میری نانو…استانی رشیدہ بیگم صاحبہ کی یاد میں
میری نانو کو اس جہانِ فانی سے کوچ کیے 20 برس بیت گئے۔بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک لمبا عرصہ گزر گیا لیکن جب نانو کی وفات کا دن یاد کرتی ہوں تو ایسے لگتا ہے گویا کل پرسوں کی ہی بات ہے جب نانو بطور صدر لجنہ محلہ دارالعلوم غربی حلقہ خلیل جلسہ سیرۃ النبی ﷺ کی صدارت کررہی تھیں کہ اچانک آپ کی طبیعت خراب ہوئی ، پیشتر اس کے کہ آپ کی ذات اس روحانی مجلس میں خلل ڈالنے کا باعث بنتی ، آپ خاموشی سے وہاں سے اٹھیں ، اندر میز پر ایک تحریر لکھی کہ میری طبیعت خراب ہورہی ہے ، میں ہسپتال جارہی ہوں اور خود ہی برقعہ پہن کر دوسرے دروازے سے نکل گئیں ، لیکن خدا کی تقدیر غالب آگئی اور آپ کو دل کا ایسا شدید دورہ ہوا کہ آپ کی راستہ میں ہی وفات ہوگئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
میری نانوجن کو اکثر لوگ استانی رشیدہ بیگم صاحبہ کے نام سے یاد کرتے ہیں مکرم غلام محمد صاحب کی بیٹی اور حضرت بابا شیر محمد صاحب ؓ صحابی حضرت مسیح موعود ؑ کی پوتی تھیں۔ میرے نانا مکرم انوار الحق صاحب کارکن امورعامہ صدر انجمن احمدیہ ربوہ تھے جو کہ مکرم چودھری عبد الحق صاحب درویش قادیان کے بیٹے تھے۔ اس طرح میری نانو صحابی حضرت مسیح موعودؑ کی پوتی اور ایک درویش کی بہو تھیں۔
حضرت بابا شیر محمد صاحب ؓ صحابی حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی وفات پر حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے تحریر فرمایا:’’قادیان میں بابا شیر محمد صاحب وفات پاگئے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ بابا شیر محمد صاحب مرحوم کی عمر کم و بیش 90 سال کی تھی اور قادیان جانے والے آخری کنوائے میں اسی نیت اور ارادے کے ساتھ گئے تھے کہ وہیں وفات پانے کی سعادت حاصل کریں گے۔ جہاں تک مجھے علم ہے مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور موصی بھی تھے…اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت فرمائے اور ان کے پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو۔قادیان کے موجودہ دور میں بابا شیر محمد صاحب دوسرے درویش ہیں جو قادیان میں فوت ہوئے۔‘‘
(مضامین بشیر صفحہ 612)
ہفت روزہ بدر قادیان نے 6؍دسمبر 1962ء کے شمارے میں حضرت بابا صاحب کے ذکر میں لکھا:’’حضرت بابا شیر محمد صاحب تقسیم ملک کے وقت پاکستان چلے گئے تھے لیکن حضرت مصلح موعود ؓکی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے مئی 1948ء میں قادیان تشریف لائے۔اس وقت آپ کی عمر 98 سال کی تھی۔ کافی معمر ہونے کے باوجود نمازوں کے لئے باقاعدہ مسجد میں تشریف لاتے۔قد لمبا اور دیہاتی سادگی کا مجسمہ تھے۔سو سال کی عمر میں 17 اگست 1949ء کو وفات پائی اور قطعہ صحابہ نمبر 8 میں سپرد خدا کئے گئے۔‘‘
ضمیمہ تاریخ احمدیت جلد ہشتم میں قادیان کے صحابہ کی فہرست درج ہے جو کہ حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحب ؓنے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ؓ کی نگرانی میں مرتب فرمائی۔اس فہرست کے 321 نمبر پر حضرت بابا شیر محمد صاحب ؓ کا ذکر ہے جس کے مطابق آپ نے 1894ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی زیارت اور بیعت کا شرف حاصل کیا۔
