خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍ نومبر 2021ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
٭… حضرت عمرؓ کی خشیتِ الٰہی کی یہ حالت تھی کہ فرماتے اگر دریائے فرات کےکنارے کوئی بکری بھی مرگئی تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھ سے سوال کرےگا۔
٭…عبداللہ بن شہزاد کہتے ہیں کہ مَیں نے حضرت عمرؓ کی ہچکیاں سنیں اور مَیں آخری صف میں تھا آپؓ یہ تلاوت کر رہے تھے کہ
اِنَّمَآ اَشْکُوْا بِثِّیْ وَ حُزْنِٓیْ اِلَی اللّٰہِ
یعنی مَیں اپنے رنج و الَم کی صرف اللہ کے حضور فریاد کرتاہوں
٭… آنحضورﷺ نے حضرت عمرؓ کو یہ دعا سکھائی تھی کہ اے اللہ میرے ظاہر کو میرے باطن سے بہتر بنا اور میرے ظاہر کو اچھا کر
٭…آپؓ اللہ کی راہ میں بہت زیادہ خرچ کرنے والے تھے۔ خشیتِ الٰہی کا یہ عالَم تھا کہ بوقتِ وفات آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ مَیں کسی انعام کامستحق نہیں، مَیں صرف یہ جانتا ہوں کہ سزا سے بچ جاؤں
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍ نومبر 2021ء بمطابق 19؍نبوت1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 19؍ نومبر 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
صحابہؓ کی پہلی حالت اور قبولِ اسلام کے بعد پیدا ہونے والے انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کے واقعے کو بطورمثال بیان فرمایا ہے۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ نےاپنی بہن اور بہنوئی سے قرآن کریم سنا تو رو پڑے اور دوڑے دوڑے رسول کریمﷺ کےپاس گئے اور عرض کی کہ گھر سے نکلا تو آپؐ کو مارنے کےلیے تھالیکن خود شکارہوگیا ہوں۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہی صحابہ تھے جو پہلے شراب پیاکرتے،آپس میں لڑاکرتےلیکن جب انہوں نے آنحضرتﷺ کو قبول کیا اور دین کےلیےہمت اور کوشش سے کام لیا تو نہ صرف خود اعلیٰ درجے پر پہنچ گئے بلکہ دوسروں کو بھی اعلیٰ مقام پر پہنچانے کا باعث ہوگئے۔
حضرت عمرؓ کی خشیتِ الٰہی کی یہ حالت تھی کہ فرماتے اگر دریائے فرات کےکنارے کوئی بکری بھی مرگئی تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھ سے سوال کرےگا۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت عمرؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے ابن خطاب! تُو ضرور اللہ سے ڈر ورنہ وہ ضرور تجھے عذاب دےگا۔ آپؓ کی انگوٹھی پر یہ الفاظ کندہ تھےکہ واعظ ہونے کےلحاظ سے موت کافی ہے۔ عبداللہ بن شہزاد کہتے ہیں کہ مَیں نے حضرت عمرؓ کی ہچکیاں سنیں اور مَیں آخری صف میں تھا آپؓ یہ تلاوت کر رہے تھے کہ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بِثِّیْ وَ حُزْنِٓیْ اِلَی اللّٰہ یعنی مَیں اپنے رنج و الَم کی صرف اللہ کے حضور فریاد کرتاہوں۔اس روایت کو بیان کرکے حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ جو ذکرِ الٰہی میں گُم رہتے ہیں ان کو خدا کے سوا کسی اور کا دربار ملتاہی نہیں جہاں وہ اپنے غم اور دکھ روئیں اور اپنے سینوں کے بوجھ کو ہلکا کریں۔
