متفرق مضامین

مینڈک…ایک انسان دوست مسکین جانور

(پروفیسر محمد شریف خان۔ امریکہ)

1890ء کے بعد سے پاکستان میں ہوام (مینڈک، چلپائیوں اور سانپوں) پر کو ئی سائنسی تحقیقی کام نہیں ہوا

1962ء میں ایم ایسی سی کے آ خری سال کے دوران میں نے پاکستان میں عام پا ئے جا نے والے مینڈک ( جسے عرفِ عام میں ڈڈی کہا جا تا ہے ) کے انڈے سے لےکر مینڈک بننے تک کے تمام مراحل کے دوران انڈا جو مختلف حالتیں stages بدلتا ہے اس کا سائنسی تفصیلی مطا لعہ کیا تھا۔1965ء میں یہ تحقیقی مقالہ چھپا تو اس سے لو گوں کو میرے کام سے آگاہی ہوئی۔ میرے ریسرچ گا ئیڈ مرحوم ڈاکٹر احسن الاسلام پروفیسر زوالو جی گورنمنٹ کا لج تھے۔پاکستان میں زوالوجی سے متعلق تحقیق کے بارے میں گفتگو کرتے ہو ئے انہوں نےبتایا کہ 1890ء کے بعد سے پاکستان میں ہوام (مینڈک، چلپائیوں اور سانپوں) پر کو ئی سائنسی تحقیقی کام نہیں ہوا۔ اس لیے پاکستان میں ان عام پا ئے جانے والے جانوروں کے سائنسی ناموں سے کو ئی واقف نہیں۔ اگر تم اس میدان میں آنا چاہو تو میدان کھلا ہے! ڈاکٹر صاحب سے میں نے ہوام پر تحقیقی کام کر نے کا وعدہ کیا۔

1963ءمیں تعلیم الاسلام کا لج جا ئن کیا تو ربوہ کے پرسکون ما حول میں میرے تحقیقی کام کا آغاز ارد گرد جنگلات میں گھوم پھر کر جانوروں کے مطا لعہ کر نے سے ہوا۔مزید میرے شاگردمیری فر ما ئش پر پا کستان کے طول و عر ض سے اپنے اپنے علاقوں سے جانور محفوظ کر کے میری ضرورت پوری کرتے رہے۔ اس حو صلے کے ساتھ میں اس اچھوتے اور نامعلوم موضوع پر تحقیقی کام کرنے کے لیے کمر بستہ رہا۔مجھے خود پاکستان کے دور اُفتادہ علاقوں میں جا کر کئی دن ویرانوں میں ٹھہر کران جانوروں کا قدرتی ماحول میں مطا لعہ کر نے کا موقع ملتا رہا۔ سفروحضر میں بھی دوستوں اور شا گردوں کا ساتھ رہا۔ میں ان سب دوست و احباب کا مشکور ہوں۔

جل تھلیوں پر پاکستان میں رہتے ہو ئے تحقیقی کا م کرنا سماجی لحاظ سے کتنا مشکل ہے۔ مجھے اس کا اندازہ نہ تھا۔ ایک نوآموز کی خفت کا کچھ اندازہ اس مختصر سی گفتگو سے کیجئے،جس کا مجھے ریسرچ کے دوران آ ئے دن واسطہ پڑتا رہا، بھری مجلس میں پو چھا جاتا:

’’ہاں پرو فیسر صاحب، سنا ہے آپ تحقیق کر رہے ہیں، اور یہ کہ آپ کے کئی مقالے بیرون ملک چھپ بھی چکے ہیں۔ آپ کا مو ضوع کیا ہے؟‘‘

’’جی، میں پاکستان میں پا ئے جا نے والے مینڈکوں پر تحقیقی کام کر رہا ہوں۔‘‘

قہقہہ ’’واہ صاحب، مینڈک بھی کو ئی تحقیق کے قا بل جانور ہیں، بس مینڈک، مینڈک ہیں آپ انہیں کیا ثا بت کر نے پر تُلے ہیں؟‘‘

لیکن اس قسم کے مخالفانہ تبصرے میرے لیے مہمیز ثا بت ہو ئے، میں نے اس خفت کو اپنے پر کبھی طاری نہیں ہو نے دیا، بلکہ میرا یہ شوق بڑھتا رہا۔اب خدا تعالیٰ کے فضل سے، میرے اس موضوع پر کئی مقالے اور کتب چھپ چکی ہیں۔مجھے فخر ہے ان مسکین جانوروں پر تحقیق کر نے اور ecosystem (انسانی ما حولیات) میں ان بظاہر غیر اہم جانوروں کی اہمیت واضح کر نے کی عزت پاکستان بھر میں مجھے ملی۔

گھر میں میرے سٹڈی روم کے میز پرمائیکرو سکوپس، میگنی فا ئنگ لینزز اور الماریوں میں کتابوں کی بجا ئے شیشے کے مرتبانوں میں قسم ہا قسم کے سجے مینڈک وغیرہ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور والوں کو جب میرے امریکہ ہو نے کا پتا لگا سب اٹھا کر لے گئے، اور اب ان کے میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں شا ئقین کو دعوتِ عمل دے رہے ہیں۔

