متفرق مضامین

جنّات کی حقیقت (قسط 11۔ آخری)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

علماء اور مفسّرین کے مضحکہ خیز عقائد ،تاویل و استدلال کے مقابل اِمامِ آخرالزّمانؑ اور آپ کے خلفاء کے بیان فرمودہ حقائق و معارف

آنحضرت ﷺ نے کسی مخلوق کی خبر دی تھی جو مخفی ہے ، اس کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں۔ایک شکل بیکٹیریا یعنی ایسی زندگی کی قسمیں جو آنکھ سے نظر نہیں آتیں

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے اردو ترجمۃ القرآن میں سورت سباء کے تعارف میں بیان فرماتے ہیں:’’اس سورۃ کا آغاز اس آیت سے ہوتا ہے کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں کا مالک ہے اور زمین بھی اسی کے حمد کے گیت گاتی ہے ، اور آخرت میں بھی اُسی کے حمد کے گیت گائے جائیں گے۔ یہاں آنحضرت ﷺ کی طرف واضح اشارہ ہے کہ آپ کے دور میں آپ کے سچے غلام زمین اور آسمان کو حمدو ثنا سے بھر دیں گے۔ اس کے بعد پہاڑوں کی تشریح کرتے ہوئے یہ بھی فرمادیا کہ پہاڑوں سے مراد جفا کش پہاڑی قومیں بھی ہوتی ہیں جیسا کہ داؤد علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے پہاڑوں کو ظاہری طور پر مسخر نہیں کیا گیا بلکہ پہاڑوں پر بسنےوالی جفاکش قوموں کو مسخر کر دیا گیا۔پس گذشتہ سورتوں کے اختتام پر جن پہاڑوں کا ذکر ہے ان کی تشریح یہاں بیان فرمادی گئی۔اس بیان کے بعد وہ جنّ جو حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے لئے مسخر کئے گئے تھے اور ان سے وہ بہت بھاری کام لیا کرتے تھے ان کی تشریح فرمائی گئی کہ یہ جنّ انسانی جنّ تھے۔وہ جنّ نہیں تھے جن کو عرف عام میں آگ کے شعلوں سے بنا ہوا سمجھا جاتا ہے۔آگ تو پانی میں داخل ہوتے ہی بھسم ہو جاتی ہے مگر ان جنّوں کے بارے میں دوسری جگہ فرمایا گیا کہ یہ جنّ زنجیروں سےبندھے ہوئے تھے حالانکہ آگ کے جنّ تو زنجیروں میں بندھے ہوئے نہیں ہوتے، اور وہ سمندر میں غوطہ لگا کر موتی نکالنے کا کام کرتے تھے حا لانکہ آگ سے بنے ہوئے جنّ تو سمندر میں غوطہ نہیں مار سکتے۔ یہ تمام امور آل داؤد پر شکر واجب کرتے تھے۔چنانچہ حضرت سلیمان علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو اوّل درجہ پر جسمانی اور روحانی آلِ داؤد تھے اس شکر کا حق ادا کیا۔مگر جب آپ کو یہ خبر دی گئی کہ آپ کا بیٹا جو آپ کے بعد تخت نشین ہوگا ایک ایسے جسد کی طرح ہے جس میں کوئی روحانی زندگی نہیں تو اُس وقت آپ نے یہ دعا کی کہ اے خدا! اس صورت میں اُس کے دور میں اس سلطنت کی صف لپیٹ دے۔ مجھے اس دنیاوی سلطنت سے کوئی غرض نہیں۔ چنانچہ بعینہٖ ایسا ہی ہوا۔ حضرت سلیمان ؑکے بعد جب آپ کا بیٹا وارث ہوا تو رفتہ رفتہ ان پہاڑی قوموں کو یہ معلوم کرتے ہوئے کہ ایک بے عقل بادشاہ ان پر مسلّط ہے اس کے خلاف بغاوت کر دی اور حضرت سلیمان ؑ کی ظاہری سلطنت پارہ پارہ ہو گئی۔