انسانی اقدار کو قائم کرنے اور مذہبی رواداری کے لئے آنحضرتﷺ کا بے مثال عملی نمونہ
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
آپ کے انسانی اقدار قائم کرنے اور آپؐ کی رواداری کی ایک اور مثال ہے۔ روایت میں آتا ہے عبدالرحمن بن ابی لیلہ بیان کرتے ہیں کہ سہل بن حنیف اور قیس بن سعد قادسیہ کے مقام پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا۔ تو وہ دونوں کھڑے ہو گئے۔ جب ان کو بتایا گیا کہ یہ ذمّیوں میں سے ہے تو دونوں نے کہا کہ ایک دفعہ نبی کریمﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ احتراماً کھڑے ہو گئے۔ آپ کو بتایا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے۔ اس پر رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ
اَلَیْسَتْ نَفْسًا
کیا وہ انسان نہیں ہے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب من قام لجنازۃ یہودی)
پس یہ احترام ہے دوسرے مذہب کا بھی اور انسانیت کا بھی۔ یہ اظہار اور یہ نمونے ہیں جن سے مذہبی رواداری کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ یہ اظہار ہی ہیں جن سے ایک دوسرے کے لئے نرم جذبات پیدا ہوتے ہیں اور یہ جذبات ہی ہیں جن سے پیار، محبت اور امن کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ نہ کہ آجکل کے دنیاداروں کے عمل کی طرح کہ سوائے نفرتوں کی فضا پیدا کرنے کے اور کچھ نہیں۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے فتح خیبر کے دوران تورات کے بعض نسخے مسلمانوں کو ملے۔ یہودی آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہماری کتاب مقدس ہمیں واپس کی جائے اور رسول کریمﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ یہود کی مذہبی کتابیں ان کو واپس کر دو۔
(السیرۃ الحلبیۃ۔ باب ذکر مغازیۃﷺ غزوۃخیبر۔ جلد 3 صفحہ49)
باوجود اس کے کہ یہودیوں کے غلط رویے کی وجہ سے ان کو سزائیں مل رہی تھیں آپؐ نے یہ برداشت نہیں فرمایا کہ دشمن سے بھی ایسا سلوک کیا جائے جس سے اس کے مذہبی جذبات کوٹھیس پہنچے۔
یہ چند انفرادی واقعات مَیں نے بیان کئے ہیں اور مَیں نے ذکر کیا تھا کہ مدینہ میں ایک معاہدہ ہوا تھا۔ اُس معاہدے کے تحت آنحضرتﷺ نے جو شقیں قائم فرمائی تھیں، جو روایات پہنچی ہیں ان کا مَیں ذ کر کرتا ہوں کہ کس طرح اس ماحول میں جا کر آپؐ نے رواداری کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اُس معاشرے میں امن قائم فرمانے کیلئے آپ کیا چاہتے تھے؟ تاکہ معاشرے میں بھی امن قائم ہو اور انسانیت کا شرف بھی قائم ہو۔ مدینہ پہنچنے کے بعد آپؐ نے یہودیوں سے جومعاہدہ فرمایا اس کی چند شرائط یہ تھیں کہ
1۔ مسلمان اور یہودی آپس میں ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف زیادتی یا ظلم سے کام نہ لیں گے۔ اور باوجود اس کے کہ ہمیشہ اس شق کو یہودی توڑتے رہے مگر آپ احسان کا سلوک فرماتے رہے یہاں تک کہ جب انتہا ہو گئی تو یہودیوں کے خلاف مجبوراً سخت اقدام کرنے پڑے۔
2۔ دوسری شرط یہ تھی کہ ہر قوم کو مذہبی آزادی ہو گی۔ باوجود مسلمان اکثریت کے تم اپنے مذہب میں آزاد ہو۔
