خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍ نومبر 2021ء
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 26؍ نومبر 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت صہیب احمد صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت عمرؓکے دربار میں قرآن کریم کا علم رکھنے والوں کا بڑا مقام تھا چاہے وہ نوجوان ہوں یا بڑے ۔ حُر بن قیس حضرت عمرؓکےقریب بیٹھنے والوں میں سے تھے۔عیینہ بن حصن بن حذیفہ نے اپنے بھتیجے حُر بن قیس کی سفارش پر حضرت عمرؓکے دربار میں پیش ہوکر کہا کہ آپؓ انصاف کے ساتھ ہمیں مال نہیں دیتے ۔حضرت عمرؓ ناراض ہوکر کچھ کہنے ہی والے تھے کہ حُر نے فوراً عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
خُذِ الۡعَفۡوَ وَ اۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡجٰہِلِیۡنَ ۔
یعنی عفو اختیار کر اورمعروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر۔ اور یہ عیینہ جاہلوں ہی میں سے ہے۔ حضرت عمرؓ وہیں رک گئے کیونکہ حضرت عمرؓ کتاب اللہ کو سن کر رک جاتے تھے۔
حضرت خلیفہ اوّل ؓاسی ضمن میں بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ایک امیر کو سزا دینے کی خاطر جلاد کو بلایا تو ایک دس سال کا لڑکا پکار اُٹھا۔
وَالۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ۔ ھٰذَا مِنَ الْجَاھِلِیْنَ۔
حضرت عمرؓ کا چہرہ زرد ہوگیا اور وہ خاموش ہوگئے۔ حضرت عمرؓ بچوں کی تربیت اور اُن کی عقلوں کو تیز کرنے کے لیے اپنے دربار میں اُن کو بھی بلاتے اور اُن سے مشورہ لیا کرتے تھے۔
حضرت عمرؓبیت المال کے اموال کی حفاظت اور نگرانی میں بہت محتاط ہوا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے آپؓ کو ایک گلاس دودھ دیا آپؓ نے پیا اور پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا۔ بتایاگیا کہ یہ زکوٰۃ کے اونٹوں کا ہے۔ آپؓ نے زکوٰۃ کا مال پینے سے انکار کرکے ہاتھ منہ میں ڈال کر قے کرکے اُس کو نکال دیا۔ ایک مرتبہ آپؓ کی بیماری کے لیے شہد تجویز کیا گیا جو کہ بیت المال میں موجود تھا لیکن آپؓ نے لوگوں کی اجازت کے بغیر اُسے لینا حرام قرار دیا۔ایک دوپہر شدید گرمی میں پیچھے رہ جانے والے دو اونٹوں کو خود ہانک کر چراگاہ میں لے گئے کہ کہیں گُم نہ ہوجائیں اور حضرت عثمانؓ کو فرمایا کہ یہ میرا کام ہے میں ہی کروں گا۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مال دیا دولت دی عزت دی رتبہ دیا مگر وہ اسلامی تعلیم سے غافل نہیں ہوئے۔ سعید بن مسیبؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓنے ایک یہودی اور مسلمان کی لڑائی میں یہودی کے حق پر ہونے کی وجہ سے اُس کے موافق فیصلہ کیا۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرو بن عاص ؓ کے بیٹے نے مصر کے ایک شخص کو دوڑ میں آگے نکلنے پر کوڑے مارے تو اُسی مصری شخص سےحضرت عمرو بن عاصؓ کے بیٹے کو کوڑے لگوائے۔ایک روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک آدمی نے کہا کہ اگر ہم آپؓ میں ٹیڑھا پن دیکھیں گے تو اُسے اپنی تلواروں سے سیدھا کریں گے۔ حضرت عمرؓنے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس امت میں ایسا آدمی بھی ہے۔ ایک موقع پر حضرت عمرؓنے فرمایا کہ میرے نزدیک سب سےپسندیدہ وہ شخص ہے جو میرے عیوب سے مجھے آگاہ کرے۔
حضرت عمرؓمذہبی اُمور میں اسلامی تعلیم کا بھی حد درجہ خیال رکھتے تھے ۔فتح اسکندریہ کے بعد جنگی قیدیوں کو مکمل آزادی دی گئی کہ اگر اسلام قبول کیا تو اُن کے حقوق و فرائض مسلمانوں جیسے ہوں گے اور جو اپنے مذہب پر قائم رہے گا اُس پر جزیہ مقرر ہوگا ۔اس پر بہت سے قیدی مسلمان ہوگئے۔ایک مرنے کے قریب ضرورت مند بوڑھی نصرانی عورت کو اسلام کی دعوت دی اور بعد ازاں اللہ تعالیٰ سے توبہ کی کہ کہیں اُس کی مجبوری ا ُسے مسلمان بنانے کے مترادف نہ ہوجائے۔اپنے ایک عیسائی غلام اَشَق کو مسلمان ہونے کا کہا تو اُس نے انکار کردیا۔ آپؓ نے فرمایا لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ یعنی دین میں کوئی جبر نہیں اوراپنی وفات کے قریب اُس کو آزاد کردیا۔
حضرت عمرؓجانوروں پر بھی بہت شفقت فرماتے تھے۔ ایک اونٹ کی پشت پر زخم دیکھا تو کہا کہ تیرے بارے میں اللہ کی باز پُرس سے ڈرتا ہوں۔ایک مرتبہ ایک غلام ایک سواری کو چار میل تک دوڑا کر مچھلی خرید لایا تو آپؓ نے اُس کی سواری کے پسینہ کو دیکھ کر مچھلی چکھنے سے انکار کردیاکہ میرے لیے ایک جانور کو تکلیف میں مبتلا کردیا۔