‘‘(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف اور مختصر تشریحی نوٹس صفحہ 745،ایڈیشن جولائی 2002ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں ایک خاتون نے سوال کیا:’’قرآن کریم کے الفاظ الجنّ و الانس میں ’’و‘‘جو استعمال ہوا تو اس وکا مطلب تو اور ہے ، لیکن آپ لوگ کہتے ہیں جنّ اور انسان میں کوئی فرق نہیں، اگرایساہے تو اس میں لفظ مِنْ ہونا چاہیے تھا۔’’اس کے جواب میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’دونوں لفظ ہیں ’’ و‘‘ والا بھی اور ’’مِنْ‘‘ والا بھی۔ جماعت احمدیہ کا یہ مؤقف نہیں ہے کہ انسان کے علاوہ جنّ نام کی کوئی مخلوق نہیں ہے۔یہ مؤقف بالکل نہیں ہے۔ جماعت احمدیہ کا مؤقف یہ ہے کہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور احادیث نبوی سے ثابت ہے کہ جنّ کا لفظ الگ مخلوق پر بھی عائد ہوتا ہے۔ وہاں معنوی ہے اور دوسری جگہ حقیقی ہے۔ کیوں! مختصراً بتاتا ہوں۔ مثلاً آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہڈیوں سے استنجا نہ کرو ، ہڈیاں جنّوں کی خوراک ہے۔ اُس زمانے میں توبیکٹیریا کا کوئی تصور نہ تھا۔ آج معلوم ہوا کہ ہڈیاں بیکٹیریا کی خوراک ہے اور اس سے واقعۃ ًInjuryہو جاتی ہے۔ یعنی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ تو آنحضرت ﷺ نے کسی مخلوق کی خبر دی تھی جو مخفی ہے ، اس کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں۔ایک شکل بیکٹیریا یعنی ایسی زندگی کی قسمیں جو آنکھ سے نظر نہیں آتیں۔ جنّ کا لفظ ہر مخفی مخلوق کے لئے عربی میں بولا جاتا ہے۔ اور عربی ڈکشنریاں اس کی بکثرت مثالیں دیتی ہیں۔ مثلاً قر آن مجید میں جان کا لفظ سانپ کے لئے استعمال کیا ، اور عربی میں جن سانپ کو بھی کہتے ہیں کہ وہ چُھپ جاتا ہے۔ بِلّوں میں رہنے والی مخلوق ہے۔ جنّ کا لفظ پہاڑی قوموں کے لئے بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا۔ جنّ کا لفظ حضرت داؤد ؑاور حضرت سلیمان ؑکے قبضے میں بھی جو قومیں دی گئی تھیں ان کے لئے بھی قرآن کریم نے استعمال فرمایا۔ حالانکہ ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا مُقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَاد وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ اگر وہ جسمانی جنّ نہیں تھے اور روحانی جنّ تھے تو وہ زنجیروں میں نہیں جکڑے جاتے۔ دوسری جگہ اسی آیت کے شروع میں قرآن کریم فرماتا ہے وہ غوطے لگاتے تھے سمندر میں۔ تو اگر وہ آگ تھی تو آگ تو ختم ہوجاتی ہے غوطے سے۔ تو قرآن کریم میں لفظ جنّ متفرق جگہ مختلف معنی میں استعمال فرمایا۔ مثلاً سورۃ رحمٰن میں فرماتا ہے

يَا مَعْشَرَ الْجنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ ( سورۃ رحمٰن :34)

