بستی کتنی دور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط دوم)
جامعہ احمدیہ کے اساتذہ کی محبتوں اور شفقتوں کے چند واقعات اور حسین یادیں
جامعہ کے ماحول سے خاص محبت اور اُنس
جامعہ کا ماحول بہت روحانی ہوتا تھا۔ خاکسار کا تو ایسا دل لگا تھا کہ اس ماحول کو کسی صورت میں بھی چھوڑا نہیں جاتا تھا۔ اس بات کا تصور بھی پریشان کر دیتا تھا کہ جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد یہاں سے جانا ہو گا۔ ایک واقعہ ایسا لکھنے لگا ہوں جس میں خاکسار کا بچپنہ صاف ظاہر ہوتا ہے لیکن آپ کو پڑھ کر اندازہ ہو گا کہ محترم میر صاحب کس شفقت اور حکمت سے معاملات طے فرماتے تھے۔ جامعہ احمدیہ کے ہوسٹل کی بلڈنگ بڑی خستہ تھی۔ جب ہم 1966ء میں جامعہ میں داخل ہوئے تو پہلی کلاس کے طلبہ کے لیے بڑے بڑے کمرے ہوتے تھے۔ جن میں دس بارہ سے بھی زائد طلبہ کی رہائش ہوتی تھی۔ دو چار پایوں کے درمیان بھی بہت تھوڑا فاصلہ ہوتا تھا۔ ان کمروں کی کھڑکیاں ہوا اور اندھیری چلنے سے آپس میں ٹکرا کر خوب شور کرتی تھیں۔ شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔ بارش کا پانی بھی اندر آجاتا تھا۔ کئی سال اسی طرح گزارے پھرہمیں ایسا کمرہ ملا جس میں 4 طلبہ کی رہائش تھی۔ اس کمرے میں ایک خاکسار، ایک عبداللطیف بھٹہ صاحب، ایک منیر الاسلام صاحب انڈونیشیا اور ایک سیوطی عزیز صاحب انڈونیشیا تھے۔ پھر اس کے بعد جب درجہ خامسہ میں گئے توخدا خدا کر کے ہمیں کیوبیکل روم ملا۔ کیوبیکل کا ملنا بڑی نعمت تھی۔ اور عموماً آخری کلاسز کے طلبہ کو ہی ملتا تھا۔ ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا ہوگا کہ میر داؤد احمد صاحب نے ہوسٹل کی از سر نو تعمیر کرانے کی سکیم بنائی۔ جب اس کی منظوری وغیرہ آگئی تو سوال یہ تھا کہ کس طرح ہاسٹل کے رہائشی طلبہ سے کمرے خالی کروائے جائیں۔ محترم میر صاحب نے یہ تجویز نکالی کہ ان طلبہ کو جن کے گھر ربوہ میں ہیں اپنے گھروں میں منتقل ہونے کا کہہ دیا جائے۔ خاکسار کا ربوہ میں تو کوئی گھر نہ تھا۔ البتہ میرے جامعہ میں داخلہ لینے کے بعد خاکسار نے سوچا کہ اپنی والدہ، چھوٹے بھائی اور چھوٹی بہن کو بھی ربوہ ہی لے آؤں چنانچہ دارالعلوم میں ایک مکان چالیس روپے ماہوار کرایہ پر لیا گیا۔ یہ مکان غالباً مکرم سید مبارک احمد شاہ صاحب کا تھا جو مولانا محمد احمد ثاقب صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ نے ان سے بطور رہن لیا ہوا تھا۔ اور مولانا محمد احمد ثاقب مرحوم نے وہ مکان کرائے پر خاکسار کو دیا ہوا تھا۔
محترم میر داؤد احمد صاحب مرحوم کو اس بات کا پتہ تھا۔ چنانچہ آپ نے مجھے رقعہ بھیجا کہ آپ اپنے گھر دارالعلوم میں منتقل ہوجائیں جامعہ کی ہوسٹل کی بلڈنگ گرا کر نئی بنانے کا ارادہ ہے اس لیے گنجائش نہیں ہے۔ خاکسار نے واپس جواب بھجوایا کہ میں تو اس جگہ کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔ آپ نے کچھ دنوں کے بعد ایک اور رقعہ بھجوایا۔ خاکسار اب خود محترم میر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ مجھے ہوسٹل میں رہنے کے لیے کوئی بھی جگہ دے دیں میں بس یہاں سے جانا نہیں چاہتا۔ انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ میں نے بتا دیا کہ یہاں دل لگ گیا ہے اور اس ماحول کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔ آپ نے بڑے پیار سے فرمایا کہ تم ٹھیک کہتے ہو لیکن میری مجبوری ہے۔ بتاؤ ایسے طلبہ کو میں کہاں رکھو ں جن کا یہاں کوئی نہیں ہے؟ آپ نے یہ بات اس طرز اور انداز سے کہی کہ میں انکار نہ کر سکا اور پھر ہوسٹل کو خیر باد کہہ دیا لیکن میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ ہوسٹل چھوڑتے وقت دل کی کیا کیفیت تھی۔ اگر میں یہ کہوں کہ میں ہچکیاں لے کر رو رہا تھا تو اس میں قطعاً مبالغہ نہ ہوگا۔
آخر ایسا کیوں تھا؟ اساتذہ کرام کا پیار، محبت، شفقت اور طلبہ کا آپس میں مل جل کر رہنا۔ ایک عجیب روحانی ماحول تھا۔ نمازیں ہو رہی ہیں، مسجد میں درس ہورہا ہے۔ بلڈنگ میں وقارِ عمل ہو رہا ہے۔ کھانا اکٹھے کھایا جا رہا ہے۔ پڑھائی ہو رہی ہے۔ کوئی قرآن شریف یاد کر رہا ہے۔ تو کوئی قصیدہ حفظ کر رہاہے۔ کھیلیں ہورہی ہیں۔ گویا جس طرح گھڑی کی سوئیاں ہر وقت حرکت میں ہیں طلبہ بھی بالکل اسی طرح تعلیم و تدریس میں مشغول ہیں۔ اسی طرح جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے کہ زندگی کی 71 بہاروں میں سے یہ سات سالہ بہار ایسی ہے جسے ہرگز ہرگز بھلا یا نہیں جاسکتا۔ بس اب تو یہی ہے کہ
ڈھونڈا کریں گے ہم تمہیں فصل بہار میں
میر صاحب محترم سمجھ گئے تھے کہ یہ جذباتی مسئلہ ہے۔ اور اس کا دل جانے کو نہیں چاہتا۔ انہوں نے بڑے پیارے انداز میں سمجھایا۔ کوئی اور ہوتا تو شاید اسی بات پر سزا دے دیتا کہ ان سے پہلے حکم کی عدولی ہوئی ہے۔ جاؤ تمہیں فارغ کیا۔ لیکن خدا محترم میر صاحب کو جزا دے۔ انہوں نے خاکسار جذبات کو بھی سمجھا۔ اس کی قدر کی اور ہمیشہ محبت اور شفقت سے ہی پیش آئے۔
مبلغین کرام کا احترام
جامعہ احمدیہ میں سالانہ کھلیں اور پھر عشائیہ ایک ایسا پروگرام تھا جس کی شہرت سارے ربوہ میں ہوتی تھی۔ محترم میر صاحب کوشش کرتے کہ کسی ایسے مبلغ سے جو بیرونِ پاکستان سے آیا ہو تقریر بھی کرائیں اور تقسیم انعامات بھی کرائیں۔ چنانچہ ایک موقع پر مولانا نذیر احمد صاحب مبشر کو مدعو کیا گیا جو اس وقت گھانا مغربی افریقہ سے تشریف لائے تھے۔ محترم میر صاحب نے ان کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ ساتھ طلبہ کو ان کے تعلق باللہ اور قربانیوں کے واقعات بھی سنائے۔ اس سال مولانا صاحب کے دستِ مبارک سے تقسیمِ انعامات ہوئی۔
سفید پوش طلبہ کی امداد اور توکل علیٰ اللہ کا سبق
آپ ہر سال سردیوں میں جامعہ کے سفید پوش طلبہ کے لیے چھوٹے بڑے کوٹ منگوا کر رکھتے تھے جو مکرم قریشی سعید صاحب اور راجہ عزیز صاحب کے ذریعہ تقسیم ہوتے تھے۔ آپ اکثر یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ کسی طالب علم کی غربت اور معاشی تنگی کو جامعہ کی تعلیم کے آڑے نہ آنے دوں گا۔ آپ جہاں حتی الوسع ہر ایک کی دل کھول کر مدد فرماتے وہاں ساتھ کے ساتھ انہیں توکل علی اللہ کا سبق سکھانے میں بھی دیر نہ فرماتے۔ آپ نے ہمیشہ جہاں طلبہ کی ضرورتوں کا خیال رکھا وہاں انہیں یہ بھی نصیحت فرمائی کہ یاد رکھیں آپ لوگ مبلغ اور مربی بن رہے ہیں، مولوی نہیں۔ اس لیے بحث مباحثہ کی بجائے دلوں کو جیتنے کی کوشش کریں۔ نیز ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر توکل کریں اور کبھی یہ تاثر نہ دیں کہ آپ ضرورت مند اور محتاج ہیں بلکہ آپ لوگوں کی زندگی اس طرح گزرے کہ ہر حال میں آپ کا متکفل اور رازق خدا ہی نظر آئے۔
