متفرق مضامینیادِ رفتگاں

بستی کتنی دور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط ششم۔ آخری)

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

جامعہ احمدیہ کے اساتذہ کی محبتوں اور شفقتوں کے چند واقعات اور حسین یادیں

کچھ مزید بزرگوں کا ذکر

اب جامعہ احمدیہ کے مزید کچھ بزرگوں کا ذکر کرنے لگا ہوں۔ ان میں سرفہرست حمید احمد خالد صاحب لائبریرین ہیں۔ آپ ایم اے کے بعد وقف کر کے آئے اور جامعہ کی لائبریری کے انچارج بنے۔ ہمارے سات سالہ جامعہ کے دَور میں آپ نے بڑے احسن رنگ میں اپنے فریضہ کو سرانجام دیا۔ لائبریری میں وسعت پیدا کی گئی، کتب منگوا کر رکھتے۔ نیز طلباء کی نصابی کتب کا بھی محترم پرنسپل صاحب کی ہدایت پر بندوبست کرتے۔ مثلاً مجھے یاد ہے کہ بعض عربی اور احادیث کی کتب ہم طلباء نے آپ کی مدد سے حاصل کی تھیں۔

لائبریری کےباہر برآمدے میں محترم پرنسپل صاحب کی ہدایت پر اخبار کے سٹینڈ بھی لگوائے جن پر الفضل اور دیگر اخبارات ہوتے تھے۔ طلباء اپنے خالی پیریڈ میں یہاں آکر مطالعہ کرلیتے تھے۔

محترم خالد صاحب بھی بہت ہمدرد انسان تھے۔ خاکسار کو ایک دفعہ غالباً پیچش کی بیماری تھی جس کی وجہ سے کافی کمزور ہوگیا۔ آپ پتہ نہیں ہوسٹل میں کیوں آئے۔ لیکن مجھے بستر پر پڑا دیکھ کر میری حالت پوچھی۔ اور کہنے لگے کہ میرے ساتھ گھر چلو۔ چنانچہ اپنے گھر ساتھ لے گئے اور اپنی اہلیہ سے میرے لیے مسور کی دال کی کھچڑی بنوا کر کھلائی۔ اور پھر واپس ہوسٹل چھوڑ کر گئے۔ آج کل غالباً آپ جرمنی میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ صحت و سلامتی کے ساتھ لمبی عمر دے۔ آمین

لائبریری میں ایک اور دوست تھے جن کا نام نذیر احمد تھا۔ وجہ تو یاد نہیں لیکن نذیر صاحب کو سب میجر کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ آپ بہت نرم لہجے میں بات کرتے تھے۔ بہت ہنس مکھ اور مذاق کرنے والے۔ سب کے ہمدرد تھے۔ لائبریری میں عموماً آپ خالد صاحب کی معاونت کرتے۔ لیکن طلباء کے ساتھ بھی مہربانی سے پیش آتے۔ ان کے کام کاج کر دیتے تھے۔ ان کی ایک ڈیوٹی ڈاک خانہ سے جامعہ کی ڈاک لانا ہوتی تھی اور طلباء کے جو خطوط آتے تھے ان میں وہ خطوط تقسیم بھی کرتے تھے۔

دارالصدر میں مکرم شاہ نواز صاحب کی کوٹھی میں رہائش پذیر تھے اور وہاں سے روزانہ اپنی ڈیوٹی کے لیے جامعہ تشریف لاتے تھے۔ ان سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ بھی رہتی۔ ان کی ایک بیٹی ملواکی امریکہ میں ہوتی ہیں۔

جامعہ میں ایک اور مددگار کارکن تھے۔ محمد سلیم صاحب نہایت شریف النفس انسان تھے۔ مکرم پرنسپل صاحب کی ڈاک اور پھر طلباء کے نام جو پرنسپل صاحب کی ذاتی ڈاک ہوتی تھی وہ لا کر دیتے تھے۔ عموماً محترم پرنسپل صاحب خط لکھتے، لفافہ میں بند کرتے اور پھر سلیم صاحب کے حوالےکر دیتے۔ سلیم صاحب بعض اوقات کلاس ہی میں آکر پہنچا دیتے۔ ان کو دیکھ کر ایک دم تو سب کے ہوش اڑ جاتے تھے کہ پتہ نہیں کس کے نام کیا آیا ہے؟ نوٹس بورڈ پر بھی پرنسپل صاحب کے تمام نوٹس اور ہدایات آپ ہی لگاتے۔ اس کی چابی آپ کے پاس ہی ہوتی تھی۔ محمد سلیم صاحب بھی اپنے کام سے کام رکھتے۔ اپنےکام میں بہت سنجیدہ ہوتے۔ ضرورت پڑنے پر مسکراتے تھے۔

