خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر 07؍اگست 2021ء بروزہفتہ امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دوسرے دن بعد دوپہر کا خطاب

21-2020ء میں جماعت احمدیہ پر نازل ہونے والے اللہ تعالیٰ کےبے انتہا فضلوں اور تائیدو نصرت کے عظیم الشان نشانات میں سے بعض کا ایمان افروز تذکرہ

اس عرصے میں ایک لاکھ 25ہزار 221 افرادکی احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شمولیت

دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام قبول کرنے کے ایمان افروز واقعات

403 نئی جماعتوں کا قیام، 211مساجد کا اضافہ، 123مشن ہاؤسز اور تبلیغی مراکز کا اضافہ

روحانی خزائن کے دیدہ زیب مکمل سیٹ کی اشاعت

اب تک 90ممالک میں 591لائبریریز کا قیام ہو چکا ہے، 39زبانوں میں 384سے زائد مختلف کتب، پمفلٹس اور فولڈرز وغیرہ کی چھتیس لاکھ سے زائد تعداد میں طباعت

عربک، رشین، چینی، ٹرکش، انڈونیشین، سپینش و دیگر ڈیسکس کے تحت متعدّد کتب کی تیاری و اشاعت، خطباتِ جمعہ اور ایم ٹی اے کے پروگرامز کے تراجم

دنیا بھر میں اسلام کے پُر امن اور حقیقی پیغام کی ترویج و اشاعت کے لیے ایم ٹی اے کے تمام چینلز کی بے مثال خدمات کا تذکرہ

دورانِ سال دو ہزار کے قریب کتب کی نمائش اور اڑھائی ہزار سے زائد بُک سٹالز کے ذریعہ دو لاکھ سے زائد افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا

103 ممالک میں انہتر(69) لاکھ چوراسی (84)ہزار لیف لیٹس کی تقسیم کے ذریعے ایک کروڑ اڑسٹھ(68) لاکھ افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا

پریس اینڈ میڈیا آفس کے ذریعہ دو کروڑ سے زائد افراد تک احمدیت کے بارے میں خبریں پہنچیں

تحریکِ وقفِ نَو، ریویو آف ریلیجنز، سہ روزہ الفضل انٹرنیشنل، ہفت روزہ الحکم، احمدیہ آرکائیوز اینڈ ریسرچ سنٹر، الاسلام ویب سائٹ، احمدیہ ٹیلیویژن اور ریڈیو پروگرامز کی مختصر رپورٹ

انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹکٹس اور ہیومینٹی فرسٹ کے خدمتِ انسانیت پر مبنی بے لوث کاموں کا تذکرہ

اللہ تعالیٰ ان مخالفین کو بھی عقل دے اور دنیا کے تمام انسانوںکو عقل دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو سمجھیں۔ اسلام کے حقیقی پیغام کو سمجھیں اور دنیا میں جو اللہ تعالیٰ نے اپنا فرستادہ بھیجا ہے اس کو مان کر اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بنیں

جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر 07؍اگست 2021ء بروزہفتہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حدیقۃ المہدی، آلٹن(ہمپشئر)یو کے میں دوسرے دن بعد دوپہر کا خطاب

(خطاب کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج کے دن سارے سال میں دوران سال جو کام ہوئے ہوتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے افضال ہیں ان کا ذکر ہوتا ہے۔ خلاصہ کے باوجود گو رپورٹس کافی ہیں۔ لیکن مَیں ان میں سے بھی مختصراً چند رپورٹس پیش کروں گا یا کوائف پیش کروں گا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال دنیا بھر میں پاکستان کے علاوہ جو

نئی جماعتیں

قائم ہوئی ہیں ان کی تعداد 403 ہے۔ ان نئی جماعتوں کے علاوہ 829نئے مقامات پر پہلی بار جماعت کا پودا لگا ہے یعنی وہاں پہلی دفعہ کوئی نہ کوئی شخص ایک یا دویا چند افراد جماعت میں داخل ہوئے ہیں۔ نئے مقامات پر جماعت کے نفوذ اور نئی جماعتوں کے قیام میں نائیجیریا سرِفہرست ہے یہاں اس سال 89 نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ اس کے بعد کانگو کنشاسا ہے۔ پھر تیسرے نمبر پر سیرالیون ہے جہاں چالیس جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ اس کے بعد گیمبیا، گھانا، لائبیریاوغیرہ باقی ممالک ہیں اور یورپ کے بھی کچھ ممالک۔

نئی جماعتوں کے قیام کے واقعات

کے سلسلہ میں ساؤ تومے کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ ملک ساؤتومے کے صرف تین جزیروں پر آبادی ہے۔ ساؤتومے اور پرنسپِ جزیروں میں تو جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور مساجد بھی بن چکی ہیں۔ اس سال تیسرے جزیرے پر بھی جون 2021ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا نفوذ ہوا اور جماعت قائم ہوئی۔ یہاں ہمارے لوکل معلمین گئے، تبلیغ کی اور ان کے جانے کےبعد اللہ کے فضل سے ہمارے مبلغ سلسلہ بھی وہاں گئے اور ان لوگوں سے ملے، احمدیت کا پیغام وہاں پہلے پہنچ چکا تھا۔ تبلیغ سننے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے دس افراد کو عیسائیت ترک کر کے اسلام قبول کرنے کی توفیق دی۔ یہ چھوٹا سا ایک جزیرہ ہے۔ سو سے بھی کم افراد کی آبادی ہے۔ کل رقبہ دو مربع کلو میٹر ہے۔ Equatorکے عین اوپر واقع ہے۔ بہرحال اس جزیرہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔

تنزانیہ کے مربی صاحب لکھتے ہیں کہ ریجن کے ایک گاؤں میںہمارے تین معلمین تبلیغ کے لیے گئے۔ تبلیغی پروگرام ہوئے۔ لوگوں نے جماعت کے پیغام کو توجہ سے سنا اور ساٹھ افراد نے احمدیت قبول کر لی۔ اس پر کہتے ہیں کہ لوکل امام نے انہیں فون کیا کہ آپ کے معلمین یہاں آئے ہوئے ہیں اور فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے لوگ ان کے ساتھ مل رہے ہیں۔ ان معلمین کو دوبارہ بھیجو تاکہ آپس میں بیٹھ کے ہم بات کریں اور یہ لوگ تبلیغ نہ کریں۔ خیر اسی دوران جب فون کر رہے تھے تو معلم صاحب وہاں پہنچ گئے تو اس نے کہا کہ وہ معلم آ گئے ہیں اور فون بند کر دیا۔ معلم سے جا کے انہوں نے تکرار شروع کر دی کہ آپ نے یہ اچھا نہیں کیا۔ میرے لوگوں کو آپ کھینچ رہے ہیں۔ مولوی کو تو اپنی فکر ہوتی ہے ناںکیونکہ اس کا روٹی پانی اس سے وابستہ ہے۔ بہرحال بہت سارے لوگ اکٹھے ہو گئے ہمارے معلم نے ان کو بھی تبلیغ شروع کر دی۔ لوکل امام تو وہاں مخالفت کرتا رہا لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوکل امام کے ساتھ بحث کے دوران جب لوگ بھی جمع ہو گئے تو تیس اَور لوگوں نے پیغام سن کر احمدیت قبول کر لی۔ اب وہ سنی امام اپنی مسجد میں اس طرح ہی بیٹھا ہے کہ اکّا دکّا لوگ اس کے پاس آتے ہیں اور اللہ کے فضل سے وہاں سو کے قریب یا نوے نفوس پر مشتمل ایک نئی جماعت قائم ہو گئی ہے۔ اللہ کے فضل سے جماعتی نظام اور چندے کے نظام میں بھی یہ لوگ شامل ہو گئے ہیں۔

گنی کناکری، یہاں بھی ایک گاؤں ہے ڈُونْخے(Donkhe)، وہاں ہمارا تبلیغی وفد گیا۔ ان لوگوں کو اسلامک لیگ والوں نے بہت ڈرایا دھمکایا ہوا تھا کہ احمدی نعوذ باللہ کافر ہیں اور اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کی کوئی بات نہ سنے لیکن جب انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچایا اور امت مسلمہ میں آنے والے امام مہدی کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے بارے میں بتایا تو انہوں نے برملا اظہار کیا کہ ہم اپنے بزرگوں سے آخری زمانے کے بگاڑ اور ایک مصلح کے آنے کے بارے میں سنا کرتے تھے۔ لہٰذا ہمیں آپ کی باتیں سچی لگتی ہیں۔ یہ سارا گاؤں امام سمیت احمدیت میں داخل ہو گیا اور وہاں نظامِ جماعت باقاعدہ قائم ہو گیا ہے۔ اس کے بعد بھی ارد گرد کے لوگوں نے ان کو بہت ڈرایا دھمکایا۔ عرب مسلمان اسلامک لیگ والے جو اُن کو مدد دیا کرتے تھے انہوں نے بھی ڈرایا لیکن انہوں نے کہا ہمیں جو ایمان احمدیت قبول کر کے حاصل ہوا ہے اور ہماری عبادات میں جو مزہ اب آنے لگا ہے وہ اس سے قبل نہیں تھا۔ ہم اللہ کے فضل سے اب احمدی مسلمان ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ تم جو مرضی کہو ہم نہیں چھوڑیں گے۔ تو

بعض امام بھی شریف النفس ہیں

اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ ان کے سینے بھی کھولتا ہے اور وہ پیغام کو سنتے ہیں اور سمجھتے ہیں اور شامل ہوتے ہیں۔

ساؤ تومے کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ مبلغ سلسلہ حماد صاحب لوکل معلم سلیمان یوسف کے ساتھ ایک گاؤں میں تبلیغ کے لیے گئے۔ اس گاؤں میں اسلام کا پیغام پہلی دفعہ دیا جا رہا تھا۔ دورانِ تبلیغ وہاں بیٹھے ایک شخص اَیدْسَوں(Adsom)صاحب کہنے لگے کہ میں آج سے پہلے مسلمان نہیں تھا لیکن میں گواہی دیتا ہوں کہ جماعت احمدیہ بہت اچھی جماعت ہے۔ کہتے ہیں یہاں قریب یا کچھ فاصلے پر ایک گاؤں پَورتَواَلیگری (Porto Alegre)ہے مَیں وہاں رہتا ہوں۔ کچھ عرصہ ہوا وہاں جماعت کے ذریعہ اسلام کا پیغام پہنچا ہے۔ اس گاؤں کے احمدیوں کا نام لے کر کہنے لگا کہ احمدی ہونے کے بعد ان کے اخلاق بہت اچھے ہو گئے ہیں۔ ہم نے جماعت میں صرف اور صرف اچھی باتیں ہی دیکھی ہیں ہم سب کو عیسائیت چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو جانا چاہیے۔ وہ عیسائی تھا نہیں بلکہ تھا ہی کہنا چاہیے کیونکہ موصوف نے اسی وقت اسلام احمدیت میں داخل ہونے کا اعلان کر دیا اور بیعت کر لی۔ اس کے بعد کئی اور لوگوں نے بھی اس کی بات سننے کے بعد اعلان کیا اور اس طرح اس جگہ بھی ایک نئی جماعت قائم ہو گئی۔

