خدا نے اپنے قول سے حضرت عیسیٰ کی وفات پر گواہی دی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل سے
ہمارے مخالف مولوی لوگوں کو دھوکہ دیکر یہ کہا کرتے ہیں کہ قرآن شریف سے اگرچہ نہیں مگر حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔ مگر ہمیں معلوم نہیں کہ حدیثوں میں کہاں اور کس جگہ لکھا ہے کہ وہی اسرائیلی نبی جس کا عیسیٰ نام تھا جس پر انجیل نازل ہوئی تھی باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کے پھر دنیا میں آجائے گا۔ اگر صرف عیسیٰ یا ابن مریم کے نام پر دھوکہ کھانا ہے تو قرآن کریم کی سورۂ تحریم میں اس امت کے بعض افراد کا نام عیسیٰ اور ابن مریم رکھ دیا گیا ہے۔ ایماندار کےلیے اس قدر کافی ہے کہ اس امت کے بعض افراد کا نام بھی عیسیٰ یا ابن مریم رکھا گیا ہے۔ کیونکہ جب خدائے تعالیٰ نے سورۂ موصوفہ میں بعض افرادِ امت کو مریم سے مشابہت دی اور پھر اس میں نفخ روح کا ذکر کیا تو صاف ظاہر ہے کہ وہ روح جو مریم میں پھونکی گئی وہ عیسیٰ تھا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس امت کا کوئی فرد اوّل اپنی خداداد تقویٰ کی وجہ سے مریم بنے گا اور پھر عیسیٰ ہو جائے گا۔ جیسا کہ براہین احمدیہ میں خدائے تعالیٰ نے پہلے میرا نام مریم رکھا اور پھرنفخ روح کا ذکر کیا اور پھر آخر میں میرا نام عیسیٰ رکھ دیا۔
اور حدیثوں میں تو صاف لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں حضرت عیسیٰ کو مردہ روحوں میں ہی دیکھا۔ آپ عرش تک پہنچ گئے مگر کوئی عیسیٰ نام ایسا نظر نہ آیا جو معہ جسم عنصری علیحدہ تھا۔ دیکھا تو وہی روح دیکھی جو یحییٰ وفات یافتہ کے پاس تھی ظاہر ہے کہ زندوں کو مردوں کے مکان میں گزر نہیں ہوسکتا۔ غرض خدا نے اپنے قول سے حضرت عیسیٰ کی وفات پر گواہی دی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل سے یعنی رویت سے وہی گواہی دے دی۔ اگر اب بھی کوئی نہ سمجھے تو پھر اس سے خدا سمجھے گا۔
ماسوا اس کے یہود سے زیادہ اُن کو تجربہ ہو چکا ہے کہ خدا تعالیٰ کی عادت نہیں ہے کہ دوبارہ دنیا میں لوگوں کو بھیجا کرے۔ ورنہ ہمیں تو عیسیٰ کی نسبت حضرت سیدنا محمد مصطفیٰؐ کے دوبارہ دنیا میں آنے کی زیادہ ضرورت تھی اور اسی میں ہماری خوشی تھی۔ مگر خدا تعالیٰ نے
اِنَّکَ مَیِّتٌ
کہہ کر اس امید سے محروم کر دیا۔ یہ بات سوچنے کے لائق ہے کہ اگر دوبارہ دنیا میں آنے کا دروازہ کھلا تھا تو خداتعالیٰ نے کیوں چند روز کےلیے الیاس نبی کو دوبارہ دنیا میں نہ بھیجا اور اس طرح پر لاکھوں یہودیوں کو واصل جہنم کیا۔ آخر حضرت مسیح نے آپ ہی یہ فیصلہ دیا کہ دوبارہ آنے سے کسی مثیل کا آنا مراد ہے۔ یہ فیصلہ اب تک انجیلوں میں لکھا ہوا موجود ہے۔ پھر جو بات ایک مرتبہ طے پا چکی ہے اور جو راہ خطرناک ثابت ہو چکا ہے۔ اسی راہ پر پھر قدم مارنا عقلمندوں کا کام نہیں ہے۔ یہودیوں نے اس بات پر ضد کر کے کہ الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا بجز کفر اور روسیاہی کے کیا فائدہ اُٹھایا تا اس زمانہ کے مسلمان اس فائدہ کی توقع رکھیں۔ جس سوراخ سے ایک بڑا گروہ کاٹا گیا اور ہلاک ہو چکا ہے۔ پھر کیوں یہ لوگ اسی سوراخ میں ہاتھ ڈالتے ہیں۔ کیا حدیث لا یلدغ المومن من جحرو احد مرتین یاد نہیں اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے مرنا بھلا دیا ہے۔ وہ لوگ جس سورت کو پانچ وقت اپنی نمازوں میں پڑھتے ہیں یعنی
غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ(الفاتحہ:7)
کیوں اس کے معنوں میں غور نہیں کرتے اورکیوں یہ نہیں سوچتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر بھی بعض صحابہ کو یہ خیال پیدا ہوا تھا۔ کہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ دنیا میں آئیں گے مگر حضرت ابوبکر نے یہ آیت پڑھ کر کہ
مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ(آل عمران:145)
اس خیال کو رفع دفع کر دیا۔ اور اس آیت کے یہ معنی سمجھائے۔ کہ کوئی نبی نہیں جو فوت نہیں ہو چکا۔ پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو جائیں تو کوئی افسوس کی جگہ نہیں یہ امر سب کےلیے مشترک ہے۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ21تا 23)