جنّات کی حقیقت (قسط نہم)
علماء اور مفسّرین کے مضحکہ خیز عقائد ،تاویل و استدلال کے مقابل اِمامِ آخرالزّمانؑ اور آپ کے خلفاء کے بیان فرمودہ حقائق و معارف
یہ وہ مضامین ہیں جو جِنّات کے متعلق آتے ہیں۔ میرے نزدیک ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جِنّ قرآن کریم میں کئی چیزوں کا نام رکھا گیا ہے۔
جنّات کی حقیقت از حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ
(گذشتہ سے پیوستہ)’’یہ وہ مضامین ہیں جو جِنّات کے متعلق آتے ہیں۔ میرے نزدیک ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جِنّ قرآن کریم میں کئی چیزوں کا نام رکھا گیا ہے۔ اوّل جِنّ بعض ارواح خبیثہ کا نام رکھا گیا ہے جو شیطانی خیالات کے لئے اُسی طرح متحرک ہوتی ہیں جس طرح کہ ملائکہ نیک تحریکوں کے محرّک ہوتے ہیں۔ گویا وہ شیطان جو بدی کا محرّک ہے وہ اس کے اظلال اور مددگار ہیں۔ یہ مضمون سورۃ النّاس کی آیت سے نکلتا ہے۔جیسا کہ فرمایا:
الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ مِنَ الۡجِنَّةِ وَ النَّاسِ۔
دوم ان خیالی وجودوں کا نام جِنّ رکھا گیا ہے جن کی کافر لوگ پوجا کرتے تھے۔ ان وجودوں کی تصدیق نہیں کی بلکہ صرف یہ بتایا ہے کہ کفّار بعض ایسے وجود فرض کرتے ہیں اور اُن کی پوجا کرتے ہیں اور اُن کی یہ غلطی ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس عقیدہ کی کہ واقعہ میں ایسے جِنّ ہوتے ہیں تصدیق کرتا ہے بلکہ صرف ان کا عقیدہ بیان کرتا ہے کہ وہ ایسے وجود مانتے ہیں اور اُن کی پوجا کرتے ہیں۔اس کا ثبوت سورۃ انعام کی آیت :
وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ الۡجِنَّ وَ خَلَقَہُمۡ وَ خَرَقُوۡا لَہٗ بَنِیۡنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ (الانعام :101)
یعنی مشرک لوگ جِنّوں کو اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں، حالانکہ اُس نے ان کو پیدا کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور بیٹیاں بغیر علم کے تجویز کرتے ہیں۔ اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ وَخَلَقَهُمْ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے جِنّوں کا وجود ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وَخَلَقَهُمْ حال جَعَلُوْا کی ضمیر کا ہے، نہ کہ جِنّوں کا۔ اور مراد یہ کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو پیدا کیا ہے یہ کہتے ہیں کہ جِنّ اللہ تعالیٰ کے شریک کار ہیں۔
اس کا ثبوت کہ لوگ جس قسم کے جِنّ مانتے ہیں، ان کا وجود خیالی ہے، سورۃ سباء کی آیت سے ملتا ہے:
وَ یَوۡمَ یَحۡشُرُہُمۡ جَمِیۡعًا ثُمَّ یَقُوۡلُ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اَہٰۤؤُلَآءِ اِیَّاکُمۡ کَانُوۡا یَعۡبُدُوۡنَ۔ قَالُوۡا سُبۡحٰنَکَ اَنۡتَ وَلِیُّنَا مِنۡ دُوۡنِہِمۡ ۚ بَلۡ کَانُوۡا یَعۡبُدُوۡنَ الۡجِنَّ ۚ اَکۡثَرُہُمۡ بِہِمۡ مُّؤۡمِنُوۡنَ۔(سباء:41تا42)
یعنی یاد کرو جب اللہ تعالیٰ سب انسانوں کو جمع کرے گا پھر ملائکہ سے کہے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے۔وہ جواب میں کہیں گے کہ توپاک ہے اور تو ہی ہمارا دوست ہے، ان سے ہمارا کوئی بھی تعلق نہیں۔ یہ بات غلط ہے کہ یہ ہماری عبادت کرتے تھے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ جِنّوں کی پرستش کرتے تھے، اور ان میں اکثر ان پرا یمان لاتے تھے۔