’’اے معشرالجنّ والانس تم اگرچاہتے ہو کہ تم آسمان اورزمین کی قطاروں سے نکل جاؤ تو نکل کر دکھاؤ۔ سلطان کے بغیر نہیں نکل سکو گے۔‘‘ یہاں کیا معنی ہیں جنّ کے۔جنّ جو دوسرے ہیں یعنی کوئی اور وجود ہے انسان کے علاوہ ہمارے نزدیک وہ یہاں مخاطب ہی نہیں ، کیونکہ عربی محاورے سے ثابت ہے کہ جنّ بڑی قوموں کو بھی کہتے ہیں۔غالب اور عظیم الشان لوگوں پر بھی بولاجاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات عوام الناس کے لئے عربی میں صرف ناس کا لفظ آتا ہے تو مخاطب یہاں اے بڑے لوگوں کے معشر، اور اے چھوٹے لوگوں کے معشر ، یا اے Capitalistطاقتوں کے نمائندو! اور اے عوامی طاقت کے نمائندو۔ یہ ترجمہ اس کا سوفیصدی درست بیٹھتا ہے ، اور واقعات ثابت کررہے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ مراد تھی ، کیونکہ یہ کوشش اب شروع ہوئی ہے۔ آج کے زمانہ میں جب دنیا عوامی طاقتوں اور Capitalistطاقتوںمیں بٹی ہے، تب یہ ہوئی ہیں ، اور قرآن کریم ان کو اکٹھا چیلنج کر رہا ہے، یہ تفسیری ترجمہ ہم کر تے ہیں۔ اب سنیئے سورۃ الناس میں مِنْ والا محاورہ بھی آجاتا ہے

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلَهِ النَّاسِ۔

الناس کا سارا ذکر چل رہا ہے۔ الناس کا رب، الناسکا مالک۔ اور الناس دو قِسموں کے ہوں گے مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ۔ النَّاس میں سے جنّ ، اور النَّاس میں سے النَّاس۔یہ قرآن مجید نے اتنا مضمون کھول دیا ہے کہ خود جو آپ نے مِنْ کے لفظ کا مطالبہ کیا تھا وہ کھول کر بیان فرما دیا ، کہ جب ہم کہتے ہیں کہ النَّاس میں وہ وسوسہ پھونکے گا تو مراد یہ ہے کہ النَّاس کے دونوں گروہوں میں۔الناس میں سے بڑے لوگوں میں بھی اور الناس میں سے عوامی طاقتوں میں بھی۔ مراد یہ تھی کہ آخری زمانے میں ایسے فتنے پیدا ہونے والے ہیں جن فتنوں سے خدا سے متنفر کیا جائے گا۔ یہ بڑی Capitalistطاقتوں میں بھی فتنے سر نکالیں گے اور دہریت کی طرف لے کر جائیں گے۔ تو النَّاس کی تشریح مِنَ الْجنَّةِ وَالنَّاسِ کہہ کر سارے مضمون کو کھول دیا۔‘‘

(مجالس عرفان ،صفحہ 61تا 64)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک دوست کے خط کے جواب میں فرماتے ہیں :’’قرآن کریم اور حدیث میں جنّ کا لفظ کثرت کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی مخفی رہنے والی چیز کے ہیں۔ جو خواہ اپنی بناوٹ کی وجہ سے مخفی ہو یا اپنی عادات کے طور پر مخفی ہو۔ اور یہ لفظ مختلف صیغوں اور مشتقات میں منتقل ہو کر بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور ان سب معنوں میں مخفی اور پس پردہ رہنے کا مفہوم مشترک طور پر پایا جاتا ہے۔

چنانچہ جنّ والے مادہ سے بننے والے مختلف الفاظ مثلاً جَنَّ سایہ کرنے اور اندھیرے کا پردہ ڈالنے، جنین ماں کے پیٹ میں مخفی بچہ، جنون وہ مرض جو عقل کو ڈھانک دے، جنان سینہ کے اندر چھپا دل، جَنَّة باغ جس کے درختوں کے گھنے سائے زمین کو ڈھانپ دیں، مَجَنَّة ڈھال جس کے پیچھے لڑنے والا اپنے آپ کو چھپالے، جانٌّ سانپ جو زمین میں چھپ کر رہتا ہو، جَنن قبر جو مردے کو اپنے اندر چھپا لے اور جُنَّة اوڑھنی جو سر اور بدن کو ڈھانپ لے کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

