خوف کے بعد امن کے نظارے (قسط دوم)
(مکرم عابد وحید خان صاحب انچارج مرکزی پریس اینڈ میڈیا آفس کی ڈائری کا اردو ترجمہ)
’’حضور! میں زندگی بھر ہمیشہ آپ کا ممنون رہوںگا کہ جس طرح آپ نے کل میرا خیال رکھا اور مجھے ٹوٹنے سے بچایا اور مجھے ہمت بخشی کہ میں گرنے کی بجائے مضبوط کھڑا رہوں۔‘‘
طالع ٹمالے میں
مورخہ 23؍اگست 2021ء کو بعد دوپہر میری دفتری ملاقات کے دوران حضور نے مجھ سے طالع احمد کے سفر اور خیریت کے بارے میں دریافت فرمایا۔
مَیں نے عرض کی وہ ٹمالے پہنچ گیا ہے۔یاد رہے کہ ٹمالےوہ دور دراز گاؤں ہے جہاں حضور کی قیام افریقہ کے دوران کچھ عرصہ تعیناتی رہی تھی۔
تب میں نے ٹمالے پہنچنے اور یہ علاقہ دیکھنے کے بعد طالع کے تاثرات حضور کے سامنے عرض کیے جو اس نے مجھے بھیجے تھے۔ میں نے بتایا کہ ’’طالع ٹمالےکے علاقے کی پسماندگی اورمحرومی کو دیکھ کر سخت جذباتی ہوگیا تھاجبکہ اسی وقت طالع کو خوشی کے جذبات نے بھی گھیر لیا کہ یہ وہی جگہ ہے کہ جہاں ہمارے پیارے حضور کا قیام رہا، اور یہاں آپ خدمات بجالاتے رہے۔ جبکہ یہ خطہ آج بھی غربت و پسماندگی میں گھرا ہواہے، جہاں کے باسی آج بھی انتہائی معمولی وسائل کے ساتھ گزربسر کرنے پر مجبور ہیں، یہاں تو بنیادی انسانی سہولیات کا بھی شدید فقدان ہے۔
طالع نے مجھے بتایا کہ میں یہ سوچ کر چکرا گیا کہ آج سے قریباً چالیس برس پہلے جب حضور اور آپ کے اہل خانہ یہاں مقیم تھے تب یہاں کیا حالت ہوگی، تب ان لوگوں نے کتنے صبر کا مظاہرہ کیا ہوگااور کیسی کیسی قربانیوں کے ساتھ یہاں گزارہ کیا ہوگا۔‘‘
لیکن جب میں اپنی بات مکمل کرتے ہوئے یہاں تک پہنچا تو حضور نے کوئی خاص توجہ نہ دی بلکہ بڑے اطمینان سے فرمایا: ’’الحمدللہ۔ سب ٹھیک تھا۔اللہ کا فضل تھا۔‘‘
طالع کی کارگزاری کی رپورٹ سن کر حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا۔اور خوشی ظاہر کی کہ طالع کو وہ جگہیں دیکھنے کا موقع بھی مل گیا جہاں حضور نے خود رہ کر خدمات کی توفیق پائی تھی۔
یقینا ًطالع کی سفر سے واپسی پر حضورانور خود رپورٹ لینا پسند کرتے کہ اس نے اپنے سفر کے دوران کیا کیا مشاہدہ کیا اور بطورخاص غانا میں کس کس جگہ گیا۔
مجھے خوشی تھی کہ حضور نے طالع کی خیریت اور کام کے بارے میں دریافت فرمایا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ خلیفہ وقت کی طرف سے ایسی توجہ کا ملنا طالع کے لیے ذاتی طور پر کسی گراں قدر سرمایہ سے کم نہیں ہوتا تھا۔
اسی لیے ، ملاقات کے بعد باہر نکلتے ہی میں نے طالع کو ملاقات میں ہونے والی باتیں میسج بھی کر دیں اور اس کی خیریت اور اگلےسفر کی تیاری کی رپورٹ بھی پوچھ لی۔
طالع نے چند منٹ بعد ہی مجھے جواب بھیج دیاتھا لیکن میں بوجہ دیگر مصروفیات اپنا واٹس ایپ کافی گھنٹوں کے بعد ہی دیکھ سکا۔