تنزانیہ کے معلم صاحب کہتے ہیں۔ ہمارا ایک تبلیغی وفد ایک گاؤں لُوھُوھا (Luhuha)میں پہنچا۔ وہاں ایک بھی احمدی نہیں تھا۔ پورے گاؤں میں صرف چند مسلمان تھے۔ وہاں ایک دوست عثمان صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہیں احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا۔ چند ملاقاتوں میں جماعت کے بارے میں علم حاصل کرنے پر انہوں نے بیعت کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کے بعد انہوں نے ہمیں گھر گھر دورہ کروایا۔ ایک جوش پیدا ہوا اس میں بھی تبلیغ کا اور آہستہ آہستہ اس قوم میں سے چند لوگ جماعت میں شامل ہو گئے۔ یہاں کے مسلمان نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے قریبی گاؤں جایا کرتے تھے۔ جب وہاں کے مسلمانوںکو علم ہوا کہ لوگ آہستہ آہستہ جماعت میں شامل ہو رہے ہیں تو انہوں نے اندر ہی اندر ان نومبائعین کو بھڑکانا شروع کر دیا۔ اس طرح دیگر مسلمانوں نے بھی تبلیغی کاموں میں رکاوٹ ڈالنا شروع کر دی۔ نماز سینٹر کے طور پر کسی مکان کو استعمال کرنے کی تجویز ہوئی تو انہوں نے یہ باتیں پھیلانا شروع کر دیں کہ گھر میں نماز نہیں ہوتی۔ نومبائعین نے مسجد کی تعمیر کے لیے ایک مناسب پلاٹ دیکھا تو ان نام نہاد مسلمانوں نے اس کے مالک سے بات کر کے وہاں بھی روک پیدا کر دی تا کہ مسجد کی جگہ نہ مل سکے۔ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس گاؤں میں احمدیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایک نئی جماعت کا قیام عمل میں آ گیا ہے۔ واقعات تو بے شمار ہیں جو اس وقت میں چھوڑتا ہوں۔

نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی مساجد

دورانِ سال جو مساجد جماعت کو بنانے کی توفیق ملی ان کی تعداد 135 ہے اور 76 بنی بنائی مساجد ہمیں عطا ہوئیں۔ اس طرح کل 211 مساجد ہیں۔ افریقہ میں سے گھانا میں سب سے زیادہ اکتیس مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔پھر سیرالیون ہے، نائیجیریا ہے، بینن ہے، تنزانیہ ہے اور اسی طرح بعض اَور ممالک ہیں۔

پرنسپِ جزیرے میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد

ساؤ تومے کے تین آباد جزیروں میں سے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ساؤ تومے جو جزیرہ ہے اس میں مساجد پہلے سے تھیں، قائم ہو چکی ہیں، بن چکی ہیں۔ اب اس سال دوسرے جزیرے پرنسپِ کے گاؤں پورتَورِیال (Porto Real)میں جماعت کی پہلی مسجد تعمیر ہوئی ہے۔ ایک عیسائی دوست مسجد کے افتتاح میں شریک ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے جزیرے پر پہلے کوئی مسلمان نہیں رہتا تھا۔ ہمیں میڈیا میں بتایا جاتا ہے کہ اسلام بہت برا مذہب ہے لیکن جب سے جماعت احمدیہ جزیرے پر آئی ہے تو ہمیں پتہ چلا ہےکہ اسلام ایک بہت اچھا اور پُرامن مذہب ہے۔ ہم سب یہاں مل کر رہیں گے اور اسی طرح اور بھی بہت سارے لوگوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔

بیلیز میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد،

مسجدنور تعمیر ہوئی ہے۔ یہ تقریباً دو ایکڑ رقبہ پر ہے۔ دسمبر 2019ء میں اس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ 220 لوگ اس مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ بڑی خوبصورت مسجد بنی ہے۔ مشنری آفس بھی ہے۔ مشن ہاؤس بھی ہے۔ لائبریری بھی ہے اور ایک کمرہ مہمانوں کے لیےگیسٹ ہاؤس بھی ہے۔ بیلیز شہر سے دو بڑی ہائی ویز نکلتی ہیں، ایک میکسیکو کی طرف جاتی ہے دوسری گوئٹے مالا۔ ہائی وے جنوبی بیلیز کی طرف جاتا ہے۔ مسجد نور جو ہے وہ گوئٹے مالا جانے والی ہائی وے پر واقع ہے اور سٹی سینٹر سے دو میل دور ہے۔ اس طرح جب گوئٹے مالا کی طرف سے بیلیز شہر میں آتے ہیں تو جو پہلا بڑا roundaboutہے اس سے ایک کلو میٹر دور ہے۔ جماعت اس roundabout پر اپنے سائن بورڈ بھی نصب کر رہی ہے اور مسجد وہاں سے نظر بھی آتی ہے۔ سینٹرل امریکہ میں گوئٹے مالا کے بعد یہ دوسرا ملک ہے جہاں جماعت کو باقاعدہ اپنی مسجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی۔ اس مسجد کی تعمیر کے لیے کینیڈا سے تین بھائی منصور صاحب، منظور صاحب اور فرید صاحب اور ایک چوتھے مدثر ہیں جو وہاں گئے تھے۔ انہوں نے والنٹیئر کیا ۔کینیڈا کی مسجد میں بھی انہوں نے تعمیر میں کافی حصہ لیا تھا اور کردار ادا کیا تھا۔ بہرحال وہ یہاں بیلیز میں آئے اور یہاں آ کے انہوں نے کام کیا۔ اس مسجد کا پہلے ڈیڑھ ملین یوایس ڈالرز تخمینہ لگایا گیا تھا۔ ان کے کام کرنے کی وجہ سے، والنٹیئر کرنے کی وجہ سے تقریباً سوا پانچ لاکھ ڈالرمیں یہ مسجد تعمیر ہو گئی اور بڑی خوبصورت مسجد بن گئی۔اس مسجد کی تعمیر میں لوکل لوگوں نے بھی بڑی قربانی دی ہے۔

امریکہ کے زائن (Zion)مقام پر ایک یادگار بنانے کا منصوبہ تھا۔

جماعت احمدیہ امریکہ زائن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کی صداقت میں ایک یادگار بنانے کی خواہش مند تھی۔ دو سال قبل وہاں دس ایکڑ زمین بھی خریدی گئی۔ ایک مسجد یہاں بنانے اور exhibition ہال بنانے کا پراجیکٹ تھا۔ اس پر قریباً چار ملین ڈالر لاگت کا اندازہ ہے۔ اللہ کے فضل سے یہ رقم جمع ہوئی۔ جماعت احمدیہ امریکہ کی لجنہ نے تقریباً پونے دو ملین ڈالرز جمع کر کے اس مسجد کی تعمیر کے لیے کہا ہے کہ اس کا خرچ ہم دیں گے۔ اس طرح امریکہ میں لجنہ اماء اللہ امریکہ یہ مسجد بنا رہی ہے اور کافی بڑی مسجد ہے۔ چھ ہزار مربع فٹ کی بیسمنٹ ہے۔ اسی سائز کا ایک فلور ہے۔ مردوں اور عورتوں کے نمازوں کے ہال ہیں۔ یہ

زائن شہر کی تاریخ میں پہلی مسجد

ہو گی۔پھر اسی طرح exhibitionہال وغیرہ بنیں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی اور فتح کی معلومات ڈیجیٹل سکرینوں پر بھی اس exhibitionہال میں دیکھی جا سکیں گی۔ منارة المسیح کی طرز کا ایک منارہ بھی پراجیکٹ میں شامل ہے۔ تو بہرحال یہ جماعت احمدیہ امریکہ کا ایک بڑا پراجیکٹ ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے کہ جلد مکمل کر لیں۔

مساجد کے تعلق میں واقعات

کے بارے میں بھی جماعتیں رپورٹیں لکھتی ہیں اور بھیجتی ہیں۔ امیر صاحب لائبیریا لکھتے ہیں کہ بُومی (Bomi)کاؤنٹی کی ایک جماعت میں مسجد کی تعمیر جاری تھی۔ لوکل معلم آدما صاحب احبابِ جماعت کو ساتھ لے کر مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں وقارِ عمل کر رہے تھے کہ ایک غیر احمدی امام کا وہاں سے گزر ہوا۔ اس نے پوچھا یہ مسجد کون بنا رہا ہے؟ ہمارے معلم نے اس کو بتایا کہ ہم احمدی ہیں اور میں جماعت کا مشنری ہوں اور یہ مسجد احمدیہ جماعت تعمیر کر رہی ہے۔ اس پر وہ غیر احمدی امام کہنے لگا: میں نے تو سنا ہے کہ احمدی کوئی اچھے مسلمان نہیں ہیں لیکن آپ تو بڑے جذبے سے مسجد کی تعمیر کر رہے ہیں۔ آپ مشنری ہیں اور خود لوگوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ معلم نے اس امام کو تفصیل سے جماعت کا تعارف کروایا تو امام کی دلچسپی بڑھی اور اس نے دعوت دی کہ آپ میرے علاقے میں آئیں تا کہ جماعت کے عقائد پر بات کی جا سکے۔ چنانچہ مقررہ تاریخ پر جب اس کے گاؤں گئے تو وہاں چار گاؤں کے نمائندگان اپنے اماموں کے ساتھ جمع تھے۔ انہیں تبلیغ کی گئی۔ جماعت کے عقائد تفصیل سے پیش کیے گئے اور سوال و جواب ہوئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چاروں اماموں نے اپنے لوگوں سمیت جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی اور 410 افراد نے بیعت کی اور نہ صرف بیعت کی بلکہ اسی مہینے سے چندے کے نظام میں بھی شامل ہو گئے۔

اسی طرح اس کے کچھ اَور واقعات بھی ہیں۔ جہاں بیعتیں ہوں وہاں میں نے ہدایت کی تھی کہ مسجدیں بھی چھوٹی چھوٹی بنا دیا کریں یا کم از کم نماز سینٹر بنایا کریں ۔ کانگو کنشاسا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ اس کے مطابق محض خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کانگو کنشاسا کو کئی جماعتوں میں چھوٹی چھوٹی مساجد بنانے کی توفیق مل رہی ہے اور ان مساجد کے لیے نومبائعین کا جوش قابل دید ہے اور یہ جوش و جذبہ پرانے احمدیوں کے ازدیاد ایمان کا باعث بنتا ہے۔

