احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
کسی اشارۂ غیبی یا القائے ربّانی نے آپ کی توجہ کو اس طرف سے ہٹا کر اس منارۂ روحانی کی طرف پھیر دیا جو دراصل آپ کے علم کلام اور بے بہا لٹریچر کے ذریعہ تیار ہو رہا تھا
اشتہار برائے منارۃ المسیح
چنانچہ آپ نے اس منارۃ المسیح کی تعمیر کیلئے جماعت میں چندہ کی تحریک کی اور 28مئی 1900ء کو ایک اشتہار اس بارے میں شائع فرمایا جس میں آپ نے اس منارہ کی تعمیر کی وجوہات کا بھی ذکر فرمایا جو وہی ہیں جنہیں بیان کیا جا چکا ہے۔ اور اس منارہ سے تین مفید اغراض بھی وابستہ فرمائے۔ ایک یہ کہ جامع مسجد کے صحن میں یہ تعمیر کیا جائے گا۔ جہاں یہ ماذنہ کا کام دیگا۔ یعنی مؤذن اس پر چڑھ کر اذان دیا کریگا۔ دوم اس منارہ پر ایک بڑی گھڑی لگائی جائیگی جو نمازیوں اور مؤذن کو بلکہ تمام ارد گرد کے لوگوں کو وقت معلوم کرنے میں مدد دے گی۔ سوم اس پر ایک لالٹین بھی نصب کی جائیگی جو رات کو اپنی روشنی سے لوگوں کو نفع پہنچاویگی۔ اس اشتہار کے بعد یکم جولائی 1900ء کو آپ کو اسی امر کی نسبت ایک اور اشتہار دینا پڑا جس میں آپ نے چندہ کیلئے جماعت کے خاص لوگوں کو متوجہ فرمایا تھا۔ اور بعض مخالفوں کے اس اعتراض کا بھی کہ یہ ایک لغو کام اور اسراف ہے آپ نے جواب دیا تھا۔ فرماتے ہیں:
’’یاد رہے کہ اس منارہ کے بنانے سے اصل غرض یہ ہے تا پیغمبر خدا ﷺ کی پیشگوئی پوری ہو جائے۔ اس غرض کیلئے پہلے دو دفعہ منارہ دمشق کی شرقی طرف بنایا گیا تھا جو جل گیا۔ یہ اسی قسم کی غرض ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک صحابی کو کسریٰ کے مال غنیمت میں سے سونے کے کڑے پہنائے تھے تا ایک پیشگوئی پوری ہو جائے۔ اور نمازیوں کی تائید اور وقت شناسی کیلئے منارہ پر گھنٹہ رکھنا ثواب کی بات ہے نہ گناہ۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ مولوی نہیں چاہتے کہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی پوری ہو ……ابن ماجہ کے صفحہ نمبر306 پر جو حافظ ابن کثیر کا حاشیہ منارۃ المسیح کے بارے میں ہے اُسے غور سے پڑھیں۔‘‘
ہزار روپے انعام
اسی اشتہار میں آپ نے اس شخص کو ہزار روپے انعام دینے کا اعلان بھی کیا جو حضرت عیسیٰؑ کا جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھنا اور آسمان سے اُترنا کسی حدیث میں سے نکال کر دکھا دے آپ نے جسد عنصری کے ساتھ والی شرط کو ضروری اس لئے قرار دیا کہ آسمان سے نزول اور اسکی طرف صعود کا لفظ ہمیشہ روحانی رنگ میں بولا جاتا ہے۔ پس جبتک جسد عنصری کے ساتھ تخصیص نہ ہو یہ الفاظ ہمیشہ روحانی رنگ میں لئے جائیں گے۔ حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ یہ تھا کہ کسی حدیث میں حضرت عیسیٰؑ کا آسمان کی طرف صعود یا آسمان سے نزول جسد عنصری کے ساتھ مذکور نہیں۔ اور اگر کوئی ایسی حدیث نکال کر دکھا دے تو ایک ہزار روپیہ ہم سے انعام لے لے۔ اس چیلنج کے جواب میں کسی مولوی کی جرأت نہ ہوئی کہ حدیثوں کے بحر ذخار میں سے ایسی کوئی ایک حدیث بھی نکال کر دکھا دیتا اور ہزار روپے انعام لینے کے لئے آ موجود ہوتا۔