معاف کیجیئے تمہید کچھ زیادہ ہی لمبی ہو گئی، خیر۔چلیں اب ہم اپنے اصل مو ضوع پر بات کر تے ہیں۔ میری کو شش کے باوجود اس مضمون میں کچھ اصطلاحات آپ کو انگریزی میں پڑھنے کو ملیں گی، میں نے ساتھ ساتھ اردو تر جمہ دینے کی کوشش کی ہے، تا کہ اس مضمون سے دلچسپی رکھنے والے طلباء اور عام قارئین بھی مستفید ہوں۔

مینڈک

مینڈک ہم پاکستانیوں کے لیے کو ئی اجنبی جانور نہیں، موسمِ گرما شروع ہو تے ہی سرِ شام ستاروں کے جلو میں رات کے خنک اندھیرے میں چھوٹے بڑے مینڈک گھروں، پارکوں، راستوں میں چلتے پھرتے اچھلتے کودتے نظر آ تے ہیں۔بعض اوقات ان سے بچ کر چلنا مشکل ہو جا تا ہے۔ سرِ شام بجلی کے روشن قمقموں کے نیچے ادھر اُدھر پُھدک پُھدک کر پتنگوں اور کیڑوں مکو ڑوں کا پیچھا کرتے ہو ئے عجیب نظارہ پیش کر تے ہیں۔سبھی ایک ہی ضرورت کے لیے بغیر لڑے بھڑے مصروفِ عمل دکھا ئی دیتے ہیں۔ان کے فراخ منہ اور تھیلا نما پیٹ ان کی اشتہا کی غمازی کر تے ہیں!

مینڈک کے جسم میں ریڑھ کی سنگلی Vertebral column پائی جاتی ہے اس لیے یہ فقاریہ جانور(vertebrates) ہیں۔ جنہیں رہن سہن کے لحاظ سے تین گروہوں میں منقسم کیا جا تا ہے۔

1۔پانی میں رہنے والے جو خشکی پر رہ نہیں سکتے: مچھلیاں و غیرہ

2۔پانی اور خشکی دونوں میں رہ سکنے والے (amphibious): مینڈک، کچھوے، مگر مچھ اور سمندری سانپ۔

3۔ خشکی پر رہنے والے: کرلے، سانپ، پرندے اور مما لیا (دودھ دینے والے جا نور)۔

پانی اور خشکی پر رہنے وا لے جانوروں کے مزید دو گروہ ہیں:

٭…ننگی جلد والے فقاریہ جانور: ان جانوروں کی جلد ننگی ہو تی ہے، خشکی پر انہیں سوکھ جا نے کا خطرہ رہتا ہے۔ چنانچہ مینڈک اور ان کی قبیل کے جانور آ بی اور خشکی کے جل تھل ما حول میں رہتے ہیں۔انہیں جل تھلے (Amphibia) کہا جاتا ہے۔ ان کے سائنسی مطالعہ کو Amphibiology کہا جا تا ہے۔ان جانوروں کے انڈے سخت خول کی بجا ئے نرم ونازک جھلیوں میں بند ہو تے ہیں۔ ان کے ہا تھوں اور پاؤں میں چار چار انگلیاں ہو تی ہیں۔

٭…ڈھکی جلدوالے فقاریہ جانور:ان جانوروں کی جلد چانوں(scales) سے ڈھکی ہو ئی ہو تی ہے۔ یہ خشکی پر رہتے ہیں، انڈوں کے گرد سخت خول ہو تا ہے، (سوائے سانپ کے) پنجوں میں پانچ پا نچ اُ نگلیاں ہو تی ہیں۔ جیسے کچھوے، مگرمچھ، کرلے اور سانپ وغیرہ، انہیں اردو میں ’’خزندے‘‘ کہا جا تا ہے، اور سا ئنسی لحاظ سے یہ reptiles کہلاتے ہیں ا صطلاح میں ’’ہوام‘‘یا ’’herps‘‘ کہلاتے ہیں۔علمِ حیوانیات میں ان جا نوروں کے مطا لعے کو ’’ہوامیات‘‘ (Herpetology) کہا جا تا ہے۔

کچھوے اور مگر مچھ کچھ اس قسم کے عجیب خزندے ہیں جو با وجود یکہ ان کے جسم پر چانے ہو تے ہیں، مگرجل تھلیوں کی طرح جل تھل ما حول میں رہتے ہیں۔ اس طر ح یہ خشکی پر رہنے والے reptiles ( کرلوں اور سانپوں ) سے مختلف ماحول میں زندگی گزار تے ہیں۔

ایک وضاحت

قبل اس کے کہ اس مضمون میں مزید کچھ لکھا جا ئے ضروری ہے سائنسی ناموں سے متعلق کسی قدر وضاحت کردی جا ئے۔ہر سا ئنسی نام دو لا طینی ناموں سے مرکب ہو تا ہے۔ پہلے حصے کو generic name کہا جا تا جو جانور کی جنس کو ظاہر کر تا ہے، جبکہ دوسرا نام trivivial name اس جنس میں دوسری انواع سے اس جانور کیposition کا تعین کر تا ہے۔ مثال کے لیے ملا حظہ ہو فیملی Bufonidae میں ہمارے اردگرد پھدکتی پھرتی ڈڈی کا سا ئنسی نام Bufo stomaticus ہے۔ Bufo جنس کا نام ہے جس میں اور بہت سی ڈڈی نما مینڈک شامل ہیں ان میں سے ہماری ڈڈی stomaticus اپنے جسمانی خواص کے لحاظ سے منفرد ہے۔