مسجد کی تعمیر میں مخالفت اور رکاوٹیں بھی ڈالتے ہیں۔ مخالفین مخالفت بھی کرتے ہیں۔ فلپائن کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ زمبوآنگا (Zamboanga)شہر میں مرکزی مسجد کی تعمیر کے لیے غیر احمدی مسلمانوں کی مخالفت کی وجہ سے اڑھائی سالوں سے حکومت کی طرف سے تعمیر کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ مسجد کی تعمیر کی اجازت کے سلسلہ میں مختلف اعتراض ہوتے رہتے اور حکومتی دوستوں سے یہی اطلاع ملتی رہی کہ اس کے پیچھے غیر احمدی علماء کی مخالفت ہے اور کئی دفعہ مشہور کر دیا گیا کہ مسجد کی تعمیر کی اجازت کی جو درخواست ہے وہ واپس لے کر یہی درخواست کمیونٹی سینٹر لائبریری کے نام سے جمع کروا دیں تو اجازت مل جائے گی، مسجد کی نہیں ملے گی۔ بہرحال کہتے ہیں آخری اعتراض یہ کیا گیا کہ مسجد سے امن عامہ میں نقص کا خدشہ ہے۔ اس بارہ میں رپورٹ کے لیے لوکل میئر نے شہر کے انٹرفیتھ کونسل کے سربراہ ایک اٹالین پادری ہیں ان کو رپورٹ بھجوانے کوکہا۔ اٹالین پادری گذشتہ پینتالیس سال سے فلپائن میں مقیم ہیں۔ اس رپورٹ پر پادری صاحب نے لکھاکہ میں جانتا ہوں کہ مسلمان علماء اس مسجد اور احمدیوں کے خلاف ہیں مگر میرے علم کے مطابق احمدیہ جماعت ایک پُرامن جماعت ہے۔ میں (زوننگ کے )قوانین کے بارے میں تو کچھ نہیں جانتا ،کچھ نہیں کہہ سکتا مگر میرے خیال میں انہیں اس علاقے میں مسجد بنانے کا پورا حق ہے کیونکہ باقیوں کو اگر مذہبی آزادی ہے تو پھر ان کو بھی حق ہے پھر۔ اس طرح بہرحال تعمیر کی اجازت مل گئی اور کام بھی شروع ہو گیا۔

مشن ہاؤسز اور تبلیغی مراکز میں اضافہ

اللہ تعالیٰ کے فضل سے دورانِ سال ایک سو تئیس (123)نئے مشن ہاؤسز کا اضافہ ہوا ہے۔ ان میں یہاں بھی پہلے نمبر پر گھانا ہے، پھر نائیجیریا ہے، سیرالیون ہے اور اس طرح بہت سارے دوسرے افریقن ممالک بھی ہیں اور یورپ کے ممالک بھی ہیں۔ رشیا کے ممالک بھی ہیں۔

میسیڈونیا کے شہر پِش چِیْوو (Pehcevo) میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے پہلے نماز سینٹر اور تبلیغی مرکز بیت الاحد کی تعمیر ہوئی ہے۔ یہاں پہلے جماعتی مرکز اور نماز سینٹر کی تکمیل مکمل ہو گئی ہے۔ اس کے سنگِ بنیاد میں دارالمسیح قادیان سے منگوائی ہوئی اینٹ نصب کی گئی۔ یہ اینٹ دعا کر کے مَیں نے ان کو بھجوائی تھی۔ یہ مرکز تین منازل پر مشتمل ہے۔ پہلی منزل میں لائبریری ہے۔ جماعتی کچن ہے۔ گیسٹ روم ہیں اور وضو کی جگہ ہے۔ نیز ایک سٹور اور ہاؤس ماسٹر کی رہائش ہے۔ دوسری منزل میں مسجد کا حصہ ہے۔ مردوں اور لجنہ کے لیے علیحدہ علیحدہ نماز کی جگہ ہے نیز لجنہ کی وضو کی جگہ ہے۔ تیسری منزل میں دفتر اور مبلغ کی رہائش ہے اور یہ بھی بڑی خوبصورت بلڈنگ بن گئی ہے۔

رقیم پریس اور افریقن ممالک کے جو مختلف احمدیہ پرنٹنگ پریس

ہیں ان میں بھی اللہ کے فضل سے اچھا کام ہو رہا ہے۔ فارنہم کی جو پریس ہے اس کے ذریعہ سے چھپنے والی کتب کی تعداد تین لاکھ پندرہ ہزار سے زائد ہے۔ رسالے اور پمفلٹ وغیرہ اس کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح دوسری دنیا کے ممالک کے پریس جو ہیں ان میں بھی کام ہو رہا ہے۔

وکالت تصنیف یوکے

کا جو کام ہے اس کے مطابق دوران سال قرآن کریم کا اٹالین ترجمہ ریوائز (revise)ہوا ہے اور طبع ہو چکا ہے۔ اس کی تیاری میں جماعت کینیڈا اور اٹلی نے بہت محنت کی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام

کی چار تصانیف، جنگ مقدس، سیرة الابدال، شہادة القرآن اور اتمام الحجہ جو ہیں ان کے انگریزی ترجمے کروا کے شائع کرائے گئے ہیں۔ اسی طرح ملفوظات کی تیسری جلد کا بھی انگریزی ترجمہ ہوا ہے۔ باقی کچھ کتابوں کے ترجمے ہو رہے ہیں۔ اسی طرح حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی کتابوں کے بھی ترجمے ہورہے ہیں اس سال شائع ہو جائیں گی۔ اسی طرح چینی لٹریچر میں عثمان چینی صاحب مرحوم کے حالات زندگی پر مشتمل ایک کتاب انہوں نے شائع کروائی ہے۔ اس دفعہ جو کتابیں شائع ہوئی ہیں ان کے مختلف تعارف ہیں۔

کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تبصرے اور بیعتیں

روحانی خزائن کی بھی تیئس کی تیئس جلدیں بڑی خوبصورت جلدوں میں شائع ہوئی ہیں۔ پرنٹنگ بھی بہت اچھی ہے اور جلد بھی بہت اچھی ہے اور قیمت بھی زیادہ نہیں۔ یہاں بک سٹال میں پتہ نہیں اس دفعہ انہوں نے انتظام کیا ہے کہ نہیں لیکن بہرحال یہاں کے بک سٹال سے وکالت اشاعت سے رابطہ کرکے یہ لی جا سکتی ہیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کے بعد بیعتوں کے واقعات بھی ہوتے ہیں۔

آسٹریلیا سے مربی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک آسٹریلین نوجوان گذشتہ ڈیڑھ سال سے زیرِ تبلیغ ہے۔ اسے ‘اسلامی اصول کی فلاسفی’ پڑھنے کے لیے دی جس کے کچھ روز بعد اس نے مجھے کہا کہ اس کتاب نے مجھے حیرت زدہ کر دیا ہے۔ انسان کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی حالت کے بارے میں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان کیا ہے میں تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا کہ میں یہ کتاب ایک دن میں ختم نہیں کر سکتا تھا۔ کہتے ہیں مَیں کتاب ایک دن میں ختم کر سکتا تھا لیکن ایسے مضامین بیان کیے گئے ہیں کہ مجھے ایک ایک صفحہ کئی کئی بار پڑھنا پڑتا تھا۔ اس کتاب نے مجھے اپنے بارے میں سوچنے اور ایک اچھا انسان بننے میں بہت مدد کی ہے۔

ایک غیر احمدی ڈاکٹر کو امیر صاحب فرانس نے کتاب ‘اسلامی اصول کی فلاسفی’ دی۔ اس نے کہا کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو آجکل کے حالات میں مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے لیے امن کا پیغام ہے۔ اب میرا دل آپ کے ساتھ چلنے کو کہتا ہے۔

کونگو سے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ بُکاوُوْا (Bukavu)اسمبلی کے سابق نائب اسپیکر کو ‘گورنمنٹ انگریزی اور جہاد’ کا تحفہ پیش کیا گیا۔ انہوں نے کتب ‘لائف آف محمد’ اور ‘گورنمنٹ انگریزی اور جہاد’، کا کچھ حصہ دیکھنے کے بعد بتایا کہ جہاد کے حوالے سے جس طرح حضرت بانی جماعت احمدیہ نے تشریح کی ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس نظریے کو تمام امت مسلمہ کو اپنانا چاہیے۔

وکالت اشاعت (طباعت)

کے وکیل کہتے ہیں کہ بانوے ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق دوران سال 384 مختلف کتب پمفلٹ اور فولڈر انتالیس (39)زبانوں میں چھتیس لاکھ اٹھاسی ہزار (3688000)کی تعداد میں طبع ہوئے جن میں عربی، بنگلہ، البانین، بوسنین، لتھوینین، لیٹوین، سواحیلی، کرونڈی وغیرہ بہت ساری زبانیں شامل ہیں۔

وکالت اشاعت (ترسیل)

کے مطابق جو کتابیں مختلف ممالک میں بھجوائی گئیں ان کی تعداد پچھتر ہزار سات سو پینتالیس (75745)ہے۔ اس کے علاوہ فری لٹریچر بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔ دنیا کے 90ممالک میں پانچ سو اکانوے (591)سے زائد ریجنل اور مرکزی لائبریریز کا قیام ہو چکا ہے جن کے لیے لندن اور قادیان سے کتابیں بھجوائی جاتی ہیں۔ قادیان میں بھی کافی لٹریچر چھپتا ہے۔

نمائشیں، بک سٹالز

کے ذریعہ بھی انیس سو ستر نمائشوں کی جو موصولہ رپورٹس ہیں ان کے مطابق ان نمائشوں میں شامل ہونے والے تقریباً پونے دو لاکھ افراد تھے۔ اس کے علاوہ دوہزار سات سو سینتالیس بک سٹالز اور بک فیئرز لگائے گئے اور بکثرت لوگ ان میں بھی شامل ہوئے۔

انڈیا میں گوہاٹی بُک فیئر کے موقع پر ایک نیپالی ہندو دوست نے ایک تبلیغی گفتگو کے دوران ایک ہندو دوست جو کہ پیشہ کے لحاظ سے ٹیچر ہیں ان کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ پہلے میں اسلام کو ایک سخت اور کٹر مذہب سمجھتا تھا لیکن جماعت احمدیہ سے جب مجھے اسلام کی حقیقی تعلیم کا پتہ چلا تو میرا ذہن بدلا۔ بُک فیئر کے ذریعہ سے جو لوگ اپنے خیالات بدلتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام کی جو پُرامن تعلیم ہے اسے لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے تا کہ ایسے لوگ جو اسلام کا نام سنتے ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں انہیں بھی حقیقی اسلام کا پتہ چلے۔ اسلام کی پرامن تعلیم کو دنیا تک پہنچانے کا کام صرف جماعت احمدیہ ہی کر رہی ہے۔

آسٹریلیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک بُک سٹال ختم ہونے والا تھا۔ ایک بڑی عمر کے بزرگ آسٹریلین آئے اور کہنے لگے کہ آپ کا طریقہ تبلیغ مجھے بڑا پسند آیا ہے۔ آپ اپنے عقائد زبردستی کسی پر ٹھونستے نہیں بلکہ اپنے کردار کے ساتھ اپنے مذہب کی خوبیاں پیش کر رہے ہیں جبکہ عیسائی اپنا دین ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی طرح آسام میں ، فجی میں اَور ملکوں میںبک فیئر ہوا وہاں کے بھی تاثرات ہیں۔

اسی طرح

لیف لیٹس (leaflets)تقسیم کیے گئے

جو 103 ممالک میں مجموعی طور پر انہتر لاکھ چوراسی ہزار (6984000)لیف لٹس تقسیم ہوئے اور اس کے ذریعہ سے ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ سے زائد افراد تک پیغام پہنچے۔ اس میں جرمنی سرفہرست ہے۔ پھر یوکے ہے، آسٹریلیا ہے، ہالینڈ ہے، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، فرانس، امریکہ وغیرہ ہے۔