جس طرح انہوں نے ہم سے نیک سلوک کیا اور ہمدردی کی اللہ تعالیٰ بھی ان سے نیک سلوک فرمائے اور اپنی رحمت کی چادر میں ان سب کو ڈھانپ لے اورسب کو جزائے خیردے۔ آمین

تین اور شخصیات

محترم پرنسپل صاحب کےدفتر کے ساتھ ملحق ایک کمرے میں تین اور بزرگ شخصیات بیٹھتی تھیں۔

مولوی محمد شریف صاحب: یہ بزرگ واقفِ زندگی تھے اور پرنسپل صاحب کے دفتر کے ملحقہ کمرے میں بیٹھتے تھے۔ اپنے نام جیسے ہی شریف تھے، مسکرا کر ملتے، عاجزی و انکساری کے پیکر تھے۔ کم گو، درویش صفت، لوگوں سے گھل مل کر کم ہی بات چیت کرتے دیکھا۔ یہ بھی ان لوگوں میں سے تھے جو اپنے کام میں ہر وقت جُتے رہتے تھے۔ بس اپنے کام سے کام۔ پرنسپل صاحب کی طرف سے آپ کو متفرق کام دیے جاتے جنہیں آپ سرانجام دیتے۔ مولوی محمد شریف صاحب بھی جامعہ کے اکاؤنٹس کا کام کرتے تھے۔

خداتعالیٰ نے ان کی خاموش خدمت کو قبول فرمایا۔ آپ نے حج کا فریضہ بھی انجام دیا۔ وہاں گرفتار ہوکر خداتعالیٰ کے فضل سے بخیریت واپس آئے۔ ان کے ایک بیٹے وسیم ظفر صاحب ہیں جو آج کل برازیل میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ ان کے ایک بیٹے کریم شریف صاحب انصار اللہ امریکہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ایک اوربیٹے ظریف صاحب ایم ٹی اے امریکہ میں خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر سے نوازے۔

قریشی سعید صاحب: آپ محترم پرنسپل صاحب کے خطوط لکھتے، نقل کرتے اور طلباء کو بھجواتے۔ طلباء کو جو ہدایات ملتی تھیں محترم پرنسپل صاحب انہی سے لکھواتے تھے۔ آپ کی تحریر، لکھائی بہت اچھی ہوتی۔ میرے پاس ابھی بھی ان کے تحریر کردہ کچھ خطوط پڑے ہیں جو مکرم میر داؤد احمد صاحب نے ان سے لکھوائے۔ پھر سائیکلوسٹائل کر کے ان کی کاپیاں بنا کر ہر طالب علم کو دیتے۔ درجہ سادسہ میں اس طرح ہوتا۔ کتاب ‘‘سیرت داؤد’’ میں وہ خطوط شائع بھی ہوچکے ہیں۔ آپ روزانہ اسمبلی کے وقت طلباء کی حاضری لیتے تھے۔ اپنے کام میں مگن رہتے۔ آپ محترم قریشی محمد حنیف صاحب سیاح سائیکل سوار کے بیٹے تھے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔

راجہ عزیز احمد صاحب: ایک بزرگ شخصیت جو اپنے کام میں ہمہ تن مصروف نظر آتی تھی وہ راجہ عزیز احمد صاحب کی ہے۔ آپ دفتر میں داخل ہوتے ہی بائیں طرف بیٹھے نظر آتے تھے۔ طلباء کو وظائف کی رقم دیتے۔ رقم دے کر سب سے دستخط کراتے۔ پھر قریشی سعید صاحب نے اسمبلی میں جس کسی کی غیر حاضری لگائی ہوتی یا کسی پیریڈ میں دیر سے طالب علم پہنچتا اس کے جرمانے کی وصولی بھی آپ ہی کرتے تھے۔ پرنسپل صاحب یا کسی استاد کی طرف سے اگر کسی طالب علم کو خصوصی جرمانہ کیا گیا ہوتاتواس کی وصولی بھی آپ ہی کیا کرتے۔