اپنے جواب میں طالع نے اپنی خوشی کا اظہار کیا تھاکہ وہ خدا تعالیٰ کا کتنا شکرگزار ہے کہ حضورنے اس کا حال دریافت فرمایا ہےاور لکھا کہ وہ اس وقت خود کو کتنا خوش نصیب محسوس کررہاہے کہ اس نے ٹمالے کے اس کنویں سے اپنا منہ ہاتھ دھویا ہے جس کا پانی حضور اپنے یہاں قیام کے دوران استعمال فرمایا کرتے تھے۔
اب میں بیٹھ کر سوچتا ہوں کہ کتنا ہی اچھا ہوا کہ میں نے ملاقات سے نکلتے ہی طالع کو حضور سے ملاقات میں ہونے والی گفتگو میسج کردی اور طالع تک اس خوشنودی اور محبت کا پیغام بالکل بروقت پہنچ گیا۔
اگر میں فوری طور پر ایسا نہ کرتا، یا شام کو میسج بھیجتا یا اگلے دن رابطہ کرتا تو ہوسکتا ہے کہ طالع تک اس کے محبوب آقا کی محبت کا اظہار تاخیر کا شکار ہوجاتا ۔
غم سے بوجھل رات
اس شام میں گھرپہنچا اور اپنی روزمرہ کی گھریلو مصروفیات میں لگ گیایہاں تک کہ رات دس بجے کے بعد مجھے مکرم عمر سفیر صاحب (ڈائریکٹر ایم ٹی اے افریقہ )کا فون آیا، طالع کا سفر افریقہ اور باہمی رابطوں کا سلسلہ انہی کےتوسط سے جاری تھا۔
اس فون پر ہونے والی گفتگو اور پھر اترنے والی رات کا احوال لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔
میں عام طور پر قلم اور تحریر کو وسیلہ بناکر اپنے جذبات و احساسات کو بیان کر ہی لیا کرتا ہوں لیکن جو اس رات مجھ پر گزری اور لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال نے مجھ پر اثر کیا، اس کا بیان اور اظہار میرے بس سے باہر کی بات ہے۔ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ وقت میری زندگی کا اب تک سب سے مشکل اور سخت ترین وقت تھا۔
یہ رات غموں سے بھاری تھی لیکن ساتھ ہی خلافت کی عجیب اور حیران کن برکات بھی ہم پر برستی رہیں۔مَیں جماعت احمدیہ کے افراد کی باہمی مودت، اخوت اور اتحاد سے ملنے والی قوت وسہارے کا بھی ذاتی طور پر گواہ بنا۔
ابتدا میں مکرم عمر سفیر صاحب نے صرف اتنا بتایا کہ غانا میں ایک حادثہ ہوا ہے اور مجھے پوری طرح تسلی دلائی کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ مکرم عمر سفیر صاحب کی بات سے مجھے شروع میں تو یہی گمان رہا کہ طالع کوسفر کے دوران کار کا کوئی ٹریفک حادثہ پیش آیا ہوگا۔
لیکن اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مکرم عمر صاحب نے کہا کہ ’’اب جو اگلی بات میں آپ کو بتانے لگا ہوں وہ تشویش ناک ہے۔یہ کوئی کارکا حادثہ نہیں ہے بلکہ مسلح ڈاکوؤں نے حملہ کیا ہے جس دوران عزیزم طالع کو بھی گولی لگی ہے۔‘‘
یہ لمحہ اور یہ الفاظ میری سماعتوں میں ٹھہر گئے اور میرا دماغ رکنے لگا۔مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں کیا سن رہا ہوں۔ میں نے اپنے سب خیالات کو جھٹکنے کی کوشش کی لیکن غم کا پہاڑ مجھے دبانے لگا۔ مجھے رہ رہ کر خیال آنے لگا کہ اس وقت طالع اکیلا ہے۔اپنے عزیزوں اور پیاروں سے ہزاروں میل دور ہے۔ میری تشویش گہری ہوتی جارہی تھی اور میں کچھ بھی فیصلہ کرنے اور سوچنے سے قاصر تھا۔
