سیرت حضرت مسیح موعودؑ: حضرت مصلح موعودؓ کی بیان فرمودہ بعض روایات
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 30؍ اکتوبر 2015ءمیں فرمایا:
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واقعات اور آپ کے حوالے سے جو آپ نے بعض حکایات بیان کیں ان کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی مختلف تقاریر میں بیان کیا ہوا ہے ان کو مختلف جگہوں سے لے کے میں آج بیان کروں گا۔ ہر واقعہ یا حکایت علیحدہ علیحدہ اپنے اندر ایک نصیحت کا پہلو رکھتی ہے۔ اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ افراد جماعت کو اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہئے۔ دینی علم رکھنے والے حالات حاضرہ سے بھی واقفیت رکھیں اور تاریخ سے بھی واقفیت رکھیں۔ خاص طور پر وہ جن کے سپرد تبلیغ کا کام ہے۔ مربّیان ہیں، مبلغین ہیں ان کو چاہئے کہ خاص طور پر توجہ دیں۔ آج کل کی دنیا میں تو یہ معلومات فوری طور پر بڑی آسانی سے مہیا ہو جاتی ہیں۔ بہرحال ایک حکایت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمائی ہے جو علمی استعداد بڑھانے کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے۔ موقع محل کے مطابق اپنی علمی صلاحیت کے اندر رہنے کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے اور حقیقی بزرگی کے معیار کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہم نے یہ واقعہ سنا ہوا ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ کوئی شخص تھا جو بڑا بزرگ کہلاتا تھا۔ کسی بادشاہ کا وزیر اتفاقاً اس کا معتقد ہو گیا اور اس نے ہر جگہ اس شخص کی بزرگی اور اس کی ولایت کا پروپیگنڈا شروع کر دیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ بڑے بزرگ اور خدارسیدہ انسان ہیں۔ یہاں تک کہ اس نے بادشاہ کو بھی تحریک کی اور کہا کہ آپ ان کی ضرورزیارت کریں۔ چنانچہ بادشاہ نے کہا اچھا فلاں دن میں اس بزرگ کے پاس جاؤں گا۔ جو بنا ہوا بزرگ ہے یا جسے تم بزرگ کہتے ہو۔ بہرحال وزیر نے یہ بات فوراً اس بزرگ کو پہنچا دی اور کہا کہ بادشاہ فلاں دن آپ کے پاس آئے گا۔ آپ اس سے اس طرح باتیں کریں تا کہ اس پر اثر ہو جائے اور وہ بھی آپ کا معتقد ہو جائے۔ اگر بادشاہ معتقد ہو گیا تو پھر باقی رعایا بھی پوری توجہ دے گی۔ بہرحال آپ لکھتے ہیں کہ معلوم نہیں وہ بزرگ تھا یا نہیں مگر جو آگے واقعات ہیں ان سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ بیوقوف ضرور تھا۔ جب اسے اطلاع پہنچی کہ بادشاہ آنے والا ہے اور اس سے مجھے ایسے باتیں کرنی چاہئیں جن کا اس کی طبیعت پر اچھا اثر ہو تو اس نے اپنے ذہن میں کچھ باتیں سوچ لیں اور جب بادشاہ اس سے ملنے کے لئے آیا تو کہنے لگا۔ بادشاہ سلامت! آپ کو انصاف کرنا چاہئے۔ دیکھئے مسلمانوں میں سے جو سکندر نامی بادشاہ گزرا ہے وہ کیسا عادل اور منصف تھا اور اس کا آج تک کتنا شہرہ ہے۔ حالانکہ سکندر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے سینکڑوں سال پہلے بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی پہلے ہو چکا تھا مگر اس نے سکندر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعد کا بادشاہ قرار دے کر اسے مسلمان بادشاہ قرار دے دیا۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی سینکڑوں سال بعد ہؤا تھا کیونکہ سکندر خلافت اربع کے زمانے میں تو ہو نہیں سکتا تھا کیونکہ اس وقت خلفاء کی حکومت تھی۔ حضرت معاویہ کے زمانے میں بھی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس وقت حضرت معاویہ تمام دنیا کے بادشاہ تھے۔ بنو عباس کے ابتدائی ایام خلافت میں بھی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس وقت بھی وہی رُوئے زمین کے حکمران تھے۔ پس اگر سکندر مسلمان تھا تو وہ چوتھی پانچویں صدی ہجری کا بادشاہ ہو سکتا ہے حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سینکڑوں سال پہلے گزرا ہے۔ تو وہ جو سینکڑوں سال پہلے کا بادشاہ تھا اسے اس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی امت میں سے قرار دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے بادشاہ پہ اثر تو کیا ڈالنا تھا، بادشاہ اس سے سخت بدظن ہو گیا اور فوراً اٹھ کر چلا آیا۔ تو حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ تاریخ دانی بزرگی کے لئے شرط نہیں ہے مگر یہ مصیبت تو اس خودساختہ بزرگ نے خود اپنے اوپر سہیڑی۔ اسے کس نے کہا تھا کہ وہ تاریخ میں دخل دینا شروع کر دے۔’’ (مأخوذ از خطبات محمود جلد19صفحہ631تا633)
تو اس لئے علم صحیح ہونا چاہئے اور جو بھی بات انسان کرے اس کے بارے میں یہ تسلّی ہونی چاہئے کہ اگر وہ تاریخی لحاظ سے ہے تو تاریخ کا صحیح علم ہو اور کوئی علمی بات ہو تو اس کا صحیح علم ہو۔ اس شخص کو اس کی نفس کی خواہش نے ہلاک کر دیا۔ جب انسان سچائی سے ہٹ کر نام نہاد بزرگی اور علم کا چولہ پہنے یا اس کو پہننے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اسی طرح ذلیل ہوتا ہے یہی انجام ہوتا ہے۔
پھر ایک جگہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل کی نرمی اور امّت کے لئے درد بلکہ انسانیت کے لئے بھی درد کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ کسی کو بددعا دینے کی لوگوں کو بڑی جلدی ہوتی ہے۔ ہمارا یہی اصول ہونا چاہئے کہ ہم کسی کے لئے بددعا نہ کریں بلکہ ہمیں اپنے مخالفین کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ آخر انہوں نے ہی ایمان لانا ہے۔ مولوی عبدالکریم صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں چوبارے میں رہتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کمرے کے اوپر آپ نے ان کے لئے ایک اور کمرہ بنوایا تھا اور اوپر رہتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مکان کے نچلے حصے میں تھے کہ ایک رات نچلے حصے سے مجھے اس طرح رونے کی آواز آئی جیسے کوئی عورت دردِ زہ کی وجہ سے چلّاتی ہو۔ مجھے تعجب ہوا اور میں نے کان لگا کر آواز کو سنا تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعا کر رہے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ اے خدا! طاعون پڑی ہوئی ہے اور لوگ اس کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ اے خدا! اگر یہ سب لوگ مر گئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا۔
اب دیکھو طاعون وہ نشان تھا جس کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی۔ طاعون کے نشان کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں سے بھی پتا چلتا ہے۔ لیکن جب طاعون آتی ہے تو وہی شخص جس کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے طاعون آتی ہے خدا تعالیٰ کے سامنے گڑگڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ اے اللہ! اگر یہ لوگ مر گئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا۔ پس مومن کو عام لوگوں کے لئے بددعا نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ انہی کے بچانے کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔ ایک مومن دنیا کو بچانے کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔ اگر وہ ان کے لئے بددعا کرے گا تو وہ کس کو بچائے گا؟ احمدیت قائم ہی اس لئے ہوئی ہے کہ وہ اسلام کو بچائے۔ احمدیت قائم ہی اس لئے ہوئی ہے کہ وہ مسلمانوں کو بچائے اور ان کی عظمت انہیں واپس دلائے۔ بنو اُمیّہ کے زمانے میں مسلمانوں کو جو شوکت اور عظمت حاصل تھی حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں آج وہی شوکت و عظمت احمدیت مسلمانوں کو اس شرط کے ساتھ دینا چاہتی ہے کہ بنو عباس اور بنو اُمیّہ کی خرابیاں ان میں نہ آئیں۔ پس جن لوگوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے کے لئے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے ان کے لئے ہم بددعا کیسے کر سکتے ہیں۔
٭…٭…٭