اسلام میں مساوات کا تصور (قسط اول)
اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے چودہ سو سال سے زائدعرصہ پہلے نہ صرف اپنے ماننے والوں کو بلکہ دنيا کے تمام انسانوں کو اُن کے بنيادي حقوق عطا کر دیے تھے
مُساوات کے معني برابري اور ہمسري بيان ہوئے ہيں۔ اس ضمن ميں اسلام کا نقطہ ٔنظر يہ ہے کہ دنيا کے تمام انسان مراتب اور مواقع کی فراہمي ميں برابر ہيں، اُن کے ايک جيسے حقوق ہيں اور قانون قدرت نے ان کے ليے مساوي اور يکساں مواقع فراہم کیے ہيں جن سے فائدہ اُٹھانا اُن سب کابنيادي حق ہے۔ اہل مغرب کا يہ عجيب اُصول رہاہے کہ وہ ہر اچھي بات کو اپني طرف منسوب کر ليتے ہيں اور اُسے ثابت کرنے کے ليے ايڑي چوٹي کا زور لگا ديتے ہيں۔ يہي حال انساني حقوق کے حوالے سے ہے، وہ دنيا کو يہ باور کرانے کي کوشش کرتے رہتے ہيں کہ انسانوں کو ملنے والے تمام حقوق ان کے مرہون منت ہيں۔ ورنہ اس سے پہلے انسان ان حقوق سے يک سر نا آشنا اور محروم تھے۔ مغرب کے مفکرين اور دانشور حقوق انساني کے بارے ميں جان کنگ کے ميگنا کارٹا (Magna Carta) اورژاں ژاک روسو (1778-1712ء) کے ’’سوشل کنٹريکٹ‘‘ کا حوالہ ديتے نہيں تھکتے۔ اہل مغرب کا دعويٰ ہے کہ انگلستان کے ميگنا کارٹا کے ذريعہ پہلي بار انسانوں کو اُن کے بنيادي حقوق ملے ہيں۔ جبکہ ميگنا کارٹا کو پڑھنے والے جانتے ہيں کہ اُس ميں صرف کچھ مخصوص طبقات کے حقوق کا تحفظ کيا گيا ہے۔ تاريخ ہميں بتاتي ہے کہ بڑے بڑے جاگيرداروں نے بادشاہ جان کنگ کے خلاف اتحاد بنايا اور 1215ء ميں ايک روز انہوں نے بادشاہ کو گھير کر اُس دستاويز پر دستخط کرواليے جسے دنيا ميگنا کارٹا کے نام سے ياد کرتي ہے۔ اگراہل مغرب ميں انساني حقوق کا جائزہ ليا جائے تو مغرب ميں حقوق انساني اور حقوق شہريت کا تصور سترھويں صدي سے پہلے کہيں نہيں پايا جاتا جبکہ اٹھارھويں صدي کے آخر پر امريکہ اور فرانس کے دساتیرميں اس تصور کودستاويزي شکل دے دي گئي۔ بعد ازاں ديگر ممالک کے دساتیر ميں ان بنيادي انساني حقوق کو شامل کرلياگيا جبکہ کاغذ پر دیے گئے ان حقوق کو عملي صورت ميں بہت بعد ميں نافذ کيا گيا۔
دنيا بھر ميں 10؍دسمبر کا دن انساني حقوق کے طور پر منايا جاتا ہے۔ 1948ء ميں اس روز اقوام متحدہ کي جنرل اسمبلي نے انساني حقوق کے حوالے سے 30نکاتي اعلاميہ منظور کيا تھا جس کي رُو سے ممبر ممالک پر زور ديا گيا ہے کہ ان نکات کو انساني حقوق کا عالمي معيار جانتے ہوئے ان پر عمل کريں اور ان نکات کي پابندي کروائيں۔ اقوام متحدہ کے مختلف ذيلي ادارے بالخصوص انساني حقوق کا عالمي کميشن مختلف طريق پر ممبر ممالک کو انساني حقوق کے اس اعلاميہ پر عمل درآمد اور اس کي پاسداري کي طرف توجہ دلاتا رہتا ہے۔ ہر سال 10؍دسمبر کے روز اس دن کي مناسبت سے مختلف تقريبات منعقد کي جاتي ہيں۔ دنيا بھر کے پرنٹ اور اليکٹرانک ميڈيا کے ذريعہ مختلف بيانات اور قرارداديں شائع اور نشر کي جاتي ہيں جن ميں انساني حقوق کي اہميت وافاديت کو اجاگر کيا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اس اعلاميے کے پيچھے دراصل مغربي دنيا کي انساني حقوق کے حوالے سے صديوں پر محيط محروميوں، استحصاليوں، مظالم اور ناروا انساني سلوک کي بے شمارداستانیں پنہاں ہيں جن سے چھٹکارا پانے کے ليے اُنہيں ايک طويل جہدوجہداور اَن گنت قربانياں دينا پڑيں۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے چارٹر برائے انساني حقوق کي 30شقوں ميں کافي حد تک انساني حقوق بيان کردیے گئے ہيں ليکن اس کے باوجود دنيا کے بيشتر ممالک ميں رنگ و نسل، ذات پات اور مذہب کے نام پر انساني حقوق کي پامالي کا سلسلہ جاري وساري ہے اورآج بھي ان گنت انسان اپنے بنيادي حقوق سے محروم ہيں۔
اگر انصاف کي نظر سے انساني حقوق کے حوالے سے اقوام عالم اور تمام مذاہب کے قوانين و دساتير کا مطالعہ کيا جائے تو اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے چودہ سو سال سے زائدعرصہ پہلے نہ صرف اپنے ماننے والوں کو بلکہ دنيا کے تمام انسانوں کو اُن کے بنيادي حقوق عطا کر دیے تھے۔ اگر اسلامي تعليم کا خلاصہ بيان کيا جائے تو اُسے دو فقروں ميں سمويا جاسکتاہے يعني اللہ تعاليٰ کي بندگي و اطاعت اور اُس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بني نوع انسان کے احترام اور باہمي مساوات پر مبني تعليم دي ہے۔ يہي وجہ ہے کہ جس طرح اسلامي تعليم ميں اللہ تعاليٰ سے متعلق حقوق بيان ہوئے ہيں اُسي طرح اسلام نے انساني حقوق کو بھي خاص اہميت دي ہے۔ انسان کو سماجي حيوان کہا جاتا ہے جو دوسرے جانوروں کے برعکس سماج اور خاندان کا محتاج ہے۔ وہ بہت سارے رشتوں اور تعلقات کے حصار ميں زندگي گزارنا پسند کرتا ہے۔ ايک ہي خاندان کے افراد ايک جگہ رہنا پسند کرتے ہيں۔ کئي خاندانوں سے مل کر محلے، گاؤں اور شہر وجود ميں آتے ہيں۔ اس طرح نسل انساني ايک وحدت کي لڑي ميں پروئي جاتي ہے۔ اس ليے رنگ، نسل، ذات پات اور مذہب کي بنياد پر انساني وحدت کے رشتے کو توڑنا نہيں چاہیے ورنہ انسانوں کے درميان لڑائي جھگڑے اور فساد شروع ہوجاتا ہے۔ جس کي وجہ سے معاشرے کا امن، سکون اور خوشحالي ختم ہوجاتي ہے اور سارا معاشرہ تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے۔
اللہ تعاليٰ ابتدائے انسانيت سے نوع انسان کي اخلاقي و ديني اصلاح کے ليے انبياء مبعوث فرمارہا ہے تاکہ وہ اس کے بندوں کو دنيا ميں کامياب زندگي گزارنے کے طريق سکھائيں۔ پس مذہب کي اصل غرض اپنے ماننے والوں ميں تہذيب، شائستگي، حوصلہ مندي، بردباري، ہمدردي، رواداري اور ديگر اعليٰ اخلاق پيدا کرنا ہے تاکہ وہ حيواني حالتوں سے ترقي پاکر اپني طبعي حالتوں کي طرف لوٹيں اور اُن کے اندر وحشت کي بجائے شجاعت کا مادہ پيدا ہو۔ يہي وجہ ہے کہ شريعت اسلاميہ نے حقوق وفرائض کي تمام جزئيات کو بڑي تفصيل سے بيان کيا ہے تاکہ اُس کے ماننے والے معاشرے کا مفيد وجود بن سکيں۔
پر بنانا آدمي وحشي کو ہے اِک معجزہ