اسی طرح آپ نے ایک دفعہ فرمایاکہ تمہیں یقین ہونا چاہیے کہ واقفین زندگی کا متکفل خود اللہ تعالیٰ ہوتا ہے۔ ایک واقفِ زندگی کبھی بھوکا نہیں مر سکتا۔ اللہ تعالیٰ اس کی ضرورتیں خود اپنے فضل سے پوری کرتا ہے۔
سبق پڑھانے اور تربیت کے مختلف مواقع
عموماً آپ آخری کلاس کو بخاری شریف پڑھاتے تھے۔ خاکسار نے بھی باقی طلبہ کی طرح آپ سے بخاری شریف پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ پڑھانے کا انداز بالکل منفرد اور نرالا تھا۔ آخری کلاسوں تک چونکہ عربی زبان پر کچھ محاورہ ہو جاتا ہے اور کلاسز میں بعض اساتذہ اسی بات پر زور دیتے تھے کہ ان کے پیریڈ میں عربی ہی میں بات چیت کی جائے اس وجہ سے جب آپ بخاری شریف پڑھاتے تو زیادہ تر اردو ترجمہ نہیں کرتے تھے۔ ہاں اگر کسی جگہ مشکل لفظ ہوتا تو طلبہ پوچھ لیتے اور آپ بڑی بشاشت کے ساتھ جواب دیتے۔ بخاری پڑھانے کے ساتھ ساتھ مسائل کا استنباط بھی کرتے جاتے اور سوالوں کے جواب بھی دیتے جاتے۔
ہمیں یہ بھی ہدایت تھی کہ ہر طالب علم اپنی بخاری شریف کی کتاب میں سفید صفحات کا اضافہ (انٹرلیف)کروائے تاکہ جو مسائل بیان کیے جارہے ہیں یا تاریخی باتیں بتائی جارہی ہیں یا جو تحقیقی باتیں پیش نظر ہیں ان کو لکھ لیا جائے۔ وہ سب طلبہ جنہوں نے حضرت میرداؤد احمد صاحب سے پڑھا ہے ان کے پاس بخاری کی وہ جلدیں ضرور محفوظ ہوں گی اور ان پر نوٹس بھی موجود ہوں گے۔
اس کے علاوہ ایک دفعہ غالباً درجہ ثانیہ کی بات ہے کہ ہمارے حدیث کے استاد محترم قاضی مبارک احمد صاحب اپنی گھنٹی میں تشریف نہیں لائے۔ شاید رخصت پر ہوں گے۔ اور جس طرح ایک طبعی امر ہے کہ جب استاد نہ آئے تو طلبہ کی عید ہوجاتی ہے اور وہ پھر خوش گپیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ طلبہ نے شور ڈالا ہوا تھا۔ محترم میر صاحب ویسے ہی برآمدہ میں چکر لگارہے تھے۔ ہماری کلاس کا شور سن کر کلاس کے اندر تشریف لے آئے۔ بس پھر کیا تھا سب طلبہ کے رنگ اڑ گئے! آپ نے سب کو بیٹھنے کا ارشاد فرمایا۔ اور خود بھی استاد والی کرسی پر بیٹھ کر استفسار فرمانے لگےکہ کس کا پیریڈ ہے اور کون پڑھاتا ہے اور یہ شور کیوں ڈالا ہوا ہے۔
پھر بڑے آرام کے ساتھ حدیث کے بارے میں تفصیلی معلومات پر مشتمل جامع لیکچر دیا اور اس طرح نصائح کے ساتھ ساتھ حدیث کا پیریڈ حدیث پڑھنے میں ہی گزرا۔
خلافت کے ساتھ تعلق
ایک اَور بات جو ہماری کلاسز کے لیے خصوصاً اور جامعہ کے طلبہ کے لیے عموماً ہوتی تھی وہ یہ کہ خلافت کے ساتھ تعلق پیدا کیا جائے۔ اس کے لیے ہمیں ہدایت ہوتی تھی کہ حضرت خلیفۃالمسیح کی خدمت میں دعا کے لیے خط لکھیں اور ملاقات بھی کریں۔ مزید برآں مسجد مبارک جہاں حضرت خلیفۃ المسیح نماز پڑھاتے ہیں روزانہ کم از کم ایک نماز ضرور جا کر پڑھیں۔
رمضان میں خصوصیت کے ساتھ فرمایا کرتے تھے بلکہ نوٹس بورڈ پر اپنے قلم سے لکھ کر نوٹس لگاتے تھے کہ نماز تراویح کے لیے مسجد مبارک میں حاضرہوں اور جو دور رہنے کی وجہ سے حاضر نہ ہو سکیں وہ تحریری اجازت لے لیں۔
مغرب کی اذان سے دس پندرہ منٹ پہلے کا وقت علیحدگی میں دعا میں گزاریں۔
