پاکستان: انتہا پسندی کے مقابلہ میں حکومت اور ریاست کو پیچھے ہٹنا پڑا
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا اعتراف
’’ 1980ءاور 90ء کی دہائی میں منصوبے کے تحت سکولوں اور کالجزمیں ایسے اساتذہ بھرتی کیے گئے جو انتہاپسندی کی تعلیم دے رہے تھے ۔‘‘
’’ریاست جب تک اپنی رٹ قائم نہ کر سکے، لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت نہ کر سکے، کئی بڑے دانشور اور علما ءپاکستان میں قدم نہیں رکھ سکتے …جب ہم دوسرا نقطہ نظر سامنے ہی نہیں رکھیں گے تو تبدیلی کیسے آئے گی؟۔‘‘
’’جو بھی شخص حضرت محمدﷺ کی زندگی سے تھوڑا بھی واقف ہے تو وہ آخر شدت پسندی کیسے اختیار کر سکتا ہے؟۔‘‘
’’انتہا پسندی کے نقطہ نظر کو معاشرے نے خود ٹھیک کرنا ہے‘‘
’’روزنامہ ڈان پاکستان نے ریڈیو پاکستان کے حوالہ سے خبر دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تو صوفیوں کی دھرتی تھی اور اس طرح کی مذہبی شدت پسندی ہمارے علاقوں میں نہیں بلکہ ان علاقوں میں زیادہ تھی جو ہندوستان میں رہ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے مختلف سیاسی وجوہات کی بنا پر ایسے عناصر پیدا کیے جس کے نتیجے میں پاکستان ایک بڑے خطرے سے دوچار ہے، حکومت یا ریاست انتہاپسندی سے لڑنے کے لیے اتنی تیار نہیں ہے جتنی ہونی چاہیے، تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی) کے کیس میں بھی ہم نے دیکھا ہے ریاست کو پیچھے ہٹنا پڑا اور یہ اس بم کی نشاندہی کرتا ہے جو ٹک ٹک کر کے بج رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انتہا پسندی کی بڑی وجہ مدارس ہرگز نہیں ہیں بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ اسکول اور کالجز ہیں جس میں 80 اور 90کی دہائی میں منصوبے کے تحت ایسے اساتذہ بھرتی کیے گئے جو انتہاپسندی کی تعلیم دے رہے تھے، تمام بڑے واقعات مدارس کے طلبہ نے نہیں بلکہ عام اسکولوں سے پڑھے ہوئے لوگوں نے کیے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ اگر آپ ایسا معاشرہ تشکیل دیں گے جس میں دوسرا نقطہ نظر پہلے ہی منٹ میں کفر قرار دے دیا جائے، جہنم کی بشارت دے دی جائے تو دوسرا نقطہ نظر کیسے اس معاشرے کے سامنے رکھ سکتے ہیں لہٰذا ایک ہماری لمبی لڑائی ہے اور قلیل المدتی لڑائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست جب تک اپنی رٹ قائم نہ کر سکے، لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت نہ کر سکے، کئی بڑے دانشور اور علماء پاکستان میں قدم نہیں رکھ سکتے، جاوید غامدی امریکا میں بیٹھے ہوئے ہیں، جب ہم دوسرا نقطہ نظر سامنے ہی نہیں رکھیں گے تو تبدیلی کیسے آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جو بھی شخص حضرت محمدﷺ کی زندگی سے تھوڑا بھی واقف ہے تو وہ آخر شدت پسندی کیسے اختیار کر سکتا ہے، اسلام کی تمام تر تعلیمات توازن پر ہیں، مسئلہ اسلام یا کسی مذہب کی تعلیمات کا نہیں بلکہ ان تعلیمات کی تشریح کرنے والوں کا ہے کیونکہ وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس فیصلے کی تعبیر کیا ہو گی۔
فواد چودھری نے مزید کہا کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے قانون کی عملداری کے برطانوی نظام کو بھی تباہ کردیا اور ہم اس کے متبادل بھی فراہم نہیں کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کا کام صرف قانون کا نفاذ ہونا چاہیے اور جو ریاست قانون کا نفاذ نہ کر سکے تو اس کی بقا پر سوالیہ نشان لگ جائے گا کیونکہ آپ بتدریج خانہ جنگی کی طرف قدم بڑھاتے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ انتہا پسندی کے نقطہ نظر کو معاشرے کو خود ٹھیک کرنا ہے، ہر شخص کو اپنا نقطہ نظر رکھنے کی آزادی ہے لیکن اس کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنے نقطہ نظر کو منوانے کے لیے حکومت پر بندوق لے کر چڑھ دوڑے۔
انہوں نےکہا کہ اگر ریاست کمزور ہو جائے اور شدت پسند گروپ یہ موقف اپنائیں کہ آپ ہمارے نقطہ نظر کے سوا کوئی اَور نقطہ نظر کہہ ہی نہیں سکتے تو پھر یہاں مسئلہ ہے، جب تک ہم قانون کی عملداری کو یقینی نہیں بنائیں گے تو اس وقت تک انتہا پسندی میں کوئی تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے۔‘‘
حوالہ:
وفاقی وزیر کی تقریر مندرجہ ذیل لنک پر دستیاب ہے:
(مرسلہ: طارق مرزا۔آسٹریلیا)
٭…٭…٭