اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
نومبر2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
پختونخواہ میں ایک اَور احمدی کو قتل کردیا گیا
پشاور (8؍نومبر 2020ء): پشاور میں ایک اَور احمدی 82 سالہ محبوب خان کو قتل کردیا گیا۔محبوب خان ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم تھے اورآپ اپنی بیٹی کے گھر سے واپس آرہے تھے جب بس سٹاپ پر ایک نامعلوم شخص نے آپ پر فائر نگ کردی۔محبوب خان موقعے پر ہی جاں بحق ہوگئے۔آپ نے پسماندگان میں دو بیٹے، دو بیٹیاں اور ایک بیوہ چھوڑی ہیں۔
پشاور کے احمدیوں کو کام اور دیگر معاملات کے سلسلہ میں گھر سے نکلنے میں شدید خوف اور پریشانی کا سامنا ہے۔کےپی کےحکومت کو احمدیوں کےخلاف اس مہم کوروکنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔احمدیہ مخالف مہم کے سرکردہ افراد نے سوشل میڈیا پر احمدیوں کو دھکمیاں دیتے ہوئے اپنے نمبر سوشل میڈیا پر شیئر کیے تھے۔اس مہم کے خلاف کارروائی کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ احمدیوں کے قتل سے دنیا بھر میں پختونخواہ اور پاکستان کی نیک نامی پر حرف آتا ہے۔
احمدیوں پر دن دیہاڑے خونی حملے
ننکانہ صاحب (20؍نومبر 2020ء):جماعت احمدیہ پاکستان کی طرف سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
ننکانہ صاحب میں احمدیوں پر حملہ کے نتیجے میں ایک احمدی جاں بحق جبکہ دو زخمی ہوگئے۔مڑھ بلوچاں ضلع ننکانہ میں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے تین احمدی جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے اپنے ہی گھر میں اکٹھے ہوئے تو ان پر اچانک نہایت خونخوار حملہ کیا گیا۔
31؍سالہ احمدی ڈاکٹر طاہر محمود کو قتل کردیا گیا جبکہ ان کے والد طارق محمود تشویش ناک حالت میں ہسپتال میں زیرِعلاج ہیں۔پاکستانی احمدیوں کو ایک منظم نفرت انگیز مہم کا سامنا ہے جو عوام کو احمدیوں کے خلاف تشدد اور قتل پر اکساتی ہے۔ترجمان جماعت احمدیہ کے مطابق ریاست نے احمدیوں کی صورت حال پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔اس برس عقیدہ کی بنیاد پر قتل ہونے والا یہ پانچواں احمدی ہے جبکہ گذشتہ 4 ماہ میں عقیدے کی بنیاد پر احمدی کے قتل کا یہ چوتھا واقعہ ہے۔
اطلاعات کے مطابق، جب احمدی عبادت کے بعد باہر نکل رہے تھے اس وقت ایک نوعمر لڑکے نے ان پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں طاہر محمود، ان کے والد طارق محمود اور ان کے ایک اور رشتہ دار کو گولیاں لگیں۔طارق محمود کی حالت تشویشناک ہے۔
ترجمان جماعت احمدیہ نے ڈاکٹر طاہر محمود کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے احمدیوں سے طارق محمود کے حق میں دعا کرنے کی درخواست کی۔اس کے ساتھ ہی ترجمان جماعت احمدیہ نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ اس علاقے میں گذشتہ کچھ عرصے سے احمدی مخالف مہم میں تیزی آگئی تھی اور بعض مواقع پر معاندین نے عوام کو احمدیوں پر تشدد اور قتل پر اکسایا تھا۔پچھلے چندہ ماہ سے احمدیوں کوعقیدے کی بنیاد پر نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ ریاست نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔
اب وقت آگیا ہے کہ حکومتِ پاکستان نفرت پھیلانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کرے۔حکومت وقت کو سوشل میڈیا پر نفرت کا پرچار کرنے خلاف موجود قوانین پر بھی عمل درآمد کرانا ہوگا۔ہر شہری کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور پر امن شہریوں کی حیثیت سے احمدیوں کو بھی وہی حقوق اور تحفظ ملنے چاہئیں جو پاکستان کے کسی اور شہری کا حق ہے۔
پشاور میں احمدی پر ایک اور قاتلانہ حملہ