جل تھلیوں کی اقسام

دنیا میں تین اقسام کے جل تھلیے پا ئے جا تے ہیں:

1۔ دُم کٹے جل تھلیے (Salientia:Anura): پھیپھڑوں سے سانس لیتے، اور چار ٹانگوں پر پھُدک پھُدک کر خشکی پر چلتے ہیں۔ پچھلے چپو نما پنجوں کی مدد سے پانی میں تیر لیتے ہیں۔ مثلاًمینڈک، ٹوڈ۔

2۔ دُم والے جل تھلیے (Urodela: Caudata) دو قسم کے ہیں:

a (سلا مینڈرز)Salamanders: یہ عام طور پر زندگی پانی میں گزارتے ہیں۔ ان کی دُم اور گل پھڑے ساری عمر رہتے ہیں۔یہ پا کستان میں نہیں پا ئے جا تے۔

b۔نیو ٹس (Newts) :یہ جوانی کی زندگی پانی سے باہر گزار تے ہیں۔ ان کے گل پھڑے تو معدوم ہو جا تے ہیں، مگر دُم ساری عمر رہتی ہے۔اس لیے عام طور پر چھپکلی سے معلوم ہوتے ہیں۔ پانی کے کناروں کے ساتھ ساتھ کا ئی وغیرہ میں رہتے ہیں۔یہ بھی پا کستان میں نہیں پائےجاتے۔

3۔ سی سیلی ئنز(Caecilians):ان خاص قسم کے جل تھلیوں کا جسم سانپ جیسا لمبا ہو تا ہے اور گل پھڑے اور ٹانگیں مفقودہو تی ہیں۔یہ کیچڑ کے جل تھل ما حول میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں نہیں پا ئے جا تے۔

پاکستان میں پا ئے جا نے والے جل تھلیے

اردو اور پنجابی میں چھوٹے بڑے، سر شام نمودار ہونے اور کیڑے مکوڑے کھانے، گندی نا لیوں اور جوہڑوں میں رہنے والے گٹھے جسم کے جانور وں کے لیے ’’مینڈک‘‘ یا’’ڈڈو ‘‘کے الفاظ استعمال ہو تا ہے، البتہ قد کا ٹھ کی نسبت سے چھوٹے، بڑے کا لا حقہ مستعمل ہے۔

پا کستان میں جل تھلیوں amphibians کی دواقسام ملتی ہیں : مینڈک frog اور غوک، ڈڈّی( toad) یہ دونوں قسم کے جانور اپنے جسمانی خدو خال میں مختلف سہی مگر ان کی عادات و خصائل اور زندگانی کی ضرورتیں ایک جیسی ہیں:

1۔ اگلے پنجے میں تین اور پاؤں میں پا نچ انگلیاں ہو تی ہیں۔

2۔ پاؤں کی انگلیوں کے درمیان باریک جھلی web ہوتی ہے جس سے پاؤں چپو کا کام کر تا ہے۔

3۔ انڈے کے گرد باریک نا زک جھلی ہو تی ہے۔

4۔ انڈے چھو ڑ نے کے لیے پانی کی ضرورت ہو تی ہے۔ tadpoles پانی میں پلتی ہیں۔

آئیے ٹوڈ اور مینڈک کے جسمانی فرق پر ایک نظر ڈالیں:

ٹوڈ فیملی Bufonidaeٖ Family سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کے خواص درج ذیل ہیں:

٭…جلد ابھا ردار، سخت غدود، جلد خشک۔

٭…آنکھ کے پیچھے پرا ٹڈ غدود parotid gland مو جو د ہو تا ہے۔

٭…انڈے لمبی لڑیوں میں ملفوف ہو تے ہیں۔

٭…ٹوڈز پانی سے دور خشک جگہوں میں جا سکتے ہیں، مگر انڈے دینے کے لیے پا نی کی ضرورت رہتی ہے۔

پا کستان میں ٹوڈز کی انواع

پاکستان کے طول و عرض میں 11انواع کی ٹوڈز پائی جاتی ہیں، ان میں سے زیادہ تر مشرقی، شمالی اور مغربی پہاڑی سلسلوں میں پھیلی ہو ئی ہیں۔ میدانی علاقوں میں ایک نوع Bufo stomaticus ہے(جسے عرف عام میں ڈڈی کہا جاتا ہے)۔یہ نوع پہاڑی علاقوں تک پھیلی ہو ئی ہے۔جو نہی موسمِ بر سات شروع ہو تا ہے۔نر بارش کے پانی میں اکٹھے ہو کر اپنی مخصوص آ واز ’’رِیں، رِیں، رِیں ‘‘میں اونچے اونچے ٹرانا شروع کر دیتے ہیں، کہ کان پڑی آواز سنا ئی نہیں دیتی۔

مینڈک فیملی Ranidae Family سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے مخصوص خواص ردج ذیل ہیں:

٭…جسم کھلا، لمبا۔ٹانگیں لمبی، پاؤں کی اُنگلیوں کے درمیان نمایاں جھلی (web)۔

٭…جلد ہموار، لیسدار، پشت پر چھوٹے ابھار یا لمبی سلوٹیں۔

٭…پرا ٹڈ غدود مفقود۔

٭…انڈے چھوٹے چھوٹے گچھوں کی شکل میں۔

٭…مینڈک خاص طور پر جوہڑوں اور مرطوب جگہوں کو پسند کر تے ہیں۔اور آس پاس رہتے ہیں۔خشکی پر زیادہ دور نہیں جا سکتے۔

پا کستان میں مینڈکوں کی انواع

پاکستان میں 13انواع کے مینڈک پا ئے جا تے ہیں۔ جن میں سے 4 ہمارے ارد گرد میدانی علاقوں میں پا ئے جا تے ہیں۔ میں دو کا ذکر کر تا ہوں، جنہیں ہم موسمِ گرما میں عام طور پر اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں:

Hoplobatrachus tigerinus اسے ہم عرفِ عام میں بسنتی مینڈک، یا کڑاں مینڈک کہتے ہیں۔موسمِ گرما کی برسات کے شروع ہو تے ہی یہ پیلے رنگ کے بڑے بڑے جل تھلیے کھیتوں کھلیانوں میں بارشی پا نی میں اکٹھے ہو کر اپنی مخصوص آواز ’’گڑاں، گڑاں، گڑاں ‘‘میں ٹرانا شروع کر تے ہیں۔

Euphlyctis cyanophlyctis یہ چھوٹا چھپڑی مینڈک پاکستان بھر میں ہر کھڑے پانی میں سارا سال دیکھا جا سکتا ہے۔پانی سے باہر نہیں آ تا۔پانی کی سطح پر اِدھر اُدھر اچھلتا کودتا جا تا ہے۔ اس کی مخصوص ٹرٹراہٹ ’’چھک، چَھک‘‘ سارا سال جو ہڑوں سے سنا ئی دیتی رہتی ہے۔

جل تھلیوں کی عا دات و خصائل

موسمِ گرماکی پہلی بارش جہاں ہمارے لیے با عثِ مسرت ہو تی ہے، مینڈکوں کے لیے زندگی اور پیارو محبت کا پیغام لے کر آتی ہے۔ سرِ شام مختلف انواع کے چھو ٹے موٹے مینڈک جوک در جوک بارش کے پانی سے بھرے نشیبی علاقوں کا رخ کر تے ہیں۔ نر اکٹھے ہو کر مختلف اونچے نیچے سروں میں ٹرانا شروع کر دیتے ہیں۔ان کے ٹرانے کی آواز گلے سے نکلتی ہوئی’’کریں،کریں،کریں‘‘،’’بام، بام‘‘،’’کَچھ،کَچھ‘‘،’’گڑاں، گڑاں‘‘،’’ٹَک، ٹَک‘‘ رات کے سناٹے میں دورونزدیک مشتہر ہو تی ہے، جسے سن کر دورو نزدیک کے اور مینڈک بھی ان نشیبی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ اور ان مختلف گانے والوں کی مو ٹی، با ریک، سریلی اور بھدی آوازوں کی محفلِ مو سیقی ساری رات کے لیے سج جا تی ہے۔جس کے دوران تو لیدی جوڑے بنتے ہیں۔ مادہ نر کو پشت پر سوار کیے جو ہڑ کے کسی پر سکون کو نے میں پھدک پھدک کر چلی جا تی ہے۔جو نہی مادہ کے مقعدی راستے سےانڈے بر آمد ہو تے ہیں، نر اُن پر اپنا تو لیدی مادہ چھڑکتا جا تا ہے۔ہر نوع اپنے انڈے مختلف انداز میں پا نی میں چھوڑ تی ہے۔

مینڈک کا اندازِ زندگی

مینڈکی اور مینڈک انڈے چھوڑ کر جان بچا کر بھاگ جا تے ہیں۔ سورج کی گرمی، پانی سے آکسیجن نمو میں مدد دیتی ہے اور بارآور (Fertilized) انڈا ایک خلیے سے دو۔چار۔آٹھ۔سولہ خلیات میں تقسیم ہو تا ہوا دو، چار دنوں میں خلیات کا گیند سا بن جا تا ہے، جس میں خلیات کے ہیر پھیر سے جھلیاں پنپتی ہیں، جن سے عضلات، اعصابی ریشے، دماغ سے متعلق اعضاآنکھ، کان وغیرہ بنتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ منہ اور انتڑیاں، گل پھڑے، اور دم بن جا تی ہے۔ اور ’’ڈڈ مچھی‘‘ یا Tadpole کے غول کے غول پا نی میں اِدھر اُدھر تیر کر اپنے تیز دانتوں سے کائی اور گھاس پھونس کُھرچ کُھرچا کر کھا تی ہیں، جسم کے با قی اعضاکی تکمیل کا انتظار کر تی ہیں۔ آخر دم آہستہ آہستہ سکڑ کر غا ئب ہو جا تی ہے، اگلی پچھلی ٹا نگیں نمودار ہو جا تی ہیں۔ گل پھڑے غائب اور پھیپھڑوں سے سانس شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح ایک مچھلی نما ڈڈمچھی سے ایک پھدکتا، سانس لیتا، چھوٹا سا مینڈک خشکی پر چار ٹانگوں کے ساتھ پھدک کر چڑھ آ تا ہے۔ جب انسان اس از خود رفتہ کڑی در کڑی عمل کا مطالعہ کر تا ہے تو بے اختیار پکار اٹھتا ہے۔ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ۔(المومنون:15)پس ایک وہی اللہ برکت والا ثابت ہوا جو سب تخلیق کرنے والوں سے بہتر ہے۔