سوال یہ کہ اگر انسان جِنّوں کی پرستش نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ نے ملائکہ سے پوچھا کیوں ؟ اللہ تعالیٰ کی ہستی تو عالم الغیب ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی مشرک بھی فرشتوں کی عبادت نہ کرتا ہو اور اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھے کہ کیا یہ تمہاری پوجا کرتے تھے۔ نیز اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ کسی جہت سے بھی نہیں کہا جا سکتا کہ لوگ فرشتوں کو اُلو ہیت کا درجہ دیتے ہیں۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کا فرشتوں سے جواب طلب کرنا ظلم بن جاتا ہے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خود قرآن کریم فرماتا ہے:
فَاسۡتَفۡتِہِمۡ اَلِرَبِّکَ الۡبَنَاتُ وَ لَہُمُ الۡبَنُوۡنَ۔اَمۡ خَلَقۡنَا الۡمَلٰٓئِکَةَ اِنَاثًا وَّ ہُمۡ شٰہِدُوۡنَ۔(الصافات:150تا151)
یعنی ان سے پوچھ کہ تمہارے تو بیٹے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ نے جب فرشتوں کو مؤنث بنا کر پیدا کیا تھا، تو یہ لوگ اُس وقت موجود تھے۔اس آیت سے ظاہر ہے کہ فرشتوں کو مشرک اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے ہیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ خدا کی بیٹی بھی خدا ہی قرار پائے گی اور قابل پرستش سمجھی جائے گی۔ جیسے حضرت عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہا جاتا ہے اور قابل پرستش سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ سورت نحل میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے شرک کے ذکر میں بیان فرمایا ہے:
وَ یَجۡعَلُوۡنَ لِلّٰہِ الۡبَنٰتِ سُبۡحٰنَہٗ (النحل :58)
اور یہ لوگ اس طرح بھی شرک کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ ایسے نقص سے پاک ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر مشرک ملائکہ کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں، اور اگر کسی کو خدا تعالیٰ کی بیٹی یا بیٹا قرار دینا شرک ہے تو پھر ملائکہ کس طرح کہتے ہیں کہ الٰہی یہ لوگ ہماری پوجا نہیں کرتے تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ پر سے اعتراض اٹھ کر فرشتوں پر اعتراض پڑ جاتا ہے۔ مگر غور کیا جائے تو ان پر بھی اعتراض نہیں پڑتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا سوال ظاہر پر تھا اور ملائکہ کا جواب باطن کو مدنظر رکھ کر ہے۔ مشرک ظاہر میں تو یہی کہتے ہیں کہ ملائکہ خدا تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں، اور ان کو خوش کرنا بھی ان کے لئے ضروری ہے۔ لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ نہ وہ ملائکہ کو جانیں نہ ان کی طاقتوں کو، یونہی ملائکہ کا ذکر بڑوں سے سن کر ایک خیالی وجود انہوں نے اپنے ذہن میں بنا لیے، اور خیال کیا کہ یہ ملائکہ ہیں اور اللہ کی بیٹیاں ہیں۔حالانکہ وہ وجود محض ذہنی تھے، نہ ملائکہ والے صفات ان میں تھے نہ کام تھے۔ پس درحقیقت ان کی عبادت ملائکہ کے لئے نہ تھی بلکہ چند خیالی اور نظر نہ آنے والے وجودوں کے لئے تھی جنہیں عربی زبان میں جِن کہہ سکتے ہیں۔ پس ملائکہ نے جو جواب دیا وہ بھی درست ہے۔وہ کہتے ہیں الٰہی ہماری انہوں نے کیا پوجا کرنی تھی ہم تو تیرے بندے اور تیری حفاظت میں ہیں۔ یہ تو چند ایسے وجودوں کی پرستش کرتے تھے جو محض خیالی اور غیرمرئی ہیں۔ اگر اس قسم کے جِنّوں کا وجود ہوتا جس قسم کا عوام کہتے ہیں تو پھر فرشتوں کا یہ قول کہ وہ جِنّوں کی پرستش کرتے تھے جھوٹ ہو جاتا کیونکہ مشرک یقیناً ملائکہ کو بنات اللہ قرار دے کر ان کی پرستش کرتے تھے اور اسی صورت میں ان کی پرستش کو جِنّوں کی پرستش کہا جا سکتا ہے کہ جبکہ جِنّ کے معنی خیالی اور بناوٹی وجود کے لئے جائیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ جِنّوں کی بھی پرستش کرتے تھے تو گو یہ درست ہے کہ بعض وجودوں کی پرستش مشرک جِنّ کے نام سے بھی کرتے تھے، مگر یہاں وہ مراد نہیں ہو سکتی۔