معنیٔ رازِ نبوّت ہے اِسی سے آشکار
(براہين احمديہ حصہ پنجم، روحاني خزائن جلد 21صفحہ 144)
اللہ تعاليٰ نے ہمارے آقا وموليٰ حضرت اقدس محمد مصطفيؐ کو مکارم اخلاق پر فائز فرماکر ساري انسانيت کے ليے بہترين نمونہ بنا ديا ہے۔ آپؐ نے اللہ تعاليٰ کي طرف سے وديعت کي گئي قوتِ جذب اور حسن واحسان سے کام ليتے ہوئے ہر سعيد فطرت اور سليم القلب انسان کو اپني طرف کھينچا اور اپنا ہمنوا بناليا۔ پس جوانسان آپؐ کے قريب آياوہ آپؐ کے حسن واحسان کو ديکھ کر آپ کا گرويدہ بن گيا۔ اللہ تعاليٰ اپنے بزرگ کلام ميں آنحضرتؐ کي اسي معجز نما شان کو بيان کرتے ہوئے فرماتاہے کہ
فَبِمَا رَحمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنتَ لَہُم وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِن حَوۡلِکَ۔ (آل عمران: 160)
پس اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تُو ان کے لئے نرم ہو گیا۔ اور اگر تُو تندخو (اور) سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گِرد سے دُور بھاگ جاتے۔
آنحضورؐ نے اپنے اخلاق کريمانہ سے جہاں لوگوں کے دل جيتے، وہيں آپؐ کي قوتِ قدسيہ نے اُن وحشي صفت لوگوں ميں صفاتِ الہٰيہ کو اس طور پر داخل کردياکہ اُن ميں اور خدا ميں کوئي دُوئي اور فاصلہ نہ رہا اور وہ اخلاق کے اعليٰ مرتبے پر فائز ہوکر انسانيت کے اوجِ کمال تک پہنچ گئے۔ پس ان پاکباز ہستيوں کي متابعت ميں ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ بھي اُن اخلاق کريمانہ کو اپنائے جو اُن کے دين کا طرہ امتياز اور اُن کے نبي کریمؐ کا مبارک اسوہ ہے تاکہ ان کے ذريعہ اسلام کا خوبصورت چہرہ دنيا پر ہويدا ہو اور دلوں کو فتح کرنے والي تعليم دنيا ميں پھيلے۔
انساني حقوق کے حوالے سے اگر بات کي جائے تو جس تفصيل کے ساتھ قرآن کريم نے ان حقوق کو بيان فرمايا ہے کسي دوسري مذہبي کتاب ميں اُس کا عشر عشير نظر نہيں آتا۔ قرآن کريم نے انساني زندگي کے ہر پہلو کا احاطہ کرتے ہوئے انہيں معاشي، معاشرتي، تمدني زندگي کے علاوہ اُن کي طاقتوں اور صلاحيتوں کے تحفظ اور اُن کي نشوونما تک کے بارے ميں احکامات اور راہ نما اصول بيان فرمائے ہيں۔ نيز انسان کي جان، مال، عزت و آبرو کي حفاظت، انصاف، آزادي رائے اور حکومت و سياست سے متعلق تفصيل بيان ہوئي ہے۔ اسي طرح قرآن شريف نے آزادئ ضمير، عقائد، عبادت اور مذہب و تبليغ کے متعلق بھي انساني حقوق کو تفصيل سے بيان کرديا ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ اسلام نے انساني زندگي سے تعلق رکھنے والے ہر اہم معاملہ اور اُس کي جزئيات کو اپني تعليم ميں شامل کرکے نوع انسان پر بہت بڑا احسان فرمايا ہے۔
بحيثيت انسان برابري کا حق