بارشی مو سم میں جو ہڑوں کے آس پاس ان مینڈکیوں کے غول کے غول پانی سے نکل کر ارد گرد کے کھیتوں کا رخ کرتے ہیں، ان جگہوں سے گزرتے وقت انہیں کچلے بغیر گزرنا مشکل ہو تا ہے۔یہ مینڈکیاں چھوٹے چھوٹے کیڑے شکار کرتی ہیں، اور اگلے ایک دو سال میں جوان ہو کر تو لیدی عمل میں حصہ لیتی ہیں۔

جل تھلیائی جسمانی بنا وٹ اور دلچسپ حقا ئق

ویسے تو مینڈک ایک مجبور و مقہور مخلوق دکھا ئی دیتا ہے، بچاؤ کے لیے نہ اس کے جسم کے گرد سخت چا نوں کا حصا ر ہے، نہ بال اور پر، نہ پھرتی کہ حملہ آور کے اچا نک حملے سے بھاگ کر اپنا بچاؤ کر سکے۔نہ بے چار ے کے منہ میں دانت، نہ ہاتھ پاؤں میں تیز پنجے، نہ ٹانگوں میں سکت کہ دشمنوں کا مقا بلہ کر سکے یا کم از کم بھا گ کر ہی جان بچا سکے! آئے دن لوگوں کے پاؤں اور گاڑیوں کے نیچے، سڑکوں، راستوں میں بےدردی سے رو ندے اور کچلے، زخمی چھو ٹے بڑے مینڈک سڑکوں اور را ستوں کے کنارے ہاتھ پاؤں تڑا کر تڑپ تڑپ کر مرے پڑے ملتے ہیں۔

حیرت ہوتی ہے کہ صانع حقیقی کی اس خلقت میں کیا حکمت ہے ؟ در اصل جل تھلیے رو ئے زمین پر زندگی کے ارتقائی تسلسل میں اس کڑی کی نما ئند گی کر تے ہیں جو مچھلیوں سے ترقی کر کے چار پایوں کی شکل میں خشکی پر نمودار ہوئی۔

مگر مینڈک کے لیے ایسی بھی کوئی لا چارگی نہیں۔ قدرت نے اسے دشمنوں سے بچاؤ کے لیے بہت مؤثر ہتھیار عطا فر ما ئے ہیں جن کے بل بوتے پر گذشتہ 190 ملین سالوں سے بظاہر لاچار اور خطر ات سے گِھرا ہوا مینڈک ازمنہ قدیم سے حوادث کا مقا بلہ بڑی جوانمردی سے کرتا چلا آ رہا ہے۔اس کی نرم و ملا ئم لیس دار کھال، چپو جیسے پا ؤں پانی میں تیز تیرنے میں مدد دےکر اسے آبی دشمنوں سے بچاتے ہیں۔ اسی طرح خشکی پر زندگی گزار نے کے لیے مینڈک کو بے انتہا اقسام کے دشمنوںفنگس (fungi)،وائرسز (viruses)اور خون پینے والے اور مار کھانے والے جانوروں یعنی سانپوں، نیولوں، چمگادڑوں، چوہوں وغیرہ کا مقا بلہ کر نا پڑتا ہے، جس کے لیے قدرت نے اسے حفاظتی لباس عطا کیا ہوا ہے، یعنی اس کی کھال، جس میں ٹِکے مختلف زہر پیدا کر نے والے غدود خشکی پر دشمنوں سے عا فیت عطا کر تے ہیں۔دنیا میں مسلسل بقا جدو جہد کا ہی دوسرا نام ہے، جس کے لیے مہیا تمام وسا ئل خرچ کرنا پڑتے ہیں۔مینڈک پانی میں خطرات سے بچتا ہوا خشکی پر کود آتا ہے، اور اندھیری جگہوں میں پناہ لیتا، اپنی زہر آلود رطوبات سے دشمنوں کا مقا بلہ کر تا ہوا، گھاس پھو نس میں چھپتا چھپاتا زندگی گزار تا ہے۔

مگرانسان جو مینڈک کا سب سے بڑا دشمن ثا بت ہوا ہے جس نے مینڈک کو قدرت کی طرف سے عطا کر دہ ہر عا فیت کے حصار کو پا مال کر کے رکھ دیا ہے۔وہ اجاڑ ویرانے جہاں مینڈک انسانی دنیا سے الگ ہو کر صدیوں سے سکون محبت اور پیار کے گانے گا تے ہو ئے اپنے انڈے بچے پالتا رہا تھا، وہاں اب بڑی بڑی فیکٹریاں اور رہا ئشی کمپلیکسزاور سڑکوں کے جالوں نے جگہ لے لی ہے۔ اور بےچارا بے گھر مینڈک سڑک پر عا فیت کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہو ئے پاؤں اور گاڑیوں کی زد میں کچلا، مسلا اور زخمی سسکتے بلکتے پڑا مرتا رہتا ہے۔