پشاور (14؍نومبر 2020ء):قصہ خوانی بازار پشاور میں واقعہ ایک احمدی عطا الرحمٰن کی دکان پر صبح ساڑھے نوبجے کے قریب چند نامعلوم افراد داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔اس کے نتیجے میں ایک 55 سالہ سیلزمین امجد حسین فوت ہوگئے۔مقتول امجد حسین احمدی نہیں تھے۔انہوں نے پسماندگان میں ایک بیوہ اور تین بیٹے چھوڑے ہیں۔عطا الرحمٰن صاحب اس وقت تک دکان پر نہیں آئے تھے۔
معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور عطا الرحمٰن کو جان سے مارنے آئے تھے اور ان پر ہونے والا یہ حملہ پشاور میں گذشتہ چند ماہ سے جاری احمدیوں کے خلاف قاتلانہ حملوں کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے۔پولیس نے ایف آئی آر درج کرکے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
ایک احمدی پر جھوٹا مقدمہ بنا کر گرفتار کر لیا گیا
گوٹھ مانگر یو، کومبسار، نگر پارکر، سندھ(7؍ نومبر 2020ء): ایک ملا اور محمد ملوک دل مٹھی میں واقع ایک احمدی مرکز پر آئے۔ان کے ہاتھ میں چند جلے ہوئے کاغذات تھے۔انہوں نے ایک احمدی استاد پر قرآن کریم جلانے کا الزام لگایا۔بعد ازاں 25؍نومبر 2020ء کو دونوں افراد پولیس سٹیشن گئے اور وہاں دو احمدی معلمین طارق اے طاہر اور صفوان احمد کے خلاف توہین مذہب شق ایف آئی آر 2020/83 تعزیرات پاکستان 295-B کے تحت درج کرادی۔
اس مقدمہ کی اصل وجہ ذاتی عناد ہے جبکہ قرآن کریم کے جلے ہوئے صفحے جو ثبوت کےطور پر پیش کیے جارہے ہیں وہ غلط اور من گھڑت ہے۔
مقدمے کا ایک مدعی محمد ملوک دل کومبسار میں احمدیہ مرکز سے ملحقہ زمین کا مالک ہے۔اس علاقے میں موبائل فون کے سگنلز نہیں آتے جس کی وجہ سے بعض دفعہ احمدی معلمین کو مرکز کی چھت پر جاکر فون استعمال کرنا پڑتا ہے۔ملوک دل کو اس بات پر اعتراض ہوتا ہے۔اس واقعہ کے روز بھی معلم فون کرنے کے لیے مرکز کی چھت پر موجود تھے اور مدعی اس بات پر سخت نالاں تھا۔چنانچہ اس نے مقامی ملاں کے ساتھ مل کر جعلی ثبوت تیار کرکے پولیس سٹیشن جا کر مقدمہ درج کرادیا۔
واقعہ کچھ یوں تھا کہ گوٹھ مانگریو کے علاقے میں کچھ عرصہ قبل آگ لگنے کی وجہ سے قرآن کریم کے چند نسخے شہید ہوئے تھے۔اس شہید نسخے کی چند نقول کو محفوظ کرلیا گیا جنہیں اب ثبوت کے طور پر پیش کیا جارہا تھا۔اگرچہ پولیس کو بھی یہی لگ رہا تھا تاہم انہوں نے مقدمہ درج کرکے معصوم احمدی شخص کو گرفتار کرلیا۔
یہ واقعہ توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کی بدترین مثال ہے۔’’توہین قرآن‘‘ کے اس جعلی واقعہ پر علاقے میں بےچینی اور تشویش کا سماں ہے۔ریلیاں اور جلسے ہوئے ہیں اور احمدی اپنے آپ کو بہت غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں۔
سائبر کرائم ونگ لاہور احمدیہ مخالفت میں سب سے آگے
لاہور (نومبر2020ء):سائبر کرائم ونگ لاہور معصوم احمدیہ جماعت کے خلاف تعصب اور نفرت کی تمام حدود پھلانگ چکا ہے۔اور اس ساری مہم کا سرخیل حسن معاویہ نامی ملا ہے۔ایک اتنی اہم اور طاقتور ایجنسی کا ایک فرد کے ہاتھوں ملازم بن جانا شرم اور افسوس کا مقام ہے۔
حال ہی میں اس ونگ نے جماعت احمدیہ پاکستان کے ایک عہدیدار اور سپین کے ملک طارق محمود کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔یہ مقدمہ تعزیرات پاکستان295-B، 295-C ، 109 ، 4، اور PECA-2016ایف آئی آر نمبر 20/124 کے تحت قائم کیا گیا ہے۔
ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے بانی جماعت احمدیہ کی کتاب، جس پر پاکستان میں پابندی لگی ہوئی ہے، کی آڈیو ریکارڈنگ کروا کر جماعتِ احمدیہ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی ہے۔مدعی کے مطابق، مذکورہ کتاب میں بانی جماعت احمدیہ نے خود کو رسول کہا ہے۔
واضح رہے کہ جن تعزیرات کے تحت یہ مقدمہ قائم کیا گیا ہے، ان کے تحت ملزمان کو عمر قید تک کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
(جاری ہے)