موجودہ دَور ميں دنيا مادي لحاظ سے ترقي کے بام عروج پر دکھائي ديتي ہے اور بظاہر انساني حقوق کے حوالے سے بھي صورت حال بہت اچھي ہے۔ ليکن اس کے باوجود دنيا کے اکثر وبيشتر معاشروں ميں انسانوں کے ساتھ ناروا سلوک کي بھيانک داستانيں رقم ہو رہي ہيں۔ دنيا کے بيسيوں ممالک اور بظاہر ترقي يافتہ ممالک ميں بھي اشرف المخلوقات کہلانے والي يہ مخلوق بدترين حالت ميں زندگي گزارنے پر مجبور ہے۔ جہاں تک دنيا ميں جاري قوانين کا تعلق ہے اُن ميں رنگ، نسل، برادري، زبان اور علاقہ کي بنياد پر انسانوں کے ساتھ ناروا سلوک کو ناپسند کيا گيا ہے ليکن ان قوانين پر عمل در آمد کا بہت فقدان ہے۔ اسلام نے آج سے تقريباً ڈيڑھ ہزار سال پہلے انساني زندگي کے اس پہلو کو نہ صرف کھول کر بيان کرديا تھا بلکہ رسول کريمؐ اور آپؐ کے صحابہ نے اُس پر عمل کرکے ايک ايسا مذہبی معاشرہ تشکيل دے ديا جس ميں تمام انساني امتيازات کو پاش پاش کرکے ہر فرد واحد کو اُس کا مناسب حق دے دياگيا۔ اسلامي تعليم کي رُو سے تمام انسان ربّ العالمين کے بندے ہيں اور بحيثيت انسان سب برابرہيں۔ کسي انسان کوکسي دوسرے انسان پر قوم، رنگ، نسل، خاندان، جنس، طبقہ، عقيدہ، مذہب، ملک اورتمدن کے لحاظ سے کوئي امتياز حاصل نہيں۔ جيسا کہ اللہ تعاليٰ کا ارشاد ہے:
مَا خَلۡقُکُمۡ وَ لَا بَعۡثُکُمۡ اِلَّا کَنَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ۔ (لقمان: 29)
تمہاری پیدائش اور تمہارا دوبارہ اٹھایا جانا محض نفسِ واحدہ (کی پیدائش اور اٹھائے جانے) کے مشابہ ہے۔ یقیناً اللہ بہت سننے والا (اور) گہری نظر رکھنے والا ہے۔
اسلام سے قبل دَور جاہليت ميں رنگ ونسل اورخاندان وقبيلے کي بنياد پر انسانوں کے درميان بہت بڑي خليج حائل تھي۔ قريش اور غير قريش کو برابرنہيں سمجھا جاتا تھا۔ اگر قريش کا کوئي آدمی کسي دوسرے قبيلے کے آدمي کا قتل کرديتا تو اس کے بدلے ميں قريش کے آدمي کو قتل نہيں کيا جاتا تھا جبکہ اگر کوئي غير قريشي ان کے کسي آدمي کو قتل کرديتا تو قصاص ميں قتل کرنے والے قبيلے کے آدمي قتل کیے جاتے۔ عرب بحيثيت قوم بھي اپنے آپ کو دوسري قوموں سے ممتاز اور نماياں خيال کرتے تھے، اسي ليے وہ عجميوں کو اپنا ہم پلہ نہيں سمجھتے تھے۔ ان کا خيال تھا کہ عرب ديگر دنيا سے زيادہ وسيع اللسان اور خوش بيان ہيں۔ اسي وجہ سے وہ باقي دنيا کو عجمي کہتے تھے يعني وہ زبان وبيان ميں اُن کا مقابلہ نہيں کرسکتے۔
اسلام آيا تو اُس نے تمام انسانوں کو پيدائشي لحاظ سے مساوي اور ہم پلہ قرار ديا کيونکہ اُن کا پيداکرنے والا ايک ہے اور اُن کي پيدائش ايک ہي طريق پر ہوئي ہے۔ اس ليے پيدائشي لحاظ سے کسي کو کوئي فوقيت اور برتري نہيں ہوسکتي۔ کسي خاص خاندان، قبيلے يا قوم ميں پيدا ہونے سے کوئي انسان پاک، ناپاک يا برتر نہيں ٹھہرايا جاسکتا بلکہ بحيثيت انسان اُن کي حيثيت يکساں اور مساوي ہي رہے گي۔ ہاں البتہ اگر کوئي فرق ہے تو وہ تقويٰ اور پرہيز گاري کے اعتبار سے ہے۔ جيسا کہ اللہ تعاليٰ نے فرماياہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ۔ (الحجرات: 14)
اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) ہمیشہ باخبر ہے۔