بعض بزرگان بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ کسی مسئلے میں اختلاف کریں تو دیکھو کہ حضرت عمرؓنے اس معاملے میں کیا کیا ہے کیونکہ حضرت عمرؓ بغیر مشورہ کے کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ حضرت قبیصہ بن جابرؓ کہتے ہیں کہ میں نے آپؓ سے زیادہ کتاب اللہ کو پڑھنے والا،اللہ کے دین کو سمجھنے والا اور درس و تدریس کرنےو الا کوئی نہیں دیکھا۔ حضرت حسن بصری ؒنے کہا جب تم اپنی مجلس کو خوشبودار بنانا چاہو تو حضرت عمرؓکا بہت ذکر کرو۔ مجاہد سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓکے دور میں شیاطین جکڑے ہوئے تھے جب آپؓ شہید ہوئے تو شیاطین زمین میں کودنے لگے۔ علی محمد صلابی لکھتے ہیں کہ آپؓ اسلامی خصوصیات کی عکاسی کرنے والے اشعار پسند کرتے تھے۔حضرت عمرؓ نے عشقیہ اشعار میں شریف عورتوں کا نام لانے کی رسم کو مٹا دیا اور اس کی سخت سزا مقرر کی۔
حضرت عمرؓکے فضائل اور مناقب کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ قیصر اور کسریٰ کے خزانہ کی کنجیاں حضرت عمرؓ کو ملیں کیو نکہ حضرت عمرؓ کا وجود ظلّی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی تھا اس لیے عالم ِوحی میں حضرت عمرؓ کا ہاتھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ قرار دیا گیا۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓاور حضرت عمرؓ اور ذوالنورین کو اسلام کے دروازے اور خیر الانام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کے ہراول دستے بنایا ہے۔ پس جو شخص ان کی عظمت سے انکار کرتا ہے مجھے اس کے بد انجام اور سلب ایمان کا ڈر ہے۔ خلفائے راشدین بلا شبہ حضرت خیر الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں عظیم مقام پر فائز تھے اور اللہ نے اُنہیں وہ کچھ عطا فرمایا جو دنیا جہان میں کسی اَور کو نہ دیا گیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ شیعہ حضرات میں سے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ابوبکر صدیق ؓیا عمر فاروق ؓنے علی مرتضی ؓیا فاطمة الزھرة ؓکے حقوق کو غصب کیا اور ان پر ظلم کیا تو ایسے شخص نے انصاف کو چھوڑا ، زیادتی سے پیار کیا اور ظالموں کی راہ اختیار کی۔ سچ تو یہ ہے کہ ابوبکر صدیق ؓاور عمر فاروقؓ دونوں نے ادائیگی حقوق میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ انہوں نے تقویٰ کو اپنی راہ اور عدل کو اپنا مقصود بنا لیا تھااور اپنے نفوس کو اللہ کی اطاعت میں لگا رکھا تھا۔ کثرت فیوض اور نبی الثقلین کے دین کی تائید میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما جیسا میں نے کسی کو نہ پایا۔ ابوبکرؓ و عمرؓ کے صدق و خلوص کی کیا بلند شان ہے۔دونوں ایسے مبارک مدفن میں دفن ہوئے کہ اگر موسیٰؑ اور عیسیٰ ؑزندہ ہوتے بصد رشک وہاں دفن ہونے کی تمنا کرتے لیکن یہ مقام بارگاہ رب العزت کی طرف سے ایک ازلی رحمت ہے جو صرف انہی لوگوں کی طرف رخ کرتی ہے جن کی طرف عنایت الٰہی ازل سے متوجہ ہو۔ یہی لوگ ہیں جن کو انجام کار اللہ کے فضل کی چادریں ڈھانپ لیتی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو کچھ اسلام کا بنا ہے وہ اصحابِ ثلاثہ سے ہی بنا ہے حضرت عمرؓ نے جوکچھ کیا ہے وہ اگر چہ کچھ کم نہیں مگر کا میا بی کی پٹڑ ی تو صدیق اکبر ؓنے ہی جمائی تھی۔ صدیقؓ نے رستہ صاف کر دیا تو پھر اس پر عمر ؓنے فتوحات کا دروازہ کھولا۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ کیوں نہ ہم آپؑ کو مدارج میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے افضل سمجھا کریں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب قریب مانیں؟ اس بات کو سن کرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا رنگ اڑ گیااور آپؑ کے وجود پر عجیب اضطراب وبیتابی طاری ہو گئی۔ آپؑ نے مکمل چھ گھنٹے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محامد و فضائل ، اپنی غلامی و ادنیٰ مرتبہ اور حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓکے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے لیے یہ کافی فخر ہے کہ میں ان کا مداح اور خاک پا ہوں۔ جو فضیلت خدا تعالیٰ نے اُنہیں بخشی ہے وہ قیامت تک اَور کوئی شخص نہیں پا سکتا۔ کب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں دوبارہ پیدا ہوں اور پھر کسی کو ایسی خدمت کا موقع ملے جو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو ملاتھا۔
حضور انور نے آخر میں فرمایا کہ ان خطبات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر یہاں ختم ہوتا ہے ۔ آئندہ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو حضرت ابوبکرؓ کا ذکر شروع ہو گا۔ان شاءاللہ
٭…٭…٭