اگر میں کہوں کہ میری نانو اپنے دادا کی نیکیوں کو جاری رکھنے والی اور ان کی دعاؤں کی وارث تھیں تو اس میں بلاشبہ کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔آپ اللہ تعالیٰ سے بے پناہ محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ میرے بچپن میں ہی میری والدہ صاحبہ محترمہ امۃ النصیر صاحبہ نے مجھے نانو کے پاس چھوڑ دیا تھا تاکہ میں گھر کے کاموں میں نانو کی مدد کروادیا کروں اور یہ میری سب سے بڑی خوش قسمتی تھی کہ خدا نے مجھے ایسی نیک عورت کے زیرِ سایہ پرورش پانے کا موقع فراہم کیا۔چونکہ میں کم سن تھی لیکن پھر بھی جب کبھی بھی رات کو آنکھ کھلتی تو نانو کو نماز تہجد ادا کرتے دیکھا اور آپ بچوں کی طرح گڑگڑا کر اپنے مولیٰ سے دعائیں مانگ رہی ہوتی تھیں۔نمازوں کی پابندی کا بھی ازحد خیال رکھتیں۔روزوں میں باقاعدگی کا یہ عالم تھا کہ اپنی عمر کے آخری رمضان تک روزے رکھتی رہیں اور اکثر مسجد میں اعتکاف بھی بیٹھا کرتی تھیں۔مجھے یاد ہے کہ جب ہم بہن بھائیوں نے نانو سے نمازِ مغرب کے بعد مسجد میں ملنے جانا تو ہم سے زیادہ کلام نہیں کرتی تھیں بلکہ عمومی حال احوال کے بعد اعتکاف کے تقاضوں کے مدنظر واپس جانے کا کہہ دیتی تھیں۔ اسی طرح قرآن کریم سے بھی آپ کو از حد محبت تھی۔ رمضان المبارک میں بالخصوص اور عام دنوں میں بالعموم قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرتیں۔رمضان المبارک میں قرآن کریم کا اکثر تین مرتبہ دور کیا کرتی تھیں۔
نانو اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ آپ مالی قربانی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں اور اپنے چندوں کی ادائیگی کی از حد فکر کرتیں۔ نیز اپنے حلقۂ احباب کا بھی ہر طرح سے خیال رکھنے کی کوشش کرتیں اور خاموشی سے مدد کیا کرتی تھیں۔اس ضمن میں ایک واقعہ میری والدہ صاحبہ جو کہ اپنے محلہ کی سیکرٹری تحریک جدید ہیں نے مجھے سنایا کہ جب وہ ایک گھر سے چندہ لینے گئیں تو اس گھر میں موجود ایک معمر عورت نے والدہ صاحبہ کو پہچان لیا کہ وہ استانی رشیدہ بیگم صاحبہ کی بیٹی ہیں۔ جب امی نے چندہ لے کر انہیں کہا کہ رسید اور بقایا وغیرہ دیکھ لیں تو اس عورت نے کہا کہ بیٹا میری بات سنو ! تم استانی رشیدہ کی بیٹی ہو، مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے۔ ساتھ ہی کہنے لگیں کہ اب تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا بہت فضل ہوگیا ہے لیکن ایک وقت تھا جب ہمارے مالی حالات ٹھیک نہ تھے اور میں اکثر تمہاری والدہ سے اُدھار لے لیا کرتی تھی۔باوجود اس کے کہ ان کے اپنے ہاں بھی بہت مالی کشائش نہ تھی پھر بھی انہوں نے کبھی مجھ سے مطالبہ کیا اور نہ ہی کبھی کوئی حساب کیا۔ والدہ صاحبہ کو اس بات کا علم تک نہ تھا کہ اس عورت کی نانو سے واقفیت بھی ہے کجا یہ کہ ان کے آپس میں ایسے تعلقات تھے۔یہاں یہ بات بیان کرتی چلوں کہ یہ ایک ہی واقعہ نہیں ، نانو کی وفات کے بعد بہت سے لوگوں نے ہم سے نانو کے متعلق ایسی ہی بہت سی باتیں بیان کیں۔
میں نے نانو کو اکثر درود شریف کا ورد کرتے ہوئے دیکھا اور ہم بچوں کو بھی کثرت سے درود پڑھنے کی تلقین کرتیں۔ درود شریف کی کرامت کا ایک واقعہ بہت شوق سے سنایا کرتی تھیں۔کہتی تھیں کہ میرا پہلا بچہ مردہ پیدا ہوا ،اس وقت مشنز ہسپتال فیصل آباد میں ایک انگریز ڈاکٹر الیزبتھ تھی جس نے معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اب جب بھی تمہارے ہاں اولاد ہوگی تو وہ زندہ نہ رہ سکے گی۔کہا کرتی تھیں کہ اس سب کے باوجود مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا یقین تھا کہ وہ مسبب الاسباب ہے اور دعاؤں کو سننے والا ہے لہٰذا میں نے یہ تدبیر کی کہ جب بھی میں اپنے گھر سے جو کہ دارالرحمت میں تھا سکول جانے کے لیے نکلتی تو روزانہ دورانِ راستہ درود شریف کا ورد کرتی جاتی اور اپنے ہاتھ پر پھونک کر اپنے پیٹ پر ملتی جاتی۔ ابھی اس عمل کو زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا اور تمہاری امی پیدا ہوگئیں اور بالکل صحیح سلامت جس پر تمام ڈاکٹرز حیران تھے کہ یہ بات معجزہ سے کم نہ ہے۔
