یادِ رفتگاں

مکرم منظور احمد شاد صاحب

(طاہر محمود مبشر مربی سلسلہ۔ استاد جامعہ احمدیہ یوکے)

انسان کے کردار اور اخلاق کی سربلندی میں اس کے ان نیک اعمال کا ایک بہت بڑا حصہ ہوتا ہے جو وہ محض خدا تعالیٰ کی رضامندی اور اس کے قرب کے حصول کے لیے ایک مجاہدانہ رنگ میں بجا لاتا ہے اور یہی وہ اعمال ہوتے ہیں جو صدقہ جاریہ کی شکل میں ہمیشہ قائم دائم رہتے ہیں۔ جن کے ذکر سے آنے والی نسلیں ان پاک بزرگوں کےنام کو نہ صرف زندہ رکھتی ہیں بلکہ ان کے نقش قدم کے تتبع میں خود اپنے لیے بھی ایک پاک اور روحانی زندگی کا لائحہ عمل مرتب کرتی ہیں۔ اور یہ طریق تو خود ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تھا جب آپﷺ اپنے والدین اور ازواج مطہرات سے تعلق رکھنے والوں سے نہ صرف ان کی زندگی میں بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی اسی طرح کا پیار بھرا سلوک روا رکھتے تھے جو اُن سےاس وقت بھی روا رکھا جاتا جب وہ زندہ ہوتے۔ بہرحال اپنے بزرگوں کے اعلیٰ اور بلند مقام اور مرتبے کا ذکر کرنا اور انہیں زندہ رکھنا یہی قوموں کے زندہ رہنے کی علامت ہوا کرتا ہے۔

ان بزرگوں میں سےہمارے ایک بہت ہی پیارے بزرگ محترم منظور احمد شاد صاحب مرحوم بھی تھے جو واقعی خلافت احمدیہ اور جماعت احمدیہ کراچی کے لیے ایک سلطان نصیر تھے۔ انہیں جب بھی کراچی جیسے وسیع و عریض شہر میں دیکھا جماعت کے لیے ایک مخلص اور وفادار بے لوث خدمت کے جذبے سے سرشار وجود ہی پایا۔

خاکسار کی پیدائش کراچی کی ہے اور اطفال الاحمدیہ کا سارازمانہ اور خدام الاحمدیہ کے بھی ابتدائی چند سال کراچی میں ہی گزرے اس لیے جب کبھی وہ یادیں ماضی کے حسین لمحات کو دل ودماغ میں دوبارہ زندہ کرتی ہیں تو ان کے اَن مٹ نقوش میں محترم منظور احمد شاد صاحب اپنا مقام خود بخود بناتے چلے جاتے ہیں۔ مجھے یا د ہے ہم سب بھائی جمعہ ہمیشہ گھر سے دس بارہ کلومیٹر دور احمدیہ ہال میں جاکر باقاعدگی سے ادا کیا کرتے تھے اور وقت سے کافی پہلے ہی پہنچ جایا کرتے تھے، تو جب بھی احمدیہ ہال میں آمد ہوتی تھی تو سب سے پہلے منبر پر منظور شاد صاحب کو ہی پاتے تھے اس لیے نہیں کہ انہوں نے خطبہ جمعہ دینا ہوتا تھا اگرچہ وہ بھی آپ کبھی کبھار پڑھادیتے تھے، بلکہ اس لیے کہ چونکہ کراچی جماعت کے جنرل سیکرٹری تھے اور خطبہ جمعہ سے قبل اعلانات کرنا بھی ایک ذمہ داری ہوتی ہے تو اطفال الاحمدیہ کی عمر سے ہی آپ کو جماعتی اور مرکزی اعلانات کرتے ہوئے پایا اور ہمیشہ انہیں امام کے پیچھے تکبیر کہتے دیکھا۔ ہم تو ابھی طفل ہی تھے عمر بمشکل دس سال بھی پوری نہیں ہوگی جب سے آنکھوں نے یہ نظارہ دیکھنا شروع کیا تو ایسے وجود سے طبعی طور پر ایک اُنس اور محبت پیدا ہوجاتی ہے اسی لیے ہم جمعہ کی ادائیگی کے بعد لازمی طور پر انہیں سلام کیے بغیر واپس گھر نہیں لوٹتے تھے۔ پھر جب کبھی احمدیہ ہال میں اطفال الاحمدیہ کا کوئی پروگرام ہوتا یا کوئی اور جلسہ ہوتا تو موصوف ہی تن تنہا تعلیمی اور تربیتی ذمہ داریاں ادا کرتے نظر آتے اور امیر صاحب یا مہمان خصوصی کے دست راست ہونے کی وجہ سے انعامات کا اعلان کرتے نظر آتے اس وقت تو ہر ایک طفل کے کان اور آنکھیں آپ کی طرف ہی ہوتی تھیں کہ کب اُس کے نام کا اعلان کیا جائے گا اور وہ اپنا انعام وصول کرے گا۔ بہرحال یہ تو محبت کا ایک آغاز تھا اور ایک عجیب اچھوتا انداز تھا جس کی وجہ سے ہمیشہ اُس وقت بھی ان کے لیے دعائیں نکلتی تھیں اور پھر بعد میں جب انہیں مسجد بیت الفتوح لند ن میں دوبارہ دیکھا تو وہ یادیں دوبارہ تازہ ہوگئیں۔

