احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی راستبازی اور سچی گواہی کونہ چھپانے کے خلق کے ضمن میں ایک واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے وہ بھی اسی مکان کے سلسلہ میں تھا۔
شاہی کیمپ اورڈپٹی شنکرداس کامکان (حصہ دوم)
ڈپٹی شنکرداس ریاست جموں میں سرکاری عہدے پرفائز رہاتھا۔ قادیان میں اس نے مسجداقصیٰ کی شرقی جانب ایک افتادہ زمین پرقبضہ کیا اور مکان بنالیا۔
قیاس ہے کہ یہ 1885ء کے لگ بھگ کی بات ہوگی۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی راستبازی اور سچی گواہی کونہ چھپانے کے خلق کے ضمن میں ایک واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے وہ بھی اسی مکان کے سلسلہ میں تھا۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں:
’’کِتْمَانِ شَہَادَتِ حَقَّہ کوآپ معصیت یقین کرتے تھے۔ آپ کی راستبازی اورصداقت شعاری پرمخالفین کوبھی پورابھروسہ تھااور اکثرایساہواہے کہ آپ کوایسے مقدمات میں شہادت کے لئے جاناپڑا جہاں کسی نہ کسی رنگ میں اس شہادت کااثرآپ پرپڑتاتھاخواہ مالی حیثیت سے یاکسی اورحیثیت سے۔ مثلاً ایک مرتبہ مرزاسلطان احمدصاحب نے ایک افتادہ اراضی کے متعلق دعویٰ کیاجوحضرت صاحب کی تھی اورپنڈت شنکرداس نے مکان بنالیاتھامرزاسلطان احمدصاحب نے دعویٰ کیا۔ اور مسماری مکان کادعویٰ تھامگرترتیب مقدمہ میں ایک امرخلاف واقعہ تھا جس کے ثبوت میں وہ مقدمہ ڈسمس ہوتا اور نہ صرف مرزاسلطان احمدصاحب کوبلکہ خود حضرت کوبھی نقصان پہنچتاکیونکہ حقوق مالکانہ اس زمین کے جاتے تھے۔ فریق مخالف نے اس سے فائدہ اٹھاکرحضرت کوشہادت میں طلب کرادیا۔ مرزاسلطان احمدصاحب کے وکیل نے جب آپ سے دریافت کیا کہ آپ کیابیان کریں گے توآپ نے فرمایاکہ وہ اظہار کروں گا جوواقعی امراور سچ ہے تب اس نے [وکیل نے] کہاکہ پھرآپ کے کچہری جانے کی کیاضرورت ہے میں جاتاہوں تامقدمہ سے دستبردار ہو جاؤں۔‘‘
(حیات احمدؑ جلددوم حصہ اول صفحہ102-103)
ایک اور جگہ حضرت عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں:
’’جہاں تک میری تحقیقات ہے آپ کوتین مرتبہ شہادت کے لئے طلب کیا گیا سب سے پہلے حضرت مرزاسلطان احمدصاحب نے جومقدمہ ڈپٹی شنکرداس وغیرہ پر اس اراضی کے متعلق کیاہواتھاجہاں صدرانجمن احمدیہ کے دفاترہیں توفریق مخالف نے محض قبضہ کی تنقیح کے سلسلہ میں آپ کوطلب کیا۔ قبضہ انہیں کاتھا۔ (قانونی قبضہ یا مخالفانہ قبضہ) زمین ان کی مملوکہ نہ تھی۔ وہ قانون کے اس نکتہ سے فائدہ اٹھاناچاہتے تھے باوجوددشمن ہونے کے انہیں یقین تھا کہ آپ سچی شہادت دیں گے۔ حضرت مرزاسلطان احمدصاحب کوجب معلوم ہواتو انہوں نے مقدمہ واپس لے لیااورزمین فریق ثانی کومل گئی۔ اس پرعمارت تعمیرہوگئی۔‘‘
(حیاتِ احمدجلدسوم صفحہ91)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے انتہائی مشکل وقت میں بھی راستبازی کے خلق پرقائم رہنے کی دلیل کے طورپراپنے ایک خط میں ذکرفرمایاہے۔ یہ خط آپؑ نے آئینہ کمالات اسلام میں بھی شائع فرمایا۔ چنانچہ مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب کومخاطب کرتے ہوئے اس میں لکھتے ہیں:
’’میرے بیٹے سلطان احمد نے ایک ہندو پر بدیں بنیاد نالش کی کہ اس نے ہماری زمین پر مکان بنا لیا ہے اور مسماری مکان کا دعویٰ تھا اور ترتیب مقدمہ میں ایک امر خلاف واقعہ تھا جس کے ثبوت سے وہ مقدمہ ڈسمس ہونے کے لائق ٹھہرتا تھا اور مقدمہ کے ڈسمس ہونے کی حالت میں نہ صرف سلطان احمد کو بلکہ مجھ کو بھی نقصان تلف ملکیت اٹھانا پڑتا تھا۔ تب فریق مخالف نے موقعہ پاکر میری گواہی لکھا دی اور میں بٹالہ میں گیا اور بابو فتح الدین سب پوسٹ ماسٹر کے مکان پر جو تحصیل بٹالہ کے پاس ہے جا ٹھہرا۔ اور مقدمہ ایک ہندو منصف کے پاس تھا جس کا اب نام یاد نہیں رہا مگر ایک پاؤں سے وہ لنگڑا بھی تھا اس وقت سلطان احمد کا وکیل میرے پاس آیا کہ اب وقت پیشی مقدمہ ہے آپ کیا اظہار دیں گے۔ میں نے کہا کہ وہ اظہار دوں گا جو واقعی امر اور سچ ہے تب اس نے کہا کہ پھر آپ کے کچہری جانے کی کیا ضرورت ہے میں جاتا ہوں تا مقدمہ سے دستبردار ہو جاؤں سو وہ مقدمہ میں نے اپنے ہاتھوں سے محض رعایت صدق کی وجہ سے آپ خراب کیا اور راست گوئی کو ابتغاءً لمرضات اللّٰہ مقدم رکھ کر مالی نقصان کو ہیچ سمجھا…… واقعہ کا گواہ بابو فتح الدین اور خود وکیل جس کا اس وقت مجھ کو نام یاد نہیں اور نیز وہ منصف جس کا ذکر کر چکا ہوں جو اب شاید لدھیانہ میں بدل گیا ہے۔ غالباً اس مقدمہ کو سات برس کے قریب گذرا ہوگا ہاں یاد آیا اس مقدمہ کا ایک گواہ نبی بخش پٹواری بٹالہ بھی ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ299-300)
ان مذکورہ بالاواقعات سے یہ واضح ہوتاہے کہ ڈپٹی شنکرداس نے مخالفانہ قبضہ اس جگہ پرکیاہواتھا۔ اوریہ بھی قیاس ہے کہ یہ واقعہ 1883ء کے بعدکاہوگا اوراس کاقرینہ یہ ہے کہ مرزاغلام قادرصاحب کی زندگی میں ان کے رعب ودبدبہ کی وجہ سے کسی کوجرأت نہیں ہوسکتی تھی کہ ایساقدم اٹھاسکتا۔ ان کی ہیبت اور رعب کاتویہ عالم تھا کہ عدالت عالیہ سے موروثی جائدادکے مقدمات ہارنے کے باوجوداعظم بیگ جیسے شخص کوقبضہ نہیں لینے دیا۔ اورنہ ہی ان میں سے کسی کی جرأت ہوئی کہ قبضہ لے سکے۔ جولائی 1883ء میں ان کی وفات کے بعد ہی اس طرح کے لوگوں کوکچھ حوصلہ ہواہوگا۔ اوراس کاایک اور قرینہ یہ بھی ہے کہ حضرت اقدسؑ کی تحریراور حضرت عرفانی صاحبؓ کے بیانات میں بھی ہے کہ یہ مقدمہ مرزاسلطان احمدصاحب نے کیاتھااور ظاہرہے کہ مرزاغلام قادرصاحب کے حین حیات مدعی مرزاغلام قادرصاحب خودہوتے نہ کہ مرزاسلطان صاحب، پھرایک اورقرینہ حضرت اقدسؑ کےمکتوب میں یہ فقرہ ہے کہ جس میں آپؑ فرماتے ہیں ’’غالباً اس مقدمہ کو سات برس کے قریب گذرا ہوگا‘‘ یہ مکتوب دسمبر1892ء کے آخرکاہوگا۔ جس سے اندازہ ہوتاہے کہ 1885ء کے لگ بھگ کی یہ بات ہوگی۔
یہ مکان بعدمیں حضرت مصلح موعودؓ کے عہدخلافت میں حضرت عرفانی صاحبؓ کے ذریعہ بذریعہ خریدسلسلہ احمدیہ کی ملکیت میں آگیا۔ حیات احمدجلددوم حصہ اول ص 103 اور جلدچہارم ص530 سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت عرفانی صاحبؓ نے پسران شنکرداس سے یہ مکان خریدلیاتھا اور اس کا3/1 حصہ سلسلہ احمدیہ کے نام ہبہ کردیاتھااور بعد میں یہ سارامکان ہی جماعت کے مصرف میں آگیا۔ 1932ء میں اس حویلی میں صدرانجمن احمدیہ کے دفاترقائم کردئے گئے۔ اس کے باقاعدہ افتتاح میں حضرت مصلح موعودؓ بنفس نفیس تشریف لائے۔ چنانچہ اس کی روداد جواخبارمیں شائع ہوئی اس کے مطابق حضورانوررضی اللہ عنہ کی خدمت میں صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے جوایڈریس پیش کیاگیاوہ یہ تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں ایڈریس
سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شکریہ
