حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق قرآن
جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا
خدا تعالیٰ کی سنت قدیمہ ہے کہ وہ انسان کی راہ نمائی کے لیے مختلف ادوار میں اپنے مقربین مبعوث کرتا ہے جن کی روح اس مقصد کے لیے بے چین رہتی ہے اور جب جسم کے فانی قویٰ روح کا ساتھ دینے سے قاصر ہو جاتے ہیں تو اللہ ان کو واپس بلا لیتا ہے اور اس کے بعد ان کے نمائندوں سے یہ کام لیتا ہے اور یہ سلسلہ نور اور تاریکیوں کے راستہ سے ہوتا ہوا اپنی منزل کی طرف جاری ساری رہتا ہے۔اسی سلسلے میں خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سلسلے کی آخری کتاب قرآن مجید کے ساتھ مبعوث ہوئے اور اسی کتاب کو قیامت تک کے لیے مشعل راہ قرار دیا۔
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ۔ (الحجر:10)
یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر اُتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
یہ وعدہ ہمیں خوشخبری دیتا ہے کہ تاریکی کا یہ دَور اب لمبا نہ ہو گا بلکہ روشنی کا سفر شروع ہو گا اور ایسا وجود جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ظاہر ہوا ہے وہ اس قرآن حکیم کی خدمت کرے گا اور اس کو عملی صورت میں بھی دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا اور اس پر پڑی زمانے کی غبار صاف کرے گا اور اس کی حقیقی تعلیم سے دنیا کو منور کرے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن حکیم کی پُر معارف تعلیم کی اشاعت کا جو کام کیا وہ خدا تعالیٰ کی خاص تائید اور راہ نمائی کے تحت تھا اور اگر یوں کہیں کہ آپ علیہ السلام کے زمانے میں گویا قرآن مبین دوبارہ نازل ہوا ہے تو یہ کوئی مبالغہ نہ ہو گا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ارشاد ہے کہ
لَوْ کَانَ الاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِاالثُّرَیَّا لَنَا لُہٗ رَجُلٌ مِنْ فَارِس
یعنی ایمان اگر ثریا ستارے پر بھی چلا جائے تو اہل فارس میں سے ایک نوجوان اس کو واپس لے آئے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان لوگوں کو جو قرآن کی تعلیم کو چھوڑ کر مختلف راستوں پر سر گرداں تھے راہ مستقیم دکھائی۔ اور اس صراط مستقیم میں موجود ہر قسم کی بھلائی سے روشناس کروایا اور خدائے رحمٰن کی طرف سے الہام پا کر ان پر واضح کیا کہ
الخَیْرُ کُلُّہٗ فِیْ القُرْآن۔
یعنی تم لوگ بھلائیوں کی خاطر قرآن مجید کو چھوڑ کر دوسری راہوں کی طرف کیوں جاتے ہو حالانکہ ہر قسم کی بھلائی تو قرآن میں ہے۔اور حقیقی اور کامل نجات کی راہیں تو قرآن نے کھولی ہیں۔ہاں اس کو حاصل کرنے کے لیے تدبر سے پڑھنا اور اس سے پیار کرنا ضروری ہے۔اس کے سات سو حکموں میں سے ایک کی بھی نافرمانی نہ کرو ورنہ نجات کا دروازہ اپنے اوپر بند کر لو گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا پر واضح کیا کہ اگر کسی کے دل میں قرآن مجید کی نسبت کوئی اختلاف ہے تو وہ حقیقت میں اس کے ذہن کی کجی کا نتیجہ ہے اور وہ اس کتاب کامل کی خوبیوں سے ناواقف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک کی آیات بینات کے الفاظ تو مختصر ہیں لیکن اس کے مطالب بحر ذخار کی طرح ہیں۔ایک جملہ سینکڑوں مطالب رکھتا ہے جو محض خدا کے فضل سے اور ہدایت سے ملتے ہیں اور اس کے لیے زمرہ مطہرین میں شامل ہونا ضروری ہے اور آپ علیہ السلام نے دلائل سے یہ حقیقت دنیا کے سامنے رکھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسانی کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔‘‘