پھر جنّ کا لفظ با پردہ عورتوں کےلیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ نیز ایسے بڑے بڑے رؤسا اور اکابر لوگوں کےلیے بھی بولا جاتا ہے جو عوام الناس سے اختلاط نہیں رکھتے۔ نیز ایسی قوموں کے لوگوں کےلیے بھی استعمال ہوتا ہے جو جغرافیائی اعتبارسے دور دراز کے علاقوں میں رہتے اور دنیا کے دوسرے حصوں سے کٹے ہوئے ہیں۔

اسی طرح تاریکی میں رہنے والے جانوروں اور بہت باریک کیڑوں مکوڑوں اور جراثیم کےلیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے حضورﷺ نے رات کو اپنے کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھنے کا ارشاد فرمایا اور ہڈیوں سے استنجا سے منع فرمایا اور اسے جنّوں یعنی چیونٹیوں، دیمک اور دیگر جراثیم کی خوراک قرار دیا۔

علاوہ ازیں جنّ کا لفظ مخفی ارواح خبیثہ یعنی شیطان اور مخفی ارواح طیبہ یعنی ملائکہ کےلیےبھی استعمال ہوتا ہے۔ جیساکہ فرمایا

وَاَنَّامِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُوْنَ ذَالِكَ۔ (سورۃ الجن: 12)…

پس جن ّکے لفظ سے بہت سی چیزیں مراد ہو سکتی ہیں لیکن یہ درست نہیں کہ دنیا میں کوئی ایسے جنّ بھی پائے جاتے ہیں جو لوگوں کےلیے کھلونا بنتےہوں یا لوگوں کو قابو میں لا کر انہیں اپنا کھلونا بناتے ہوں۔یا وہ کچھ لوگوں کے دوست بن کر انہیں میوے اور مٹھائیاں لا کر دیتے ہوں اور بعض کے دشمن بن کران کے سروں پر چڑھ کر اور انہیں چمٹ کر انہیں تنگ کرتے ہوں۔ اس قسم کے خیالات مولویوں کی ایجادات ہیں جو کمزور دماغ اور وہمی خیال لوگوں کو اپنے ہتھکنڈوں سے شکار کر کے ان سے فائدے اٹھاتے ہیں۔ اسلام میں اس قسم کے جنّات کی کوئی سند نہیں ملتی اور سچے مسلمانوں کو اس قسم کے توہمات سے پرہیز کرنا چاہیے۔

اگر ایسے کوئی جنّ ہوتے تو ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ وہ وجود باجود تھے جن کی ان جنّات کو لازماً مدد اور آپ کے دشمنوں کے سروں پر چڑ ھ کر انہیں تباہ و برباد کرنے کی سعی کرنی چاہیے تھی، خصوصاً جبکہ قرآن و حدیث میں آپﷺ پر ایک قسم کے جنوّں کے ایمان لانے کا ذکربھی موجود ہے۔ پس عملاً ایسا نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ ان تصوراتی جنّوں کا اس دنیا میں کوئی وجود نہیں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 25؍جون 2021ءصفحہ 11تا13)

قرآنی آرکیالوجی

علم آثار قدیمہ کے ایک ماہر جماعت کے معروف آرکیالوجسٹ نےچندسال قبل ’’قرآنی آرکیالوجی ‘‘کے عنوان سے مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ انٹر نیشنل کےلیے چند پروگرامز ریکارڈ کروائے، جو جماعت کی مرکزی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔ اس سلسلے کے پروگرام نمبر5اور6میں موصوف نے جنّات کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی ہے۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ درج ذیل ہے:

1۔قرآن مجید انسان اور جنّ کے ایک دَور میں موجود ہونے کا ذکر کرتا ہے۔ جنّ کے مادے میں وسیع مفہوم پوشیدہ اور چھپے رہنے کا موجود ہے۔