تنزانیہ سے معلم صاحب لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں کالَوْ(Kalo)میں جماعت کی بہت مخالفت تھی۔ صورتحال ایسی بن گئی کہ وہاں تبلیغ کرنا بہت مشکل تھا مگر ایک دن ہم وہاں گئے اور جماعت کے تعارف پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کر کے واپس آ گئے۔ اگلے دن ایک آدمی نے فون کیا کہ آپ ہمارے گاؤں آئیں۔ ہم جماعت کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ہم وہاں گئے اور تبلیغ کی اور پانچ افراد بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شامل ہو گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے جس گاؤں میں مخالفت کی وجہ سے ہم سوچ رہے تھے کہ تبلیغ ممکن نہیں وہاں خدا تعالیٰ نے پمفلٹس کی تقسیم کے نتیجہ میں پانچ بیعتیں عطا کر دیں۔

برکینا فاسو، کوُپِیلا (Kupla)کے مبلغ کہتے ہیں کہ ایک تبلیغی پروگرام کے تحت ریجن کے ڈائریکٹر ایجوکیشن سے ریجن کے تمام سکولوں اور کالجوں میں اسلام احمدیت کے امن کے پیغام کو پہنچانے کی اجازت لی۔ چنانچہ تمام سکولوں اور کالجوں میں جماعتی پمفلٹس کی تقسیم ہوئی تبلیغ کا اہتمام کیا گیا۔ لیکن ایک کالج میں مسلمانوں کی ایک تنظیم نے حکومتی اجازت کے باوجود تبلیغ کرنے سے، پمفلٹ دینے سے روک دیا اور سخت مخالفت کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں خاص فضل فرمایا اور اس کے ساتھ والے دو کالجز سے چھ اساتذہ جس میں ایک کالج کے ڈائریکٹر بھی شامل تھے اس تبلیغی پروگرام سے متاثر ہو کر جلسہ سالانہ برکینا فاسو میں شامل ہوئے اور دوران جلسہ ایک کالج کے ڈائریکٹر نے جماعت میں شامل ہونے کا اعلان کیا اور تمام حاضرین جلسہ کے سامنے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ جلسہ کے اس ماحول کو دیکھنے کے بعد میں اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ آج میں عیسائیت چھوڑ کر احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آتا ہوں۔ لیف لیٹس کی تقسیم کے ذریعہ سے فرانس میں بھی بڑے رابطے ہوئے۔ نیپال میں بھی بک سٹالز وغیرہ کے ذریعہ سے فائدہ ہو رہا ہے۔

عربی ڈیسک

اس سال چھوٹی بڑی تیرہ کتب پرنٹنگ کے لیے بھجوائی گئیں۔ عربی زبان میں جو پمفلٹ تیار ہوا ہے اس کی تعداد 153 تھی جو تیرہ پمفلٹس کے بعد اب 166 ہو گئی ہے۔ روحانی خزائن جلد اکیس، براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد تئیس (چشمہ معرفت، پیغام صلح، ایام صلح)۔ پھر تفسیرکبیر جلد اول، تقدیرِ الٰہی، عرفانِ الٰہی، برکاتِ خلافت اور اسی طرح اور بہت سارا لٹریچر عربی میں بھی اللہ کے فضل سے شائع ہو رہا ہے۔

رشین ڈیسک

اللہ تعالیٰ کے فضل سے رشین ڈیسک کو گذشتہ گیارہ سال سے یہ توفیق مل رہی ہے کہ وہ خطبات کا باقاعدہ ترجمہ بھی کر رہا ہے اور پھر ٹرانسکرائب کر کے الفضل کے لیے بھی بھیجتا ہے اور یہاں بھی لٹریچر شائع ہو رہا ہے اور ساتھ کے ساتھ رشیا میں تقسیم بھی ہو رہا ہے۔

فرنچ ڈیسک

یہ بھی جہاں لٹریچر کا ترجمہ کر رہے ہیں۔ کتب کا ترجمہ کر رہے ہیں وہاں خطبات کا بھی ترجمہ کرتے ہیں اور دوسرے جو انتظامی کام ہیں ان میں بھی ترجمہ کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

پھر بنگلہ ڈیسک

ہے۔ ایم ٹی اے پر اکتالیس گھنٹے کے بنگلہ لائیو پروگرام ‘‘شوتیر شوندھائے’’ پیش کیے گئے۔ ان پروگراموں کے ذریعہ بنگلہ دیش اور مغربی بنگال میں 78 بیعتیں حاصل ہوئیں۔ اسی طرح یہ خطبات کا ترجمہ بھی کرتے ہیں اور لٹریچر کے ترجمہ میں بھی مدد کر رہے ہیں۔

چینی ڈیسک

ہے۔ انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی کتاب ‘اسلام اور عصرِ حاضر کے مسائل’ کا چینی ترجمہ کروایا ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی کتاب ‘ہمارا خدا’ کا ترجمہ کیا ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی کتاب ‘سیرت حضرت مسیح موعودؑ’ کا ترجمہ آخری مراحل میں ہے۔ ان شاء اللہ جلد شائع ہو جائے گا اور اس طرح یہ اور لٹریچر بھی ترجمہ کر رہے ہیں اور شائع کر رہے ہیں۔

انڈونیشین ڈیسک جو

ہے، اس میں بھی ترجمہ کا کام ہو رہا ہے۔ ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جلد اول کا ترجمہ نصف سے زائد ہو چکا ہے۔ باقی لٹریچر بھی یہ ترجمہ کر رہے ہیں۔ خطبات کا ترجمہ بھی کرتے ہیں۔

اور تڑکش ڈیسک جو

ہے۔ انہوں نے بھی دوران سال تراجم کر کے بعض کتب شائع کی ہیں۔ ان کتب میں پیغام صلح، ستارہ قیصریہ،تجلیات الٰہیہ،ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، معیار المذاہب، تحفہ قیصریہ وغیرہ کتابیں، اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ کی کتابیں اسلام میں اختلافات کا آغاز، حقیقةالرؤیا، تقدیرِالٰہی، ملائکةاللہ وغیرہ کے ترجمے کیے ہیں اور شائع ہوئی ہیں۔ پھر

سواحیلی ڈیسک

ہے۔ اس میں ایم ٹی اے افریقہ پر نشر ہونے والے تمام پروگراموں کا سواحیلی زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے اور قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ ریکارڈ کروایا جا رہا ہے۔ اسی طرح لٹریچر میں بھی یہ لوگ مدد کر رہے ہیں۔

سپینش ڈیسک جو

ہے۔ یہ جہاں سپینش زبان میں خطبات کا باقاعدہ ترجمہ کرتے ہیں وہاں یہ لٹریچر بھی ترجمہ کر رہے ہیں۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معیارالمذاہب، تحفہ قیصریہ، سچائی کا اظہار، تجلیات الٰہیہ، حجة الاسلام وغیرہ کتابیں اور اس کے علاوہ اَور بھی شامل ہیں۔ ان کی نظرِ ثانی دورانِ سال مکمل ہوئی ہے۔ ان شاء اللہ جلد شائع ہو جائیں گی۔

پھر پریس اور میڈیا آفس

ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام کر رہا ہے اور ان کے 102مضامین اور خبریں پریس میں شائع ہوئی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کے ذریعہ سے دو کروڑ سے زائد افراد تک جماعت کا پیغام پہنچا ہے۔ ریڈیو اور ٹیلیویژن پہ ان کے بہت سارے پروگرام ہوئے ہیں۔ صحافیوںسے ملاقاتیں بھی دوران سال انہوں نے کافی کی ہیں۔

پھر الاسلام ویب سائٹ

ہے۔ قرآنِ کریم سرچ کی نئی ویب سائٹ openquran.com کا آغاز ہوا اور یہاں جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر دوسرے ورشن کا افتتاح ہو رہا ہے۔ الاسلام پر قرآن کریم پڑھنے اور سننے کے لیے جدید دیدہ زیب readquran.app کا اجرا ہوا ہے۔ انگریزی زبان میں 316اور اردو زبان میں ایک ہزار کتب ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ انگریزی زبان میں چھ نئی کتب ایمازون (amazon)، گوگل (google)اور ایپل (Apple)پر شائع کی گئی ہیں۔ اب تک کل اکہتر کتب ان پلیٹ فارمز پر شائع ہو چکی ہیں۔ اردو اور انگریزی میں دس نئی آڈیو کتب تیار کی گئی ہیں۔ اس طرح اب تک اردو میں ستہتر(77) اور انگریزی میں چالیس کتب کی آڈیو فائلز تیار ہو چکی ہیں۔ خطباتِ جمعہ کا بھی ترجمہ ہوتا ہے۔ بیس زبانوں میں آڈیو اور ویڈیو دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ مختلف تقاریر پریس وغیرہ کی سٹیٹمنٹس پر کام یہ کر رہے ہیں۔ اللہ کے فضل سے کافی کام ہوا ہے۔

ایم ٹی اے انٹرنیشنل جو ہے

اس کے اللہ کے فضل سے آٹھ چینلز چوبیس گھنٹے نشریات پیش کر رہے ہیں جس میں مستقل عملہ بھی ہے اور والنٹیئرز بھی بہت سارے ہیں۔ ان چینلز پر اس وقت سترہ مختلف زبانوں میں رواں ترجمے نشر کیے جا رہے ہیں۔ جن میں انگریزی، عربی، فرانسیسی، جرمن، بنگلہ، سواحیلی، افریقن، انگریزی، انڈونیشین، ترکی، بلغارین، بوزنین، ملیالم، تامل، روسی، پشتو، ہسپانوی اور سندھی زبانیں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ گھانا کا ایم ٹی اے

بھی ہے۔ 15 جنوری کو ڈیجیٹل چینل گھانا کا افتتاح ہوا تھا اور اسی طرح وہاں گھانا میں بھی اب ایم ٹی اے کے ذریعہ سے کافی کام ہو رہا ہے اور سیٹلائٹ کے علاوہ عام انٹینا پہ بھی چینل دکھایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایم ٹی اے سے مختلف ٹی وی چینلز پروگرام لے کر اپنے چینلوں پر دکھاتے ہیں۔

ایم ٹی اے افریقہ

کافی وسعت اختیار کر گیا ہے جیسا کہ میں نے کہا۔ ایم ٹی اے افریقہ کے دو چینلز افریقن زبانوں میں ہمہ وقت نشریات پیش کر رہے ہیں۔ ایم ٹی اے افریقہ کی برانچز کی تعداد گیارہ ہو چکی ہے۔ مختلف سٹوڈیوز میں یوروبا اور ہاؤسا، چوئی اور سواحیلی، فرنچ اور کریول زبان میں پروگرام تیار ہوتے ہیں۔ اسی طرح وہاب آدم سٹوڈیو کو بھی اس سال اَپ گریڈ کیا گیا۔ گیمبیا کا سٹوڈیو بڑا اچھا کام کر رہا ہے۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ان کے پروگرامز دیکھ کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعتیں بھی ہوتی ہیں۔