(کشتی نوح ،روحانی خزائن جلد 19صفحہ 15)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت قرآن کے دلکش پہلو
بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے دنیا میں مبعوث ہو کر تجدید و احیائے دین کے سلسلہ میں جو عظیم الشان کارنامہ سر انجام دیا اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے قرآن مجید کی ارفع و اعلیٰ شان اور اس کے انتہائی بلند مقام کو دنیا پر ظاہر کیا اس کے حسن بے مثال کو آشکار کر کے ایک دنیا کو اس کا گرویدہ بنا دیا اس کے بے شمار حقائق و دقائق اور علوم و معارف پر سے پردہ اٹھا کر اس کے نور ہدایت کو دنیا کے لیے عام کر دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ نے دلائل و براہین کی رو سے ثابت فرمایا کہ روئے زمین پر قرآن ہی وہ عالمگیر شریعت ہے جو صحیح معنوں میں ایک زندہ شریعت کہلانے کی مستحق ہے جس کی تعلیم ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے جو ہر زمانہ اور اس کی ضرور توں پر پوری اترنے والی ہے۔آپ علیہ السلام کی جملہ تصانیف قرآن کریم کی بلند شان اور اس کے اعلیٰ اور ارفع مقام کے اذکار مقدس سے پُر ہیں۔آپؑ نے عقیدت، وابستگی اور عشق محبت کے بے پناہ جذبہ سے سرشار ہو کر نظم و نثر میں اس کثرت سے قرآن مجید کی خوبیوں اور اس کے ان گنت اوصاف کا ذکر کیا ہے کہ ان کے مطالعے سے انسان پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی زندگی عشق الٰہی ، عشق رسول اور عشق قرآن کا ایک کامل نمونہ تھی۔بالخصوص ان تینوں موضوعات پر آپ نے اپنی کتب میں جہاں کہیں بھی قلم اٹھایا تو نہ صرف فصاحت و بلاغت کے دریا بہائے ہیں بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ایک ایک لفظ سے ہی نہیں بلکہ ایک ایک شوشہ سے عشق و محبت کا دریا امڈ آیا ہے۔
ان تحریرات کی ہمہ گیر افادیت کے پیش نظر خاکسار ان تحریرات کے چیدہ چیدہ اقتباسات کو پیش کرتا ہے جن میں آپؑ نے قرآن مجید کی ارفع و اعلیٰ شان اس کے بلند مقام اس کے حسن و احسان اس کے باطنی کمالات اور اس کی حیات بخش تاثیرات پر روشنی ڈالی اور اس طرح قرآن مجید کا اصل چہرہ دنیا کو دکھایا ہے۔
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مر یہی ہے
ارشادات عالیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام
’’قرآن جواہرات کی تھیلی ہے اور لوگ اس سے بے خبر ہیں‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 542،ایڈیشن 1988ء)
’’ہم اس بات کے گواہ ہیں اور تمام دنیا کے سامنے اس شہادت کو ادا کرتے ہیں کہ ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا ہم نے اس خدا کی آواز سنی اور اس کے پُر زور بازو کے نشان دیکھے جس نے قرآن کو بھیجا۔ سو ہم یقین لائے کہ وہی سچا خدا اور تمام جہانوں کا مالک ہے۔ ہمارا دل اس یقین سے ایسا پُر ہے جیسا کہ سمندر کی زمین پانی سے۔ سو ہم بصیرت کی راہ سے اس دین اور اس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں ہم نے اس نور حقیقی کو پایا جس کے ساتھ ظلمانی پردے اٹھ جاتے ہیں اور غیر اللہ سے درحقیقت دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔یہی ایک راہ ہے جس سے انسان نفسانی جذبات اور ظلمات سے ایسا باہر آ جاتا ہے جیسا کہ سانپ اپنی کینچلی سے۔‘‘
