الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
جاپانیوں کے اہم مذہبی فلسفے
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 14؍مارچ 2013ء میںمکرم نجیب اللہ ایاز صاحب کے قلم سے جاپان کے اہم مذہبی فلسفوں کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔
جاپان کے مذہبی فلسفوں میں سرفہرست شنٹوازم اور بدھ ازم ہیں۔ جاپانیوں کی روایات میں ان فلسفوں کا عمل دخل آج بھی موجود ہے اور قریباً پچاسی فیصد جاپانیوں کا تعلق ان دونوں فلسفوں سے ہے اور عوام کی اکثریت دونوں فلسفوں کو بیک وقت تسلیم کرتی ہے۔ ایک تیسرا فلسفہ کنفیوشس ازم ہے جسے بنیادی طور پر بدھ ازم کا حصہ ہی مانا جاتا ہے۔
٭… شنٹوازم جاپان کی قدیم نسل یاماٹو کا قومی مذہب تھا جس کی بنیاد مناظرِ فطرت پر تھی۔ اس کی کوئی مذہبی کتاب نہیں ہے۔ موجودہ شنٹوازم میں جن کتابوں کو اوتار کا درجہ دیا جاتا ہے ان میں پہلی کتاب ’کوجیکی‘ (Record of Ancient Matters) ہے جو 1912ء میں لکھی گئی جبکہ دوسری کتاب 1920ء میں لکھی گئی جس کا نام ’نی ہون شوکی‘ (Chronicles of Japan) ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کتابیں اُس وقت کے جاپان کے شہنشاہ Yasomaro کی ہدایت پر لکھی گئیں۔اس کے علاوہ بھی قریباً بیس کتب اوتار کے طور پر شمار کی جاتی ہیں جن میں مختلف ادوار کے بادشاہوں کے کارنامے اور حالات درج ہیں لیکن کوئی اخلاقی تعلیم یا احکامات نظر نہیں آتے۔دراصل دوسری جنگ عظیم میں شکست کھانے کے بعد جاپان میں شہنشاہیت کو بچانے کے لیے شنٹو فلسفے پر مبنی بہت سی کتب لکھی گئیں۔
شنٹوازم کائنات کی ہر ایک چیز میں خدا کی موجودگی اور اپنے تئیں محفوظ رکھنے کے لیے اُن تمام چیزوں کی پوجا کرنے کا تصور پیش کرتا ہے۔ حتی کہ اپنے اسلاف کی ارواح کی پوجا بھی اسی لیے کی جاتی ہے کہ وہ بھی انسان کی حفاظت پر مامور ہیں۔ شہنشاہیت کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ فلسفہ بھی شنٹوازم کے بنیادی فلسفوں میں شمار ہوتا تھا کہ ’’شہنشاہ جاپان مقدّس روح ہے اور تمام قوّتوں کا منبع ہے۔‘‘ لیکن 1946ء میں شہنشاہ ہیروہیٹو (HiroHito) نے اپنے انسان ہونے کا اعلان کرکے اس فلسفے کو ردّ کردیا۔
٭… بدھ ازم 552ء میں چین سے جاپان میں داخل ہوا تو شہنشاہ Kinme نے اپنے درباریوں سے اس پر رائے لی۔شنٹوازم کے پریسٹ نے بدھ ازم کی مخالفت کی لیکن تاجروں اور سیاستدانوں کی رائے مختلف تھی۔ پھر ریاست Katsuragi کے حکمران Sogano Iname نے بدھ ازم کو قبول کرلیا تو شہنشاہ نے بدھ ازم کا ایک ٹیمپل تیار کرکے اس میں چین سے آئی ہوئی مورتیاں رکھوادیں۔ لیکن چند سال بعد جاپان میں ایک مہلک بیماری پھیل گئی تو عوام نے یہ تاثر لیا کہ نئے مذہب کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ٹیمپل کو نذرِ آتش کردیا۔ اس پر ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی جس میں ریاست Katsuragi کے حکمرانوں کی مدد ایک شہزادے Shoutoku نے بھی کی تو آخر کاران کو فتح حاصل ہوئی اور پھرNara میںایک بدھسٹ ٹیمپل تعمیر کیا گیا جو جاپان کے قدیم ترین ٹیمپلز میں سے ایک ہے۔شہزادے نے چین سے آنے والی تین کتب کا جاپانی ترجمہ بھی کروایا جس کے بعد جاپان میں بدھ ازم رائج ہونا شروع ہوگیا۔ان تعلیمات کی روشنی میں ہی جاپان کا پہلا آئین تیار ہوا جس میں سترہ معروف نکات شامل تھے۔ 840ء میں جاپان میں بدھ ازم اپنے عروج پر تھا جس کے نتیجے میں یہ سیاست میں بھی دخل دینے لگا تھا۔ چنانچہ پھر باقاعدہ ایسے اصول اپنائے گئے جن کے نتیجے میں سیاست اور مذہب الگ الگ ہوجائیں۔ اس وقت جاپان میں بدھ ازم کے تیرہ مذاہب پائے جاتے ہیں جن کے اندر فرقوں کی تعداد پچاس سے زائد ہے۔