تب تک ملنے والی معلومات بھی مبہم سی تھیں، مجھے بظاہر تو یہی بتایا گیا تھا کہ طالع کی حالت خطرے سے باہر ہے، لیکن میری پریشانی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔مجھے یہ خیال ستائے جارہا تھا کہ پتہ نہیں طالع کو باقاعدہ طبی امداد دی جارہی ہے یا نہیں ، یہ لوگ ابھی بھی خطرے میں گھرے ہیں یا کسی پرامن جگہ تک پہنچ گئے ہیں۔
مکرم عمر سفیر صاحب کی کال ختم ہوتے ہی میں نےحضور کے صاحبزادےمکرم ومحترم مرزا وقاص احمد صاحب کو فون کیا، ان کو تب تک کی ساری صورت حال بتا کر حضور کی خدمت میں فوری طوپر اطلاع کرنے اور دعا کی درخواست کرنے کا کہا۔
اسی موقع پر میں نے براہ راست بھی حضورکو پیغام بھیج دیا تا ہمیں حضورکی دعا بھی مل جائے اور یہ فوری راہ نمائی بھی درکار تھی کہ کیا اس وقت طالع کے اہل خانہ کو خبر دینی چاہیے یا نہیں۔
اگلے چند گھنٹے، میں جماعت احمدیہ غانا اور ایم ٹی اے کی مقامی ٹیم سے مسلسل رابطے میں رہا تا زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کرسکوں۔مکرم امیر صاحب غانا سمیت دیگر سب لوگوں نے مجھے یہی باور کرانے کی کوشش کی کہ عزیزم طالع کی حالت تسلی بخش ہے لیکن ان سب لوگوں کی باتوں کی بنیاد کسی دوسرےشخص کی دی ہوئی معلومات پر تھی۔
الغرض یہ وقت بالکل غیر یقینی اور مبہم معلومات کے ساتھ کٹا، ابتدا میں مجھے بتایا گیا کہ طالع کی بازو میں گولی لگی ہے مگر بعد میں تصدیق کی گئی کہ گولی اس کی کمر میں لگی ہے۔
اس موقع پر مجھے یہ بات بتائی گئی کہ طالع کو مقامی کلینک سے ٹمالے جنرل ہسپتال منتقل کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں انتظامات کیے جارہے ہیں ۔یہ جان کر میری فکرمندی اور تشویش کا بڑھنا فطری امر تھااور اس کا صاف مطلب تھا کہ اس کو گہرے زخم آئے ہیں جو اسے بڑے اور مرکزی ہسپتال میں علاج کی ضرورت ہے۔
صورت حال کا کچھ اندازہ ہونے پر میں نے طالع کے والد محترم سید ہاشم احمد صاحب کو بھی فون کرکے واقعہ سے مطلع کردیا۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ آج صبح مسجد جاتے اور آتے ہوئے کسی خاص قلبی جذبے کے ماتحت وہ طالع کے لیے خصوصی دعائیں کرتے رہے ہیں۔
ہم نے طے کیا کہ بھائی ہاشم رات کو سفر کرکے ہارٹلے پول سے لندن میرے پاس پہنچیں گے اور یہاں سے ہم دونوں مل کر طالع کی اہلیہ سطوت کو لندن میں اور میری بہن گگو کواس کی رہائش گاہ بورڈن جا کر واقعہ کی اطلاع دیں گے اور ہماری دعا اورامید یہی تھی کہ تب تک ہمیں طالع کی مکمل خیریت کی پوری طرح اطلاع بھی مل چکی ہوگی۔
گو اب تک رات گہری ہو چکی تھی لیکن اگلے کئی گھنٹوں تک حضور مسلسل کئی بار طالع کی خیریت دریافت فرماتے رہے۔
اب نیند ہم سے کوسوں دور تھی ، اس لیے میں اور میری اہلیہ دعاؤں میں لگے رہے کہ جلد تر طالع کی مکمل خیریت اور اس کے باحفاظت کسی بڑے ہسپتال میں پہنچنے کی اطلاع آجائے۔