(کتاب البریہ ،روحانی خزائن جلد 13صفحہ 65)
ہماری روحانی بھلائی اور ترقی کے لیےکامل راہ نما قرآن کریم
’’سب سے سیدھی راہ اور بڑا ذریعہ جو انوار یقین اور تواتر سے بھرا ہوا اور ہماری روحانی بھلائی اور ترقی کے لئے کامل رہنما ہے قرآن کریم ہے جو تمام دنیا کے دینی نزاعوں کے فیصلہ کرنے کا متکفل ہو کر آیا ہے جس کی آیت آیت اور لفظ لفظ ہزار ہا طور کا تواتر اپنے ساتھ رکھتی ہے اور جس میں بہت سا آب حیات ہماری زندگی کے لیے بھرا ہوا ہے اور بہت سے نادر اور بیش قیمت جواہر اپنے اندر مخفی رکھتا ہے جو ہر روز ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔یہی ایک روشن چراغ ہے جو عین سچائی کی راہیں دکھاتا ہے۔بلاشبہ جن لوگوں کو راہ راست سے مناسبت ہے اور ایک قسم کا رشتہ ہے ان کا دل قرآن شریف کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے اور خدائے کریم نے ان کے دل ہی اس طرح کے بنا رکھے ہیں کہ وہ عاشق کی طرح اپنے اس محبوب کی طرف جھکتے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد 3صفحہ381)
قرآن شریف اپنی ذات میں ایک کامل معجزہ ہے
’’قرآن شریف ایسا معجزہ ہے کہ نہ اوّل مثل ہوا اور نہ آخر کبھی ہو گا۔اُس کے فیوض و برکات کا در ہمیشہ جاری ہے۔اور وہ ہر زمانہ میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا۔علاوہ اس کے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر شخص کا کلام اُس کی ہمت کے موافق ہوتا ہےجس قدر اس کی ہمت اور عزم اور مقاصد عالی ہوں گے اسی پایہ کا وہ کلام ہو گا۔ اور وحی الٰہی میں بھی یہی رنگ ہوتا ہے۔جس شخص کی طرف اس کی وحی آتی ہے جس قدر ہمت بلند رکھنے والا وہ ہو گا اُسی پایہ کا کلام اسے ملے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت و استعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اس لئے آپ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پایہ اور رتبہ کا ہے کہ دوسرا کوئی شخص اس ہمت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہو گا۔ …اس وقت اگر کسی کو قرآن شریف کی کوئی آیت بھی الہام ہو تو ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اس کے الہام میں اتنا دائرہ وسیع نہیں ہو گا جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 3صفحہ57،ایڈیشن1984ء)
قرآن خود اپنی خوبیوںو کمالات کو ظاہر کرتا ہے
’’قرآن شریف وہ کتاب ہے جس نے اپنی عظمتوں اپنی حکمتوں اپنی صداقتوں اپنی بلاغتوں اپنے لطائف و نکات اپنے انوار ِروحانی کا آپ دعویٰ کیا ہے اور اپنا بے نظیر ہونا آپ ظاہر فرما دیا ہے۔ یہ بات ہر گز نہیں کہ صرف مسلمانوں نے فقط اپنے خیال میں اُس کی خوبیوں کو قرار دے دیا ہے بلکہ وہ تو خود اپنی خوبیوں اور اپنے کمالات کو بیان فرماتا ہے اور اپنا بےمثل و مانند ہونا تمام مخلوقات کے مقابلہ پر پیش کر رہا ہے اور بلند آواز ھل من معارض کا نقارہ بجا رہا ہے اور دقائق حقائق اس کے صرف دو تین نہیں جس میں کوئی نادان شک بھی کرے بلکہ اس کے دقائق تو بحر ذخار کی طرح جوش مار رہے ہیں اور آسمان کے ستاروں کی طرح جہاں نظر ڈالو چمکتے نظر آتے ہیں۔ کوئی صداقت نہیں جو اس سے باہر ہو کوئی حکمت نہیں جو اس کے محیط بیان سے رہ گئی ہو۔ کوئی نور نہیں جو اس کی متابعت سے نہ ملتا ہو اور یہ باتیں بلا ثبوت نہیں۔ کوئی ایسا امر نہیں جو صرف زبان سے کہا جاتا ہے بلکہ یہ وہ متحقق اور بدیہی الثبوت صداقت ہے کہ جو تیرہ سو برس سے برابر اپنی روشنی دکھلاتی چلی آئی ہے اور ہم نے بھی اس صداقت کو اپنی اس کتاب میں نہایت تفصیل سے لکھا ہے اور دقائق اور معارف قرآنی کو اس قدر بیان کیا ہے کہ جو ایک طالب صادق کی تسلی اور تشفی کے لئے بحر عظیم کی طرح جوش مار رہے ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد 1صفحہ 662تا665،حاشیہ نمبر11)