رمضان میں فرمایا کرتے تھے کہ کم از کم ایک گھنٹہ تہجد ضرور پڑھیں اور درس سننے کے لیے مسجد مبارک میں خود بھی پہنچتے اور جامعہ کے سب طلبہ کو بھی وہاں حاضر ہو کر درس سننے اور نوٹس لینے کی ہدایت فرماتے۔ ان باتوں کا اصل فائدہ ہمیں میدان عمل میں ہوا۔ فجزہ اللہ احسن الجزاء
ہماری کلاس کے ایک طالب علم نے محترم میر صاحب کو ایک خط لکھا جس کے جواب میں جو میر صاحب نے تحریر فرمایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نے انہیں لکھا: ’’آپ کا خط ملا۔ میں تو خود دل میں شرمندہ رہتا ہوں کہ جتنی خدمت کا حق ہے آپ لوگوں کی نہیں کرسکا۔ آپ مجھے اپنے بچوں کی طرح عزیز ہیں اور ہمیشہ اسی نظر سے میں نے آپ کو دیکھا ہے۔ اور دل تمناؤں سے بھرا رہتا ہے کہ آپ کو خاص خدمت کی توفیق ملے۔ اور آسمان احمدیت پر ستارے بن کر چمکیں۔ میری مغفرت اور ستاری کے لیے دعا کیا کریں۔ ‘‘(سیرت داؤد)
خاکسار نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ آپ طلبہ کے لباس کا خاص خیال رکھتے تھے۔ جامعہ کی یونیفارم اچکن، ٹوپی، سفید قمیص، سفید شلوار، کالے بوٹ ہوتی تھی۔ اکثر اوقات جامعہ کی آخری کلاس میں ہم اسی لباس میں وقار عمل کر لیتے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ باموقع اوربرمحل باتوں کا خیال بھی رکھواتے۔ ایک دفعہ ہمارے ایک کلاس فیلو جلسے کے ایام میں ایک جگہ وقار عمل کے لیے اچکن پہن کر آگئےتو میر صاحب نے فرمایاکہ آپ سے یہاں تقریر نہیں کرانی، وقارِ عمل کرنا ہے اور زیادہ وقت کے لیے کرنا ہے۔ اس لیے اچکن اتار کر آئیں۔
اسی طرح ایک دفعہ ربوہ میں غالباً جلسہ یومِ مصلح موعودؓ تھا۔ آپ کی طرف سے سارے جامعہ کو ہدایت ملی کہ سب طلبہ اسمبلی میں حاضر ہوں اور یہاں سے سیدھے مسجد مبارک چلے جائیں۔ میرے کلاس فیلو محترم رشید ارشد صاحب بتاتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ آج یونیفارم پہننے کی کیا ضرورت ہے، اسمبلی سے سیدھے جلسےپر ہی جا نا ہے۔ چنانچہ اپنے روزمرہ کے لباس میں اسمبلی میں حاضر ہوگیا۔ آپ نے دیکھ لیا اور فرمایا کہ ہوسٹل جا کر یونیفارم پہن کر جلسہ میں چلیں۔
ان تمام امور کا لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ جہاں لباس کی طرف توجہ دلاتے وہاں موقع و محل بھی سمجھاتے۔ ہمیں نکر اور بنیان میں احمد نگر تک دوڑ بھی لگوایا کرتے تھے۔ اس کے ذریعے سے آپ سمجھاتے کہ موقع اور محل ہرکام کے لیے پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
دعائے استخارہ کی اہمیت
میرے عزیز دوست اور کلاس فیلو مکرم رشید احمد ارشد صاحب چینی ڈیسک بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جب امتحان ہورہے تھے تو میں حدیث کا پرچہ دے کر ہوسٹل میں آیا۔ آپ (میر داؤد احمد صاحب) اس وقت ہوسٹل کی چھت کی تعمیر کے سلسلے میں وہاں موجود تھے۔ آپ نے بلا کر پوچھا کہ پرچے میں دعائے استخارہ لکھی تھی یا نہیں۔ رشید صاحب کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا لیکن آپ نے فرمایا کہ تم نے وہ حدیث نہیں پڑھی جس میں ایک صحابیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دعائے استخارہ بھی اس طرح سکھاتے تھے جس طرح قرآن کریم کی کوئی سورت سکھا رہے ہوں۔ یعنی استخارہ کی اس قدر اہمیت ہے۔
خاکسار وہ حدیث اور دعائے استخارہ افادۂ عام کے لیے یہاں لکھ رہا ہے۔
عَنْ جَابِرٍ رَضِی اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَا الْاسْتِخَارَةَ فِی الْأُمُورِ كُلِّهَا کَمَا یُعَلِّمُنَا السُّوْرَةَ مِنَ الْقُرْآنِ یَقُولُ:
إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْیرْكَعْ رَكْعَتَیْنِ مِنْ غَیرِ الْفَرِیْضَةِ ثُمَّ لِیَقُلْ: اللّٰهُمَّ إِنِّیْ أَسْتَخِیْرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِیْمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ اللّٰهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ(ھنا تسمی حاجتک) خَیرٌ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِیْ أَوْ قَالَ: عَاجِلِ أَمْرِیْ وَآجِلِهِ فَاقْدُرْهُ لِیْ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ (ھنا تسمی حاجتک) شَرٌّ لِیْ فِیْ دِینِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِیْ أَوْ قَالَ: عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْهُ وَاقْدُرْ لِی الْخَیرَ حَیثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِهِ۔ (رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ)
جو مبلغ تہجد ادا نہیں کرتا وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا
دعائے استخارہ کے ساتھ یہ بھی نہایت اہم بات ہے جو آپ متعدد مرتبہ جامعہ کے طلبہ اور خصوصاً ہماری آخری کلاس میں فرمایاکرتے تھے کہ جو مبلغ تہجد ادا نہیں کرتا وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ آخری کلاس میں تو روزانہ ڈائری میں یہ بات لکھ کر دینی پڑتی تھی کہ تہجد ادا کی۔ اور اگر نہ پڑھی ہوتی تو صدقہ دینا ہوتاتھا۔ ایک دفعہ خاکسار دو روز لگاتار تہجد کی نہ پڑھ سکا تو آپ نے میری ڈائری پر لکھا کہ اب صدقہ کافی نہیں بلکہ آج کی رات مسجد مبارک میں اعتکاف کریں۔ چنانچہ خاکسار نے اس رات مسجد مبارک میں اعتکاف کیا۔
اعتکاف کے ضمن میں ایک اَور بات یاد آگئی کہ ہمارے ایک اور کلاس فیلو تھے، ایک دن رشید ارشد صاحب محترم پرنسپل صاحب کے دفتر سے ڈائریاں واپس لائے اور آکر میز پر رکھ دیں تاکہ ہر طالب علم اپنی اپنی ڈائری لے لے۔ ایک دوست اس وقت موجود نہ تھے۔ ایک دوسرے دوست نے ان کی ڈائری دیکھ لی۔ اور ازراہ مذاق جہاں پرنسپل صاحب کے دستخط تھے اس کے اوپر سرخ سیاہی سے بڑی احتیاط کے ساتھ یہ لکھ دیا کہ آج رات آپ مسجد مبارک میں اعتکاف کریں گے۔ چنانچہ وہ رات کو عشا کے بعد بستر لے کر مسجد مبارک پہنچ گئے۔ مسجد مبارک بند تھی۔ پہرے دار نے کہا کہ ہمیں آپ کی اطلاع نہیں ہے۔ یہ طالب علم پرنسپل صاحب کے گھر چلے گئے اور پوچھا۔ انہوں نے فرمایا کہ میری طرف سے ایسی کوئی ہدایت آپ کے لیے نہیں ہے۔ آپ واپس ہوسٹل چلے جائیں۔
اس وقت دنیا میں آپ کے بیسیوں شاگرد میدان عمل میں کام کر رہے ہیں۔ ہر ایک انہی باتوں کا زندہ ثبوت اور گواہ ہے کہ آپ نے ہمیشہ سب کو اپنے عزیز بچوں کی طرح دیکھا، سمجھا اور اس پر نظر شفقت فرمائی۔ خدا تعالیٰ ہمارے اس پیارے استاد پر اپنی ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا رہے اور ہمیں ان کی دعاؤں کے مطابق احمدیت کے روشن ستارے بنا کر خلیفۃ المسیح کے جاںنثاروں، وفاداروں اور سلطان نصیر میں شامل کرے۔ آمین
اگلی قسط: بستی کتنی دُور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط سوم)
گزشتہ قسط: بستی کتنی دُور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط اوّل)