قدرتی طور پر دوسرے جانوروں سے ٹکراؤ سے بچتے ہو ئے مینڈک رات کے وقت اپنی عافیت کے حصار سے نکلتا ہے اس خیال سے کہ آ سانی اور آ زادی سے گھوم پھر کر زندگی کا مزا لے سکے گا، مگر انسان کے رت جگے نے اس لطف سے بھی اس مقہور مخلوق کو محروم کر دیا ہے۔

اگر بات یہیں ٹھہری رہتی تو خیر تھی۔ مگر انسان اور اس کی کر تو توں نے تو حد ہی کر دی ہے۔ فیکٹریوں کا گنداور آلودہ پانی، ندی نالوں اور دریاؤں میں کھول کر اور کھیتوں میں کیمیائی ما دے چھوڑ کر خشکی چھوڑ پانی کوبھی آلودہ کر دیا ہے۔ بےچارے سادہ لوح، سادہ مزا ج مینڈک کے لیے نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا رہنے کے قا بل چھوڑی ہے۔پانی میں زہریلے کیمیاوی مادے اس کے انڈوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہو ئے ہیں۔ مینڈک جلد کی طرح طرح کی جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جا تا ہے۔اس پر مستزاد دنیا میں بڑھتی ہو ئی گرمی کے باعث مسلسل سکھاؤ کا شکار ہیں۔الغرض مینڈک پرہر طرف سے عر صۂ حیات تنگ سے تنگ کیا جا رہا ہے۔ سائنسدانوں کی تحقیق کے مطا بق ان نا مساعد حالات کامقابلہ کر تے کرتے گذشتہ صدی کے دوران ہزاروں جل تھلیوں کی انواع ہمیشہ کے لیے معدوم ہوچکی ہیں اور کئی معدومیت کے خطرے کے د ھانے پر کھڑی ہیں۔

مینڈک، ایک خادمِ انسان جانور

اس عنوان سے یقیناًکئی لوگ چونک گئے ہوں گے۔ جی ہاں! یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مینڈک ہی وہ واحدفقاریہ جانور ہیںجو کبھی بھی نوع انسان کے لیے کسی طور ضرررساں نہیں۔ نہ ہی کو ئی مینڈک کا ٹنے پڑتا ہے، نہ ہی کبھی کسی مینڈک کے کاٹنے سے کسی نقصان کا احتمال ہوا ہے، اور نہ ہی یہ جانور فصلوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچاتے ہیں۔نہ ہی ان کے باعث غلے کے ذخیروں میں کسی قسم کی کمی کا احتمال ہے۔ ہاں کبھی ہماری بےاحتیاطی کے سبب مینڈک کی جلد میں موجود زہریلے غدودوں کی رطوبات انسانی خوراک میں شامل ہوجائیں تو کھانے والوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔ دراصل قدرت نے مینڈک کو تو یہی ایک بچاؤ کے لیے ہتھیار دیا ہے۔ وگرنہ صدیوں پہلے مینڈک دوسرے جانوروں کا شکار بن کر معدوم ہوچکے ہوتے۔ یہ ہتھیار ان کی کھال میں زہریلے غدود ہیں۔ جن کی رطوبات سے مینڈک کا نرم ونازک جسم جراثیموں کے حملے اور مو ذی گوشت خور جانوروں سے بچارہتا ہے۔

ہم بچپن سے مینڈک شہزادے کی کہانی پڑھتے چلے آئے ہیں، جس کا طلسم شہزادی کے پیار سے ٹوٹا تھا اور شہزادہ مینڈک شہزادے کی شکل میں ہمیشہ کے لیے لوٹ آ یا تھا۔ انسان کو مینڈک کی افا دیت کا اب جا کر احساس ہوا ہے۔ مینڈک کا پروٹین سے بھرپور گوشت دنیا بھر میں بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔ بڑی احتیاط سے کھال اتار کر اس کے نرم اور لذیذ گوشت سے پرلطف کھانے تیار کیے جاتے ہیں اور اکثر غریب ممالک میں پروٹین حاصل کرنے کا یہی واحد ذریعہ ہے۔ کوریا میں تو لوگ کھیتوں کھلیانوں سے چھوٹے چھوٹے مینڈک جن کی جسمانی لمبائی مشکل سے 30سے40ملی میٹر ہوتی ہے، پکڑ لاتے ہیں۔بڑے شوق سے شوربہ تیار کیا جاتا ہے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کی ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غریب ملکوں کو چھوڑیے، کیا آپ یقین کریں گے کہ امریکہ جیسے امیرملک نے1988ء کے اوائل میں چودہ لاکھ پاؤنڈ مینڈک کا گوشت درآمد کیا تھا۔ جبکہ فرانس نے1973ء اور1987ء کے دوران سنتالیس ہزار ٹن مینڈک کا گوشت درآمد کیا! ان اعدادوشمار سے آپ مغربی ممالک میں مینڈک کے گوشت کے اشتیاق کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ یہ گوشت زیادہ ترہندوستان، انڈونیشیا، چین اور بنگلہ دیش سے برآمد کیا جاتا ہے۔ اس تجارت سے ان ممالک کو اچھا خاصا زرمبادلہ حاصل ہوتا تھا۔ مگرجلدہی ان ممالک میں محسوس کیا گیا ہے کہ ما حول میں مینڈکوں کی کمی کے باعث ضرررساں کیڑے مکوڑوں، مکھیوں اور مچھروں کی زیادتی کی وجہ سے فصلیں تباہ اورکئی قسم کی بیماریاں پھوٹ پڑیں۔ چنانچہ ماہرین حیات نے فوری طور پر مینڈکوں کے اس استعمال پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا۔ برا ہو انسانی لا لچ کا !ابھی تک کسی نہ کسی طریق سے یہ تجارت کچھ نہ کچھ جاری ہے۔