٭…کنفیوشس ازم 512ء میں چین سے جاپان میں داخل ہوا اور عوام میں پذیرائی حاصل کرنے لگا۔ لیکن بدھ ازم نے ریاستی سرپرستی حاصل کرلی تو کنفیوشس ازم کا زوال شروع ہوگیا۔ پھر 1199ء میں دوبارہ اس کا زور ہوا اور یہ بدھ ازم کے ساتھ ملاکر دیکھا جانے لگا۔ اگرچہ آج جاپان میں کنفیوشس ازم کی علیحدہ کوئی شناخت نظر نہیں آتی لیکن بدھ ازم اور شنٹوازم کی تعلیمات کے تمام اخلاقی نمونے کنفیوشس کی تعلیمات سے ہی لیے گئے ہیں۔
٭… تاؤازم چینی اور جاپانی مذاہب میں سب سے قدیم ہے جس کا فلسفہ فطرت پر بنیاد کی وجہ سے کسی حد تک شنٹوازم سے ملتا ہے۔ اسے جاپان میں پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی تاہم چینیوں کی معاشرتی زندگی اور اخلاقیات میں اس جڑیں گہری ہیں۔ اس مذہب میں وحی کا تصور بھی موجود ہے۔ اس کا قدیم ترین ٹیمپل چین کے پہاڑ Tai پر واقع ہے۔
٭… 1549ء میں ہندوستان کے راستے سپین کا ایک عیسائی پادری Francisco de Xavier جاپان میں داخل ہوا تو جاپانیوں نے عیسائیت کی سخت مزاحمت کی۔ لیکن پھر جاپانی حکمران Oda Nobunaga نے عیسائیوں کو پناہ دے کر تبلیغ کرنے کی اجازت دی۔ جب عیسائیوں کی تعداد کچھ بڑھی تو بدھ ازم اور شنٹوازم کے پیروکاروں سے ان کے لڑائی شروع ہوگئی اور عیسائیوں نے اُن پر تشدّد بھی کیا۔ Oda Nobunaga کی وفات پر جب Toyotomi Hideyoshi حکمران بنے تو انہوں نے عیسائیت کی تبلیغ پر پابندی لگادی۔ یہ پابندی کئی سو سال تک رہی حتی کے شہنشاہ میجی 1868ء میں اقتدار میں آئے تو جاپان میں عیسائیوں کے لیے مذہبی آزادی شروع ہوئی جس کی ایک وجہ جاپان کا جرمنی کے ساتھ تجارتی اتحاد تھا۔
بعد ازاں 1889ء میں جاپانی قوانین میں ترمیم کرکے ہر مذہب کو آزادی دے دی گئی۔ تاہم بےپناہ کوششوں اور ہزاروں چرچ تعمیر کرنے کے بعد بھی جاپان میں عیسائی کُل آبادی کاایک فیصد بھی نہیں ہیں۔
٭… بیسویں صدی کے آغاز میں پہلے مسلمان سیاح علی احمد جرجاوی صاحب ایک مشہور چینی مسلمان سیّد سلیمان کے ہمراہ ٹوکیو پہنچے اور ہندوستان کے ایک عالم کے ساتھ مل کر تینوں نے اسلام پر لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں بہت سے جاپانیوں نے اسلام قبول کیا۔
٭…حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو جاپان میں دعوت الی اللہ کا خیال 1902ء میں اُس وقت آیا جب یہ خبریں شائع ہوئیںکہ جاپان میں ایک مذاہب عالم کانفرنس کا انعقاد زیرغور ہے اور جاپانی اسلام کی طرف راغب ہیں۔ حضورعلیہ السلام نے فرمایا: ’’اگر خدا چاہے گا تو اس ملک میں طالبِ اسلام پیدا کردے گا۔‘‘ (الحکم 31؍اگست1905ء)
جاپانیوں میں تبلیغ کرنے کا طریق سکھاتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں: ’’جاپانیوں کو عمدہ مذہب کی تلاش ہے۔ چاہئے کہ اس جماعت میں سے چند آدمی اس کام کے لئے تیار کئے جائیں جو لیاقت اور جرأت والے ہوں اور تقریر کرنے کا مادہ رکھتے ہوں۔‘‘ (بدر 24؍اگست1905ء)