منارۃ المسیح کاسنگِ بنیاد رکھا جانا
منارۃ المسیح کے لئے کچھ چندہ جمع ہوا۔ مگر اس کی تعمیر میں تاخیر ہی ہوتی گئی یہانتک کہ 1903ء میں اس کا سنگِ بنیاد آپ نے رکھا۔ بنیادوں سے دیواریں ذرا سی ہی اوپر چڑھی تھیں کہ دشمنوں اور شریکوں نے مخالفت شروع کی کہ یہ منارہ بے پردگی کا باعث ہو گا۔ اس لئے اس کی تعمیر بند ہونی چاہئے۔ ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے تحصیلدار بٹالہ کو موقعہ پر بھیجا وہ حضرت اقدس سے مسجد مبارک کے ساتھ والے حجرہ میں ملا۔ اس وقت قادیان کے بعض لوگ جو شکایت کرنیوالے تھے اس کے ہمراہ تھے۔ حضرت صاحب نے تحصیلدار سے باتوں کی ضمن میں فرمایا کہ یہ بڈھامل بیٹھا ہے آپ اس سے پوچھ لیں کہ بچپن سے لےکر آج تک کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اسے فائدہ پہنچانے کا مجھے موقع ملا ہو اور میں نے فائدہ پہنچانے میں کوئی کمی کی ہو۔ اور پھر اسی سے پوچھیں کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے تکلیف دینے کا اسے کوئی موقع ملا ہو اور اس نے مجھے تکلیف دینے میں کوئی کسر چھوڑی ہو۔
بڈھامل کا چہرہ شرم کی وجہ سے سرخ ہو گیا اور ایک لفظ نہ منہ سے بول سکا۔ بلکہ سر نیچے ڈال کر بیٹھا رہا۔ یہ لالہ بڈھامل قادیان کے آریوں کا ممتاز رکن تھا۔ اور اسلام اور مسلمانوں کا سخت دشمن۔ تحصیلدار صاحب نے یہ سب کچھ سن سنا کر پھر بھی بوجہ تعصب رپورٹ خلاف ہی کی اور لکھ دیا کہ یہ منارہ لوگوں کی سیرگاہ بن جائے گا۔ اور بےپردگی ہوگی۔ اس کے جواب میں پھر لکھا گیا کہ یہ مسجد کا مینار ہو گا اور صرف ماذنہ کا کام دے گا۔ یعنی مؤذن اس پر چڑھ کر اذان دیا کرے گا اور سیرگاہ نہیں بنے گا۔ چنانچہ ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو جب اطمینان ہو گیا تو اس نے تعمیر کی اجازت دیدی۔ لیکن حضرت اقدس نے اجازت آ جانے کے باوجود اس کی تعمیر رکوا دی اور پھر اس کی طرف سے آپ کی توجہ بالکل ہٹ گئی۔ یہاں تک کہ آپ اس جہان سے گزر گئے۔ ظاہر ہے کہ اس کی تعمیر رک جانے کی وجہ مالی تنگی تو نہیں ہو سکتی تھی۔ بعد میں جماعت اسقدر بڑھ گئی تھی اور چندہ اس کثرت سے آنے لگا تھا کہ حضرت اقدس اگر چاہتے تو ایسے کئی منارے بنوا سکتے تھے۔
منارۂ روحانی