کیمرون کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ یہاں دارالحکومت سے چالیس کلومیٹر دور ایک چھوٹا شہر ہے وہاں ایک دوست بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ میں کافی عرصہ سے یوٹیوب پر ایم ٹی اے دیکھ رہا تھا اور جماعت کی تعلیمات کا کافی علم ہے۔ جب میرا دل مطمئن ہو گیا کہ جماعت سچی ہے اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام امام مہدی اور مسیح موعود ہیں اور میرے ایک عزیز جو آئیوری کوسٹ میں رہتے ہیں وہ احمدی تو نہیں لیکن ان کو جماعت کا علم تھا۔ ان سے رابطہ کر کے پوچھا کہ یہ جماعت کیسی ہے تو انہوں نے بتایا کہ جماعت سچی ہے اور انہوں نےکیمرون میں ہمارے معلم سلمان کا نمبر دیا اور اب وہ بیوی بچوں سمیت جماعت میں شامل ہو گئے ہیں اور باقاعدگی سے خطبہ بھی سنتے ہیں۔

اسی طرح گیمبیا سے رپورٹ ہے ۔ لکھتے ہیں کہ ایک سابق منسٹر کہتے ہیں کہ میں نے آج تک ایسا چینل نہیں دیکھا جس کے پروگراموں کا معیار بہت ہی اعلیٰ اور پروفیشنل ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر جو پیغام اس چینل کے ذریعہ سے پھیلایا جا رہا ہے وہ اور بھی شاندار ہے۔ کہتے ہیں میں تو اپنے فارغ وقت میں صرف ایم ٹی اے دیکھتا ہوں۔

سیرالیون سے ایک نوجوان کہتے ہیں کہ میں نے امام جماعت کے مختلف پیس کانفرنسز سے خطابات سنے جن میں صرف اور صرف امن کا پیغام تھا۔ آج دنیا کو امن کی ضرورت ہے اس لیے میں نےاحمدیت کے بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ پھر کہتے ہیں کہ خلیفة المسیح کی یہ باتیں سننے کے بعد میرا مبلغ سے رابطہ ہوا۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے ہیں۔

اس وقت

جماعت احمدیہ کے ریڈیو سٹیشنز

کی تعداد ستائیس ہے جس میں مالی میں سترہ، برکینا فاسو میں چار، سیرالیون میں تین ہیں۔ اس کے علاوہ باقی ملکوں میں بھی ایک ایک دو دو ہیں۔ ان کے ذریعہ سے بھی بڑا تبلیغ کا کام ہو رہا ہے۔ ترکی زبان میں ‘‘صدائے اسلام’’ کے نام سے انٹرنیٹ ریڈیو کا قیام عمل میں آیا ہے۔ یہ بھی اب شروع کیا ہے۔ اچھا کام کر رہا ہے۔

دیگر ٹی وی اور ریڈیو پروگرامز

جو ہیں ان میں چوبیس گھنٹے کی نشریات کے علاوہ انہتر ممالک میں ٹی وی اور ریڈیو چینلز پر جماعت کو اسلام کا پُرامن پیغام پہنچانے کی توفیق ملی۔ اس سال پانچ ہزار اڑسٹھ (5068)ٹی وی پروگراموں کے ذریعہ ایک ہزار آٹھ سو ستہتر (1877) گھنٹے وقت ملا۔ اسی طرح ریڈیو سٹیشنز کے علاوہ مختلف ریڈیو سٹیشنز کے ذریعہ بھی سینتالیس ہزار آٹھ سو (47800)گھنٹے پر مشتمل دس ہزار آٹھ سو اکتیس (10831)پروگرام نشر ہوئے اور کہتے ہیں کہ ٹی وی اور ریڈیو کے ان پروگراموں کے ذریعہ سے محتاط اندازے کے مطابق تینتیس کروڑ سے زائد افراد تک پیغام پہنچا۔

احمدیہ ریڈیو کے ذریعہ سے قبول احمدیت کے واقعات

بھی ہو رہے ہیں۔ مالی سے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ جب بھی غیر از جماعت احباب سے افریقہ سے متعلق بات ہو تو وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ افریقہ میں لوگ اپنی کم علمی اور رغبت کے باعث جماعت میں داخل ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ تاثر سراسر غلط ہے۔ مثال کے طور پر سکاسو ریجن میں کچھ عرصہ قبل زکریا جاکیتے(Zakariay Diakite)صاحب کو بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ زکریا صاحب پیشے کے اعتبار سے ٹیچر ہیں اور انگریزی اور فرنچ زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ انہوں نے بیعت کے وقت بتایا کہ وہ گذشتہ سات سال سے ریڈیو احمدیہ کو سن رہے ہیں اور جماعت کے متعلق ہر زاویے سے تحقیق کرنے کے بعد بیعت کرنے آئے ہیں اور بتایا کہ آج دنیا کی سب سے بڑی حقیقت جماعت احمدیہ ہے۔

اسی طرح اس ریجن کے ایک گاؤں ویلینی (Welina)کے امام قاسم صاحب بیعت کر کے احمدیہ جماعت میں شامل ہوئے۔ وہ بیعت کرنے کے لیے احمدیہ مشن ہاؤس تشریف لائے اور بتایا کہ انہوں نے اپنی تعلیم مراکش میں مکمل کی ہے اور وہ عربی اور فرنچ زبان میں مہارت رکھتے ہیں اور ایک لمبا عرصہ ریڈیو احمدیہ سننے اور جماعت احمدیہ سے متعلق مکمل تحقیق کے بعد اب ان کے پاس بیعت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا۔

پھر مالی سے معلم صاحب کہتے ہیں کہ ایک شخص ہمارے مشن ہاؤس آیا اور بتایا کہ میں باقاعدگی سے آپ کا ریڈیو سنتا ہوں اور بیعت کرنا چاہتا ہوں اور یہ پڑھے لکھے تھے۔ یہ کہنے لگے کہ کوئی لٹریچر فرنچ زبان میں ہے تو وہ مجھے دیں تا کہ میں اس سے بھی استفادہ کروں اور اپنے ساتھیوں کو بھی دوں اور اس طرح وہ بیعت کرنے کے بعد لٹریچر بھی لے کے گئے۔ اسی طرح لوگوں میں ریڈیو سننے کے بعد، تربیتی پروگرام سننے کے بعد، خطبات سننے کے بعد اپنی حالتوں میں تبدیلی پیدا کرنے کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ تربیت بھی اس ذریعہ سے بڑی اچھی اعلیٰ رنگ میں ہو رہی ہے۔

امیر صاحب تنزانیہ کہتے ہیں کہ ریڈیو پروگراموں سے غیروں میں بھی تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔ ایک پڑھے لکھے دوست ماگویلا (Magwila)صاحب جو پیشے کے لحاظ سے انجنیئر ہیں ایک دن ریڈیو احمدیہ کے پروگرام سے متاثر ہو کر ہماری مسجد آ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ریڈیو احمدیہ کے پروگرام باقاعدگی سے سنتے ہیں اور خاص طور پر عقیدہ وفات مسیح کے بارے میں جماعتی موقِف حقیقت کے قریب معلوم ہوتا ہے۔ جماعت احمدیہ اسلامی تعلیمات کی جو تشریح پیش کرتی ہے وہ بڑی آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے اور اس دور کے بارے میں مسائل کا حل بھی پیش کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں میں احمدیہ ریڈیو سننا کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔

تحریکِ وقفِ نو

اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں واقفینِ نَو کی تعداد اب پچہتر ہزار پانچ سو بائیس (75522)ہے جس میں چوالیس ہزار چھ سو ستانوے (44697)لڑکے اور تیس ہزار آٹھ سو پچیس (30825)لڑکیاں ہیں۔ اس سال جو نئے واقفین شامل ہوئے ہیں ان کی تعداد دو ہزار آٹھ سو چھپن (2856)ہے۔ پندرہ سال سے زائد عمر کے واقفینِ نو کی تعداد چونتیس ہزار چھ سو بائیس (34622)ہے جس میں لڑکے بائیس ہزار اور لڑکیاں بارہ ہزار سے اوپر ہیں۔ پاکستان میں واقفین نو زیادہ ہیں۔ پھر جرمنی ہے۔ پھر یوکے ہے۔ پھر انڈیا اور پھر کینیڈا ہے۔

شعبہ مخزن تصاویر

کے تحت بھی تصویروں کا ریکارڈ رکھنے کا کام اچھا ہو رہا ہے۔

ریویو آف ریلیجنز

کا شعبہ ہے۔ اس کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے 119 سال ہو گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا اجرا فرمایا تھا۔ یہ رسالہ انگریزی میں ماہوار اور جرمن میں ہر دوسرے ماہ جبکہ فرنچ اور سپینش میں سہ ماہی شائع ہو رہا ہے۔ یہ رسالہ چار مختلف زبانوں میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ ستانوے ہزار کی تعدادمیں پرنٹ ہوا۔ اس کی ویب سائٹ بھی ہے۔ دوران سال دولاکھ پچاس ہزار سے زائد مرتبہ ریویو آف ریلیجنز کی ویب سائٹ کو دیکھا گیا اور انسٹاگرام اور ٹوئٹر اور فیس بک کے ذریعہ پانچ ملین افراد تک رسائی حاصل ہوئی۔ یوٹیوب چینل کے ذریعہ ستاسی ہزار سبسکرائبرز ہیں اور اس سال دو ملین سے زائد مختلف ویڈیوز کو دیکھا گیا تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت کام کر رہا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ کی بعض کتابیں بھی اس میں شائع ہو رہی ہیں۔ انہوں نے ایک God Summit بھی آرگنائز کیا تھا۔ اس کے بھی بڑے اچھے نتائج آئے اور لوگ بڑے متاثر ہوئے۔ انہوں نے اپنے بڑے اچھے فیڈ بیک دیے کہ پروگرام دیکھ کے ہمیں خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین پیدا ہوا ہے۔پھر

الفضل انٹرنیشنل

ہے۔ یہ 27 مئی 2019ء سے ہفتہ میں دو روز شائع ہو رہا ہے اور اس میں خطبات اور باقی مضامین شائع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بھی اچھا ترقی کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ سے بھی اس کو پڑھا جا رہا ہے۔

الحکم

ہفت روزہ ہے۔ اس کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ کافی دیکھا جا رہا ہے، پڑھا جا رہا ہے اور انگریزی دان نوجوان اس اخبار سے خوب استفادہ کر رہے ہیں۔ یہ بھی اچھا کام کر رہے ہیں۔ مضامین بھی ان کے اچھے علمی ہوتے ہیں اور تاریخی بھی ہوتے ہیں۔

اخبارات میں جماعتی خبروں کے مضامین کی جو اشاعت

ہوئی وہ مجموعی طور پر دو ہزار اکیس (2021)اخبارات نے تین ہزار دو سو چوہتر (3274)جماعتی مضامین اور آرٹیکلز شائع کیے جو مجموعی طور پر تقریباً تینتیس کروڑ سے زائد افراد تک پہنچے۔

احمدیہ آرکائیوز اینڈ ریسرچ سینٹر

ہے۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے تاریخی کام اور تاریخی مواد جمع کیا جا رہا ہے۔ کافی اچھاکام ہو رہا ہے اور مسلمانان ہند کے لیے جماعت احمدیہ کی جو خدمات ہیں ان کا بھی اس میں ذکر ہے۔ اس کے بارے میں بھی یہ کام کر رہے ہیں۔ کافی تحقیق کر رہے ہیں۔