قرآن کے ذریعہ دین کامل ہوا
’’یہ امر ثابت شدہ ہے کہ قرآن شریف نے دین کے کامل کرنے کا حق ادا کر دیا۔ جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا۔(المائدہ:4)
یعنی آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی ہے اور میں اسلام کو تمہارا دین مقرر کر کے خوش ہوا۔ سو قرآن شریف کے بعد کسی کتاب کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ جس قدر انسان کی حاجت تھی وہ سب کچھ قرآن شریف بیان کر چکا اب صرف مکالمات الٰہیہ کا دروازہ کھلا ہے اور وہ بھی خود بخود نہیں بلکہ سچے اور پاک مکالمات جو صریح اور کھلے طور پر نصرت الٰہی کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں اور بہت سے امور غیبیہ پر مشتمل ہوتے ہیں وہ بعد تزکیہ نفس محض پیروی قرآن شریف اور اتباع آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوتے ہیں۔‘‘
(چشمہ معرفت ،روحانی خزائن جلد 23صفحہ 80)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کامنظوم کلام بابت قرآن مجید
جمال و حسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا
بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے
بہار جاوداں پیدا ہےاس کی ہر عبارت میں
نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اُس سا کوئی بستاں ہے
( براہین احمدیہ ،روحانی خزائن جلد 1صفحہ198تا200)
نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلیٰ نکلا
پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا
حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پودا
ناگہاں غیب سے یہ چشمہ اصفیٰ نکلا
یا الٰہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالَم ہے
جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا
سب جہان چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں
مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا
کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ
وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا
( براہین احمدیہ ،روحانی خزائن جلد 1صفحہ 305حاشیہ در حاشیہ نمبر2)
از نور پاک قرآن صبح صفا دمیدہ
بر غنچہائے دلہا بادِ صبا و زیدہ
این روشنی و لمعان شمس الضحیٰ ندارد
واین دلبری و خوبی کس در قمر ندیدہ
یوسف بقعرِ چاہے محبوس ماند تنہا
وایں یوسفے کہ تن ہا از چاہ برکشیدہ
( براہین احمدیہ ،روحانی خزائن جلد 1صفحہ 304حاشیہ در حاشیہ نمبر 2)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےعشق قرآن سے متعلق بعض اہم واقعات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیواروں پر قرآنی آیات لکھ رکھی تھیں جن پر غور کرتے رہتے تھے۔ آپ کے بڑے بیٹے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی روایت ہے کہ آپ بہت کثرت سے تلاوت فرمایا کرتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک قرآن کریم تھا جس پر نشان لگایا کرتے تھے اور آپ نے دس ہزار سے زیادہ مرتبہ قرآن ضرور پڑھا ہے۔