کیونکہ جِنّوں کی پرستش سے ملائکہ کی پرستش کی نفی تو نہیں ہو جاتی۔ مشرک تو ہزاروں قسم کے بت بناتا ہے۔ انسانوں کو بھی خدا کہتا ہے، سورج چاند کو بھی،دریاؤں کو بھی، ملائکہ کو بھی، اپنے مزعومہ جِنّوں کو بھی۔ پس جِنّوں کی پرستش کرنے کی وجہ سے ملائکہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی پرستش کاا نکار کریں۔ یہ حق انہیں تبھی پیدا ہوتا ہے جب کہ وہ پرستش جو ان کے نام سے کی جاتی تھی کسی دلیل کی بناء پر کسی خیالی وجود کی طرف منسوب کی جاسکے، اور یہی انہوں نے کہا ہے۔ پس جِنّ سے مراد اس آیت میں خیالی اور ذہنی وجود کے ہیں جن کا نام کفار نے ملائکہ رکھ لیا ہے مگر فی الواقعہ وہ ملائکہ نہ تھے۔
جِنّ چونکہ مخفی وجود کو کہتے ہیں، اس لئے جنّ کا لفظ قرآن کریم میں عربوں اور دوسری اقوام کے محاورہ کے مطابق ان اقوام کے لئے بھی بولاجاتا ہے جو شمالی علاقوں میں اور سرد ممالک میں رہتی تھیں۔ چونکہ لوگ بوجہ شدّت سردی کے ان کے ممالک کی طرف سفر نہیں کرتے تھے، اور وہ گرمی کی وجہ سے ادھر نہ آتے تھے۔ نیز چونکہ سرد علاقوں میں رہنے کے سبب وہ زیادہ سفید رنگ والے اور شراب کے استعمال کی وجہ سے زیادہ سرخ تھے، ایشیا کے لوگ انہیں کوئی الگ قسم کی مخلوق سمجھتے تھے اور انہیں جِنّ اور پریاں کہتے تھے۔ یہ ان کا عام نام تھا، چنانچہ جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں یہود کا یہ عقیدہ تھا کہ جِنّ شمالی علاقہ میں رہتے ہیں۔ چنانچہ شرکی ربّی الیعذرنے اپنی کتاب میں یہی لکھا ہے کہ جِنّ زیادہ تر دنیا کے شمالی علاقوں میں رہتے ہیں۔ہندو قوم نے بھی اپنے شمال میں ہی جِنّوں کا مقام تجویز کیا ہے، چنانچہ جیسا کہ حوالہ گزر چکا ہے کہ ہندوؤں کے نزدیک گندھروا لوگوں کا علاقہ ہندوستان کے شمال مغرب میں تھا اور ٹکسلا شہر کا جو علاقہ ہزارہ میں تھا اُسے وہ گندھروا کے علاقے کا شہر کہتے تھے، اور دریائے سندھ کے شمال کے علاقہ کو ان کا مسکن قرار دیتے تھے یعنی ہزارہ افغانستان وغیرہ۔ مسلمانوں میں بھی جو قصے کہانیاں مشہور ہیں ان میں بھی جِنّات کا مسکن کوہ قاف اور اس کے پار کا علاقہ سمجھاجاتا ہے۔ پس یہ ظاہر ہے کہ شمالی علاقوں کے سرخ و سفید لوگ جو تمدّنی حالات کے ماتحت قریباً بالکل ایشیا سے الگ ہو گئے تھے اور بہت کم ادھر آتے تھے، اور مذہب اور طور طریق کے لحاظ سے بھی بالکل الگ تھے، ایشیا کے رہنے والوں کے نزدیک جو اس وقت تمدّن کے حامل تھے جِنّ تھے کیا بلحاظ اپنی شکلوں کے اور کیا بلحاظ ایشیا سے دور رہنے کے (شائد ہندوؤں نے نہ صرف شمال مغربی علاقہ کے ساکنوں کو ظاہری شکل کی وجہ سے بلکہ ان کی قوت اور طاقت کی وجہ سے کہ وہ ہمیشہ ہندوستان پر حملے کرتے رہتے تھے ان کو جِنّ قرار دیا)اسی محاورہ کے مطابق قرآن کریم میں بھی سورۃ رحمٰن میں ان شمالی لوگوں کو یعنی یورپ کے باشندوں کو جِنّ کہا ہے۔ اس سورت میں آخری زمانہ کے تغیرات کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس زمانہ میں دو مشرق اور دو مغرب ہو جائیں گے۔ یعنی امریکہ کی دریافت سے دو علاقے مشرق اور دو مغرب کہلانے لگیں گے۔ اسی طرح نہر سویز کے ذریعہ دو سمندروں کے ملنے اور بڑے بڑے جہازوں کے چلنے کی خبر دی گئی ہے۔ اسی طرح بتایا گیا ہے کہ اس وقت سائنس کی ترقی کے ساتھ لوگ آسمانی بادشاہت کو فتح کرنے میں مشغول ہوں گے اور سمجھیں گے کہ وہ جلد کائنات کا راز دریافت کرنے والے ہیں۔ اس وقت آسمان سے آگ گرے کی اور بم گریں گے اور سرخ روشنائیاں آسمان پر چھوڑی جائیں گی۔ اور آخر کفر و شرک کو تباہ کرکے اسلام کو غلبہ دیا جائے گا۔ اس مضمون کے سلسلہ میں جِنّ و انس کو بھی مخاطب کیا گیا ہے، اور جِنّ سے مراد وہی شمالی علاقوں کے لوگ یعنی یورپین مراد ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اس زمانہ میں یورپ اور ایشیا کے لوگ باہم مل جائیں گے اور سائنس کی بڑی ترقی ہوگی، مگر بے دینی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ عذاب نازل کرے گا، اور پھر اسلام کو قائم کرے گا۔ ثقلان اور جِنّ اور الناس سے مراد ڈیماکریسی اور ڈکٹیٹروں کی حکومت بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ جِنّ کے معنی عربی لغت میں اکثریت کے بھی ہیں۔ اور الناس کے معنی خاص آدمیوں کے بھی ہو سکتے ہیں۔ پس جِنّ سے مراد ڈیماکریسی ہے۔ اور الناس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو خاص قرار دے کر حکومت اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ ثقل کے معنی اعلیٰ اور خاص شئے کے ہوتے ہیں۔ جیسے رسول کریم ﷺ نے قرآن کریم اور اپنی اولاد کو ثقلان قرار دیا ہے۔ پس الثقلان سے مراد یہ دونوں گروہ ہیں جو اس وقت ساری دنیا پر غالب ہوں گے، یعنی ڈیماکریسی کے نام پر دنیا کو مغلوب کریں گے، اور بعض فاشزم اور ناٹزم کے نام پر دنیا کو سمیٹنا چاہیں گے، اور اپنے آپ کو سب دنیا سے بہتر قرار دیں گے۔
اس کے علاوہ قرآن کریم میں غیر قوموں اور غیر مذاہب کے لوگوں کے لئے بھی جِنّ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، مثلاً حضرت سلیمان ؑکے ذکر میں جہاں جِنّوں کا ذکر ہوا ہے اُس سے مراد غیر قوموں کے لوگ ہی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان جِنّوں کی نسبت فرماتا ہے کہ
یَعۡمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِیۡبَ وَ تَمَاثِیۡلَ وَ جِفَانٍ کَالۡجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ (سباء :14)
وہ جِنّ حضرت سلیمان ؑکے لئے دربار کا کمرہ، مسجد کا محراب اور محل بناتے تھے۔ اور مجسمے، اور بڑے بڑے حوض جو کنووں کی طرح تھے، اور بڑی بڑی دیگیں تیار کرتے تھے۔ اب ہم بائبل دیکھتے ہیں کہ یہ کام حضرت سلیمان ؑکے لئے کس نے کئے ہیں، تو ہمیں 2تواریخ باب 7،6میں لکھا ملتا ہے کہ حضرت سلیمان ؑنے بڑی عبادت گاہ تعمیر کرنے کا ارادہ کیا، تو آپ نےصور کے بادشاہ کو خط لکھا کہ اپنے انجینئروں میں سے میرے پاس ایک انجینئر بھجواؤ ’’جو سونے اور روپے اور پیتل اور لوہے اور ارغوانی اور قرمزی اور آسمانی رنگوں کے کاموں میں ہوشیار اور نقاشی میں دانشمند ہو۔‘‘اسی طرح لکھا کہ وہاں کی لکڑی بھجوا دو اور میں لکڑی کاٹنے والوں کو اس اس قدر مزدوری دوں گا۔ آیت نمبر 10اورپھر آیت نمبر 14میں صور کے بادشاہ کا جواب ہے کہ اس نے حضرت سلیمانؑ کے کہنے پر ایک انجینئر حورام ابی نامی بھجوایااور کہا کہ یہ سب فنون کا ماہر ہے۔ اور لکھا کہ لکڑی کاٹنے پر میں نے آدمی لگا دیئے ہیں، ان کی مزدوری بھجوا دیں۔آیت 15۔یہ تو غیر ملکی انجینئر کا ذکر ہے۔ جو مزدور لگائے گئے ان کا یوں ذکر آتا ہے:’’اور سلیمان نے اسرائیل کے ملک میں سارے پردیسیوں کو گنوایا، بعد اس گننے کے جو اس کے باپ داؤد نے گنوایاتھا، اور وے ایک لاکھ ترپن ہزار چھ سو ٹھہرے، اور اس نے ان میں سے ستر ہزار کو باربرداری پر اور اسّی ہزار کو پہاڑ توڑنے پر مقرر کیا اور ان پر تین ہزار اوور سیئر مقرر کئے کہ ان لوگوں سے کام لیویں۔‘‘آیت 17و18۔ان آیات سے ظاہر ہے کہ مزدوری پر بھی غیر قوموں کے لوگ مقرر کئے گئے تھے۔