رات ساڑھے بارہ بجے کے بعد مجھے اگلے کچھ گھنٹے طالع کے بارے میں کوئی نئی اطلاع نہ پہنچی تو میں نے اسے اچھی خبر پر ہی محمول کیا۔
لیکن رات اڑھائی بجے میرا فون بجا، میں نےدیکھا تو یہ غانا سے مربی سلسلہ مکرم علیم محمود صاحب تھے۔میں نے باقاعدہ کانپتے ہوئے فون اٹھایا کیونکہ طرح طرح کے وسوسوں اور اندیشوں نے مجھے بری طرح گھیر رکھا تھا۔
جیسے ہی ہمارا رابطہ شروع ہوا، مجھے مکرم علیم صاحب کے رونے اور سسکیوں کی آواز آئی۔مَیں نے گھبراہٹ کے عالم میں پوچھا کہ کیا ہوا؟ ان کے جواب نے مجھے اندر سے توڑ کر رکھ دیا ، جب انہوں نے بتایا کہ طالع کو طبی امداد دینے والے اس کے زخم سے خون کا بہاؤ نہ روک سکے اور وہ ٹمالے جنرل ہسپتال کے راستے میں ہی اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہوگیاہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
مجھ میں مزید معلومات لینے کی سکت نہ رہی، میرا سر چکرانے لگا۔ مجھے تب یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میں یہ کیا سن رہا ہوں۔ یہ میری سوچ اورگمان سے بڑھ کرکڑا وقت تھا۔ طالع تو ایک صحت مند، خوش و خرم اور چاک و چوبند نوجوان تھاتو پھر یہ سب کچھ کیسے ہوگیا ۔
جیسے ہی میرا غانا سے رابطہ منقطع ہوا، مَیں نے وقاص بھائی کو فون کرکے اطلاع دی۔وہ بھی سن کر سخت تشویش کا شکار ہوئے۔ مَیں نے درخواست کی کہ جب بھی جلد تر ممکن ہوآپ یہ خبر حضور تک پہنچا دیں۔
لیکن وقاص بھائی کے مطلع کرنے سے قبل ہی مجھے حضور کا براہ راست میسج آگیا جس میں حضور نے طالع کے بارے میں تازہ صورت حال دریافت فرمائی تھی۔
اب میری حالت یہ تھی کہ مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں نے کن الفاظ میں کیا کہنا ہے۔
تب اپنے آپ کو مجتمع کرکے میں صرف اتنا ٹائپ کرسکا:
اناللہ واناالیہ راجعون
پھر اپنی ہمت جمع کرکے میں نے حضور کو طالع کی وفات کے متعلق غانا سے آمدہ اطلاع دی اور حضور کی خاص دعاؤں کا ملتجی ہوا۔
پھر باقی ماندہ رات اور اگلی صبح تک مجھے حضورکے دعاؤں، تسلی، تعزیت اور راہ نمائی کے میسج ملتے رہے۔
اورمجھے نہیں خبر اس رات حضور نے کب اور کتنی دیر آرام فرمایا ہوگا۔
حضورکے پیغامات سے آپ کا صدمہ اور طالع کے لیے خاص پیار نمایاں تھا۔
آپ نے فرمایا: ’’(طالع)ایک ہیرا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سطوت کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور بچوں کی حفاظت فرمائے۔ گگو، ہاشم کو بھی صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘
قارئین اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ وقت میرے لیے ذاتی طور پر کتنا مشکل اور توڑ کر رکھ دینے والا تھا۔ طالع کی اہلیہ اور والدہ اس جانکاہ خبر سے مکمل بے خبر ہیں اور صرف طالع کے والد بھی بس اس کے زخمی ہونے سے آگاہ ہیں۔
