ایک محبت بھرے وجود کی یاد میں
محترمہ رابعہ شفیع صاحبہ کا ذکرِ خیر
خاکسار کی ساس محترمہ رابعہ شفیع صاحبہ مرحومہ ایک بہت ہی محبت کرنے والی، عبادت گزار، دعا گو، خلافت کی دلدادہ اوردوسروں کا احساس کرنے والی خاتون تھیں۔ آپ بھیرہ کی رہنے والی تھیں اور ماسٹر امام علی مرحوم کی بیٹی تھیں۔ آپ کے والد مرحوم نے تقریباً 1933ء میں قبولِ احمدیت کی توفیق پائی۔ آپ مکرم سراج الدین صاحب مرحوم معلم وقفِ جدید کی بہو اور مکرم فضل الٰہی انوری صاحب مرحوم کی ہمشیرہ تھیں۔
آپ ٹیچنگ کے شعبہ سے وابستہ رہیں۔ 1987ء سے جرمنی میں رہائش پذیر تھیں خاکسار کا ان کے ساتھ بہو کا رشتہ بننے کے بعد سالوں کا ساتھ رہا ہمیشہ بہت خیال رکھا۔ بہت پیار دیا۔ خاکسار کی اپنی والدہ تو جب میں میٹرک میں تھی وفات پاگئی تھیں یوں میری اپنی والدہ کی محبتوں اور شفقتوں کا سایہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا مگر اِنہوں نے مجھے ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ ہر مشکل اور بیماری میں میرا ساتھ دیا اگر کسی بات پر میری اور میرے میاں کی کوئی اختلافِ رائے ہو جاتی تو ہمیشہ میرا ہی ساتھ دیتیں۔
میرے میاں بعض دفعہ کہہ بھی دیتے کہ بیٹا آپ کا میں ہوں اور طرف داری آپ بہو کی کر رہی ہیں تو اُن کا ایک ہی جواب ہوتا کہ بہو بھی بیٹی ہو تی ہے۔ بچوں کے ساتھ اُن کی سطح پر آکر کھیلتیں اور اکثر خود ہی گیم میں ہار جاتیں اور اس بات پر ہی خوش ہو جاتیں کہ بچہ جیت کر خوش ہو گیا ہے۔
آپ بہت دعائیں دیتیں ان کی تربیت کا بہت خیال رکھتیں اور رات کو سوتے وقت بچوں کو انبیاء کی کہانیاں سناتیں جس کی وجہ سےمیں بھی مطمئن ہوتی کہ میرے بچے رات کو سوتے وقت بھی اچھی باتیں سن کر سوتے ہیں اگر کبھی کسی بچے کوگھر آنے میں کچھ دیر ہو جاتی تو بہت فکر کر تیں، دعائیں کرتی رہتیں بلکہ اگر وہ فارغ بھی بیٹھی ہو تیں تو بھی زیرِ لب درود شریف اور دعاؤوں کا سلسلہ جاری رہتا۔
آپ نے صدر لجنہ کی حیثیت سےربوہ میں محلہ دارالبرکات اور ناصر آبادمیں دینی خدمات کرنے کی توفیق پائی۔ آپ کی بیٹی محترمہ مغفورہ پروین اُن دنوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ جب پہلی دفعہ دارالبرکات میں آپ کا نام صدر لجنہ کے لیے پیش ہوا تو آپ کچھ گھبرائی ہوئی لگ رہی تھیں جس پر محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ رحمہا اللہ تعالیٰ(والدہ ماجدہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ) نے پوچھا کیا یہ کام کر لیں گی؟جس پر سابقہ صدر لجنہ نے کہا جی کر لیں گی اور پھر اِن کے صدر لجنہ بننے کے بعد محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ ہمیشہ ان کے کام سے مطمئن رہیں بہت محبت اور پیار دیا۔ اور آپ کے اس سلوک کا ذکر خاکسار کی ساس مرحومہ ہمیشہ کرتی تھیں۔ خاندان حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام سے بہت عقیدت تھی۔ اور خواتین مبارکہ کے ساتھ بھی ایک محبت کا سلوک تھا۔ جرمنی آنے کے بعد بھی آپ کو حلقہ میں صدر لجنہ کے طورپر دینی خدمت کی توفیق ملی۔ الحمدللہ۔دوسروں کی خدمت کا ایک خاص جذبہ تھا جو انہوں نے ساری زندگی اپناۓ رکھا۔ کبھی بھی کسی کی طرف سے کی گئی بُرائی کا جواب بُرائی سے نہ دیتیں۔ کبھی ان کے بچے ان کو یاد دلاتے کے فلاں نے آپ کے ساتھ ایسا کیا تھا تو آپ کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا کہ اُس کے اعمال اُس کے ساتھ ہیں اور میرے اعمال میرے ساتھ۔ آپ نے اپنے جواں سال بیٹے کی وفات پر بہت حوصلے اور صبر کا مظاہرہ کیا۔
بیماری کے آخری عرصہ میں ان کی بیٹی مغفورہ پروین صاحبہ کو ان کی خدمت کرنے کا بہت موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کی بہترین جزا دے آمین۔ آپ موصیہ تھیں اور آپ کی خواہش تھی کہ میں نےربوہ کے پرانے بہشتی مقبرے میں دفن ہونا ہے۔ خدا تعالیٰ نے اُن کی یہ خواہش پوری کی اور آپ کو وہیں مدفون ہونے کی سعادت ملی۔ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی بےشمار رحمتیں نا زل فرماتا رہے اور مغفرت فرماۓ آمین۔ خدا کرے کہ ان کی وہ تمام دعائیں جو انہوں نے ہمارے لیے اور ہماری نسلوں کے لیے کیں وہ ہم تک پہنچتی رہیں، آمین ثم آمین۔
٭…٭…٭