نانو کو خلافتِ احمدیہ سے بھی والہانہ عشق تھا۔اس زمانے میں چونکہ MTA اس طرح عام نہ تھا اور خطبہ جمعہ booster کے ذریعہ FM پر سنا جاسکتا تھا ، لہٰذا نانو نے باوجود اس کے کہ آپ کو ایسی چیزوں کا شوق نہ تھا ایک جدید طرز کی ٹیپ رکھی ہوئی تھی جس پر FM بخوبی چلتا تھا۔اور حضرت خلیفۃ المسیح کے خطبہ جمعہ سے آدھا گھنٹہ پہلے اس بات کی یقین دہانی کروالیا کرتی تھیں کہ سگنل وغیرہ ٹھیک ہیں۔ اسی طرح رمضان المبارک میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے دروس القرآن کے دوران قرآن کریم اپنے سامنے رکھ کر نہایت توجہ سے حضورِ انور کا درس سنا کرتی تھیں۔ آپ جلسہ سالانہ میں شمولیت کی غرض سے قادیان بھی بہت شوق سے جایا کرتی تھیں۔ باوجود اس کے کہ جب بھی آپ قادیان سے واپس آتیں تو سخت بخار اور نزلہ وغیرہ کی تکلیف ہوجاتی لیکن یہ تکلیف آپ کے شوق میں حائل نہ ہوسکتی اور اگلی مرتبہ پہلے سے بڑھ کر شوق اور جذبہ کے ساتھ اپنے آقا کی بستی کی طرف عازمِ سفر ہوجاتیں۔
دعوت الی اللہ کا بھی نانو کوبہت شوق تھا۔اکثر میرے چھوٹے بھائی عزیزم حامد رضی اللہ مربی سلسلہ کو کہا کرتی تھیں کہ ’’مربی اس سال میں نے اتنی بیعتیں کروانے کی سعادت حاصل کی اور اس سال اتنی۔‘‘یہاں یہ بات ضمناً بیان کرتی چلوں کہ میری نانو میرے چھوٹے بھائی کو اس کے بچپن سے ہی مربی کہا کرتی تھیں۔اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیں کہ اس نے اپنی نیک خادمہ کے قول کو پورا فرمایا اور اپنے فضل سے عزیزم کو جماعتِ احمدیہ کے مبلغین کی فوج میں شامل فرمایا۔ فالحمدللہ علیٰ ذلک۔
تبلیغ کے ضمن میں ایک واقعہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ نانو دعوت الی اللہ کے لیے کسی گاؤں گئیں اور مغرب کے بعد تک واپس نہ آئیں۔اس پر گھر والوں کو فکر لاحق ہوئی اور میرے والد صاحب مکرم منصور احمد صاحب ان کی تلاش کے لیے نکلے لیکن علم نہ تھا کہ کہاں ڈھونڈا جائے۔بہرحال کچھ وقت گزرنے کے بعد جب ایک جگہ سے نانو کو ابو نے واپس آتے دیکھا تو اللہ تعالیٰ کا شکر کیا اور پوچھا کہ آج اس قدر دیر کیسے ہوگئی تو مسکراتے ہوئے کہنے لگیں کہ تبلیغ کرتے ہوئے وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے نانو کے شاگرد دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور بہت ہی احترام کے ساتھ نانو کا ذکر کرتے ہیں اور ان میں سے بعض تو بعض دینی و دنیاوی عہدوں پر بھی فائز ہیں۔
میری نانو اور بھی بہت سی خوبیوں کی مالک تھیں لیکن طوالت کے خوف سے اب میں اپنے قلم کو روکتی ہوں اور اس دعا کے ساتھ اپنے مضمون کو ختم کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری نانو کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور جیسا کہ پیارے آقا سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وفات یافتگان کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے ان کی نسلوں میں ان کی نیکیاں جاری رہنے کے متعلق دعا کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی نانو کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