اب جو کام اس صور کے انجینئر نے کیا وہ بائبل میں یہ لکھا ہے کہ اس نے ایک بہت بڑا ہال عبادت کے لئے بنایا (محاریب) اور بڑے ہال کے اندر فرشتوں کے مجسمے دیواروں کے اندر کھود کر بنائے، اور اسی طرح بڑے ہال میں بھی دو فرشتوں کے مجسمے تراش کر بنائے (تمثال)۔ (2تواریخ باب 3آیت 7و10تا 13)۔ اور پھر باب 4آیت 2و6میں بتایا ہےکہ ایک بڑا حوض بنایا جو دھاتوں سے ڈھالاہوا تھا۔اس کے علاوہ دس چھوٹے حوض بنائے (جفانٍ کالجواب)۔پھر اسی باب 4کی آیت 16میں لکھا ہے کہ حورام انجینئر نے جو باہر سے آیا تھا :’’اور ایک بحر( لفظی معنی سمندر مراد بڑاحوض) اور اس کے نیچے بارہ بیل اور دیگیں اور پہاوڑے اور کانٹے اور سب ظروف جو حورام ابی نے سلیمان بادشاہ کی خاطر خداوند کے گھر کے لئے بنائے صاف پھول دھات کے تھے۔‘‘اس ایک آیت میں دیگوں(قدورراسیٰت)حوضوں اور مجسموں کا ذکر اکٹھاآگیا ہے۔
غرض وہ سب اشیاء جن کا ذکر اس آیت میں آیا ہے حضرت سلیمان ؑنے حورام ابی سے جو ایک غیر ملکی انجینئر تھا، اور غیر ملکی مزدوروں سے بنوائی تھیں۔ پس جِنّ سے مراد محض غیر ملکی اور غیر قوم کے لوگ ہیں، جن کو حضرت سلیمانؑ کے ساتھ کوئی دلچسپی نہ تھی صرف رعبِ خدا داد کی وجہ سے وہ آپ کے تصرف کے نیچے آئے ہوئے تھےاور آپ کا کام کرتے تھے۔ جب آپ فوت ہوگئے تو کچھ مدت تک تو آپ کی حکومت کا رعب ان لوگوں کے دلوں پر رہا۔ جب آپ کے لڑکے نے بعض نالائقیوں کی وجہ سے اس رعب کو ضائع کر دیا تو وہ لوگ پچھتائے کہ خواہ مخواہ ان کےلکڑیاں ڈھونے اور دوسرے ذلیل کاموں میں ہم کیوں لگے رہے۔ اور یہ ذلت برداشت کی اگر یہ حکومت اتنی جلدی فنا ہو جانی تھی تو ہم مقابلہ جاری رکھتے۔
چوتھا استعمال جِنّ کے لفظ کا قرآن کریم میں ان لوگوں کے متعلق ہے جو حضرت آدم کے زمانہ میں دنیا پر بستے تھے۔ اور جن میں سے نکل کر حضرت آدم نے ایک نیا نظام قائم کیا تھا۔ چونکہ آدم نظام کا قائم کرنے والا پہلا شخص تھا۔اس سے پہلے لوگ نظام کی قدر کو نہ جانتے تھے، اور جانوروں کی طرح الگ الگ درختوں کی جڑوں میں یا غاروں میں رہتے تھے۔اور جنگلی درندوں کی وجہ سے سطح زمین پر آسانی سے چل پھر نہیں سکتے تھے۔ان کا نام ان کی حالت کے مطابق جِنّ رکھا گیا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کو آج کل کے مورخCAVEMANکہتے ہیں یعنی کھوہوں اور غاروں میں رہنے والے لوگ، جو سطح زمین پر بود باش نہ کرتے تھے۔ جب انسانی دماغ نے ترقی کی اور انسان الہام کی نعمت کے قبول کرنے کے قابل ہو گیا،تو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو جسے اُس نے آدم کا خطاب دیا کیونکہ وہ سطح زمین پر رہنے کے قابل ہو گیا تھا اور انسان کا خطاب دیا۔ کیونکہ وہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کی محبت کے قابل ہو گیا تھا، تو دوسری طرف بنی نوع کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ان کے لئے قربانی کرنے کے قابل تھا اپنے الہام کے لئے چنا۔(دیکھو تفصیلی دلائل کے لئے میری کتاب سیر روحانی جلد اوّل)۔جنہوں نے اس کے نظام کو قبول کیا اور اس کے ساتھ مل گئے، اور باہر نکل کر مکان وغیرہ بنانے لگے۔ اور تمدّنی قوانین کی پابندی کو منظور کر لیا۔ وہ آدمی کہلائے، لیکن جنہوں نے وحشت کی زندگی کو ترک کرنے سے انکار کر دیا اور غاروں کی زندگی کو حرّیت قرار دیا، ان کا نام ان کے طرز رہائش کی وجہ سے جِنّ قرار پایا۔پس جِنّ بشری ترقی کے دور کے اس حصے کے افراد کانام ہے جو تمدّن سے عاری تھے، اور نظام کو قبول کرنے کے ناقابل تھے۔اور آدمی بشری ترقی کے دور کے اس حصے کا نام ہے جس میں ایک جماعت نے مل کر رہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے اور ایک نظام کی پابندی کا اقرار کیا۔ آئندہ کے لئے یہ دو نام ان دو صفات کے ساتھ وابستہ ہو گئے اور جو لوگ نظام کے باغی ہوں ان کا نام جِنّوں کی ذریت رکھا گیا، اور جو نظام کے تابع ہوں ان کا نام آدم کی ذریت رکھا گیا۔ اب یہ دونوں نام صفاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے کبھی جِنّوں کی اولاد اصلاح کرکے آدمی ہو جاتی ہے اور کبھی آدمیوں یعنی پابند نظام لوگوں کی اولاد گندی اور نظام شکن ہو کر جِنّ بن جاتی ہے۔