(حیات نبی صفحہ 108)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کی قسم ! وہ ایک لاثانی موتی ہے اس کا ظاہر بھی نور ہے اس کا باطن بھی نور ہے اور اس کے ہر لفظ اور کلمہ میں نور ہے وہ ایک روحانی جنت ہے جس کے خوشے پھلوں سے جھکے ہوئے ہیں اور اس کے نیچے نہریں بہتی ہیں…اگر قرآن نہ ہوتا تو مجھے میری زندگی کا مزہ نہ آتا۔ میں نے اس کے حسن کو ہزاروں یوسفوں سے بڑھ کر پایا۔‘‘
(ترجمہ از عربی۔آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد5صفحہ545)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم کے سچے عاشق تھے یہاں تک کہ قرآن آپ کی روح کی غذا بن گیا تھا۔
ایک دفعہ آپ سیر کو تشریف لے گئے آپ کے ساتھ حافظ محبوب الرحمٰن صاحب تھے آپؑ نے فرمایا:’’یہ قرآن شریف اچھا پڑھتے ہیں اور مَیں نے اسی واسطے ان کو یہاں رکھ لیا ہے کہ ہر روز ان سے قرآنِ شریف سنا کریں گے۔مجھے بہت شوق ہے کہ کوئی شخص عمدہ، صحیح، خوش الحانی سے قرآنِ شریف پڑھنے والا ہو تو اس سے سناکروں۔ ‘‘پھر حافظ صاحب موصوف کو مخاطب کرکے حضرتؑ نے فرمایاکہ ’’آج آپ سیر میں کچھ سنائیں۔‘‘چنانچہ تھوڑی دُور جاکر آپ نہایت سادگی کے ساتھ ایک کھیت کے کنارے زمین پر بیٹھ گئے اور تمام خدام بھی زمین پر بیٹھ گئے اور حافظ صاحب نے نہایت خوش الحانی سے سورۃ دھر پڑھی جس کے بعد آپ سیر کے واسطے آگے تشریف لے گئے۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 197، ایڈیشن 1988ء)ایک دفعہ آپ کے سر میں بہت درد ہو رہا تھا تو آپ علیہ السلام نے حافظ صالح رضی اللہ عنہ موصوف سے قرآن سنانے کو کہا چنانچہ جب انہوں نے قرآن پڑھنا شروع کیا تو آپ کے سر درد کو آرام آ گیا۔ آپ کے دل کا نقشہ تو یہ تھا کہ
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
ایک روز قادیان سے آپؑ بٹالہ کے لیے روانہ ہوئے قرآن کریم کھول کر سورت فاتحہ کی تلاوت کر رہے تھے خدام کا بیان ہے کہ بٹالہ تک حضور علیہ السلام سورت فاتحہ پر غوروفکر میں مشغول رہے۔ اللہ اللہ کیا عشق تھا خدا کے مامور کو خدا کی کتاب کے ساتھ! گیارہ میل کے لمبے سفر میں قرآن کریم کی چھوٹی سی سورہ ہی زیر غور رہی۔
(سیرت المہدی صفحہ 16)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہمیشہ سے ہی یہ عادت تھی کہ جب وہ اپنے کمرے میں بیٹھے ہوتے تو دروازہ بند کر لیا کرتے تھے۔ یہی طرز عمل آپ کا سیالکوٹ میں تھا۔ لوگوں سے ملتے نہیں تھے جب کچہری سے فارغ ہو جاتے تو آتے ساتھ ہی دروازہ بند کر کے اپنے شغل یعنی ذکر الٰہی میں مشغول ہو جاتے۔ بعض لوگوں کو ٹوہ لگی کہ یہ دروازہ بند کر کے کیا کرتے ہیں؟ ایک دن ٹوہ لگانے والوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس مخفی کارروائی کا سراغ مل گیا اور وہ یہ تھا کہ آپ علیہ السلام مصلے پر بیٹھے ہوئے قرآن مجید ہاتھ میں لیے ہوئے یہ دعا کر رہے تھے کہ ’’یا اللہ تیرا کلام ہے مجھے تو ہی سمجھائے گا تو سمجھ سکتا ہوں۔‘‘
الغرض قرآن کریم ایسی بابرکت کتاب ہے جس کے مطالعے سے کبھی لوگ سیر نہ ہوں گے اور نہ ہی کثرت تلاوت سے اس کے لطف میں کمی آئے گی اور نہ ہی اس کے عجائبات کا خزانہ کبھی کم ہو گا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس عاجز کے ساتھ ساتھ ہم سب کو قرآن کریم کے ساتھ سچی محبت عطا فرمائے اور ہمیں تلاوت قرآن کریم کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