مرکزی شعبہ آئی ٹی

بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام کر رہا ہے اور یہ آئی ٹی کے شعبہ کو مختلف دفاتر میں آرگنائز کرنے کا کام کر رہے ہیں۔

انٹرنیشنل عربک انگلش ٹرانسلیشن ڈیسک

ہے۔ یہ بھی اللہ کے فضل سے انگریزی سے عربی میں لٹریچر اور کتابیں اور ترجمہ کر رہے ہیں ا ور عربی سے انگلش میں ترجمہ کر رہے ہیں اور انہوں نے بھی کافی اچھا کام کیا ہے۔ بعض لٹریچر اور عربی کتب کا انگلش میں جو ترجمہ ہو رہا ہے اس میں یہ معاونت بھی کرتے ہیں۔

مرکزی شعبہ AMJ

کے تحت بھی ہمارے انجنیئرز اور آرکیٹکٹ مختلف مشنوں میں جا کے ان کی راہنمائی کرتے ہیں۔ اچھا کام کر رہے ہیں۔

انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹکٹس

یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں خاص طور پر افریقن ممالک میں Water for life کا اور سولر سسٹم کا اور افریقہ میں ماڈل ولیجز کا یہ بڑا اچھا کام کر رہی ہے۔ بعض دوسری چیریٹی آرگنائزیشن کے ساتھ مل کے یا دوسرے کمپنیوں کے ساتھ مل کے انہوںنے اللہ تعالیٰ کے فضل سے نلکے لگانے، دوسرے کام کرنے کا اور خدمت خلق کا کافی کام کیا ہے۔

مجلس نصرت جہاں

جو ہے۔ اس کے بارہ ممالک میں سینتیس ہسپتال اور کلینک کام کر رہے ہیں۔ ان ہسپتالوں میں انچاس (49)مرکزی اور چودہ (14)مقامی ڈاکٹرز خدمت انجام دے رہے ہیں۔ گیارہ ممالک میں پانچ سو ترانوے (593)ہائر سیکنڈری سکولز اور جونیئر سیکنڈری سکولز اور مڈل سکولز، پرائمری سکولز کام کر رہے ہیں۔ یہاں بھی اکیس مرکزی اساتذہ کام کر رہے ہیں۔

انصار اللہ (یوکے) نے برکینا فاسو میں ایک

مسرور آئی انسٹی ٹیوٹ

کی تعمیر کی ہے جو عنقریب ان شاء اللہ کام شروع کر دے گا۔ یہ بھی بڑی خوبصورت بلڈنگ ہے اور بڑے اچھے انتظامات کے تحت تمام سہولیات کے ساتھ انہوں نے یہ ہسپتال بنایا ہے۔

ہیومینٹی فرسٹ

کے تحت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا کام ہو رہا ہے۔ دنیا کے ساٹھ ممالک میں رجسٹرڈ ہو چکی ہے اور ہنگامی حالات میں بھی مختلف ملکوں میں یہ بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ آنکھوں کے فری آپریشن بھی ان کے ذریعہ سے ہو رہے ہیں۔فری میڈیکل کیمپس بھی لگ رہے ہیں۔ خون کے عطیات بھی ان کے ذریعہ سے دیے جا رہے ہیں۔ چیریٹی واک میں بھی انہوں نے کافی کام کیا ہے اور اللہ کے فضل سے جب غریب ملکوں میں جا کے یہ مدد کرتے ہیں چاہے وہ آنکھوں کے آپریشن ہیں یا پانی کی فراہمی ہے یا دوسرے کام ہیں اس سے لوگوں کو جو خوشی ہوتی ہے وہ دیکھنے کے قابل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ان کو مزید کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔پھر مختلف طبقوں میں جا کے یہ تحفے تحائف بھی دیتے ہیں جہاں قیدی بھی شامل ہیں۔

نومبائعین سے رابطے اور بحالی

جو ہے۔ دوبارہ واپس آنا یا دوبارہ تعلق واسطہ پیدا ہونا جو ایک لمبا عرصہ عدم رابطہ کی وجہ سے ختم ہو گیا تھا۔یا کسی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے تھے اس میں نائیجیریا نے اس سال زیادہ کام کیا ہے۔ پھر مالی میں ، سیرالیون میں، سینیگال میں، کیمرون، آئیوری کوسٹ وغیرہ میں کام ہوا ہے۔

نومبائعین کے لیے تربیتی کلاسز اور ریفریشر کورسز

کا انعقاد کیا گیا۔ چھ ہزار سات سو پینسٹھ (6765)جماعتوں میں نومبائعین کے لیے تیس ہزار سات سو پچپن (30755)تربیتی کلاسز منعقد کی گئیں۔ ان میں شامل ہونے والوںکی تعداد ایک لاکھ اٹھارہ ہزار ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہزار سے زائد اماموں کو تربیت بھی دی گئی۔

اس سال ہونے والی بیعتوں کی تعداد

کووِڈ کی وجہ سے کھل کے تبلیغ تو باہر جا کے ہو نہیں سکتی تھی۔ بہت ساری پابندیاں تھیں۔ گذشتہ سال بھی یہ پابندیاں تھیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ پچیس ہزار دو سو اکیس (125221) بیعتیں عطا فرمائی ہیں جو گذشتہ سال کی نسبت تیرہ ہزار سے زائد ہیں۔ اس سال سب سے زیادہ بیعتیں گنی کناکری میں ہوئی ہیں جو پچیس ہزار سے زائد ہیں۔ پھر کیمرون ہے۔ پھر سیرالیون ہے۔ پھر سینیگال ہے۔ پھر تنزانیہ، کانگو کنشاسا اور برازاویل میں ہیں۔ لائبیریا، مالی، گنی بساؤ، برکینا فاسو، آئیوری کوسٹ، گیمبیا، بینن، گھانا، نائیجر، سینٹرل افریقن ریپبلک، چاڈ، یوگنڈا، ٹوگو، کینیا، ساؤ تومے، مڈغاسکر، زمبابوے اور اس کے علاوہ برونڈی، ملاوی،روانڈا،زیمبیا، صومالیہ، نائیجیریا، ایکویٹوریل گنی، ایتھوپیا، ماریشس، مصر، گیبون، موریطانیہ، جنوبی افریقہ، مایوٹ آئی لینڈ اور سوازی لینڈ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعتیں ہوئی ہیں۔ انڈیا میں بھی اللہ کے فضل سے بیعتیں ہوئی ہیں۔ انڈونیشیا میں، بنگلہ دیش میں، نیپال میں، ازبکستان اور رشیا میں بھی، قازقستان اور ترکی میں بھی چند چند افراد نے بیعتیں کی ہیں۔ تاجکستان،کمبوڈیا، سنگاپور، تھائی لینڈ، چائنا، افغانستان، جارجیا، ہانگ کانگ، جاپان اور سری لنکا بھی ان ممالک میں ہیں۔ یورپین ممالک میں جرمنی میں، فرانس میں، ناروے میں، آسٹریا میں، ہالینڈ میں، بیلجیم،اٹلی، ڈنمارک، البانیا، یونان، آئرلینڈ، کوسووو، رومانیا اور نارتھ امریکہ میں امریکہ میں بیعتیں ہوئی ہیں، کینیڈا اس کے بعد ہے، پھر ٹرینی ڈاڈ، انٹی گوا(Antigua)، ہیٹی، میکسیکو، گوئٹے مالا، بیلیز، کیوبا، گواڈی لوپ، جمیکا، ہونڈوروس، کیمن آئی لینڈ، ایلسلواڈور، پورتو ریکو میں بیعتیں ہوئی ہیں۔ ساؤتھ امریکہ میں فرنچ گیانا میں، گیانا، برازیل، ارجنٹائن، ایکواڈور، پیراگوئے، بولیویا، چلی میں، سورینام اور آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ساؤتھ پیسفک میں فجی میں اس سال بیعتیں ہوئیں۔ پھر آسٹریلیا، کیریباتی، نیوزی لینڈ، سولومن آئی لینڈ اور بعض عرب ممالک میں بھی بیعتیں ہوئیں۔

بیعتوں کے ضمن میں بعض واقعات

بھی لکھے جاتے ہیں۔ رشیا کے مبلغ لکھتے ہیںکہ گذشتہ سال یہاں ایک دوست سکندر صاحب سے رابطہ ہوا۔ یہ رشین ہیں۔ ان کا احمدیت کے بارے میں کافی مطالعہ ہے۔ اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کا بھی مطالعہ ہے۔ ان کو 23؍ نومبر 2020ء کو بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ انہیں شروع میں کہا گیا کہ آپ خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو صداقت کا کوئی نشان دکھائے۔ کہنے لگے میں نشان نہیں چاہتا۔ میں تو حضرت ابوبکرؓ کی طرح اعلیٰ ایمان مانگتا ہوں۔ چنانچہ وہ بیعت کر کے شامل ہو گئے۔

اسی طرح میکسیکومیں ایک نوجوان کئی سال سے اسلام احمدیت کے بارے میں معلومات حاصل کر رہے تھے۔ ان کی والدہ کچھ سال پہلے احمدی ہو چکی تھیں۔ ایک دن ان سے اسلام کے بارے میں بات ہو رہی تھی تو ایک دوسوالوں کے بعد انہوں نے اچانک کہا کہ میں احمدی مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ کئی سال سے وہ اسلام کے بارے میں سیکھ رہے تھے۔ ایک وقت تھا کہ وہ دہریہ ہو چکے تھے لیکن اسلام نے ان کے تمام خدشات دور کر دیے ہیں۔ یہ نوجوان ہیں۔ چنانچہ وہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے۔

رشیا کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں ایک پچیس سالہ نوجوان دینی امور میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ راہ حق کی تلاش میں انٹرنیٹ اور ذاتی کوشش کے ذریعہ مختلف گروہوں اور فرقوں میں جا کے معلومات لیتے رہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی ان سے 2019ء میں رابطہ ہوا۔ انٹرنیٹ پر جماعت احمدیہ کے بارے میں جو غلط باتیں پھیلائی جاتی تھیں ان کا انہیں جواب دیا گیا۔ ان کو لٹریچر بھی مہیا کیا گیا۔ خطبات سننے کی طرف بھی توجہ دلائی گئی۔ ایک سال سے کچھ اوپر عرصہ تک ان سے مسائل کے ساتھ بات ہوتی رہی۔ اس بات کا بھی اظہار کرتے رہے کہ جو تحقیق ابھی تک میں نے کی ہے اس کے مطابق جماعت احمدیہ ہی حقیقی اسلام کی نمائندہ جماعت ہے لیکن بیعت کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ چنانچہ انہیں دعا کی طرف توجہ دلائی گئی کہ شرح صدر تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس لیے آپ دعا کریں۔ چنانچہ کچھ ماہ دعاؤں اور غور و فکر کے بعد رسلن (Ruslan) صاحب نے رابطہ کر کے بتایاکہ علمی لحاظ سے مجھے تسلی ہے اور دعا کرنے پر کوئی انقباض پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے میں بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کرتا ہوں۔