2۔قرآن مجید کو سب سے بہتر رسول اللہ ﷺ نے سمجھا، آپ ﷺ نے جنّ کے تین مطلب بیان فرمائے ، ایک وہ جو ہوامیں ہیں اور ہوا کی طرح ہیں،یعنی بیکٹیریا اور وائرس کی مختلف اقسام۔ دوسرے وہ جو سوراخوں میں چھپنے والے وجود ہیں اور تیسرے وہ جو خیمے لگاتے اور اکھاڑتے ہیں، یعنی خانہ بدوش بیابانوں اور پہاڑوں میں پوشیدہ رہنے والے لوگ جو ایک جگہ مستقل سکونت نہیں رکھتے۔

3۔نبی کریم ﷺ کے زمانے میں نصیبین، ساوا، موصل، یمن اور حرّان کے علاقوں سے جنّوں کے وفود کاآنا بیان کیا جاتا ہے۔ ان کو جنّات اس لیے کہا گیا کہ تنہائی میں خاموشی سے سفر کر کے آئے، کیونکہ اُس زمانے میں فارسی حکومت کے علم میں یہ بات آجاتی کہ ان کے علاقوں سے لوگ جا جا کر مسلمان ہو رہے ہیں تو وہ ان لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے تھے۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول خداﷺ کی خدمت میں آنے والے ان جنّات کودیکھا، ان سے باتیں کیں۔ بعد میں خلافت راشدہ کے زمانے میں جب وہ کوفہ گئے تو کچھ لوگوں کو دیکھ کر چونک گئے ،اور پوچھا یہ کون لوگ ہیں، جواب ملا’’جُٹ قوم‘‘کے لوگ ہیں یعنی جاٹ قوم کے وہ لوگ جو عرب میں خانہ بدوشی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔اس پر حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ یہ ان جنّات کے بہت مشابہ ہیں جن کو میں نے رسول کریم ﷺ کے پاس دیکھا تھا۔

4۔کُرد قوم جنّوں کا قبیلہ کہلاتی ہے۔فارسی میں ’’اکراد‘‘ یا ’’کُرد‘‘ان خانہ بدوش قبائل کو کہا جاتا ہے جو بلوچستان سے لےکر شام کے درمیانی علاقوں میں خانہ بدوشی کی زندگی گذارتے ہیں۔

5۔ایک دفعہ زرد عمامے باندھے چند پہاڑی لوگ شیعہ ائمہ کے پاس کچھ دینی مسائل پوچھنے آئے۔ ان کے جانے کے بعد حاضرین نے سوال کیا کہ یہ کون لوگ تھے، جواب ملا جنّ تھے۔

6۔سورت الاحقاف اور سورت الجنّ کی آیات پر یکجائی نظر ڈالیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہودی اور عیسائی موحد جنّ قبول اسلام کے لیےرسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

7۔ایبٹ آباد پاکستان سے چھٹی صدی کا ایک قلمی نسخہ دریافت ہوا جس میں ’’ابو الخطیب شیرازی کاکڑ ‘‘کی روایت ہے کہ سورت الاحقاف کی آیات میں ہمارے گروہ کا ذکر ہے جو رسول کریم ﷺ سے ملنے مدینہ گیا تھا۔

8۔’’تاریخ جرجان‘‘نامی کتاب میں ذکر ہے کہ ’’ہند‘‘ یعنی دریائے سندھ کے علاقے کے قبائلی لوگ یمن کے راستے سفر کر کے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔

9۔قدیم دور کے انسان میں تہذیب ملتی ہے ،کلچر ملتا ہے۔ آدم کے زمانے میں جب انسان کو حکم ہوا کہ زمین کو آباد کرو ، غاروں کی زندگی سے نکل کر تمدّن اختیار کرو۔ بکھری ہوئی پراگندہ زندگی چھوڑ کر روحانی اور تہذیبی ترقی کے دور کاآغاز کرو تو اُس زمانے میں اس ارشاد کی مخالف قوتیں ایک ایسے شخص کے ہاتھ پر جمع ہوئیں جس نے اپنی ناری صفت کی وجہ سے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا ، کہ ہم نرمی کے حامل اس نظام کو کیسے قبول کریں جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کا تصور ہے۔جیسے اس دور میں اگر امریکہ میں بندوق پر پابندی لگانے کی بات کی جائے تو بے شمار لوگ اس کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں کہ بندوق تو ہماری زندگی کا حصہ ہے اس کے بغیر تو ہم چل ہی نہیں سکتے۔

