ایڈیٹر کے نام خطوط

محترم راجہ غالب احمد صاحب سےمختصر ملاقات

راجہ غالب احمد صاحب سے میں اس سے قبل کبھی ملا نہیں تھا۔ بس احمدیت کا ایک رشتہ تھا جوہر دوسرے تعارف پرغالب تھا۔

مکرم عطاء المجیب راشد صاحب (امام مسجد فضل لندن) تحریر کرتے ہیں:

چند روز ہوئےالفضل انٹرنیشنل( 9؍نومبر2021ء)کے شمارے میں مکرم و محترم راجہ غالب احمد صاحب کے بارے میں ایک عمدہ اور معلوماتی مضمون شائع ہوا ۔لکھنے والے دوست نے ان کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو خوب اجاگر کیا ہے۔ یہ مضمون پڑھ کر مجھے محترم راجہ غالب احمد صاحب کے حوالے سے ایک چھوٹا سا ذاتی واقعہ یاد آیا۔ فوراً ہی اس کو سپردِ قلم کرنے لگ گیا ہوں۔

محترم راجہ غالب احمد صاحب سے میری صرف ایک بار ملاقات ہو ئی جو بہت مختصر سی تھی لیکن ایسی ملاقات تھی جو ایک پائیدار نقش ذہن پر چھوڑ گئی۔

واقعہ یوں ہے کہ 1967ء میں جبکہ میں جامعہ احمدیہ ربوہ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا، مَیں نے پرائیویٹ طور پر پنجاب یونیورسٹی سےمولوی فاضل کا امتحان پاس کرلیا ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں یونیورسٹی میں اوّل آیا اور ایک طلائی تمغے (گولڈ میڈل) کا حقدار بھی قرار پا گیا۔ یونیورسٹی کی طرف سے یہ میڈل میرے پتہ پر رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعہ بھجوایا گیا لیکن کسی وجہ سے میں اسے وصول نہ کرسکا۔میڈل یونیورسٹی کو واپس بھجوا دیا گیا۔

بعد میں جب مجھے یہ بات معلوم ہوئی تو میں اس گولڈ میڈل سے متعلق ضروری کاغذات لے کر متعلقہ تعلیمی دفتر چلا گیا اور درخواست کی کہ یہ میڈل مجھے دےدیا جائے۔ ضروری کاغذات میرے پاس تھے ۔بظاہر کوئی روک نہ تھی لیکن دفتر کے کارکنان نے یہ عذر کیا کہ جب تک یونیورسٹی کا کوئی اعلیٰ افسران کاغذات کی تصدیق نہ کرے ہم یہ میڈل آپ کے حوالے نہیں کر سکتے ۔میرے لیے بڑی مشکل آن پڑی کہ میں کس طرح ان کا مطالبہ پورا کر سکوں ۔لمبی بات ہوئی لیکن وہ اپنی بات پر مصر رہے۔ایک مرحلے پر میں نے کہا کہ میں تو یونیورسٹی کے اعلیٰ افسران کو نہیں جانتا ۔میں کس کے پاس جاؤں؟انہوں نے میری درخواست پر یونیورسٹی کے بعض اعلیٰ افسران کے نام لیےلیکن میں ان میں سے کسی سے واقف نہ تھا۔نہ وہ مجھ سے واقف تھے ۔باتوں کے دوران ایک کارکن نے کہا کہ یہاں راجہ غالب احمد صاحب بھی اعلیٰ پوسٹ پر فائز ہیں۔ ان کا نام سنتے ہی میں نے کہا کہ میں تو ان کو جانتا ہوں۔ بس ٹھیک ہے میں ان سے تصدیق کروا لیتا ہوں ۔

راجہ غالب احمد صاحب سے میں اس سے قبل کبھی ملا نہیں تھا ۔بس احمدیت کا ایک رشتہ تھا جوہر دوسرے تعارف پرغالب تھا ۔قصہ مختصر کہ میں آپ کے دفتر پہنچ گیا ۔چوکیدار نے روکا کہ صاحب مصروف ہیں ، ملاقات نہیں ہو سکتی ۔میں نے ایک کاغذ کے پرزے پر اپنا نام اور والد صاحب کا نام لکھ دیا ۔چوکیدار اندر گیا اور دوسرے ہی لمحہ میں مجھے کہہ رہا تھا کہ آپ اندر تشریف لے آئیں۔ میں اندر گیا۔راجہ غالب احمد صاحب نے کرسی سے اٹھ کر استقبال کیا اور بیٹھنے کا کہا ۔ابا جان کے نام کے بعد کسی مزید تعارف کی ضرورت نہ تھی ۔فرمانے لگے کہ میں کیا خدمت کر سکتا ہوں۔میں نے سارا معاملہ مختصر اًبیان کردیا اور فوراً ہی انہوں نے میرے کاغذات پرتصدیقی دستخط کردیے اور دفتری مہر یں بھی لگوادیں ۔اتنے میں میرے لیے چائے بھی آچکی تھی۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد کچھ دیر ان سے باتیں ہوئیں ۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ انہوں نے بڑی محبت اور احترام سے باتیں کیں ۔ان کی نوازش ،خاکساری اور حسن سلوک کی یاد آج تک میرے دل پر نقش ہے ۔انہوں نے کرسی سے اٹھ کر مجھے سلام کیا اور بڑے تپاک سے الوداع کیا۔

اب آگے سنیے ۔میں راجہ غالب صاحب کے دفتر سے نکل کر سیدھا متعلقہ دفتر واپس آیا ۔سب کارکنان حیرت زدہ رہ گئےکہ چند منٹوں میں راجہ غالب صاحب جیسے عا لی منصب سے کیسے دستخط کروا لایا ہوں۔ حیرت میں ڈوبے ہوئے کارکنان سے میں نے بس یہی کہا کہ تصدیق کا کام ہوگیا ہے اب میڈل مجھے دےدیں ۔انہوں نے گولڈ میڈل بند صندوقچی سے نکال کر میرے سپرد کردیا۔اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور احمدیت کی برکت سے ایک مشکل اور بظاہر ناممکن کام منٹوں میں ہوگیا ۔راجہ غالب احمد صاحب کے حسن ِاخلاق کی یاد آج بھی میرے دل میں تازہ ہے۔اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں اعلیٰ درجات سے نوازے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button