اس منا فع بخش تجارت کو جاری رکھنے کے لیے اب کئی ممالک میں شروع کر دی گئی ہے۔ قدرتی ما حول سے کچھ نر اور مادہ مینڈک پکڑ لیے جا تے ہیں۔ انہیں پانی کے حوضوں میں مصنو عی خوراک پر رکھا جاتا ہے۔ مصنوعی بارش سے انہیں عملِ تولید کے لیے تیار کیا جا تا ہے۔ انڈوں اور ٹیڈ پو لز کی پر داخت کی جا تی ہے۔ جس کے دوران انہیں مخصوص مو ٹا کر نے والی فیڈ پر رکھاجا تا ہے۔مو ٹے تا زے مینڈک تین چار ماہ میں مارکیٹ میں جا نے کے لیے تیار ہو جا تے ہیں۔ اس حکمتِ عملی سے قدرتی ماحول میں مینڈکوں کو نقصان پہنچائے بغیر مینڈک کا گوشت مارکیٹ میں مہیا کر کے ذرِ مبادلہ کمایا جا رہا ہے۔

مینڈک صرف انسانی غذائی ضروریات ہی بہم نہیں پہنچاتے، بلکہ انسان کی علمی اور سا ئنسی ترقی میں بھی ان کابھرپور حصہ ہے۔ دنیا بھر کی درس گاہوں، تحقیقی اداروں اور سائنسی تجربہ گاہوں میں قسم قسم کے تجربات میں مینڈک استعمال ہورہے ہیں۔ کیونکہ مینڈک ہی وہ واحد فقاریہ جانور ہیں جو بغیر کھائے پیئے طویل عرصے تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ ان کی سادہ جسمانی بناوٹ اور تھوڑی اور آسانی سے مہیا کر نے کے قا بل ضروریات زندگی کی وجہ سے یہ تجربات کے لیے موزوں ترین جانور خیال کیے جا تے ہیں۔ جنین کی نمو اور نشوونما کے مسائل سے لے کر، جسم میں رطوبتوں کی پیدائش اورعمل دخل،جسم کے مختلف حصوں کی کارکردگی،نیز دماغ اور اعصاب کے تعلق اور فعل تک کی تمام تحقیقات زیادہ تر مینڈک پر ہور ہی ہیں۔

مینڈک کا انڈا قطر میں دوسے تین ملی میٹر ہوتا ہے۔ اسے نشوونما کے لیے صرف پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کی بارآوری بھی مادہ کے جسم سے باہر پانی میں ہوتی ہے۔ چنانچہ انڈے کی نمو، پیدائش، بار آوری اور لاروے کے بننے تک کے تمام مراحل عام پانی میں طے ہوتے ہیں۔ جن کے لیبارٹری مطالعہ سے سائنسدانوں کو حیوانی جسم کی نمو کے بارے میں بے انتہا معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ اسی طرح مینڈک کا لاروا کئی شکلیں بدلتا ہوا مینڈک بنتا ہے۔اس عمل کے دوران کئی اعضابنتے اور کئی تحلیل ہوتے ہیں۔ اس تخلیق اور تحلیل کے مطالعے سے سائنسدانوں کو انسانی جسم میں ہونے والی شکست وریخت کوسمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔اسی طرح اعضاکی پیوندکاری کے مسائل، نموکے مسائل اور جینیات کے متعلق مسائل کے حل میں بہت مددمل رہی ہے۔ اعصاب کے باہم ربط اور اعصابی روکی ماہیت اور کارکردگی کے مسائل حل ہوئے ہیں۔ کوئی بھی حیاتیاتی تحقیقی مجلہ اٹھالیجئے تقریباً75فیصدمضامین مینڈکوں پر تحقیق سے حاصل شدہ معلومات پر مشتمل ہوں گے۔ کئی سائنسدان مختلف مسائل کے حل کے لیے مینڈک پر تحقیق کرکے اہم دریافتوں کی وجہ سے نوبل انعام حاصل کرچکے ہیں۔اس طرح مینڈک پر تحقیق کا دائرہ دن بدن وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔اس میدان میں مینڈک کی افا دیت contribution خدمت انسانی میں باقی تمام جانوروں سے زیادہ ہے۔