اب رہا رسول کریم ﷺ کے زمانہ کا سوال کہ اُس وقت جو جِنّ ایمان لائے تھے وہ کیسی مخلوق تھی۔ سو اس کے متعلق قرآن کریم سے ثابت ہے کہ وہ یہودی تھے، کیونکہ وہ موسیٰ کی کتاب کا اور اس پر ایمان لانے کا ذکر کرتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ وہ یہودی لوگ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو جِنّ اس لئے کہا ہے کہ وہ باہر کے لوگ تھے۔ اور رسول کریمﷺ سے مخفی ملے تھے۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نصیبین کے رہنے والے تھے اور رات کے وقت رسول کریم ﷺ سے ملے تھے۔ (بخاری کتاب مناقب الانصار، و مسلم جز اوّل)واپس جا کر جو واقعہ ان کے اور ان کی قوم کے ساتھ گزرا اللہ تعالیٰ نے اُس کا ذکر قرآن کریم میں فرمایا ہے۔ معلوم ہوتا ہے عرب لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے انہوں نے چھپ کر رسول کریمﷺ کی زیارت کی، اور آپ سے قرآن سنا۔ جب واپس ہوئے تو دلوں نے گواہی دی کہ آپ سچے ہیں، اور اپنی قوم میں تبلیغ شروع کر دی۔
اس امر کا ثبوت کہ یہ جِنّ انسان تھے مندرجہ ذیل ہے۔ اوّل: یہ کہ وہ پوشیدہ ملے۔ اگر وہ جِنّ تھے تو ان کو پوشیدہ اور رات کو ملنے کی کیا ضرورت تھی، علی الاعلان ملتے تو کوئی ان کا کیا بگاڑ سکتا تھا۔اور جِنّوں کی جو شان بیان کی جاتی ہے اس لحاظ سے انہیں دیکھ بھی کون سکتا تھا۔
دوم :قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لِتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ۔(الفتح:10)۔
یعنی مومنو! ہم نے یہ رسول اس لئے بھیجا ہےکہ تم اس کی مدد اور نصرت کرو، اور اس کی عزت دنیا میں قائم کرو۔اگر جِنّات ایمان لائے تھےتو وہ کس رنگ میں رسول کریم ﷺ کی مدد کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ جِنّ لوگوں کے سروں پر چڑھ جاتے ہیں، اور قِسم قِسم کے پھل لاکر دیتے ہیں۔ یہ کیسے مومن تھے کہ محمد رسول اللہﷺ پر ظلم پر ظلم ٹوٹا، لیکن کا فر جِنّوں نے تو حضرت سلیمان کے لئے قلعے تیار کئے اور ہر ذلیل سے ذلیل کام ان کی خاطر کیا۔ یہ مومن ایسے طوطا چشم تھے کہ ابو جہل وغیرہ کسی کو انہوں نے سزا نہ دی۔ اور پھر یہ جِنّ لوگوں کو تو بے موسم پھل لاکر دیتے تھے، مگر محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لاکر انہیں یہ توفیق بھی نہ ملی، کہ جب غزوہ خندق کے موقعہ پر آپ ﷺ پر اور دوسرے مسلمانوں پر فاقےپر فاقے آ رہے تھے اور آپﷺ اور آپ کے صحابی پیٹوں پر پتّھرباندھے پھر رہے تھے یہ لوگ آپﷺ کے لئے اور آپ کے صحابہ کے لئے جَو کی روٹیاں ہی لادیتے۔یہ تو ایمان کی علامت نہیں، اوّل درجہ کی شقاوت کی علامت ہے۔ لیکن قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ وہ ایماندار مخلص تھے۔پس ظاہر ہے کہ نہ اُن جِنّوں کو جن کا ذکر سورۃ جِنّ میں ہے طاقت ہے کہ کسی کے سر پر چڑھیںاور انسانوں پر قبضہ کر سکیںیا انہیں ستا سکیںاور نہ ہی ان میں کسی کو کچھ لاکر دینے کی طاقت ہے۔ایسے جِنّ صرف وہمی لوگوں کے دماغ میں ہیں قرآن کریم ایسے جِنّوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس نے تو جو جِنّ پیش کئے ہیں انہی اقسام کے ہیں جو میں نے بیان کئے۔ اور ان اقسام میں سے جو جِنّ رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے وہ یہودی تھےجنہوں نے کلام سنا اور اپنے گھروں کو چلے گئے۔اور آخر ایمان لانے کا فیصلہ کیا اور اپنی قوم کو پیغام پہنچا دیا۔ عرب سے ہزاروں میل دور بسنے والے تھے، بعد میں نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں رسول کریم ﷺ کے متعلق کوئی خبر ملی بھی یا نہیں ملی۔ اس وجہ سے وہ اسلامی جنگوں میں عملاً کوئی حصہ نہ لے سکے۔