قرغیزستان سے بھی اسی طرح ایک دوست ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں ایک احمدی نوجوان کو بچپن سے جانتا ہوں۔ وہ میرا ہمسایہ ہے۔ ہم ایک ساتھ بڑے ہوئے۔ اس سال رمضان کے مہینے میں مَیں نے اسے پوچھا کہ وہ ہماری مسجد میں کیوں نہیں آتا۔ یہ تَلَنْت بَیکو (Talantbekov)صاحب قرغیزستان کے مسلمان ہیں۔ اس نے کہا کہ جب وقت آئے گا تو میں بتا دوں گا۔ پھر رمضان کے ایک مہینے کے بعد ‘‘باقی’’ میرے پاس آیا۔ اس لڑکے کا ‘‘باقی’’ نام ہے اور کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ میں سب کچھ بتا دوں۔اس طرح اس نے مجھے احمدیت کے بارے میں سب کچھ سمجھایا اور قرآن پاک سے ثابت کر دیا کہ احمدیت حقیقی اسلام ہے۔ اس پر میں نے حضرت مرزا غلام احمد امام مہدی علیہ السلام کو سچا مان کر آپ علیہ السلام کی بیعت کر لی۔ یہ بھی قرغیزستانی ہیں۔

اسی طرح سینٹرل افریقہ کی رپورٹ ہے۔ مالی کے واقعات ہیں۔ پھر مختلف ملکوں کے ہیں۔ مراکش، سیریا، الجزائر سے بھی ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے واقعات لکھے ہیں۔ الجزائر کی ایک خاتون رمینی صاحبہ کہتی ہیں۔ رشتہ داروں میں سب سے پہلے بیعت میرے بہنوئی نے کی۔ ہم جب ان کے گھر جاتے وہاں ایم ٹی اے العربیہ دیکھنے کی دعوت دیتے اور جب دوبارہ ملنے جاتے تو جماعت کے بارے میں ہم سے پوچھتے۔ میں ان دنوں ٹی وی بہت کم دیکھتی تھی لیکن ان کی وجہ سے میں نے کبھی کبھی ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا پھر جماعت احمدیہ کی تعلیمات، اس کی بلا تفریق رنگ و نسل لوگوں سے محبت اور خدمت خدمت خلق کے کام اور اسلام کے مسلسل دفاع اور تعلق، خدا تعالیٰ کی صفات کے عظیم بیان اور قرآن کریم کی پرحکمت تفسیر کو دیکھ کر یہ جماعت مجھے اچھی لگی۔ اسی دوران حضرت سلمان فارسی ؓکا واقعہ یاد آیا کہ کیسے آگ کی عبادت سے نکل کر خدائے واحد کے پرستار بن گئے تھے۔ یہ سب کچھ تدریجاً ہوا کیونکہ پہلے انہوں نے اپنے وطن اور مال و دولت چھوڑا اور اللہ والوں کی صحبت اختیار کی۔ خیر حضرت سلمان فارسیؓ کا واقعہ بیان کرتی ہیں کہ پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے در پہ آ گئے اور پھر بیعت کی۔ کہتی ہیں کہ بہرحال بیعت کا فیصلہ میرے لیے اس وجہ سے بھی آسان ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کے زمانے میں جماعت کے ساتھ شامل ہونے کی نصیحت کی ہوئی تھی اور کسوف و خسوف والی حدیث کا پورا ہونا بھی مسیح موعود کی نشانی تھی۔ سمجھ آگئی کہ حیات مسیح کا عقیدہ شرک ہے۔ لہٰذا نزول کی حدیثوں کی تاویل ضروری ہے۔ بہرحال خدا کے فضل سے استخارے کے بعد انہوں نے بیعت کر لی۔ اسی طرح اور بہت سے واقعات ہیں۔

رؤیا ئے صادقہ

کے ذریعہ سے لوگ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ ارجنٹائن سے مربی مروان صاحب لکھتے ہیں کہ جان (Juan)صاحب نے امسال بیعت کی۔ ان کا تعلق بوینس (Buenos)کے صوبہ سے ہے۔ انہوں نے عیسائی پریسٹ (Priest)بننے کے لیے اپنی زندگی وقف کی تھی لیکن تعلیم کے دوران عیسائی تعلیمات پر ان کے شکوک و شبہات اس قدر بڑھ گئے کہ ان کو چار سال بعد seminary courseچھوڑنا پڑا۔ عیسائی مذہب میں تسلّی بخش جوابات نہ ملنے پر انہوں نے دیگر مذاہب کا مطالعہ شروع کیا اور ان کی دلچسپی اسلام اور قرآن کریم میں بڑھتی گئی۔ جب انہوں نے قرآنِ کریم حاصل کرنے کے لیے مختلف اسلامی فرقوں سے رابطہ کیا تو جماعت احمدیہ سے ان کا پہلا تعارف اور رابطہ ہوا اور انہیں مشن ہاؤس آنے کی دعوت دی گئی۔ جب مشن ہاؤس پہنچے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر پہلی مرتبہ دیکھی تو فوراً اس پر سوالات شروع کر دیے۔ کہتے ہیں مَیں نے کوشش کی اور مناسب سمجھا کہ پہلے اسلام کے بنیادی عقائد سے ان کو آگاہ کروں لیکن ان کا صرف اصرار تھا کہ پہلے ان کو مسیح موعود علیہ السلام کا تعارف کرایا جائے۔ چنانچہ ان کو تفصیل سے بتایا کہ آپؑ وہی مسیح موعود ہیں جن کی آمد کی پیشگوئی تمام مذاہب میں موجود ہے۔ اس موقع پر انہوں نے مزید اظہار نہیں کیا اور واپس چلے گئے۔ کچھ ہفتوں کے بعد کہتے ہیں دوبارہ رابطہ کیا کہ وہ کچھ ہفتوں سے مسلمان ہو چکے ہیں اور اب بیعت بھی کرنا چاہتے ہیں۔تو (مربی صاحب) کہتے ہیں میں نے ان کو مشورہ دیاکہ مزید تحقیق کر لیں لیکن انہوں نے بتایا کہ میری تسلی اس دن ہو گئی تھی جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھی تھی کیونکہ تصویر سے میرا پہلے سے ایک واسطہ ہے اور جب میں نے ان کی تصویر دیکھی تو مجھے یقین ہو گیا کہ خدا تعالیٰ تک پہنچانے کا یہ راستہ مجھے جماعت احمدیہ کے توسط سے ہی ملنا ہے۔ موصوف نے بتایا کہ دو سال قبل جب یہ حق کی تلاش اور شدید جستجو میں تھے تو ایک دن انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص انہیں امن اور اطمینان حاصل کرنے کے ذرائع بیان کر رہا ہے اور بار بار بتا رہا ہے کہ اگر تم امن چاہتے ہو تو میری نصائح پر عمل کرو۔ کہنے لگے اس عرصہ میں نہ تو میری اسلام سے براہِ راست واقفیت تھی اور نہ ہی میں اس شخص کے بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکا کیونکہ میرے لیے یہ ایک اجنبی تھا لیکن جب میں مشن ہاؤس آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھی تو فوراً مجھے میری وہ خواب یاد آ گئی کیونکہ یہ وہی شخص تھے جو دوسال قبل مجھے خواب میں نصائح کر رہے تھے اور دعوت دے رہے تھے۔ چنانچہ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ حق کی تلاش میں اب میں اپنی منزل مقصود پر پہنچ گیا ہوں چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی۔ بہرحال بیعت کے بعد ان کی فیملی کی مخالفت بھی ہوئی۔ ان کے والد بڑے سٹرکٹ (strict)قسم کے عیسائی ہیں، کٹر عیسائی ہیں۔ انہوں نے ان سے قطع تعلق کر دیا بہرحال یہ کہتے ہیں کہ اب تو میری روحانی فیملی بن گئی ہے۔ میری جسمانی فیملی نہ بھی ہو تو فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح اور بہت سارے واقعات ہیں۔

کیمرون کے معلم صاحب لکھتے ہیں کہ ایک شخص محمد صاحب باقاعدگی سے ایم ٹی اے دیکھتے ہیں۔ ایک جمعہ انہوں نے جب میرا خطبہ ایم ٹی اے پہ سنا۔ اس میں حضرت عثمانؓ کی شہادت کا ذکر جو ہوا کہ کس طرح مشکلات اور تکلیف میں سے حضرت عثمانؓ گزرے تھے تو محمد صاحب نے کہا کہ اس خطبہ سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسلام کے شروع زمانہ میں بھی صحابہ کرام اور خلفاء نے بڑی مشکلات کا سامنا کیا۔ اس نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ پھر وہ یومِ مسیح موعود کے پروگرام میں شامل ہوئے اور جاتے ہوئے ظہور امام مہدی علیہ السلام کے پمفلٹس ساتھ لے گئے۔ کہتے ہیں کہ یہ پمفلٹ پڑھ کے مجھے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق جستجو پیدا ہوئی۔ میں نے خدا تعالیٰ سے راہنمائی کے لیے دعائیں شروع کر دیں اور ایک رات میں نے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ آپؑ مجھے فرماتے ہیں کہ یہی سیدھا راستہ ہے۔ اس رات میں سمجھ گیا کہ یہ جماعت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور مجھے بیعت کر لینی چاہیے۔ چنانچہ اگلے دن انہوں نے بیعت کر لی۔ تو اس طرح کے واقعات اللہ کے فضل سے بےشمار ہیں۔ افریقہ کے بھی، رشیا کے بھی، یورپ کے بھی۔ وقت کافی ہو گیا ہے اس لیے اب میں ختم کرتا ہوں۔ آئندہ کسی وقت یہ واقعات بیان ہو جائیں گے۔

مخالفین کے پروپیگنڈے کے نتیجہ میں بھی بیعتیں

ہوتی ہیں۔ ایک خاتون سمنتھا (Samantha)صاحبہ نے میکسیکو میں بیعت کی۔ ان کا کہنا ہے کافی سالوں سے وہ مختلف مشکلات کی شکار تھیں۔ بالآخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں خدا کی ضرورت ہے اور مختلف مذاہب کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا کہ اسلام ہی سچا مذہب ہو سکتا ہے۔ آن لائن کئی مسلمان دوست بنائے۔ ایک دن جماعت سے رابطہ کیا اور مسجد آنا شروع کیا۔ ان کے دوستوں نے اسے منع کیا اور جماعت احمدیہ کے خلاف کئی باتیں ان سے کیں۔ مقامی سنی جماعت کے ساتھ بھی انہوں نے رابطہ کیا لیکن ان کے گرے ہوئے اخلاق، سخت دلی اور اسلامی تعلیمات سے دور پا کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان کے احمدیت کے خلاف اعتراضات بھی جھوٹے ہیں اور حقیقی اسلام صرف احمدی جماعت میں ہی نظر آتا ہے۔ اس طرح انہوں نے اپنے تمام غیر احمدی دوستوں سے بات کرنا چھوڑ دی اور مخالفت کی وجہ سے بھی بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئیں۔