اگلے چند گھنٹوں میں مَیں نے پوری کوشش کی اور تسلی کی کہ یہ تکلیف دہ خبر غانا یا انگلستان میں مرکزی انتظامیہ کے چند افراد کےعلاوہ فی الحال کسی تک نہ پہنچے ۔
اس دوران میں گھر کے اندر بے چینی سے ٹہلتا رہا کہ کس طرح اور کن الفاظ میں ہم سطوت اور طالع کے والدین کو خبر دیں گے۔
مجھے رہ رہ کر خیال آتا کہ سطوت ایک شہید صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کی بیٹی ہے جس کے بالکل بچپن میں ہی اس کے والد کو شہید کردیا گیا تھا اور اب عالم جوانی میں ، چھوٹے چھوٹے دو بچوں کاساتھ ہے،اوراب اس کا عظیم شوہر شہادت کا بلند مقام پاکر اس دنیا سے کنارہ کرگیا ہے۔
ان سب پہلوؤں کو سو چ سوچ کر میرا سانس رکنے لگتا تھا۔ میں ٹہلتے ہوئے بے چین ہوجاتا تو لیٹ جاتا لیکن بے چینی میں افاقہ نہ ہوتا اورمیں پھر سے گہری سوچوں میں ڈوبنے لگتا اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
اس عرصے میں میری اہلیہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ مجھے سہارا دے لیکن ہم دونوں ہی غم سے نڈھال تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ ہم کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہے ہوں۔
وقاص بھائی نے رات بھر فون کے ذریعہ مجھ سے مسلسل رابطہ رکھا، اور پوری کوشش کی کہ میں ہمت و حوصلہ جمع رکھوں لیکن وہ خود بھی تو کسی چھوٹے صدمے کا مقابلہ نہیں کررہے تھے۔
اس دکھ اور صدمے کے عالم میں اپنے خالق و مالک خدا کی طرف جھکا، اس کے حضور رویا، اور بار بار حضور انور سے دعائے خاص کی درخواست کرتا رہا۔
الحمدللہ کہ حضور کی دعا اور تسکین بخش کلمات نے رفتہ رفتہ میری حالت بدلنی شروع کردی اور میں اس قابل ہوگیا کہ بھائی ہاشم کو یہ افسوس ناک خبر بتاسکوں جو صبح چھ بجے کے قریب ہمارے گھر پہنچنے ہی والے تھے۔
اس وقت جذبات کی شدت میں، خاکسار نے حضور سے بھی اظہار کیا تھاکہ اس موقع پر میرا ذاتی دکھ اور صدمہ دوچند ہوجاتا ہے کہ جب میں یہ سوچتا ہوں کہ میں نے طالع کے ماموں اور اس کی جماعتی ذمہ داریوں کے نگران ہونے کے ناطے اپنا فرض ٹھیک طرح سے نہیں نبھایاہےاورمیں طالع کی کماحقہ حفاظت کا انتظام نہیں کرسکا۔
میری پوری بات سن کر حضورنے مجھے دلاسہ دیا، مجھے تسلی دی اور نہایت شفقت سے سمجھایا کہ یہ تواللہ تعالیٰ کی تقدیر تھی کہ عزیزم طالع شہادت کے بلند مرتبے کو پالیتا، سو اس معاملے میں تمہیں خود کو قصور وار سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر لکھتا ہوں کہ حضور کے ان خوبصورت الفاظ نے میری کایاہی پلٹ ڈالی،تب مجھے یوں لگا کہ حضور نے ایک بہت ہی بھاری پتھر خود اٹھا کرمیرے سینے سے اتاردیا ہو۔