آپ مکرم مقبول ضیاء صاحب مربی سلسلہ کے بڑے بھائی تھے۔ تمام طلباء سے بہت ہمدردی سے پیش آتے۔ اور چہرے پر مسکراہٹ رہتی تھی۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔

جامعہ کی ٹک شاپ

جب خاکسار جامعہ میں داخل ہوا تو جامعہ کی ٹک شاپ پر ایک بزرگ شخصیت ‘‘فیاض صاحب ’’کی ہوتی تھی۔ ان سے کوئی واقفیت نہیں تھی۔ اور وہ بہت تھوڑا وقت ہمارے زمانے میں اسی ٹک شاپ پر رہے ہیں۔ اس کے بعد جامعہ کی ٹک شاپ مکرم محمد ارشاد صاحب کو دے دی گئی۔ آپ کا نام تو محمد ارشاد تھا مگر سب طلباء پیار سے آپ کو ‘‘شادا’’ کہتے۔ آپ کا قد درمیانہ اورجسم گھنا تھا۔ آپ دودھ، دہی، چائے، گاجر کا حلوہ اور دوسری مٹھائیاں تیار کر کے رکھتے۔ اور طلباء ان سے خرید کر کھاتے۔ ان کے زمانے میں ٹک شاپ میں قدرے وسعت آگئی تھی۔ قریباً سب طلباء ہی ان سے ادھار لیتے تھے۔ اور گھر سے رقوم آنے پر ہر ماہ ان کو ادائیگی کر دی جاتی تھی۔ بہت اچھی طبیعت کے دوست تھے۔ بعد میں کراچی کے گیسٹ ہاؤس میں بطور باورچی چلے گئے۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ارشاد پر جلسہ یوکے میں جا کر کھانا پکانے کی ڈیوٹی بھی سر انجام دی۔

میرو ٹک شاپ: امیر علی صاحب محمد ارشاد صاحب کے ساتھ بطور مددگار کام کرتے تھے۔ اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے ٹک شاپ میں بہت بڑی وسعت پیدا ہوگئی ہے۔ یہ بھی بہت نیک، حسن ظن رکھنے والے، نیک فطرت ہیں۔ ان کی ٹک شاپ کا بادام والا دودھ اور دہی سارے ربوہ میں مشہور ہے۔ یہ پہلے احمدی نہ تھے مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے بعد میں احمدیت بھی قبول کر لی۔ الحمد للہ

ہم پرانے طلباء جب بھی ان سے ملنے ٹک شاپ پر گئے تواسی طرح عزت اور تکریم کے ساتھ پیش آتے ہیں اور خدمت کرتے ہیں۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء

میرے ساتھی طلباء

جب ہم درجہ ممہدہ میں داخل ہوئے اس وقت ہم قریباً 30-32 طالب علم تھے۔ درجہ سادسہ تک پہنچتے پہنچتے ان میں سے صرف چند باقی رہ گئے تھے۔ جو درجہ سادسہ تک پہنچےان کے نام درج ذیل ہیں:

(1)رشید ارشد صاحب۔ (2)شیخ سجاد خالد صاحب۔ (3)مرزا محمود صاحب۔ (4)انعام الحق کوثر صاحب۔ (5)محمد زکریا خان صاحب۔ (6)مفتی احمد صادق صاحب۔ (7)مکرم یوسف ہاسن صاحب غانا۔ (8)خاکسار سید شمشاد احمد ناصر۔

کل کلاس جو سادسہ کی تھی ان میں غالباً 12، 13 طالب علم تھے۔ باقی ہمارے ساتھی پچھلی کلاسز سے آکرملے۔ ان سب دوستوں کی خاکسار کے پاس ایک تصویر بھی محفوظ ہے۔

خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ان دوستوں کی تصویر بھیج کر سب کے لیےدعا کی درخواست کی۔ خاکسار کا یہ خط اور حضور انور کی طرف سے موصولہ جواب لکھ کر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ میرے لیے بھی یہی سعادت اور بابرکت ہوگا کہ خلیفہ وقت کی بات سے یہ مضمون ختم ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کا وفادار اور جاںنثار اور سلطان نصیر بنائے۔ آمین

سیدی پیارے آقا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدکم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سیدی! خاکسار حضور انور کی خدمت میں ایک تصویر دعا کی خاطر ارسال کر رہا ہے۔ اس تصویر کے تعارف سے قبل کچھ یادیں حضور انور کی خدمت میں عرض کرنی چاہتا ہوں۔ خاکسار 1966ء اکتوبر یا نومبر میں جامعہ میں داخل ہوا تھا۔ ممہدہ کلاس میں اس سال قریباً 32-33 طلباء تھے جو اس سال داخل ہوئے۔ 1973ء میں ہم نے خداتعالیٰ کے فضل سے جامعہ پاس کیا۔ الحمد للہ

اپریل 1973ء کے آخر میں ہم جامعہ سے فارغ ہوئے تھے اور یہ آخر بھی ہمارے لیے بڑی تکلیف اور صدمہ کا باعث تھا کہ 24؍اور 25؍اپریل کی درمیانی شب کو ہمارے بہت ہی پیارے پرنسپل جناب حضرت سید میر داؤد احمد صاحب مرحوم اس دار فارنی سے رحلت فرما کر خداتعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔

بلانے والا ہے سب سے پیارا

اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

اس طرح اپریل کے آخر میں ہماری الوداعی تقریب جامعہ کے پرنسپل صاحب کے دفتر سے ہوئی جو حضرت مکرم ملک سیف الرحمن صاحب نے کی۔ اب پیارے حضور کی خدمت میں تصویر میں کھڑے اپنے مربی، واقفِ زندگی ساتھیوں کا تعارف کراتا ہوں یہ تصویر جامعہ سے فراغت کے بعد حدیقۃ المبشرین میں لی گئی تھی۔

1۔ مکرم مرزا محمود احمد صاحب۔ یہ پاکستان کے علاوہ مشرقی افریقہ میں بھی مبلغ رہے اور امریکہ میں بھی۔ اب عرصہ قریباً 15سال سے ریٹائر ہو چکے ہیں اور ڈیٹن میں رہائش پذیر ہیں۔ مکرم مولانا عنایت اللہ صاحب احمدی مرحوم کے داماد ہیں۔

2۔ مکرم شیخ سجاد احمد صاحب۔ پاکستان کے علاوہ فجی میں بھی خدمات سرانجام دی ہیں۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فجی کا دورہ فرمایا تھا اس وقت یہ وہاں ہی تھے۔ اور پھر پاکستان میں خدمات بجا لاتے رہے۔ اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔

3۔ مکرم محترم شیخ انعام الحق کوثر صاحب۔ پاکستان، امریکہ اور اس وقت آسٹریلیا میں خدمات بجا لا رہےہیں۔

4۔ مفتی احمد صادق صاحب مرحوم۔ پاکستان، امریکہ۔ ان کی وفات ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت کا سلوک فرمائے۔

5۔ مکرم زکریا خان صاحب۔ پاکستان اور دیگر یورپین ممالک اور اس وقت ڈنمارک میں خدمات بجا لا رہے ہیں۔

6۔ مکرم عبدالشکور صاحب۔ یہ لاہور میں رہتے تھے۔ ان کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں ہے۔؎

7۔ مکرم رشید احمد ارشد صاحب۔ پاکستان کے علاوہ چائنا میں رہے ہیں۔ اب انگلستان میں چینی ڈیسک میں خدمات بجا لارہے ہیں۔

8۔ مکرم چوہدری محمد شریف صاحب علوی۔ یہ پاکستان ہی میں خدمات بجا لاتے رہے ہیں۔ اس وقت ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔

9۔ مکرم مرزا محمد یوسف نیر صاحب مرحوم۔ مکرم محترم مرزا محمد دین ناز صاحب کے چھوٹے بھائی۔ زیادہ تر پاکستان ہی میں کام کیا ہے اور اب فوت ہو چکے ہیں۔ ان کے بیٹے مکرم عمر نیر صاحب اب امریکہ میں مبلغ ہیں اور شعبہ وصایا میں خدمات بجا لارہےہیں۔