اسی طرح امیر صاحب گیمبیا بھی لکھتے ہیں۔ ایک دوست یحیٰ سیسے (Yaya Ceesay)صاحب سے ان کی ملاقا ت ہوئی۔ انہوں نے گاؤں کے لوگوں کو جمع کیا اور ہم نے انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی روشنی میں اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ اس پر وہ صاحب کہنے لگے کہ آپ لوگوں کے یہاں آنے سے پہلے بعض غیر احمدی یہاں آئے تھے اور انہوں نے جماعت کے خلاف باتیں کیں۔ اس پر مَیں نے انہیں کہا کہ میں جماعت احمدیہ کے بارے میں زیادہ تو نہیں جانتا لیکن مجھے اتنا علم ہے کہ وہ لوگ آپ لوگوں سے زیادہ بہتر مسلمان ہیں۔ ابھی ہم وہاں موجود تھے کہ کسی نے مخالفین جماعت کو ہمارے اس گاؤں میں پہنچنے کی اطلاع دے دی۔ جس پر ایک مخالف نے ان صاحب کو فون کر کے کہا کہ احمدی نہ ہو جانا۔ ان سے بچ کے رہنا۔ اس پر سیسے صاحب نے ان کو بتایا کہ مجھے تو احمدیوں میں کوئی غلط بات نظر نہیں آئی۔ انہوں نے تو اپنے دلائل قرآن کریم سے دیے ہیں۔ اس لیے میں تو جماعت احمدیہ کو قبول کر رہا ہوں۔ بہرحال مخالفین کو بھی دعوت دی کہ وہ آ کر اپنے دلائل پیش کر سکتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی نہیں آیا۔ چنانچہ یہ صاحب دس دیگر احباب کے ساتھ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے۔پھر

نشانات دیکھ کر لوگ بیعت میں شامل ہوتے ہیں۔ احمدیوں کا نمونہ دیکھ کے لوگ بیعت کرتے ہیں۔ پھر مختلف ویب سائٹس کے ذریعہ سے جو ہمارے خلاف بولا جاتا ہے اس کو سن کے لوگ بیعت کر لیتے ہیں۔ نومبائعین جو ہیں ان کو احمدیت چھوڑنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔انڈونیشیا کے مانسلور (Manislor)جماعت کے صدر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک ٹوفو فیکٹری کا ملازم زیر تبلیغ تھا۔ احمدیت کی سچائی جاننے کے بعد اس نے احمدیت بیعت کر لی۔ کچھ دن بعد فیکٹری کے افسرکو پتہ چلا کہ یہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا ہے تو اس نے اسے کہا کہ یا احمدیت چھوڑ دو یا فیکٹری چھوڑ دو تو اس نومبائع نے مضبوطی سے جواب دیا کہ وہ احمدیت کا انتخاب کرے گا اور اس نے فیکٹری چھوڑ دی۔ اب خدا کی تقدیر اس طرح ظاہر ہوئی کہ کچھ ماہ بعد وہ فیکٹری دیوالیہ ہو گئی اور دوسری طرف اس نومبائع نے اپنی ٹوفو کی فیکٹری لگا لی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اس طرح یہ نشان دکھایا۔

پھر بعض کہتے ہیں کہ ہمارے (اندر)

احمدیت قبول کرنے کے بعد غیر معمولی تبدیلیاں

بھی پیدا ہوئی ہیں۔ کیریباتی کے ایک معلم ہیں جو احمدیت قبول کرنے سے پہلے وہاں مار کٹائی اور دیگر کاموں میں بڑے مشہور تھے اور لوگ ان سے بڑے خوفزدہ رہتے تھے۔ بہرحال اسلام قبول کر لیا۔ ان کی زندگی یکسر بدل گئی۔ کہتے ہیں جہاں ہماری مسجد بنی ہے وہاں ایک دن ایک شخص شراب پی کر اسلام کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور گالی گلوچ کر رہا تھا۔ چونکہ یہاں کے رواج کے مطابق چاردیواری نہیں ہوتی اس لیے مسجد کے صحن میں اس وقت معلم صاحب نماز پڑھا رہے تھے۔ جب معلم صاحب نے سلام پھیرا تو اس کی نظریں معلم صاحب سے ملیں اور وہ وہاں سے بھاگ گیا۔ اگلے دن دوبارہ مسجد میں آیا اور معلم سے کہنے لگا کہ آپ تو اپنے علاقے میں بڑے مشہور تھے اور لوگ آپ سے ڈرتے تھے۔ بڑے بدمعاش قسم کے انسان تھے۔ یہ کیا دیکھ رہا ہوں کہ آپ نمازیں پڑھا رہے ہیں۔ پہلے تو میں ڈر گیا کہ اب میرا کیا حال ہو گا لیکن آپ کا صبر اور تحمل دیکھ کے مجھے پریشانی بھی ہوئی کہ کیا یہ وہی شخص ہے۔ اس پر معلم نے اسے سمجھایا کہ جب سے میں نے اسلام احمدیت قبول کی ہے میری زندگی بدل گئی ہے اور میں نے ان سب برائیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس کے بعد وہ شخص باقاعدہ مسجد آنے لگ گیا اور اسلام احمدیت قبول کر لی۔ اسی طرح اور بہت سارے ممالک فجی، تنزانیہ، فرانس کے واقعات ہیں۔

خطبات سن کے بھی لوگوں میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اس کے لیے بہت سارے واقعات لوگ لکھتے ہیں کہ کس طرح ہمارے اندر تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ مخالفین احمدیت جو ہیں ان کے بدانجام بھی سامنے آ جاتے ہیں اور اپنے انجام وہ خود ہی دیکھ لیتے ہیں۔

قبولیت دعا

کے بھی بہت سارے واقعات لوگوںکے ہیں۔ گوئٹے مالا سے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ تین ماہ قبل بائرن صاحب زیر تبلیغ فیملی اور بعض دیگر افراد اور دیگر زیر تبلیغ فیملیزکے لیے انہوں نے مجھے خط لکھا اور جب ان کو اس کا جواب سنایا گیا تو ‘بائرن سیتا لان’ کی بیوی کا بیان ہے کہ ان کی شادی کو دس سال ہو گئے ہیں۔ ہر وقت لڑائی جھگڑے اور مسائل رہتے تھے لیکن گذشتہ تین ماہ سے ان کے گھر کا ماحول بالکل بدل گیا ہے۔ بائرن سیتالان صاحب نے بیعت کر لی تھی اور باقی ان کے افراد زیرِ تبلیغ تھے۔ بہرحال ان کی فیملی میں بیوی نے کہا کہ تین مہینے سے میں دیکھ رہی ہوں کہ گھر کا ماحول بدل گیا ہے۔ کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا اور انہوں نے کہا یہ تو دعاؤں کی برکت سے لگتا ہے اور اپنے دو بچوں سمیت انہوں نے بھی بیعت کر لی۔ یہ واقعات تو بےشمار ہیں۔

غیروں کے تاثرات

بھی مختلف تقریبات کے موقع پر ہوتے ہیں۔ امیر صاحب کینیڈا لکھتے ہیں کہ دورانِ سال نیشنل یومِ تبلیغ منایا گیا۔ شاہراہوں اور چوراہوں پر اس روز سائن لگائے گئے مختلف لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کے ساتھ سائن بورڈ لے کر کھڑے ہوئے۔ کہتے ہیںاس دوران ایک واقعہ ہوا کہ بریمپٹن میں ہمارے ایک سائن بورڈ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھ کر ایک ہندوستانی بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ میرا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن جس شخص کی تصویر تم لوگوں نے اٹھا رکھی ہے اس کی آنکھیں بتاتی ہیں کہ یہ شخص ہرگز جھوٹا نہیں ہو سکتا اور اس کا پیغام سچا ہے۔ اب میں خود آپ کی جماعت کے بارے میں پڑھوں گا۔

آسٹریلیا میں آسٹریلیا ڈے منایا گیا وہاں بھی ایک خاتون مس ڈیبی کہتی ہیں کہ آپ کے پروگرام کو دیکھ کر میری آنکھوں میں خوشی سے آنسو آ گئے کہ آسٹریلیا کا مستقبل اچھے ہاتھوں میں ہے۔ یہ پروگرام دیکھ کر مجھے اپنے آسٹریلین ہونے اور آسٹریلیا کو اپنا وطن کہنے پر فخر ہے۔ اسی طرح اَور جگہوں سے بھی بےشمار اس طرح کے واقعات ہیں۔

کبابیر کے مربی صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے معاذ عودے صاحب نے ہمارے مرکز میں آنے والے امریکہ کے طلباء پر مشتمل ایک غیر مسلم وفد کو اسلام اور احمدیت کا تعارف کروایا اور طلباء کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔ اس گروپ کے ایک طالب علم ابراہام کہنے لگے کہ میں ڈومینیکا کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ آباؤ اجداد کی پیروی میں ہم مسیح کے انتظار میں ہیں۔ آج تک اس بارے میں میری یہ حالت رہی ہے کہ کسی اَور کی بات سننے کی بالکل کوئی رغبت نہیں ہے بلکہ بلاثبوت اپنے عقیدے پر قائم چلا آیا مگر آج یہاں آپ کی جماعت وزٹ کرنے کے بعد میں بالکل کوئی اَور شخص بن گیا ہوں کیونکہ میں نے یہاں سے کچھ ایسی باتیں سنی ہیں جو کسی انسان کی بات نہیں لگتی بلکہ خدائی کلام ہے اور اب گویا کہ مجھے پیغام ملا ہے کہ اِدھر اُدھر پھرنا چھوڑو اور اپنے آگے سے پردے ہٹاؤ اور سچائی کی تلاش کرو۔ پس جو کچھ میں نے یہاں سے سنا پورے دل و دماغ پر اثر کر گیا ہے۔

اسی طرح سپین سے آئی ایک غیر مسلم لڑکی مسجد سے نکل کر واپس جاتے ہوئے کہنے لگی۔ آپ کی اس مسجد سے اب ہم زندگی کی تازہ امیدیں لے کر لَوٹ رہے ہیں۔ ہمیں ایک اچھا لائحہ عمل ملا ہے اور شکریہ ادا کیا۔ ایسی بےشمار رپورٹس ہیں۔ بہت لمبی ہیں۔ کچھ حصہ میں نے بیان کیا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اپنے مخالفین کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ ’’باز آجاؤ اور اس کے قہر سے ڈرواور یقیناً سمجھو کہ تم اپنی مفسدانہ حرکات پر مہر لگا چکے۔ اگر خدا تمہارے ساتھ ہوتا تو اس قدر فریبوں کی تمہیں کچھ بھی حاجت نہ ہوتی۔ تم میں سے صرف ایک شخص کی دعا ہی مجھے نابود کر دیتی مگر تم میں سے کسی کی دعا بھی آسمان پر نہ چڑھ سکی بلکہ دعاؤں کا اثر یہ ہوا کہ دن بدن تمہارا ہی خاتمہ ہوتا جاتا ہے …… کیا تم دیکھتے نہیں کہ تم گھٹتے جاتے اور ہم بڑھتے جاتے ہیں۔ اگر تمہارا قدم کسی سچائی پر ہوتا تو کیا اس مقابلہ میں تمہارا انجام ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 409)

اللہ تعالیٰ ان مخالفین کو بھی عقل دے اور دنیا کے تمام انسانوںکو عقل دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو سمجھیں۔ اسلام کے حقیقی پیغام کو سمجھیں اور دنیا میں جو اللہ تعالیٰ نے اپنا فرستادہ بھیجا ہے اس کو مان کر اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بنیں۔

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button