10۔حضرت آدم علیہ السلام کو ملنے والی اس تعلیم کے بعد انسانی تہذیب دریاؤں کے کناروں پر شروع ہوئی اور مٹی کو گوندھ کر مختلف اشیا بنانے کے دَور کا آغاز ہوا۔ اور پتھر کے زمانے سے نکل کر دھاتوں کے زمانے میں داخل ہونے کا دَور شروع ہوا۔ہڑپہ اور مہر گڑھ کی تہذیب اس کا نمونہ ہیں۔ اس کے بالمقابل آتش فشاں پہاڑوں اور گرم صحراؤں میں آباد لوگوں کی تہذیب ہے۔ پس انسان اور جنّ ایک ہی جنس کے دو نام ہیں۔ایک وہ جنس جس نے تہذیب کے نظام کو قبول کیا اور ’’طینی سرشت‘‘ والے کہلائے اور دوسرے ’’ناری سرشت‘‘والے کہلائے۔

11۔اگر یہ اعتراض ہو کہ جن لوگوں کو آپ جنّ کہہ رہے ہیں وہ بھی وہ تمام چیزیں استعمال کر رہے ہیں جو انسان کررہے ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کے موجد نہیں۔جو چیز تمدّنی علاقوں میں بنتی ہے وہ اُس کے خریدار ہوتے ہیں۔ ایسی چیزیں جن کی انسانی معاشروں میں قدر ہے ان کو لےکر آتے ہیں انہیں بیچ کر ان کے بدلے اپنے فائدے کی اشیا لےکر جاتے ہیں۔

12۔قرآن مجید میں 30مقامات پر جنّ و انس کا ذکر ہے اور دونوں گروہوں کو خدا تعالیٰ نے بالکل متوازی لیا ہے اور طرز تخاطب میں دونوں برابر ہیں۔

13۔انسان اس کائنات کا ایک جاندار وجود ہے۔ اس وجود کی آگے دو قسمیں ہیں، روحانی مذہبی اور کسی حد تک جسمانی ارتقا کے لحاظ سے۔ انسان جس میں اُنس کا مادہ ہے اور جنّ جس میں سرکشی کا پہلو غالب ہے۔ منگول ، آریائی اقوام اور ترک لوگ اس کا نمونہ ہیں جن کی سرکشی اور غضب سے بچنے کے لیے چائنہ کے سمندروں سے لے کر یورپ تک دیواریں بنائی گئیں۔

14۔قرآنی آرکیالوجی یہ مضمون خوب کھول کر بیان کررہی ہے کہ انسان کے جو ماضی کے چھوڑے ہوئے آثار ہیں ان کا مطالعہ ہمیں ایک گروہ کی روشنی میں نہیں بلکہ اُس کے بائی لاجیکل ارتقا اور تہذیبی ارتقا کو سامنے رکھتے ہوئے دونوں گروہوں کو متوازی رکھ کر ایک ہی تناظر میں دیکھ کر آگے چلنا ہو گا۔ پھر ہم اس مسئلہ کو زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ اور یہ دونوں گروہ اپنی پیدائش سے لےکر انجام کا ر جزا و سزا تک اکٹھے ہی ہیں۔

(https://www.alislam.org/video/quranic-archaeology-5/)

(https://www.alislam.org/video/quranic-archaeology-6)

خدا تعالیٰ ہم سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کے بیان فرمودہ حقائق و معارف پر غور کرنےاور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، اور توہمات سے بچتے ہوئے قرآن مجید کے بیان فرمودہ قواعد و ضوابط کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے ،اور اِس سچی،پاک اور بے عیب تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button