اس عاجز کو مرحوم و مغفور کے بلند مقام اور مرتبے کا حقیقی اندازہ پہلی مرتبہ اُس وقت ہوا تھا جب ہم نے دیکھا کہ آپ رمضان المبارک کےدنوں میں درس قرآن کی خاطر ہماری مجلس محمد علی سوسائٹی کے نماز سنٹر دارالصدر میں بھی تشریف لاتے ہیں یہ درس کم از کم دو گھنٹے کاتو ضرور ہوا کرتا تھا اور بمشکل ہی افطار سے پہلے اجتماعی دعا پر اختتام پذیر ہوتا تھا۔ مجھے نہیں علم کہ افطار کے شوق میں یا درس سننے اور اس سے مستفیض ہونے کی خاطر ہم سب بھائی گھر سے دو تین کلومیٹر دور اپنی سائیکلوں پر یا پھر کبھی پیدل بھی سب سے پہلے سنٹر پہنچے والوں میں سےہوا کرتےتھے وہا ں پہنچ کر اپنی اپنی ڈیوٹیوں اور جملہ انتظامات کی انجام دہی میں مصروف ہو جایا کرتے تھے اگرچہ آپ صرف چند ایام کے لیے ہی درس کے لیے تشریف لایا کرتے تھے لیکن وہ ایک عجیب کیفیت تھی جب ہم آپ کو دوبارہ اپنے اندر موجود پاتے۔ آپ سے ملتے اور خیریت دریافت کرتے دعا کے لیے عرض کرتے اور اُن کے استفسار پر بےتکلف بتا دیتے کہ آج روزے سے نہیں ہیں۔

آپ کی جماعتی خدمات جو آپ نے ایک مسلسل جہاد کی صورت میں بڑی ہی تندہی اور جانفشانی سے سرانجام دیں وہ آپ کا کراچی گیسٹ ہاؤس میں ایک لمبے عرصے تک رضاکارانہ بے لوث خدمت بجا لانا ہے۔ خاکسار کے چچا محمد اسلم امتیاز صاحب مرحوم بھی چونکہ وہیں دفتری ذمہ داریاں سرانجام دیتے تھے اس لیے جب بھی ابا جان کےساتھ یا کسی بھی احمدی کے ساتھ گیسٹ ہاؤس جانے کا اتفاق ہوتا تو وہاں بھی اس مشفق و مہربان اور ہشاش بشاش چہرے کو موجود پاتے جو رات دیر تک جماعتی امور کی تکمیل کے بعد ہی گھر واپس لوٹتے تھے حالانکہ گیسٹ ہاؤس سے ان کے گھر کا فاصلہ کم ازکم بیس کلومیٹر سے کم نہ تھا۔

کراچی جماعت کے لیے آپ کی خدمات کاسلسلہ مختلف حیثیتوں سے ایک لمبے عرصے تک پھیلا ہوا ہے جن کا کچھ ذکر تو ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنےخطبہ جمعہ میں مرحومین کی فہرست میں آپ کو شامل کرکے اور آپ کے اخلاق فاضلہ کا ذکر کر کے کردیا ہے جن میں سے آپ کا قائد ضلع خدام الاحمدیہ کراچی ہونا ایک اعزاز اور مرتبے سے کم نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ محترم چودھری احمد مختار صاحب مرحوم امیر جماعت احمدیہ کراچی اور محترم عبدالرحیم بیگ صاحب مرحوم نائب امیر جماعت احمدیہ کراچی کے دست راست تھے تو اس میں ہر گز کوئی مبالغہ نہیں۔

اٹھارہ سال کی عمر میں خاکسار جامعہ احمدیہ ربوہ چلا گیا تھا اور مربی سلسلہ کی خدمات کے دوران بھی جب کبھی احمدیہ ہال جانے کااتفاق ہوتا تو آنکھیں انہیں تلاش کررہی ہوتی تھیں اور ملے بغیر واپس جانے کو دل نہیں کرتا تھا۔ پھر ایک لمبا عرصہ گزر گیا اور جب خاکسار کی جامعہ احمدیہ یوکے میں تعیناتی ہوگئی تو انہیں ایک دن اچانک ہومیوپیتھک ڈسپنسری مسجد بیت الفتوح میں اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے دیکھ کر حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ نہایت پیار اور محبت سے ملے والد صاحب اور چچا جان اور کراچی کے دیگر احباب کا ذکر خیر ہوا اس کے بعد یہ محبت کا سلوک مزید چمکا کیونکہ پھر جب بھی ملتے کراچی کی بے لوث خدمت کرنے والے بزرگوں کا ذکر ضرور کرتے اور خود اپنے لیےبھی دعا کی درخواست کرتے۔

پھرتقدیر الٰہی کے مطابق آخر ایک وقت آتا ہے جب پیدا کرنے والے اور اپنے طرف بلانے والے کی تقدیر غالب آتی ہےاور ہر کسی کو اعلیٰ اور دیرپا اور حقیقی دنیا کی طرف لوٹنا ہوتا ہے بس اسی تقدیر اجل پر لبیک کہتے ہوئے یہ پیارا وجود آج ہم میں موجود نہیں ہے۔ اگر چہ بظاہر نظر تو ایک فدائی اور عاشق خلافت احمدیہ کی نظروں میں اُس کی خدمات ہمیشہ حقیر سی خدما ت ہوتی ہیں اور حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا کا شاید نمونہ ہوتی ہیں لیکن ان خدمات کو قبول کرنے والے کے نزدیک ان کا مقام بہت بلند و بالا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس پیارے وجود کی روح کو اپنےقرب میں جگہ دیتے ہوئے بےشمار رحمتیں اور برکتیں نازل کرتا رہے۔ اور جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔ اور ان کے لواحقین کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button