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی اشارۂ غیبی یا القائے ربّانی نے آپ کی توجہ کو اس طرف سے ہٹا کر اس منارۂ روحانی کی طرف پھیر دیا جو دراصل آپ کے علم کلام اور بے بہا لٹریچر کے ذریعہ تیار ہو رہا تھا۔ یہی وہ علم و حکمت اور فیض روحانیت کا منارہ تھا جس پر محمدیوں کا پاؤں پڑنے سے دین کی حفاظت اور اشاعت کی بنیادیں تمام خطروں اور باطل کے حملوں سے محفوظ اور مستحکم ہو گئیں۔ یہی وہ منارۂ علم و حکمت تھا جس کے اوپر آنحضرت صلعم نے مسیح موعود کا نزول دیکھا۔ اور جس کے متعلق خود مسیح موعود کو یہ الہام ہوا کہ ’’بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد۔‘‘
آخر غور کیجئے کہ وہ کونسا منارہ ہو سکتا ہے جس پر آپ کے ذریعہ مسلمانوں کا قدم محکم ہو جانے کا اس الہام میں ذکر ہے۔ کیا وہ کوئی اینٹ پتھر کا منارہ ہو سکتا ہے۔ ایسا خیال تو اس قدر لغو اور مضحکہ انگیز ہے کہ کوئی عقلمند اسے ایک لمحہ کے لئے بھی تسلیم نہیں کر سکتا۔ مذہب کا استحکام ہمیشہ دلائل و براہین نیرہ سے ہوا کرتا ہے نہ کہ اینٹ پتھروں سے۔ پس اگر کوئی ایسا منارہ ہو سکتا ہے جس پر قدم پڑنے سے کسی قوم کا مذہب ہر قسم کے خطرہ اور خوف سے امن میں آ سکتا ہے تو استعارہ کے رنگ میں وہ علم کلام ہی ہو سکتا ہے جو بجائے خود دلائل و براہین سے محکم اور مضبوط ہو۔ پس وہ منارہ جس کا اس الہام میں ذکر ہے وہ اسی علم کلام مبنی بر قرآن و حدیث کا منارۂ روحانی و علمی ہے جو حضرت اقدس مرزا صاحب نے اسلام کی حفاظت اور اس کے غلبہ بر ادیان عالم کے متعلق پیدا کیا۔ اور یہ علم آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا جس نے حق کا بول بالا کر دیا اور باطل کا سر کچل دیا اور جس کے ذریعہ آپ نے اسلام کو تمام دینوں پر غالب کر کے دکھایا اور اتنا ہی نہیں اپنے فیض روحانیت و صحبت سے اپنے خدام میں وہ روح پھونکی جس سے ان میں اسلام کی سچائی پر ایک محکم ایمان اور اس کی خدمت کیلئے ہر قسم کی قربانی اور ایثار کا جوش پیدا ہو گیا۔ اور ان کے دل و دماغ کو خدا کے فضل سے وہ روشنی بخشی کہ وہ خود اسلام کے غلبہ اور اشاعت کے لئے بہترین لٹریچر پیدا کرنے کے قابل ہو گئے۔ کسی اینٹ پتھر کے منارہ پر قدم رکھنے سے تو یہ کیفیت نہیں پیدا ہو سکتی۔ پس
یُعَلِّمُہُمْ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ
کے ماتحت یہ تعلیم کتاب و حکمت ہی کا روحانی و علمی منارہ ہے جس کا ذکر اس الہام میں ہے کہ بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد۔ اور یہی اس کشف کی تعبیر ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے مسیح موعود کو ایک منارہ پر دیکھا تھا جس میں یہ صاف اشارہ تھا کہ مسیح موعود کے ذریعہ مسلمانوں کا قدم ایک ایسے بلند مینار پر جا پڑے گا جہاں سے اسلام تمام ادیانِ باطلہ کے حملوں سے محفوظ ہو جائے گا۔ اور ایک منارہ کی طرح اس کی شانِ بلند ایک عالم کو نظر آنے لگے گی۔ اور اس منارۂ علمی و روحانی کی روشنی سے دنیا منور ہو جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