متفرق مضامین

دھونس، غنڈہ گردی Bullying

(محمد فاروق سعید۔ لندن)

افسردگی کی علامات نوعمر لڑکیوں میں اپنے ہم عمر ساتھی لڑکوں کی نسبت زیادہ پائی جاتی ہیں۔ تاہم اگر بات موٹاپے کی ہو تو موٹاپے کے شکار لڑکوں کی ذہنی صحت لڑکیوں کی نسبت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ مگر موٹاپے سے زیادہ نوعمر بچوں کے لیے خطرناک دھونس، غنڈہ گردی، بدمعاشی ہے جس کی وجہ سے افسردگی اور ڈپریشن پیدا ہوسکتا ہے۔ یہ نتائج اپسالا یونیورسٹی (Uppsala University)کے محققین نے چھ سال تک نابالغ نوعمر افراد میں مطالعہ کے بعد اکٹھے کیے ہیں جنہیں حال ہی میں پبلک ہیلتھ کے جرنل میں شائع کیا گیا ہے۔

اپسالا یونیورسٹی (سویڈن)کے شعبہ نیورو سائنس اور اس تحقیق میں حصہ لینے والی پی ایچ ڈی کی طالبہ مس صوفیہ کینڈرز کا کہنا ہے کہ ’’ہمارےمطالعہ کا مقصد باڈی ماس انڈیکس (BMI) اور افسردگی کی علامات کے مابین تعلقات کی تحقیقات کرنا تھا اور اس پر گہری نظر ڈالنا تھا کہ آیابدمعاشی کا نشانہ بننا وقت کے ساتھ اس تعلق کو متاثر کرتا ہے یا نہیں اور یہ بھی جانچنا تھا کہ آیا اس تعلق میں کوئی صنفی اختلاف بھی موجودہے کہ نہیں۔

اس تحقیق میں وست مینلینڈ کاؤنٹی سویڈن میں تین الگ الگ مواقع (2018,2015,2012)پر پیدا ہونے والے نوجوانوں نے قد، وزن اورڈپریشن یعنی افسردگی کی علامات کے متعلق مختلف سوالات کے جوابات دیے۔ 2012ء میں پہلی مرتبہ ان سوالات کا جواب دینے والے افرادکی اوسط عمر 14.4 سال جبکہ آخری مرتبہ 2018ء میں سوالات کا جواب دینے والے افراد کی اوسط عمر 19.9 سال تھی۔ بی ایم آئی کی بنیاد پراِن نوعمروں کو بالترتیب ’’عام وزن، زیادہ وزن، اور موٹاپا‘‘کے تین گروپس میں تقسیم کیا گیا مزید یہ کہ ان میں افسردگی کی علامات کی بنا پر بھی گروپ بندی کی گئی۔

مجموعی طور پر، ان کے وزن سے قطع نظر، لڑکیوں نے زیادہ کثرت سے بیان کیا کہ ان میں افسردہ علامات ہیں۔ 2012ء میں، 17 فیصدلڑکیوں اور 6 فیصد لڑکوں نے ایسا بیان کیا۔ 2015ءتک ان علامات کے حامل نوعمروں کی تعداد لڑکیوں میں 32 فیصد اور لڑکوں میں 13 فیصدہوگئی تھی۔ 2018ء کے اعداد و شمار بالترتیب 34 اور 19 فیصد تھے۔ مگر ماہرین کے مطابق باڈی ماس انڈیکس نے لڑکیوں کی ذہنی صحت کو کسی حد تک بالکل بھی متاثر نہیں کیا جبکہ لڑکوں میں نتائج بالکل مختلف تھے۔

کینڈرز کہتی ہیں کہ جب ہم نے لڑکیوں اور لڑکوں کا الگ الگ تجزیہ کیا تو، ہم نے دیکھا کہ 2012ء میں موٹاپے والے لڑکوں کے اندر 2015ء میں افسردہ علامات ہونے کا خطرہ، اعدادوشمار کے مطابق، نارمل وزن والے لڑکوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ تھا۔ لڑکیوں میں ہمیں ایسا کوئی واسطہ نہیں ملا۔ مس کینڈرز کہتی ہیں کہ مطالعہ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ اس صنف کے فرق کی کیا وجہ ہے، اورمحققین کے خیال میں اس شعبے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

