پیسہ نہ لیا۔
مالی قربانی میں بھی محترم میر صاحب ایک خاص مقام رکھتے تھے۔آپ چونکہ طبیب تھے اور مریضوں کی تعداد روزانہ گھٹتی بڑھتی رہتی تھی اس لیے روزانہ آمدن ایک جیسی نہ رہتی تھی لہٰذا آپ نے ایک نیا طریق وضع کیا کہ ایک صندوق میں کئی ڈبیاں رکھی ہوئی تھیں جن پر حصہ آمد ، چندہ جلسہ سالانہ،چندہ تحریک جدید اور چندہ وقفِ جدید وغیرہ لکھا ہوا تھا۔روزانہ کی آمدنی کے حساب سے روزانہ ان ڈبیوں میں چندہ ڈال دیتے تھےتا کہ خدا سے حساب صاف رہے۔ ایک بجٹ بھی اندازاً لکھوایا ہوا تھامگر چندہ اپنی اصل آمد کے مطابق ہی دیتے تھے۔ہر ماہ کے آخر پر ان ڈبیوں سے رقم نکال کر سیکرٹری صاحب مال کو ادائیگی کر کے رسید حاصل کر لیتے تھے۔مقامی فنڈ میں بھی ایک معقول رقم ہمیشہ ادا کرتے رہے۔
ایک دفعہ ایک مقامی ڈرگ انسپکٹر نے آپ کا چالان کر دیا۔ وہ محترم میر صاحب سے رشوت طلب کرتا تھا اور محترم میر صاحب ہر دفعہ اس کو انکار کر دیتے تھے۔ابتدائی عدالت سے آپ کو جرمانہ بھی ہو گیا تھا جو آپ نے اسی وقت ادا کر دیا۔آپ کے بڑے بھائی محترم میر محمد بخش صاحب ایک معروف وکیل تھے۔ان کو پتہ چلا تو ناراض ہوئے کہ مجھے کیوں نہیں بتایااورانہوں نے خود ہی اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی ۔پہلی پیشی میں ہی فیصلہ محترم میر صاحب کے حق میں ہو گیااور جرمانےکی رقم بھی واپس مل گئی۔انہیں دنوں مسجد فضل عمر ہمبرگ جرمنی کی تعمیر کے سلسلے میں حضرت مصلح موعودؓنے مالی قربانی کی تحریک کی تھی۔آپ نے یہ ساری رقم ہمبرگ کی مسجد کی تعمیر میں ادا کر دی۔چنانچہ مسجد فضل عمر ہمبرگ میں مالی قربانی میں معاونت کرنے والوں کے ناموں کی لسٹ میں محترم میر صاحب کا نام بھی درج ہے۔اپنے بچوں کو بھی محترم میر صاحب نے مالی قربانی کی عادت ڈالی اور خود اپنے بچوں کے ہاتھ سے چندہ ادا کروایا کرتے تھے۔تلونڈی راہولی کے مالی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات محترم میر صاحب کی انفرادی مالی قربانی تمام افراد جماعت کی مجموعی مالی قربانی سے بھی بڑھ جاتی تھی۔
آپ نےجلسہ سالانہ میں شمولیت کے بارے میں یہ پیشکش کی ہوئی تھی کہ جو افراد جلسہ سالانہ میں شمولیت کےا خراجات برداشت نہ کر سکتے ہوں ان کا خرچ میں اپنی جیب سے ادا کروں گا تا کہ محض اس وجہ سے کوئی شخص جلسہ سالانہ کی برکات سے محروم نہ رہے۔اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی تبلیغ کی غرض سے اپنے خرچ پر جلسہ سالانہ پر لے جاتے تھے اور ان کے قیام و طعام کا خود خیال رکھتے تھے۔اسی طرح جلسہ سالانہ کے بعد رات گئے تک قیام گاہوں پر مذہبی گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔
13؍فروری 1977ءکو اپنے مطب میں ہی آپ کی وفات ہوئی۔آپ کی وفات کے بعدآپ کے بیٹے محترم میر عبداللطیف صاحب بطور طبیب آپ کے مطب پر کچھ عرصہ پریکٹس کرتے رہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ ایک مریضہ کو دیکھنے ان کے گھر گیا تو وہ مجھے دیکھتے ہی رونے لگیں۔وہ روتی جاتی تھیں اور ساتھ ساتھ پنجابی میں کہتی جاتی تھیں کہ اَج تے گلیاں دے ککھ وی پئے روندے نیں۔ یعنی محترم میر صاحب کی وفات کے بعد گلیوں کے تنکے بھی روتے ہیں۔پھرکہنے لگیں کہ راہولی کا کوئی شخص یا خاندان ایسا نہیں جس کے ساتھ محترم میر صاحب نے کسی نہ کسی رنگ میں نیکی نہ کی ہو گویا گلیوں کے تنکے بھی محترم میر صاحب کے احسانات کے نیچے ہیں ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس فنا فی اللہ، خادمِ دین،خادم خلق اور نافع الناس وجود پر اپنی بے شمار برکتیں نازل فرمائے اور ہمیں ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