باني اسلام حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ نے خطبہ حجةالوداع کے موقع پر انساني عظمت و اقدار کے منافي تمام جاہلانہ رسموں کو يک سر ختم کرتے ہوئے انسانيت کے تحفظ کے ليے ايک ايسا ضابطۂ حيات پيش فرماياجو عظمت انساني کو چار چاند لگانے والا ہے۔ اُس منشور ميں خاص طور پر پسماندہ طبقات کو اُس ذلت، پستي، ظلم، تشدد اور استحصال سے نجات دي گئي ہے جس کا وہ صديوں سے شکار تھے۔ آپؐ نے ان کمزور طبقوں کو عزت وشرف کے اس مقام پر لا کھڑا کيا جو دنياوي طورپر معزز سمجھنے والوں کو حاصل تھا۔ اس طرح تاريخ عالم ميں پہلي مرتبہ ايک ايسا عالمي منشورپيش کيا گيا جو برابري اور مواخات کے زرّيں اصولوں پر مبني ہے۔ پس اللہ تعاليٰ نے کائنات کے جوہرکاملؐ کے ذريعے جاہليت کے ہر امتياز کو ختم کرکے تمام انسانوں کو اُن کے اصل مقام پر فائز کرديا۔ آنحضورؐ نے يہ اعلان عام فرمايا کہ
یٰۤاَیُّہَاالنَّاسُ ائَلَا اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَاِنَّ ائَبَاکُمْ وَاحِدٌ، ائَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيِّ عَلَي ائَ عْجَمِيِّ وَلَا لِعَجَمِيِّ عَلَي عَرَبِيِّ لِائَحْمَرَ عَلَي ائَسْوَدَ وَلَا ائَسْوَدَ عَلَي ائَحْمَرَ اِلَّا بِالتَّقْوَي (مسند احمد بن حنبل 411: 5، روايت: 23536)
اے لوگو! تمہارا ربّ ايک ہے اور تمہارا باپ ايک ہے۔ کسي عربي کو کسي عجمي پر اور کسي عجمي کو کسي عربي پر کوئي فضيلت نہيں۔ اورکسي کالے کو کسي سرخ پر اور کسي سرخ کو کسي کالے پر کوئي فضيلت نہيں ہے سوائے تقويٰ کے۔
گويا اسلام نے انہيں يہ باور کرا ديا کہ قومي ونسلي تفريق کا مقصد باہمي معرفت و الفت کا حصول ہے، نہ کہ اجنبيت اور نفوذکا موجب۔ اللہ تعاليٰ کے ہاں اگر کسي کو کوئي شرف حاصل ہے تو وہ تقويٰ کي بنا پر ہے۔ تمام انسان آدم کي اولاد ہيں اورآدم مٹي سے بنے تھے، اس ليے پيدائشي لحاظ سے کسي انسان کو دوسرے انسان پر کيونکر فضيلت اور برتري ہوسکتي ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:
اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَہٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ۔ (آل عمران: 60)
یقیناً عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی سی ہے۔ اسے اس نے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے کہا کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہونے لگا (اورہو کر رہا)۔
حضرت ابوموسيٰ اشعريؓ بيان کرتے ہيں کہ رسول اللہؐ نے فرمايا: اللہ عزوجل نے آدم کو ايک مٹھي مٹي سے پيدا کيا ہے جسے اُس نے تمام روئے زمين سے جمع فرمايا تھا۔ چنانچہ آدم کي اولاد اس مٹي کے لحاظ سے ہوئي ہے، کئي سرخ ہيں اور کئي سفيد، کئي سياہ ہيں اور کئي ان کے بين بين۔ کئي نرم خو ہيں اور کئي سخت طبيعت کے مالک ہوتے ہيں اور کئي اچھي اور عمدہ طبيعت والے۔
(سنن ابوداؤد کتاب السنة بَابٌ: فِي الْقَدَرِ حديث: 4693)