ان نوجوانوں سے یہ بھی پوچھا گیا کہ آیا ان کو گذشتہ ایک سال میں کبھی زبانی دھمکیوں یا جسمانی تشدد یا cyber bullying یا نا پسندیدہ پیغامات کی بھرمار کا سامنا کرنا پڑا ہے؟ ہر تجزیے نے ثابت کیا کہ افسردگی کی علامات اور ڈپریش کا واضح تعلق بدمعاشی اور دھونس سے تھا۔ محققین کاکہنا ہے کہ بی ایم آئی اور یہ بدمعاشی مل کر مستقبل کے ڈپریشن کو جنم دیتے ہیں۔

مس کینڈرز کہتی ہیں کہ ہمارے مطالعے کا کلیدی نتیجہ اور اہم پیغام یہ ہے کہ سکول کالجز میں بدمعاشی اور انٹرنیٹ پر خوف اور دھمکی آمیزرویے کا ڈر نوجوانون کو طویل عرصے تک ذہنی بیماری کا شکار بنا سکتا ہے۔ اور اس بنا پر سکول کالجز میں غنڈہ گردی، دھونس کے خلاف حفاظتی اقدامات انتہائی ضروری ہیں اور ان پر پہلے سے زیادہ سختی سے عمل کیا جانا چاہیے۔

بچوں کے ساتھ غنڈہ گردی

سکول کالجز میں بچے اس صورت حال کا آسانی سے شکار ہو سکتے ہیں۔ خاص طور وہ بچے جو کہ سکول میں کم مقبول ہوں یا جن کے بہت کم دوست ہوں جبکہ بالمقابل اکثر وہ بچے جو سکول میں زیادہ مقبول ہوں وہ دوسرے کمزور بچوں کے ساتھ غنڈہ گردی کر سکتے ہیں۔ اس کےعلاوہ اس صورت حال کا سامنا کرنے کی دیگر وجوہات میں سے چند ایک یہ ہیں۔

دیگر بچوں سے مختلف جسمانی خد وخال کا ہونا جیسے کہ زیادہ وزن یا کم وزن، عینک پہننا یا دانتوں میں تار لگائے رکھنا، جسمانی معذور ہونا، کسی کا مختلف رنگ، نسل یا مذہب سے تعلق رکھنا، آج کل کے دَور میں سکولز میں باقاعدہ اچھے کپڑے پہننا(کیونکہ بعض بچوں کے نزدیک یہ فیشن ایبل نہ ہونے کی وجہ ہے)۔

غنڈہ گردی کس طرح صحت متاثر کر سکتی ہے

کسی بھی سطح آن لائن، سکول، یا کام پر بدمعاشی دھونس یا دھمکی آپ کی ذہنی صحت پر زمانہ حال یا مستقبل دونوں میں وسیع پیمانے پر اثرڈال سکتی ہے۔ ایک تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا کہ اگر آپ کو بچپن میں یا نوعمری میں بدمعاشی، غنڈہ گردی یا تشدد کا سامنا کرناپڑا ہے تو بالغ ہونے کے بعد آپ کے مینٹل ہیلتھ سروس کی خدمات لینے کا رجحان عام انسان کی نسبت دوگنا ہوتا ہے۔

اس غنڈہ گردی کے شکار افراد میں پائی جانے والی چند مشترک علامات یہ ہیں۔

٭…ہر وقت بےچین اور پریشان رہنا۔

٭…افسردہ، اداس، کم گو اور رونے کو تیار رہنا۔

٭…یہ سوچنا کہ کوئی آپ کو پسند نہیں کرتا۔ یازندگی میں آپ کی کوئی اہمیت نہیں۔

٭…بار بار بیمار ہونا، یا پیٹ درد کا بہانہ بنانا۔

٭…حد سے زیادہ غصے کا اظہار، بے بس اور نااُمید رہنا۔

٭…اپنے آپ کو تکلیف دینا یا کسی کو تکلیف دینے کا سوچنا۔ (اگر آپ کے اندر ایسے خیالات جنم لے رہے ہیں تو فوراً کسی ماہر یا ہیلتھ ورکر سےمدد حاصل کریں )