تیسرا ثبوت اس امر کا کہ یہ جِنّ انسان تھے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رسولوں کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ مِنْ اَنْفُسِھِمْ اور مِنْھُمْ ہوتے ہیں۔
یعنی جن کی طرف آتے ہیں انہی کی قوم کے ہوتے ہیں۔چنانچہ فرماتا ہے:
وَ یَوۡمَ نَبۡعَثُ فِیۡ کُلِّ اُمَّةٍ شَہِیۡدًا عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ جِئۡنَا بِکَ شَہِیۡدًا عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ۔(النحل:90)
یعنی قیامت کے دن ہر امت کا رسول جو انہی میں سے ہوگا بطور گواہ لایا جائے گا، اور محمد رسول اللہﷺ کو امتِ محمدیہ اور اس زمانہ کے لوگوں پربطور گواہ بھیجا جائے گا۔اگر جِنّ بھی کوئی ایسی قوم ہے جو ایمان لاتی ہے تو اس پر گواہی کون دے گا۔ موسیٰ تو جِن نہیں کہ ان جِنّوں کے متعلق ان سے پوچھا جائے گا،جو ان پر ایمان لائے تھے۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ انسان تھے، وہ جِنّوں سے مِنْ اَنْفُسِھِمْ کی نسبت نہیں رکھتے۔ پس آپ جِنّوں کے متعلق شہید نہیں ہو سکتے۔مِنْ اَنْفُسِھِمْ سے مراد پہلے انبیاء کی نسبت سے ان کی اقوام ہیں۔اور رسول کریم ﷺ کی نسبت سے آپ کے زمانہ کے بعد کے سب انسان۔پس جِنّ اگرکوئی انسانوں جیسی مکلّف مخلوق ہے تو وہ یونہی رہ جاتی ہے، نہ ثواب کے مستحق،نہ عذاب کے۔
چوتھا ثبوت اس دعویٰ کی تائید میں یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ وَ یُنۡذِرُوۡنَکُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا۔(الانعام:131)
یعنی اے جِنّوں اور انسانوں کی جماعتو!کیا تمہارے پاس تمہاری قوموں میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تم کو میرے نشانات پڑھ کر سناتے تھےاور آج کے دن کے دیکھنے سے تم کو ہوشیار کرتے تھے۔ اس آیت میں صاف لکھا ہے کہ جِنّوں کی طرف ان کی قوم کے نبی آئے، اور انسانوں کی طرف انسان نبی۔اب اگر جِنّ کوئی دوسری مخلوق ہے تو اس آیت کے ماتحت نہ تو موسیٰ ان کے نبی ہو سکتے ہیں نہ نبی کریم ﷺ۔ کیونکہ جِنّوں کی طرف اس آیت کے ماتحت جِنّ نبی ہی آئے تھے۔ ہاں اگر جِنّوں سے انسانوں کا کوئی گروہ مراد ہے تو بے شک وہ موسیٰ اور آنحضرت ﷺ کے مومن ہو سکتے ہیں۔
پانچواں ثبوت اس امر کا کہ عوام میں جو جِنّ مشہور ہیں ان کا کوئی وجود نہیں، اور یہ کہ رسول کریم ﷺ پر جو جِنّ ایمان لائے تھے وہ انسان ہی تھے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جہنّم کی نسبت فرماتا ہے:
فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ۔(البقرۃ :25)
دوزخ میں یاتو انسان ہوں گے یا پتھر وغیرہ آگ کو بھڑکانے والے سامان ہوں گے۔ اگر جِنّ کوئی مکلّف مخلوق ہے تو یوں چاہیئے تھا:
وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْجِنُّ وَالْحِجَارَةُ۔
پس جہاں قرآن کریم نے جِنّ قوم کو دوزخی کہا بھی ہے وہاں انسان جِنّ مراد ہیں، نہ کوئی غیر مخلوق۔
چھٹا ثبوت ان مومن جِنّوں کے انسان ہونے کا یہ ہے کہ مسند احمد بن حنبل میں آتا ہے :