پس اسلام نے ذات پات، رنگ، نسل، جنس، زبان، حسب ونسب اور مال و دولت پر مبني ہر قسم کے امتيازات کي جڑاکھيڑ دي اور تاريخ عالم ميں پہلي مرتبہ تمام انسانوں کو ايک دوسرے کا ہم پلہ قرار دے کر عظمت انساني کو چار چاند لگاديے۔ اللہ تعاليٰ کي ذاتِ اقدس والا صفات، احسن الخالقين ہے جس نے جس طرح چاہا اپني مخلوق کو تخليق کيا اور اُن کو مختلف قسم کي خصوصيات عطاکرکے اپنے اپنے کام پر لگا ديا ہے۔ پس اُس کي تخليق کي ہوئي ہرچيز اپني خلق کے لحاظ سے بہترين ہے۔ جيسا کہ اللہ تعاليٰ نے فرمايا ہے:
الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ وَ بَدَاَ خَلۡقَ الۡاِنۡسَانِ مِنۡ طِیۡنٍ۔ (السجدة: 8)
وہي جس نے ہر چيز کو جسے اس نے پيدا کيا بہت اچھا بنايا اور اس نے انسان کي پيدائش کا آغا ز گيلي مٹي سے کيا۔
پہلي قوموں اور مذاہب کے ماننے والوں ميں يہ رواج تھا کہ وہ کسي خاص نسل يا عقيدے کي وجہ سے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر خيال کيا کرتے تھے۔ وہ ذات پات کي تقسيم کي بناپربعض کو بعض پر فوقيت ديتے تھے، ہندو مذہب کے ماننے والے اس کي اہم مثال ہيں جو آج تک ذات پات کے گرداب ميں پھنسي ہوئي ہے۔ يہودو نصاريٰ بھي اس غلط فہمي ميں مبتلا ہيں کہ وہ خدا کے بيٹے اور اُس کے محبوب ہيں۔ اللہ تعاليٰ نے قرآن شريف ميں ان کے اس عقيدے کا ذکر کرتے ہوئے فرمايا ہے کہ
وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ وَ النَّصٰرٰی نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ ؕ قُلۡ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمۡ بِذُنُوۡبِکُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ بَشَرٌ مِّمَّنۡ خَلَقَ۔ (المائدة: 19)
اور يہود اور نصاريٰ نے کہا کہ ہم اللہ کي اولاد ہيں اور اس کے محبوب ہيں۔ تُو کہہ دے پھر وہ تمہيں تمہارے گناہوں کي وجہ سے عذاب کيوں ديتا ہے؟ نہيں، بلکہ تم ان ميں سے جن کو اُس نے پيدا کيا محض بشر ہو۔
يہودونصاريٰ اس دنيا ميں ہي اپنے آپ کو برتر نہيں سمجھتے بلکہ وہ يہ عقيدہ رکھتے ہيں کہ اُن کے سوا کوئي جنت کا حقدار نہيں جبکہ قرآن شريف نے ان کے اس غلط اور من گھڑت عقيدے کي ترديد کرتے ہوئے فرمايا ہے:
وَ قَالُوۡا لَنۡ یَّدۡخُلَ الۡجَنَّۃَ اِلَّا مَنۡ کَانَ ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی ؕ تِلۡکَ اَمَانِیُّہُمۡ ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ۔ (البقرة: 112)
اور وہ کہتے ہيں کہ ہرگز جنت ميں کوئي داخل نہيں ہوگا سوائے ان کے جو يہودي يا عيسائي ہوں۔ يہ محض ان کي خواہشات ہيں۔ تُو کہہ کہ اپني کوئي مضبوط دليل تو لاؤ اگر تم سچے ہو۔
قرآن شريف ميں اللہ تعاليٰ نے واضح فرمادياہے کہ روحاني ترقيات کا دروازہ کسي خاص قوم کے ليے مخصوص نہيں بلکہ يہ ايک کھلي راہ ہے جو چاہے وہ اس راہ پر قدم مارے اور اللہ کي رضا اور اُس کي لقا حاصل کرلے۔ پس يہ ايک کھلا اور وسيع ميدان ہے جو چاہے اس ميں داخل ہو اور اللہ تعاليٰ کے بتائے ہوئے طريق کے مطابق کاميابي حاصل کرنے کي کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ اس راہ کو حاصل کرنے کا طريق بيان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ۔ (البقرة: 113)