پرانے خدمت کرنے والوں اور قربانی کرنے والوں کا آپؓ اتنا خیال رکھتے کہ ایک دفعہ کچھ قیمتی اوڑھنیاں آئیں تو آپؓ نے وہ تقسیم فرمائیں اور حضرت امِّ سلیط کو یہ کہتے ہوئے اس کا حق دار قرار دیا کہ احد کے دن امِّ سلیط ہمارے لیے مشکیں اٹھا اٹھا کر لاتی تھیں۔ ایک عورت نے اپنے خاوند کی وفات کے بعد پریشانیوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ خفاف بن ایما غفاری کی بیٹی ہے جو صلح حدیبیہ میں حضورﷺ کے ساتھ موجود تھے۔یہ سن کر آپؓ ٹھہر گئے اور فرمایا کہ واہ واہ! بہت قریب کا تعلق ہے پھر ایک مضبوط اونٹ پر اناج کی بوریاں لادیں ،سال بھر کےلیے مال اور کپڑے رکھے اوراونٹ کی نکیل اس عورت کےہاتھ میں دی اور فرمایا کہ یہ ختم نہیں ہوگا کہ اللہ تمہیں اور دےگا۔
ایک دفعہ حضرت عمرؓ رات گئے مختلف گھروں میں داخل ہوئے جہاں حضرت طلحہ نے آپؓ کو دیکھ لیا۔ اگلی صبح حضرت طلحہؓ ان گھروں میں سے ایک گھر میں گئے وہاں ایک بوڑھی نابینا عورت تھی جس نے حضرت طلحہ کے پوچھنے پر بتایا کہ رات جو شخص میرے گھر آیا وہ کافی عرصےسے میری خدمت کررہا ہے اور میرے کام کاج کو ٹھیک کرتا ہے اور میری گندگی دور کرتا ہے۔
حضرت عمرؓ شام سے واپسی پر قافلے سے الگ ہوکر لوگوں کے حالات معلوم کرنے کےلیے نکلے۔ دُوردرازایک خیمے میں ایک بوڑھی عورت سے اس کا حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ خدا عمر کو میری طرف سے جزائے خیر نہ دےجب سے وہ خلیفہ ہواہے مجھے اس کی طرف سے کوئی عطیہ نہیں ملا۔ حضرت عمرؓ نےفرمایا کہ عمرکوتیرے حالات کی خبر کیسے ہوگی۔ اس عورت نے کہا سبحان اللہ! مَیں گمان نہیں کرتی کہ کوئی شخص لوگوں پر والی بن جائے اور اسے یہ خبر نہ ہو کہ اس کے مشرق و مغرب میں کیا ہے۔حضرت عمرؓ یہ سن کر رو پڑے اور فرمانے لگے کہ ہائےہائے عمر! کتنے دعوےدار ہوں گے ہر ایک تجھ سے زیادہ دین کی سمجھ رکھنے والا ہے۔پھر آپؓ نے اس عورت سے کہا کہ تُو اپنی مظلومیت کے حق کو کتنے میں بیچتی ہے کہ مَیں عمر کو جہنم سے بچانا چاہتا ہوں۔ اس عورت نے اول تو اسے مذاق جانا پھر پچیس دینار قبول کرلیے۔ اسی اثنا میں حضرت علیؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ وہاں داخل ہوئے اور حضرت عمرؓ کو امیرالمومنین کہہ کر مخاطب کیا۔ یہ سن کر وہ عورت ڈر گئی، پر حضرت عمرؓ نے فرمایا تجھ پر کوئی جرم نہیں۔ اس کے بعد آپؓ نے ایک تحریر لکھی کہ آج عمر نے فلاں عورت سے اس کاحق مظلومیت پچیس دینار میں خریدا ہے ، اب اگر وہ محشر میں اللہ کے سامنے دعویٰ کرے تو عمر اس سے بری ہے۔ علی اور عبداللہ اس پر گواہ ہیں۔ آپؓ نے وہ تحریر حضرت علیؓ کو دی اور فرمایا کہ اگر مَیں تم سے پہلے گزر جاؤں تو یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینا۔
حضرت عمرؓ نے ایک لڑکی سے اپنے بیٹے عاصم کا رشتہ صرف اس کی سچائی کو دیکھ کر کردیا تھا۔ ایک شخص کو بازار میں راستے سے ہٹانے کے لیے اپنے کوڑے سے اشارہ کیا وہ کوڑا ہلکا سا اس کے لباس سے لگ گیا۔ ایک سال بعد اس شخص کو چھ سو درہم دیے اور فرمایا کہ یہ اس کا بدلہ ہے۔ آپؓ یہ بھی دیکھا کرتے کہ بازار میں اشیاء کی قیمتیں ایسی ہوں جن سے کسی بھی فریق کے شہری حقوق متاثر نہ ہوں۔ ایک شخص نے اپنی بیٹی کے متعلق بتایا کہ اس سے گذشتہ زندگی میں غلطی ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد اس پر لگ گئی تھی۔ اس نے خود کشی کی بھی کوشش کی تھی لیکن اب وہ توبہ کر چکی ہے۔ کیا اس کی شادی کے لیے پیغامات لانے والوں کو اس سب کا بتایا جائے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ نے اس کا پردہ رکھا اور تُو اس کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ اللہ کی قسم! اگر تُو نے ایسا کیا تو مَیں تجھے پورے شہر والوں کے سامنے عبرت کا نشان بناؤں گا۔