مینڈک کے علاوہ مینڈک کے انڈوں اور لارووں میں بھی زہریلا مادہ پا یا جا تا ہے جو مینڈک کو زندگی کے ہر مر حلے میں دشمنوں سے تحفظ دیتا اور اس کی بقا کا ضامن ہے۔ سائنسدانوں نے مینڈک کے زہر اور اس کی ماہیت پر بھی تحقیق کی ہے۔ جس سے قابل قدر معلومات حاصل ہورہی ہیں، اور انسانی صحت وتندرستی کے مسائل کے حل کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ ان رطوبات میں درد دورکرنے والے اجزا بھی پائے گئے ہیں۔ اس زہر سے نشہ پیدا کیے بغیر درد دور کرنے کی دوا بنا لی گئی ہے۔جو دماغ اور دماغی امراض پر تحقیق اور ان کے علاج میں بہت مفید ثابت ہورہی ہے۔

مینڈک عام ماحول میں بغیر کسی خاص اہتمام وانصرام کےدو سرے جانوروں کے شانہ بشانہ اپنے معمولات زندگی جاری رکھتے ہیں۔چنانچہ سائنس دان مینڈکوں کے معمولا ت زندگی پر اثر انداز ہوئے بغیر ان کی روز مرہ زندگی کا مطالعہ کرکے حیوانی رویوں اور ارتقا کے مسائل سمجھنے کے سلسلے میں مفید نتائج اخذ کررہے ہیں۔

ہر علاقے کے مینڈک اپنے مخصوص خوشگوار اور سازگار ماحول میں بڑی تیزی سے پھلتے پھولتے ہیں۔ ماحولیاتی اورموسمی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ اثر مینڈک محسوس کرتے ہیں۔ موجودہ دَور میں ہونے والی ناخوشگوار ماحولیاتی تبدیلیوں کے بداثرات مینڈکوں پر بڑی شدت سے اثر انداز ہورہے ہیں۔ دنیا کے کئی علاقوں کے مخصوص مینڈک آہستہ آہستہ معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ دنیا بھر کے سائنسدان مینڈکوں کی انحطاط پذیر انواع کو بچانے کی کوشش میں لگے ہو ئے ہیں۔ اس تحقیق اور مطالعہ کا ایک ضمنی فائدہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا جانوروں کے ارتقا پر اثر سے متعلق مسائل سے آگاہی ہے۔ یہ ماحولیاتی تبدیلیاں کسی علاقے کے مینڈکوں کو چھو ٹے چھوٹے گروہوں میں توڑ دیتی ہیں، جن میں کچھ عرصہ بعد جینیاتی تبدیلیوں کے باعث جسمانی اور فعلی تبدیلیاں پیدا ہو کر نئی انواع پیدا کر نے کا باعث بنتی ہیں۔اس طرح انواع کے ارتقااور بقا کے مسائل سمجھنے میں مینڈک پر مطالعہ سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیاں آہستہ آہستہ واقع ہوتی ہیں۔ارتقائی طور پر ارفع جانوروں میں ان تبدیلیوں کا بظاہر کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن یہ نامعلوم تبدیلیاں مینڈکوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ جن کے با عث انڈے صحیح طور پر نموپذیر نہیں ہوتے اور ان سے بیمار لاروے پیدا ہوتے ہیں جویا تو جلد ہی مرجاتے ہیں یا بیمار مینڈکوں کو پیدا کرتے ہیںجو بیماریوں کا جلد شکار ہوکر مرجاتے ہیں۔ جس کے با عث مینڈکوں کی تعداد میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ پانی میں زہریلے مادوں سے مینڈکوں میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ مینڈک کی جاذب جلد ماحولیاتی تبدیلیوں سے گہرا ثرلیتی ہے۔ اس بنا پر مینڈک کو’’حیاتیاتی اظہار کنندہ‘‘(با یو انڈیکیٹر) کہا جاتا ہے۔

سائنسدان جونہی کسی علاقے کے مینڈکوں کی تعداد، عادات و خصائل یا رویے میں کوئی تبدیلی دیکھتے ہیں تو انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ ضرور ماحول میں کوئی ضرررساں تبدیلی رونما ہورہی ہے اور وہ اس تبدیلی کا تجزیہ کرکے اس کی وجوہات معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے دنیا کے کئی علاقوں میں مینڈکوں کی تعداد کم ہوئی ہیں جس کا زیادہ ترباعث طرح طرح کی نئی نئی بیماریوں کا ظہور ہے جس کی وجہ ماحولیاتی آلودگی، ماحول میں زہریلے عناصر کی زیادتی اور مفید عناصر کی کمی قرار دی جارہی ہے۔ اسی طرح موسموں میں غیر معمولی تبدیلیوں کو بھی اس کا بڑا سبب قرار دیا جارہا ہے۔

غرضیکہ سائنسدان طویل عرصے سے مینڈکوں کا مسلسل اور کئی جہات سے عمیق مطالعہ کرکے حیات انسانی کوزیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں اور دنیا بھر کے لوگوں کو متنبہ کررہے ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرکے مینڈک جیسے بے ضرر اور دوست جانور کو کمیاب اور معدوم ہونے سے بچائیں۔ جس میں نہ صرف انسانی فائدہ ہے بلکہ زندگی کی بقا کا انحصار ہے۔آخر کاراب وقت آ گیا ہے کہ انسان اپنی بقا کے لیے اس کیچڑ آ لود مخلوق کی حفاظت کر کے اپنی آ ئندہ نسلوں کی صحت و عا فیت کو دوام بخشنے کا مسلسل جتن کرے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button