میں آج بیٹھا اپنی اس وقت کی حالت کا نقشہ کاغذ پر اس لیے بھی کھینچ رہاہوں کیونکہ سب احمدی گواہ ہیں کہ ہم غمزدوں کا سہارا اورہمارے دلی سکون اور قلبی راحت کا مرکزاورماخذ خلیفہ وقت کی ذات اوراس کی مقبول دعائیں ہی ہوا کرتی ہیں۔
فیملی کو اطلاع دینا
صبح چھ بجے کے قریب بھائی ہاشم رات کا سفر کرکے پہنچے اوراندر داخل ہوتے ہی پوچھنے لگے کہ غانا سے کیا تازہ اطلاع آئی ہے۔
ان کو کچھ بھی بتانے سے قبل میں نےعرض کی کہ آپ ایک دفعہ بیٹھ جائیں لیکن ان کے چہرے کے تاثرات یہ ظاہر کرنےکے لیے کافی تھے کہ وہ صورت حال کی سنگینی سے آگاہ اور متوقع خبر سننے کے لیے تیار ہیں۔
بھائی ہاشم کی آمدسے قبل میں طرح طرح کے الفاظ سوچ رہا تھا جن کی مدد سے میں ایک باپ کو بتاؤں گا کہ آپ کا بیٹا ایک دوردراز ملک میں اس قدر مظلومی اور تکلیف کی حالت میں زندگی کی بازی ہار چکا ہے۔میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھاکہ میں ایک دن کسی باپ کو اس کے جواں سال بیٹے کے متعلق ایسی تکلیف دہ خبر دوںگا۔
مجھے یہ تویاد نہیں رہا کہ تب میں نے کن الفاظ میں بھائی ہاشم کو طالع کی شہادت کے متعلق مطلع کیا تھا لیکن ان کا ردعمل مجھے اچھی طرح یاد ہے۔
اس موقع پربھائی ہاشم کا صبر و ضبط کانمونہ مثالی رہا۔ انہوں نے ایک دو گھونٹ پانی پیا اور خود کو مکمل طور پر سنبھالنےمیں کامیاب ہوگئے۔اس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں پہلے میری ہمشیرہ گگو کوبتانا چاہیےاور پھر ہم سب مل کر سطوت کو اطلاع دیں گے۔
اگلے چند لمحوں میں، مَیں نے اپنے بھائی فرید اور بہن نبو کو سانحہ کی اطلاع دی، چونکہ طالع ہمارے سارے خاندان کی آنکھوں کا تارا تھا، اس لیے یہ دونوں بھی خبر سنتے ہی صدمے کی شدت سے بہت زیادہ غمزدہ ہوگئے۔
مجھ سمیت ہمارے بعض عزیز آپس میں رابطے رکھنے میں کچھ سست واقع ہوئے ہیں البتہ یہ سیدطالع احمد ہی تھا جو سارےخاندان کےافراد کے ساتھ نہ صرف مسلسل رابطے میں بھی رہتا تھا اور رشتے نبھانے اورانہیں مضبوط رکھنے کا ہنر خوب جانتا تھا۔
میری بہن گگو کو جیسے ہی بھائی ہاشم نے اس واقعہ کی اطلاع دی تو اس غمزدہ ماں نے مجھے فوراً فون کیا اور ایسی ماں کے دکھ اور صدمے کی شدت اور حالت کا اندازہ کرنا کچھ بھی مشکل نہیں ہوگا جس کا وہ بیٹے سے زیادہ ایک بہترین دوست تھا۔ لیکن میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب میں نے یہ دیکھا کہ یہ عظیم ماں بھی اس غیر معمولی واقعہ پر اپنے پیارے خدا کی رضا پر مکمل راضی ہےاور بار بار یہی کہہ رہی ہے کہ میرا بیٹا کتنا عظیم ہے کہ اس نے جماعت کی خدمت میں اپنی جان بھی پیش کردی۔اورمجھے اس پر فخر ہے۔
ہم طالع کے گھر جمع ہوئے جہاں بھائی ہاشم اور میری بہن گگو نے سطوت کو طالع کی شہادت کی خبر دی۔ اور قربان جاؤں کہ محض خدا کے فضل سے اس عظیم بچی نے خبر سننے سے لےکر اب تک صبرو رضا اور توکل علی اللہ کا مثالی نمونہ اپنایاہے۔اے خدا ! تو اس کو کبھی نہ اکیلا چھوڑنا اور اسے ہمیشہ اپنی مدد اور صبر و رضا سے نوازتے چلے جانا۔ آمین