٭…پڑھائی میں توجہ نہ دے پانا، سکول جانے سے انکار یا ہچکچاہٹ۔

٭…اپنی فیملی یا دوستوں کو پہلے جتنا وقت نہ دینا اور اکیلا رہنے کو ترجیح دینا۔

٭…زندگی سے لطف اندوز نہ ہو پانا۔

٭…کھانے پینے میں واضح کمی یا معمول سے بہت زیادہ کھانا، کھانے کے فوراً بعد قے کر دینا۔

٭…نیند میں بہت کمی یا حد سے زیادہ سونا، ڈراؤنے خواب دیکھنا۔

٭…الکوحل اور دیگر منشیات کا استعمال کرنا۔

کس طرح اپنا خیال رکھا جائے

اگر آپ مشکل میں ہیں یا اس صورت حال سے نکلنے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور نکل نہیں پا رہے تو اس کے بہت سے طریقے ہیں جن سے آپ کو مدد مل سکتی ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

٭…ورزش

ورزش کرنا صرف جسم کے لیے فائدہ مند نہیں بلکہ یہ آپ کے دماغ کے لیے بھی بہت عمدہ ہے۔ اگر آپ کم حوصلہ محسوس کر رہے ہیں توآپ کے لیے ورزش کو تحریک دینا مشکل ہوگا۔ اس صورت میں احتیاط کے ساتھ پیدل تیز چلنا شروع کیا جا سکتا ہے یا اپنے کمرے میں رہ کر یوٹیوب پر موجود کوئی ورک آؤٹ کیا جا سکتا ہے۔

٭…آرام

زیادہ سے زیادہ آرام کرنے سے آپ کو سکون اور زیادہ مقابلہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر آپ کو علم نہیں کہ کہاں اور کیسے شروع ہونا ہے توبہتر ہے پہلے کچھ دماغی ورزشیں کر لی جائیں جو کہ یوٹیوب یا انٹرنیٹ پر بآسانی دستیاب ہیں۔ بعض لوگوں کی غور و فکر کرنے کی عادت ان کے لیے ذہنی دباؤ یا تناؤ سے نکلنے میں بہت مدد دیتی ہے پس اپنے اردگرد غوروفکر کرنے سے بھی افسردگی اور ڈپریشن سے نکلا جاسکتا ہے۔

٭…فنون لطیفہ

تخلیقی کام، موسیقی، ڈرائنگ، پینٹنگ، فوٹو گرافی، میک اپ اور اس طرح کی بہت سی چیزیں آپ کو دباؤ سے نکلنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ نیززبان سیکھنا اورکوئی ہنر سیکھنے سے بھی آپ کو کامیابی کا احساس مل سکتا ہے۔

زندگی میں کوئی بھی ایسی صورت حال کا سامنا کرنے کا حق دار نہیں ہے۔ آپ بےشک خود کو اکیلا اور تنہا محسوس کر رہے ہوں مگر درحقیقت آپ ہرگز اکیلے نہیں۔ اگر کوئی آپ کے ساتھ انٹرنیٹ پر،کام پر یا سکول کالج میں غنڈہ گردی کر رہا ہے جس سے آپ میں ڈپریشن یا افسردگی بڑھ رہی ہے تو کسی ماہر سے یا ہیلتھ ورکر سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ اپنے والدین، بہن بھائی، کسی قابل بھروسہ دوست، رشتہ دار، استاد، ہم کار، کسی مذہبی لیڈر، تنظیم یا پولیس سے رابطہ کر کے مدد بھی لی جاسکتی ہے۔

اسی طرح اگر آپ کو خبر ملے کہ آپ کے بچے یا کسی عزیز نے کسی کے ساتھ غنڈہ گردی یا دھونس والا سلوک کیا ہے تو لازماً آپ کوغصہ، شرم، نا امیدی ہوگی مگر آپ کو اپنے اس بچے کو سمجھانا ہوگا کہ اس کا یہ رویہ ناقابل برداشت ہے۔ عموماً بچے اس کو برائی سمجھنے سےقاصر ہوتے ہیں۔ مگر یہ والدین کا اولین فرض ہے کہ اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ کسی کو جذباتی یا جسمانی نقصان پہنچانا نہایت برا فعل ہے اورکسی کلاس فیلو یا ہم کار کو کبھی بھی کسی بھی وجہ سے دھونس دھمکی یا غنڈہ گردی کا نشانہ نہیں بنانا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button