خدا تعالیٰ نے موسوی سلسلہ کو ہلاک کر کے محمدی سلسلہ قائم کیا جیسا کہ نبیوں کے صحیفوں میں وعدہ دیا گیا تھا
(گزشتہ سے پیوستہ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں مذہبی پہلو کے رُو سے سولہ خصوصیتیں )
اُس کے تقویٰ کی وجہ سے اس کی دُعا سنی گئی اور خدا کے فضل نے کچھ اسباب پیدا کر دیئے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اُتارا گیا اور پھر پوشیدہ طور پر باغبانوں کی شکل بنا کر اس باغ سے جہاں وہ قبر میں رکھا گیا تھا باہر نکل آیا اور خدا کے حکم سے دوسرے ملک کی طرف چلاگیااور ساتھ ہی اس کی ماں گئی جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اٰوَیْنٰھُمَآ اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ(المؤمنون: 51)۔
یعنی اس مصیبت کے بعد جو صلیب کی مصیبت تھی ہم نے مسیح اور اس کی ماں کو ایسے ملک میں پہنچا دیا جس کی زمین بہت اونچی تھی اور صاف پانی تھا اور بڑے آرام کی جگہ تھی۔ اور احادیث میں آیا ہے۔ کہ اس واقعہ کے بعد عیسیٰؑ ابن مریم نے ایک سو بیس برس کی عمر پائی اور پھر فوت ہو کر اپنے خدا کو جاملا اور دوسرے عالم میں پہنچ کر یحییٰؑ کا ہمنشین ہوا کیونکہ اس کے واقعہ اور یحییٰ نبی کے واقعہ کو باہم مشابہت تھی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ نیک انسان تھااور نبی تھا مگر اسے خدا کہنا کفر ہے۔ لاکھوں انسان دنیا میں ایسے گزر چکے ہیں اور آئندہ بھی ہونگے۔ خدا کسی کے برگزیدہ کرنے میں کبھی نہیں تھکا اور نہ تھکے گا (۶)چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیصر روم کی عملداری کے ماتحت مبعوث ہوئے تھے۔ (۷) ساتویں خصوصیت یہ کہ رومی سلطنت کو مذہب عیسوی سے مخالفت تھی مگر اخیری نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب عیسائی قیصری قوم میں گھس گیا یہانتک کہ کچھ مدت کے بعد خود قیصر روم عیسائی ہوگیا۔ (۸)آٹھویں خصوصیت یہ ہے کہ یسوع مسیح کے وقت میں جس کو اہل اسلام عیسیٰؑ کہتے ہیں ایک نیا ستارہ نکلا تھا(۹)نویں خصوصیت یہ ہے کہ جب اس کو صلیب پر چڑھایا گیا تو سورج کو گرہن لگا تھا۔ (۱۰)دسویں خصوصیت یہ ہے کہ اس کو دکھ دینے کے بعد یہودیوں میں سخت طاعون پھیلی تھی۔ (۱۱)گیارہویں خصوصیت یہ ہے کہ اس پر مذہبی تعصب سے مقدمہ بنایا گیا اور یہ بھی ظاہر کیا گیا۔ کہ وہ سلطنت روم کا مخالف اور بغاوت پر آمادہ ہے۔ (۱۲)بارہویں خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ صلیب پر چڑھایا گیا تو اس کے ساتھ ایک چور بھی صلیب پر لٹکایا گیا (۱۳) تیرھویں خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ پیلاطوس کے سامنے سزائے موت کےلئے پیش کیا گیا۔ تو پیلاطوس نے کہا۔ کہ میں اس کا کوئی گناہ نہیں پاتا۔ (۱۴) چودھویں خصوصیت یہ کہ اگر چہ وہ باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل میں سے نہ تھا۔ مگر ان کے سلسلہ کا آخری پیغمبر تھاجو موسیٰؑ کے بعدچودھویں صدی میں ظاہر ہوا۔ (۱۵)پندرھویں خصوصیّت یہ کہ یسوع بن مریم کے وقت میں جو قیصر تھا اس کے عہد میں بہت سی نئی باتیں رعایا کے آرام اور ان کے سفر و حضر کی سہولت کےلئے نکل آئی تھیں۔ سڑکیں بنائی گئی تھیں اور سرائیں تیار کی تھیں اور عدالت کے نئے طریقے وضع کئے گئے تھے جو انگریزی عدالت سے مشابہ تھے۔ (۱۶) سولہویں خصوصیت مسیح میں یہ تھی کہ بن باپ پیدا ہونے میں آدم سے مشابہ تھے۔ یہ سولہ خصوصیتیں ہیں جو موسوی سلسلہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں رکھی گئی تھیں۔ پھر جبکہ خدا تعالیٰ نے موسوی سلسلہ کو ہلاک کر کے محمدی سلسلہ قائم کیا جیسا کہ نبیوں کے صحیفوں میں وعدہ دیا گیا تھا تو اس حکیم و علیم نے چاہا کہ اس سلسلہ کے اوّل اور آخر دونوں میں مشابہت تامہ پیدا کرے تو پہلے اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر مثیل موسیٰؑ قرار دیا۔ جیسا کہ آیت
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا(المزمل: 16)۔
سے ظاہر ہے۔ حضرت موسیٰؑ نے کافروں کے مقابل پر تلوار اُٹھائی تھی۔ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس وقت جبکہ مکہ سے نکالے گئے اور تعاقب کیا گیا۔ مسلمانوں کی حفاظت کےلئے تلوار اُٹھائی۔ ایسا ہی حضرت موسیٰؑ کی نظر کے سامنے سخت دشمن ان کا جو فرعون تھا غرق کیا گیا۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سخت دشمن آپ کا جو ابو جہل تھا ہلاک کیا گیا۔ ایسا ہی اور بہت سی مشابہتیں ہیں جن کا ذکر کرنا موجب طول ہے۔ یہ تو سلسلہ کے اوّل میں مشابہتیں ہیں مگر ضروری تھا کہ سلسلہ محمدیؐ کے آخری خلیفہ میں بھی سلسلہ موسویہ کے آخری خلیفہ سے مشابہت ہو۔ تاخدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ سلسلہ محمدیہ باعتبار امام سلسلہ اور خلفاء سلسلہ کے سلسلہ موسویہ سے مشابہ ہے ٹھیک ہو اور ہمیشہ مشابہت اوّل اور آخر میں دیکھی جاتی ہے اور درمیانی زمانہ جو ایک طویل مدت ہوتی ہے گنجائش نہیں رکھتا کہ پوری پوری نظر سے اس کو جانچا جائے مگر اوّل اور آخر کی مشابہت سے یہ قیاس پیدا ہو جاتا ہے کہ درمیان میں بھی ضرور مشابہت ہوگی گو نظر عقلی اس کی پوری پڑتال سے قاصر رہے۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ29تا 30)