3۔ تیسری شرط یہ تھی کہ تمام باشندگان کی جانیں اور اموال محفوظ ہوں گے اور ان کا احترام کیا جائے گا سوائے اس کے کہ کوئی شخص جرم یا ظلم کا مرتکب ہو۔ اس میں بھی اب کوئی تفریق نہیں ہے۔ جرم کا مرتکب چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ہو اس کو بہرحال سزا ملے گی۔ باقی حفاظت کرنا سب کا مشترکہ کام ہے، حکومت کاکام ہے۔
4۔ پھر یہ کہ ہر قسم کے اختلاف اور تنازعات رسول اللہﷺ کے سامنے فیصلے کیلئے پیش ہوں گے اور ہر فیصلہ خدائی حکم کے مطابق کیا جائے گا۔ (اور خدائی حکم کی تعریف یہ ہے کہ ہر قوم کی اپنی شریعت کے مطابق۔ فیصلہ بہرحال آنحضرتﷺ کے سامنے پیش ہونا ہے کیونکہ اس وقت حکومت کے مقتدر اعلیٰ آپؐ تھے۔ اس لئے آپ نے فیصلہ فرمانا تھا لیکن فیصلہ اس شریعت کے مطابق ہو گا اور جب یہودیوں کے بعض فیصلے ایسے ہوئے ان کی شریعت کے مطابق تو اس پر ہی اب عیسائی اعتراض کرتے ہیں یا دوسرے مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ جی ظلم ہوا۔ حالانکہ ان کے کہنے کے مطابق ان کی شرائط پر ہی ہوئے تھے۔ )
پھر ایک شرط یہ ہے کہ کوئی فریق بغیر اجازت رسول اللہﷺ کے جنگ کیلئے نہ نکلے گا۔ اس لئے حکومت کے اندر رہتے ہوئے اس حکومت کا پابند ہونا ضروری ہے۔ اب یہ جو شرط ہے یہ آجکل کی جہادی تنظیموں کیلئے بھی رہنما ہے کہ جس حکومت میں رہ رہے ہیں اس کی اجازت کے بغیر کسی قسم کا جہاد نہیں کر سکتے سوائے اس کے کہ اس حکومت کی فوج میں شامل ہو جائیں اور پھر اگر ملک لڑے یا حکومت تو پھر ٹھیک ہے۔
پھر ایک شرط ہے کہ اگر یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف کوئی قوم جنگ کرے گی تو وہ ایک دوسرے کی امداد میں کھڑے ہوں گے۔ یعنی دونوں میں سے کسی فریق کے خلاف اگر جنگ ہو گی تو دوسرے کی امداد کریں گے اور دشمن سے صلح کی صورت میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں کو اگر صلح میں کوئی منفعت مل رہی ہے، کوئی نفع مل رہا ہے، کوئی فائدہ ہو رہا ہے تو اس فائدے کو ہر ایک حصہ رسدی حاصل کر ے گا۔
اسی طرح اگر مدینے پر حملہ ہو گا تو سب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔
پھر ایک شرط ہے کہ قریش مکہ اور ان کے معاونین کو یہود کی طرف سے کسی قسم کی امداد یا پناہ نہیں دی جائے گی کیونکہ مخالفین مکہ نے ہی مسلمانوں کو وہاں سے نکالا تھا۔ مسلمانوں نے یہاں آ کر پناہ لی تھی اس لئے اب اس حکومت میں رہنے والے اس دشمن قوم سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں کر سکتے اور نہ کوئی مدد لیں گے۔
ہر قوم اپنے اخراجات خود برداشت کرے گی۔ یعنی اپنے اپنے خرچ خود کریں گے۔ اس معاہدے کی رو سے کوئی ظالم یا گناہگار یا مفسد اس بات سے محفوظ نہیں ہو گاکہ اسے سزا دی جاوے یا اس سے انتقام لیا جاوے۔ یعنی جیسا کہ پہلے بھی آ چکا ہے کہ جو کوئی ظالم ہو گا، گناہ کرنے والا ہو گا، غلطی کرنے والا ہو گا۔ بہرحال اس کو سزا ملے گی، پکڑ ہو گی۔ اور یہ بلا تفریق ہو گی، چاہے وہ مسلمان ہے یا یہودی ہے یا کوئی اور ہے۔
(ملخص از سیرت خاتم النبیین۔ صفحہ 279)
(اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور خاکوں کی حقیقت صفحہ 107)
(باقی آئندہ)