سب سے پہلے میں صدر انجمن احمدیہ کے کارکنان کی طرف سے حضور کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ حضورنے آج باوجود اپنی بہت سی مصروفیتوں کے ہماری دعوت قبول فرماتے ہوئے یہاں قدم رنجہ فرمایاہے۔ جزاکم اللّٰہ خیرًا۔
دفاتر کا اجتماع
جیسا کہ حضور کو معلوم ہے یہ موقعہ دفاتر صدر انجمن احمدیہ کی جدید عمارت کے افتتاح کا موقعہ ہے۔ اس وقت تک صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر مختلف عمارتوں میں ایک دوسرے سے جدا منتشر حالت میں تھے۔ جس کی وجہ سے علاوہ خرچ کی زیادتی کے کام کو بھی کئی جہت سے نقصان پہنچ رہا تھا۔ اور باہم مشورہ اور تعاون کے رستے میں بھی عملی دقتیں واقعہ تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ایک عرصہ سے حضور کی توجہ اس طرف مبذول تھی کہ کوئی صورت دفاتر کو ایک جگہ جمع کرنے کی پیدا ہوجائے سو الحمد للہ کہ حضور کی توجہ نے اپنا اثر پیدا کیا اور آج صدر انجمن احمدیہ کے بیشتر دفاتر اس خوبصورت اور عالیشان عمارت میں ایک جگہ جمع ہیں۔
ایک نشان
سیدنا! اس عمارت کا ہمارے ہاتھ میں آنا دفاتر کے لحاظ سے ہی خوشی کا موجب نہیں بلکہ اس جہت سے بھی خوشی کا موجب ہے کہ اس عمارت کا ہمارے قبضہ میں آنا خدا کے خاص فضلوں میں سے ایک فضل اور اس کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے ہم میں سے بہت سے لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانہ مبارک میں پنڈت شنکر داس نے یہ عمارت تعمیر کی تو مسجد اور دار مسیح کے قرب کی وجہ سے بہت سے احمدی احباب نے اس عمارت کی تعمیر کو فکر کی نظر سے دیکھا۔ لیکن جب یہ ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے سامنے ہوا تو آپ نے خدا سے علم پاکر فرمایا کہ یہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ شاہی کیمپ کے پاس کوئی شخص نہیں ٹھہر سکتا۔ اس وقت یہ گھر نہایت آباد اور نہایت ترقی کی حالت میں تھا۔ مگر اس کے بعد اس مکان کے مکینوں پر جو جو حالات آئے۔ وہ ہم میں سے اکثر کے ذاتی مشاہدہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے اس جگہ ان کے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اور اس خدائی قدرت نمائی کا آخری کرشمہ یہ ہے کہ اب یہی عمارت شاہی کیمپ کا ایک حصہ ہے جس میں حضور کے حکم سے شاہی فوج کے سپاہی داخل ہوکر دنیا کے فتح کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ وما توفیقنا الا باللّٰہ العظیم
درخواست دعا
سیدنا! ہم حضورکی امروز مصروفیتوں کو دیکھتے ہوئے حضور کا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتے اور اس مختصر عرضداشت پر اپنے اس ایڈریس کو ختم کرتے ہیں۔ کہ حضور ہمارے واسطے دعا فرمائیں کہ جس طرح اس عمارت کے توسل سے خدا نے سلسلہ کے مرکزی دفاتر کو ظاہری طور پر ایک جگہ جمع ہونے کا موقع عطا فرمایا ہے اسی طرح وہ باطنی اور معنوی طور پر بھی ہماری کوششوں کو ایسے رنگ میں ایک نقطہ پر جمع کر دے جو اس کے دین اور اس کے سلسلہ کے لئے بہترین نتائج پیدا کرنے والا ہو اور ہمیں اپنے مقدس مسیح کے الہامات ا ور خصوصاً ان دو الہاموں کا مصداق و مورد بنائے جو حضور کی تجویز کے مطابق اس عمارت کے ماتھے کو زینت دے رہے ہیں۔ آمین۔ اللّٰھم آمین۔
ہم ہیں حضور کے خدام۔ کارکنان صدر انجمن احمدیہ قادیان۔ بتوسل ناظر اعلیٰ جماعت احمدیہ۔‘‘
(الفضل 3 مئی 1932ء جلد 19 شمارہ 130 صفحہ 5 کالم 1، 2)
(باقی آئندہ)