10۔ مکرم محمد سلیمان احمد صاحب۔ انہوں نے بھی زیادہ پاکستان ہی میں خدمات کی ہیں اور وقفِ جدید میں معلمین کو پڑھانے کا فریضہ بھی سرانجام دیا ہے۔ یہ مکرم ڈاکٹر محمد شریف صاحب ڈینٹل ربوہ کے داماد ہیں اور غالباً اس وقت انگلستان ہی میں ہیں۔ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔

11۔ خاکسار سید شمشاد احمد ناصر

12 مکرم مولانا عبدالستار خان صاحب۔ پاکستان، سپین اور اس وقت گوئٹے مالا اور دیگر ممالک میں خدمات بجا لاتے رہے ہیں۔

13۔ مکرم سمیع اللہ زاہد صاحب۔ پاکستان، سویڈن، غانا اور پھر نائب وکیل التبشیر ربوہ اور آج کل ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ کینیڈا میں ہیں۔

14۔ اس تصویر میں 2مبلغین کرام نہیں ہیں۔ ایک ہمارے ساتھی مکرم محترم سفنی ظفر احمد صاحب انڈونیشیا مرحوم۔

15۔ مکرم یوسف یاسین صاحب نائب امیر گھانا۔

16۔ مکرم حامد کریم صاحب۔ جو اس وقت ہالینڈ میں خدمات بجا لا رہے ہیں۔ وہ میرے کلاس فیلو ہیں۔

خاکسار نے مزید لکھا: پیارے حضور کی خدمت میں بس دعا کی خاطر یہ تصویر ارسال کی ہے کہ ہمارے ساتھی جو وفات پا چکے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔

جو ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر بھی رحم فرمائے، صحت کے ساتھ رکھے اور جو میدان عمل میں ہیں اللہ تعالیٰ ان کی بھی پردہ پوشی فرمائے، بہتر رنگ میں خدمت کی توفیق دے اور انہیں اپنی مرضیات، لطف و کرم سے نوازے اور سب کا انجام بخیر کرے۔ آمین

حضور مجھے یاد نہیں کہ اس وقت شاہد کی ڈگری دی جاتی تھی بہرحال مجھے نہیں ملی۔ نہ ہی میں نے کبھی دیکھی ہے کہ ‘‘شاہد’’ کی ڈگری کیسی ہوتی ہے۔ اس وقت تو ڈگری حاصل کرنا مقصود نہیں ہےبلکہ اصل حضور کے دست شفقت سے برکت لینے کی خاطر یہ خواہش ہوئی ہے کہ حضور انور اپنے دست مبارک سے شاہد کی ڈگری عنایت فرمادیں تو میرے لیے سعادت اور برکت کا موجب ہو گی۔ والامر الیکم یا سیدی!

پیارے حضور! رمضان المبارک کی خاص دعاؤں میں بھی ہمیں یاد رکھیں۔ جزاکم اللہ

والسلام

خاکسار

سید شمشاد احمد ناصر

12 اپریل 2021

مبلغ امریکہ

اس خط کا درج ذیل جواب موصول ہوا

مکرم سید شمشاد احمد ناصر صاحب (مربی سلسلہ)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کا خط ملا جس کے ساتھ آپ نے اپنے کلاس فیلوز کی تصویر بھجوائی ہے اور سب کا تعارف بھی کروایا ہے۔ آپ کو اگر شاہد کی ڈگری نہیں دی گئی تو اس کی فکر نہ کریں۔ آپ کی سروس ہی آپ کی ڈگری ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اور آپ کے تمام ساتھیوں کی خدمت کو قبول فرمائے اور سب کو بہترین جزاء عطا فرمائے۔ آمین

والسلام

خاکسار

مرزا مسرور احمد

خلیفۃ المسیح الخامس

٭…٭…٭

اگلی قسط: بستی کتنی دُور بسا لی دل میں بسنے والوں نے(قسط ہفتم)

گذشتہ قسط: بستی کتنی دُور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط پنجم)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button