سترہ ہجری میں حضرت عمرؓ مدینے سے شام کےلیے روانہ ہوئے اور سرغ مقام پر پہنچے وہاں آپؓ کو علم ہوا کہ رملہ اور بیت المقدس کے راستےمیں چھ میل کے فاصلے پر ایک وادی عمواس ہے، جہاں طاعون پھوٹ پڑی ہے۔ اس وبا نے پورے شام کو اپنی لپیٹ میں لےلیا اور پچیس ہزار کے قریب اموات ہوئیں۔ حضرت عمرؓ اس دوران کس طرح لوگوں کی فکر کرتے رہے، اس کا بیان صحیح بخاری کی روایت میں ملتا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے رسول کریمﷺ کا یہ فرمان پیش فرمایا کہ جہاں وبا پھوٹ پڑے وہاں مت جاؤ اور اگر اس جگہ پر ہو تو وہاں سے فرار ہوتے ہوئے مت نکلو۔ اس وبا کے نتیجے میں حضرت ابوعبیدہؓ اور شام میں آپ کے جانشین حضرت معاذ بن جبلؓ فوت ہوگئے۔ حضرت معاذ نے اپنا قائم مقام حضرت عمرو بن عاصؓ کو مقرر فرمایا تھا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے لوگوں کو فرمایا کہ پہاڑوں میں چھپ کر اپنی جانیں بچاؤ۔ اس طریق سے وبا آہستہ آہستہ کم ہوکر ختم ہوگئی۔ جب یہ اطلاع حضرت عمرؓ کو ملی تو آپؓ نے اسے بہت پسند فرمایا۔
حضرت ابوعبیدہؓ کے علاوہ حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت یزید بن ابو سفیانؓ، حضرت حارث بن ہشامؓ ، حضرت سہیل بن عمروؓ اور حضرت عتبہ بن سہیلؓ اور دیگر معززین بھی اس وبا سے فوت ہوئے۔
حضرت عمرؓ کی قبولیتِ دعا کے واقعات میں ذکر ملتا ہے کہ ایک دفعہ شدید قحط پڑا تو آپؓ نے نمازِ استسقاء ادا کی اور خدا سے دعا کی تو فی الفور بارش ہوگئی۔ اسلام سے قبل مصر کے لوگوں میں رسم تھی کہ جب دریائے نیل خشک ہوتا تو وہ ایک کنواری لڑکی کو سجا سنوار کر دریا میں ڈال دیتے۔ اسلام کے بعد جب دریائے نیل خشک ہوا تو حضرت عمرؓ نے دعا کرکے ایک رقعہ بھجوایا جس پر درج تھا کہ اے دریائے نیل! اگر تجھے اللہ تعالیٰ چلا رہاہے تو مَیں دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے چلائے۔ آپؓ کے حکم کے مطابق وہ رقعہ دریا میں ڈالا گیا تو دریا جاری ہوگیا۔ حضرت ساریہ اسلامی لشکر کے ساتھ مشکل میں گرفتار ہوئے تو حضرت عمرؓ کی زبان پرمدینے میں یہ الفاظ جاری ہوئے کہ’’ یَا سَارِیَةَ الْجَبَلَ‘‘ یہ الفاظ حضرت ساریہ کو میدانِ جنگ میں سنائی دیے اور یوں مسلمان بڑی تباہی سے محفوظ رہے۔ ایک دفعہ قیصرِروم کوشدید سر درد کی شکایت ہوگئی جوہزار علاج سے بھی ٹھیک نہ ہوا۔ بالآخر حضرت عمرؓ کی پرانی، میلی ٹوپی بطور تبرک پہننے سے خدا نے شفادی۔
حضرت عمرؓ دعا کیا کرتے کہ اے اللہ! مجھے نیک لوگوں کے ساتھ وفات دے، مجھے آگ کے عذاب سے بچا۔ اے اللہ! میری عمر زیادہ اورقوت کم ہوگئی ہے اور میری رعیت پھیل گئی ہے تُو مجھے ضائع کیے بغیر وفات دے دے۔آنحضورﷺ نے حضرت عمرؓ کو یہ دعا سکھائی تھی کہ اے اللہ! میرے ظاہر کو میرے باطن سے بہتر بنا اور میرے ظاہر کو اچھا کر۔ آپؓ اللہ کی راہ میں بہت زیادہ خرچ کرنے والے تھے۔ خشیتِ الٰہی کا یہ عالَم تھا کہ بوقتِ وفات آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ مَیں کسی انعام کامستحق نہیں، مَیں صرف یہ جانتا ہوں کہ سزا سے بچ جاؤں۔
خطبے کے اختتام پر حضورِانور نے فرمایا کہ ابھی تھوڑی سی باتیں ہیں جو آئندہ ان شاء اللہ بیان ہوجائیں گی۔
٭…٭…٭