اسی طرح حضورؑ نے جاپانی زبان میں اسلام کی خوبیوں پر مشتمل ایک جامع کتاب کی اشاعت کی خواہش بھی یوں ظاہر فرمائی: ’’کسی فصیح و بلیغ جاپانی کو ایک ہزار روپیہ دے کر اس کا ترجمہ کروایا جائے اور پھر اس کا دس ہزار نسخہ چھاپ کر جاپانیوں میں شائع کردیا جائے۔‘‘ (ملفوظات جلد ہشتم صفحہ 20)
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے جاپان کے پہلے مبلغ مکرم مولوی عبدالغفور صاحب کو بوقت روانگی نصائح کرتے ہوئے فرمایا کہ نیک عمل نیک قول سے بہتر ہے اور عملی تبلیغ قولی تبلیغ سے بہتر ہے۔ تبلیغ میں سادگی ہو۔ اسلام ایک سادہ مذہب ہے خواہ مخواہ فلسفوں میں نہیں اُلجھنا چاہیے۔
جاپان کی مذہبی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جاپانی بیرونی مذاہب اور خصوصاً الہامی مذاہب کو قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ شنٹوازم کا بنیادی فلسفہ اس عقیدے سے ٹکراتا ہے۔تاہم احمدیوں کو حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیمات کی روشنی اور خلافت کی راہنمائی میں ایسی تبلیغ کرنی چاہیے جو عمل اور اخلاق سے بھرپور ہو۔
………٭………٭………٭………
سنوکر
سنوکر کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ ستمبر 2012ء میں مکرم ابرار احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
سنوکر سبز رنگ کے میز پر کھیلا جاتا ہے جس کی لمبائی بارہ فٹ اور چوڑائی چھ فٹ ہوتی ہے۔ اس کے اطراف میں ہر چھ فٹ کے فاصلے پر ایک پاکٹ یعنی کُل چھ پاکٹس ہوتی ہیں۔ لمبی سٹک کے ساتھ کھیلے جانے والے اس کھیل میں کُل 22 گیند استعمال ہوتے ہیں جن میں سے ایک شاٹ کھیلنے والا سفید رنگ کا اور 15 سرخ ہوتے ہیں جن کو پاکٹ کرنے پر ایک سکور ملتا ہے۔باقی چھ گیندمختلف رنگوں اور مختلف پوائنٹس کی حامل ہوتی ہیں یعنی پیلی گیند کے دو، سبز کے تین، براؤن کے چار، نیلی کے پانچ، گلابی کے چھ اور کالے رنگ کی گیند کے سات پوائنٹس ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ سنوکر کو برصغیر میں تعینات برطانوی فوجیوں نے ایجاد کیا۔ تب یہ کھیل تین گیندوں اور ایک سٹک کے ساتھ کھیلا جاتا تھا۔ 1874ء میں اس کھیل میں سرخ اور کالی گیند کا اضافہ کیا گیااور اسی سال اس کھیل کے قوانین Sir Neveill Chamber نے Ootacamund میں مرتّب کیے جو انڈیا میں واقع ہے۔بعدازاں یہ کھیل برطانیہ پہنچا۔1927ء میں پہلی عالمی سنوکر چیمپئن شپ منعقد ہوئی جسے Jo Davis نے منعقد کیا اور اُسی نے ایک کھلاڑی کے طور پر اس کھیل کو تفریح کی دنیا سے نکال کر کاروباری کھیل بنادیا۔ 1946ءتک وہ ساری چیمپئن شپس جیتتا رہا اور پھر ریٹائرڈ ہوگیا۔ بعدازاں اس کھیل کی شہرت میں کمی آگئی۔ 1959ء میں Jo Davis نے اس کھیل میں ایک نئی چیز کا اضافہ کیا جسے سنوکر پلس کہا جاتا ہےجس میں مزید دو رنگوں کے گیند شامل کیے گئے تاہم بعد میں اس تبدیلی کو ختم کردیا گیا۔
1969ء سے سنوکر کی مقبولیت میں اضافہ ہونا شروع ہوا جب اس کے میچز ٹی وی پر دکھائے جانے لگے۔جلد ہی یہ مقبول ترین کھیلوں میں شمار ہونے لگا۔ 1985ء کی عالمی چیمپئن شپ کا فائنل میچ اٹھارہ ملین لوگوں نے دیکھا تھا۔ بعدازاں سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ سے اس کی مقبولیت کم ہونے لگی تاہم ایشیا اور خاص طور پر چین میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
………٭………٭………٭………