نہیں نہیں، سچ یہ ہے کہ جو بھی اپنا آپ خدا کے سپرد کردے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اس کا اجر اس کے ربّ کے پاس ہے۔ اور اُن (لوگوں ) پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اسلامي تعليم کي رُو سے جو انسان اللہ تعاليٰ اور يوم آخرت پر ايمان لانے والا اور مناسب حال عمل کرنے والا ہو اُسے غمگين ہونے کي چنداں ضرورت نہيں کيونکہ اُس کے ہاں اعمال کا بہترين بدلہ ديا جائے گا۔ جيسا کہ فرمايا:
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الصّٰبِـُٔوۡنَ وَ النَّصٰرٰی مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ۔ (المائدة: 70)
یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور صابی اور نصرانی جو بھی اللہ پر ایمان لایا اور یومِ آخر پر اور نیک عمل بجا لایا اُن پر کوئی خوف نہیں اور وہ کوئی غم نہیں کریں گے۔
اسلام کے مطابق دنيا ميں پيدا ہونے والا ہر انسان معصوم اور بے گناہ ہوتا ہے اور اُسے فطرت صحيحہ کے ساتھ دنيا ميں بھيجا جاتا ہے تاکہ اُس فطرت کو کام ميں لاتے ہوئے وہ اچھے بُرے اور مفيد و مضر کو پہچان لے اور اپني عاقبت کي فکر ميں لگ جائے۔ جيسا کہ فرمايا:
فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا۔ (الرّوم: 31)
يہ اللہ کي فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پيدا کيا۔
دين اسلام کي يہ خوبي ہے کہ اس نے انساني مساوات کے ہر پہلو کو کھول کر اور بڑي تفصيل سے بيان کرديا ہے تاکہ کسي انسان يا کسي قوم کي تحقير يا اُس کا استحصال نہ ہواورنہ ہي اس تحقير کے نتيجے ميں اُن ميں کسي قسم کا احساس کمتري پيدا ہو۔ يہي وجہ ہے کہ اسلام نے قوموں اور قبيلوں کو بے جا تفاخر سے منع فرمايا ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ(الحجرات: 12)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! (تم میں سے) کوئی قوم کسی قوم پر تمسخر نہ کرے۔ ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔ اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں )۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔ اور اپنے لوگوں پر عیب مت لگایا کرو اور ایک دوسرے کو نام بگاڑ کر نہ پکارا کرو۔
اسلام کے نزديک ہر انسان خواہ وہ مرد ہو يا عورت قابل احترام ہے کيونکہ اُن کي پيدائش ايک ہي طريق پر ہوئي ہے اور اُن سب کا تخليق کنندہ بھي ايک ہي ہے۔ اللہ تعاليٰ انساني مساوات کے اس پہلو کو بيان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا (النساء: 2)
اے لوگو! اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مَردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رِحموں (کے تقاضوں ) کا بھی خیال رکھو۔ یقیناً اللہ تم پر نگران ہے۔