جماعت کی برکات
سطوت کو بتانے کے بعدبھائی ہاشم نے پاکستان میں رہنے والے قریبی عزیزوں تک طالع کی شہادت کی خبر پہنچائی۔
اور پھر یکایک میرے فون پر اور دیگر عزیزوں کے فون پرہمارےرشتہ داروں کی طرف سے تعزیت کے پیغامات کا تانتا بندھ گیااور اِدھر طالع کے گھر افراد جماعت تعزیت کے لیےآنا شروع ہوگئے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گو تب ہمارا غم اور صدمہ بھاری بھی تھا اور تازہ بھی مگردیگر رشتہ داروں اور احباب جماعت تک شہادت کی خبر پہنچا کر میں خود کو کچھ ہلکا محسوس کرنے لگا تھا۔اس کے بعد قریبی رشتہ داروں اور احباب جماعت کے باہمی رابطوں کی وجہ سے شہادت کی خبر آناً فاناً ساری دنیا میں عام ہوگئی۔
حضورنے از راہ شفقت مجھے پیغام بھجوایا کہ مَیں فی الحال گاڑی خود نہ چلاؤں، کیونکہ حضور جانتے تھے کہ میں گذشتہ رات بھر سویا نہیں تھا اور میری ذہنی حالت گاڑی چلانے کے لیے موافق بھی نہیں تھی۔
اس موقع پر مکرم صدر صاحب خدام الاحمدیہ نے میرے اور اہل خانہ کے لیے اس دن اور اگلے کئی روز کے لیے خدام کی مدد سے سواریوں کا بھی انتظام کردیا اور دیگر ہر طرح کے انتظامات کرنے اورہمیں سہولت دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔
مزید برآں جماعت انگلستان اور اس کی مرکزی انتظامیہ، لجنہ اماء اللہ اور انصاراللہ کی تنظیموں نے بھی ہر طرح سے بھرپور تعاون کیا جس پر ہم ان کے ہمیشہ ممنون رہیں گے۔
جیسے جیسے دن چڑھتا گیا ، اورزیادہ تعداد میں احباب تعزیت کے لیے آنے لگے۔ سب لوگ ہی صدمے میں تھے اور اس اچانک اور انتہائی غیر متوقع خبر کی وجہ سے متاثر نظر آرہے تھے۔
ان آنے والوں میں قریباً سب کے پاس ہی شہیدکے اوصاف حمیدہ کے ذاتی واقعات تھے اور میں حیران ہوا کہ مرحوم کی ان پوشیدہ خوبیوں کا دائرہ کہاں تک وسیع تھا۔
طالع کے گھر حضور کی تشریف آوری
اس دن مجھے دوپہر کے قریب وقاص بھائی کی طرف سے اطلاع ملی کہ ہوسکتا ہے کہ آج حضور کسی وقت تشریف لائیں اور پھر کچھ وقت بعد ہی ہمیں باقاعدہ طور پر اطلاع مل گئی کہ حضور اور حضرت بیگم صاحبہ طالع کے گھر آنے کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔
دنیا داروں کے لیے شاید اس صورت حال کا اندازہ لگانا مشکل ہوکہ جب غم اور صدمہ بھی پوری شدت سے موجود ہو اورحضور کی تشریف آوری کی مسرور کن خبربھی مل جائے۔ میں یہ سوچ کر خوش بھی ہورہا تھا کہ میرے بچوں کو اس وبا کے دور میں پہلی بار حضور کی ایک جھلک ہی نصیب ہوجائے گی۔
قریباً سہ پہر کے وقت حضور طالع اور سطوت کے گھر پہنچے اور قریبی عزیزوں سے ملنے کے بعد لاؤنج میں تشریف فرماہوئے۔
اس مختصر قیام کے دوران میں نے دیکھا کہ حضورطالع کا بہت ہی محبت سے ذکر فرماتے رہے اور آپ نے ذکر فرمایا کہ اس کا وقف سے اخلاص اور خلافت سے اطاعت کا پیمانہ کس قدر بلند تھا۔