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لَقَدْ اعطَیْتُ اللَّیْلَةَ خَمْسًا مَا اعْطَیْھُنَّ اَحَدٌ قَبْلِیْ اَمَّا اَنَا فَاُرْسلْتُ اِلَی النَّاسِ کُلَّھمْ عَا مَةً وَكَانَ مِنْ قَبْلیْ اِنَّمَا یُرْسِلُ الی قَوْمِهٖ
(جلد دوم صفحہ 222)۔
یعنی رسول کریم ﷺ نے نماز تہجد پڑھ کر جو پہریدار آپ کے پیچھے نماز میں شامل ہو گئے تھے ان سے فرمایاکہ آج پانچ خصوصیتیں مجھے ایسی عطا کی گئی ہیں کہ اس سے پہلے یہ خصوصیتیں کسی کو نہیں ملیں۔ ایک تو یہ کہ میں سب اقوام کی طرف بلا استثنا مبعوث کیا گیا ہوں۔اور جو مجھ سے پہلے نبی گزرے ہیں وہ صرف اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے۔ (آگے بقیہ چار خصوصیتیں بیان کی گئی ہیں، یہ بھی یاد رہے کہ اس رات پانچ خصو صیتیں جمع کرکے آپ کو بتلائی گئی تھیں۔ ورنہ بعض خصوصیات مثلاً یہی جو اوپر بیان ہوئی ہے شروع زمانہ اسلام میں ہی آپ کو مل چکی تھیں)۔اس حدیث کے ہوتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ یہ جِنّ جو آنحضرتﷺ پر ایمان لائے تھے کوئی اور مخلوق تھی۔ کیونکہ قرآن کریم صاف بتاتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مومنوں میں سے تھے۔ اگر وہ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے تو ان کا موسیٰ پر ایمان لانا جائز ہی کس طرح ہو سکتا ہے۔ اگر اعتراض ہو کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا۔(المزمل:16)
موسیٰ فرعون کی طرف بھی مبعوث تھے حالانکہ فرعون بنی اسرائیل میں سے نہ تھا۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ قوم سے مراد کبھی نسلی قوم ہوتی ہے اور کبھی ملکی۔ جیسے ہندوستان میں مختلف اقوام بستی ہیں، ان میں جو نبی آتا تھا وہ ہندوستانی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا، نہ کہ برہمن یا راجپوت کی طرف۔کیونکہ ایک ہی جگہ رہنے والی اقوام کو سہولت کے لئے ایک قوم شمار کر لیا جاتا ہے۔پس فرعون کے ساتھ اور اس کی قوم کے ساتھ چونکہ حضرت موسیٰ حکومت اور سیاست اور قانون اور تمدّن کے ذریعہ بندھے ہوئے تھے ان کو تو ایک قوم سمجھ لیا گیا، مگر جِنّوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کیا نسبت تھی، حکومت کے لحاظ سے، یا سیاست کے لحاظ سے یا قانون کے لحاظ سے یا تمدّن کے لحاظ سے کہ ان کو بھی موسیٰ پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا۔ اگر کہو کہ حضرت موسیٰ مبعوث تو بنی اسرائیل اور ان کے ساتھ رہنے والی قوم کی طرف ہی ہوئے تھے، مگر جِنّ اپنے طور پر ان پر ایمان لے آئے، تو یہ بھی درست نہیں ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا ایک واقعہ انجیل میں بیان ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے دوسری اقوام کو اپنی جماعت میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ بلکہ جب ان سے ایک غیر قوم کے آدمی نے تبلیغ کرنے کے لئے کہا تو آپ نے فرمایاکہ ’’لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کے آگے ڈالنی اچھی نہیں۔‘‘( متی باب 15آیت 62)۔ پس یہ بھی درست نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے ایمان لے آئے تھے۔ کیوں کہ جِنّ اگر کوئی مکلّف قوم ہے تو اس کے لئے صرف اس نبی پر ایمان لا نا فرض ہے جو مِنْ اَنْفُسِھم ہو۔ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا ان کے لئے جائز نہ تھا۔ غرض قرآن کریم کی آیات اور مذکورہ حدیث کی رُو سے کم سے کم رسول کریم ﷺ سے پہلے جِنّوں کے لئے الگ نبی مبعوث ہونے ضروری تھے۔ جو خود ان میں سے ہوتے۔ نیز جِنّوں کی مختلف قوموں کی طرف الگ الگ نبی مبعوث ہونے ضروری تھے۔
(تفسیر کبیر جلد4صفحہ62تا68)
(جاری ہے)