اسلام نے شکل و صورت اور جلد کے فرق کي بنا پرکسي برتري يا کمتری کے تصوّر کو بھي ختم کرديا ہے اور بتايا ہے کہ انساني شکل اور اُن کا رنگ اللہ تعاليٰ کي قدرت کاملہ کے نتيجے ميں وجود پذير ہوا ہے۔ اس ليے رنگوں يا چہروں کي بناوٹ ميں فرق کي وجہ سے کسي انسان کو دوسرے انسان پر کسي قسم کی فوقيت يا برتري نہيں دي جاسکتي۔
ہُوَ الَّذِیۡ یُصَوِّرُکُمۡ فِی الۡاَرۡحَامِ کَیۡفَ یَشَآءُ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ۔ (آل عمران: 7)
وہی ہے جو تمہیں رِحموں میں جیسی صورت میں چاہے ڈھالتا ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر وہی، کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا۔
پس شکليں بنانا اور صورتيں عطا کرنا اللہ تعاليٰ کا کام ہے اور اُس کي تخليق ميں نہاں در نہاں اسباب پوشيدہ ہيں۔ ويسے بھي اگر کائنات کے حسن وجمال اور اللہ تعاليٰ کے بنائے ہوئے نظام کو ديکھا جائے تو اس نظام کے اعتدال و استحکام کا رازاشياءکے بے شمار رنگوں، مختلف شکلوں، ہیئتوں اور اُن کے قسماقسم کےاوصاف پر قائم ہے۔ اگر آفتاب تمازت و حرارت کي علامت ہے تو اس کے بالمقابل ماہتاب اس سے جدا خوبياں رکھتا ہے۔ ستاروں اور سياروں کي الگ الگ پہچان ہے۔ گلستان کي بہاريں اور باغوں کي رونقيں سينکڑوں رنگ کے پھولوں، ہزاروں طرح کے پودوں اورقسم ہا قسم کے درختوں کے مجموعہ کي وجہ سےہے۔ مختلف اقسام اور بے شمار رنگوں کے پرندے اور جانور انسان کي توجہ اپني طرف مبذول کرتے ہيں اور وہ قدرت کي اس شاہکاري پر داد ديے بنا نہيں رہتا۔ ايک لمحے کے ليے سوچئے کہ اگرتمام پھولوں، پودوں، اُن کي شاخوں اور پتيوں کا رنگ يکساں ہوجائے، اُن کي ساخت اور ہیئت ايک جيسي کر دي جائے۔ تمام پرندوں اور جانوروں کا حجم اور سائز ايک جيسا نظر آئے تو نہ اس دنيائے رنگ و بو ميں کچھ دلکشي و رعنائي باقي رہے گي اور نہ ہي اس ميں کچھ حسن وجمال دکھائي دے گا۔ انسانيت کا باغِ ہستي بھي اسي وجہ سے شاداب اور پُربہار ہے کيونکہ اس کے افراد کے قدوقامت، ذوق ومزاج، فطرت وطبيعت، عقل و شعور، طاقت و قوت، حسن وجمال، فقروثروت، ضعف وناتواني اور رنگ و نسل ميں فرق ہے۔ پس اگر انسانوں کے عقيدہ و مذہب، افکارونظريات، کلچر وثقافت، لہجہ وزبان، روايات و اقدار، رسم ورواج اور تہذيب و تمدن ميں اختلافات دکھائي ديتے ہيں تو وہ عين فطرتِ انساني کے مطابق ہيں۔ پس مختلف قبيلوں اور خاندانوں کا وجودبڑائي اور تفاخر کے ليے نہيں بلکہ باہمي اخوت و محبت اور انسانيت و الفت کو بڑھانے اور فروغ دينے کے ليے ہے۔ ہمارے خالق نے رنگوں کے فرق کو ظاہر کرنے کے ليے ايک اَور دن مقرر کر رکھا ہے جس دن اپنا نامۂ اعمال پڑھ کرکچھ چہرے خوشي سے روشن ہوجائيں گے اور بعض چہرے سياہ پڑ جائيں گے۔
یَوۡمَ تَبۡیَضُّ وُجُوۡہٌ وَّ تَسۡوَدُّ وُجُوۡہٌ (آل عمران: 107)
جس دن بعض چہرے روشن ہو جائیں گے اور بعض چہرے سیاہ پڑ جائیں گے۔
(جاری ہے)