حضور نے ذکر فرمایا کہ کس طرح آپ کو پہلے یہ اطلاع ملی کہ طالع کی بازو میں گولی لگی ہے لیکن جب بعد میں بتایا گیا کہ گولی کمر میں لگی ہے تو حضورنے فرمایا کہ مجھے تب فوراً ہی صورت حال کی سنگینی اور زخم کی شدت کی نوعیت سمجھ آگئی تھی۔
اس موقع پر حضوربڑی شفقت اور توجہ سے شہید کے والدین کی باتیں سنتے رہے اور یقینا ًیہ حضور کی توجہ اور شفقت کا ہی معجزہ تھا کہ غم برداشت کے قابل ہونے لگا اور صدمہ کی شدت کم ہوتی محسوس ہونے لگی۔
ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح حضور کی موجودگی آپ کی محبت اور شفقت نے شدیدغم اور مایوسی کے خیالات کو امن کی حالت میں بدل ڈالا۔
اگلے چند روز بھی اسی طرح ہی گزر گئے کبھی تو ہم مختلف اندیشوں میں ڈوبنے لگتے اور اگلے ہی لمحے طالع کی یادوں کو سہارا بنا کر ہم خوش بھی ہوجاتے۔یوں یہ وقت بھی جذبات کے عجیب اتار چڑھاؤ کے ساتھ کٹ گیا۔
ہم سب کو فکر تھی کہ طالع کا جسد خاکی غانا سے بحفاظت اوربغیر کسی تاخیر کے پہنچ جائے لیکن ملکی قانون کے مطابق ضروری کاغذی کارروائی کی تکمیل بھی لازم تھی۔
جذبات سے مغلوب چند گھڑیاں
اگلے کئی روز تک میں اسلام آباد بھی حاضر ہوتا رہا اور مسجد فضل کے قریب واقع طالع کی رہائش گاہ پر بھی جاتا رہا کیونکہ یہاں پر بھی تعزیت کے لیے آنے والوں کا سلسلہ جاری تھا۔
طالع کی شہادت کے اگلے روز ، 25؍اگست کو میں بعدنماز عصر ملاقات کے لیے اسلام آباد حاضر ہوا تو حضورنے میری خیریت دریافت فرمائی اور پوچھا کہ کیا میں نے کچھ دیر اپنی نیند پوری کرلی ہے یا نہیں۔ کیونکہ حضور آگاہ تھے کہ میں طالع کی شہادت کی رات بالکل بھی سو نہیں سکا تھا ۔ مَیں نے عرض کی کہ جی حضور، میں نے چند گھنٹے سوکر آرام کرلیا ہے۔
میں نے سارا دن سوچتےہوئےگزارا کہ ایک بات حضور کو ضرور عرض کرنی ہے لیکن مجھے ڈر تھا کہ میں جذبات سے مغلوب ہوجاؤںگا۔ لیکن وہ بات کہنا بھی ضروری تھا۔
پھر جب جیسے ہی موقع ملا۔ میں نے عرض کی کہ ’’حضور! جس رات عزیزم طالع کی شہادت ہوئی یہ رات مجھ پر بہت ہی بھاری تھی۔ اس رات مجھے میری اہلیہ اور وقاص بھائی نے بہت سنبھالا دیا ، لیکن یہ آپ کی ذات اور آپ کی دعا ئیں ہی ہیں جنہوں نے مجھے بچالیاکیونکہ مجھے نہیں لگتا تھا کہ میں اس رات زندہ رہ پاؤںگا۔‘‘
اور جیسا کہ مجھے اندیشہ تھا میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور مجھے لگتا ہے کہ شاید زندگی میں پہلی دفعہ میں حضور کے سامنے زار وقطار رونے لگا۔
اس موقع پر حضورنے ایک لفظ بھی نہ کہا بلکہ مجھے مکمل موقع دیا کہ اپنے دل کا بوجھ ہلکاکرکے خود کو سنبھال سکوں ۔ تب میں نے پختہ ارادہ کیا کہ مجھے ضرور اپنا حال دل کھول کر رکھنا چاہیے۔
اپنے آنسوؤں کو روکتے ہوئے میں نے عرض کی کہ ’’حضور! میں زندگی بھر ہمیشہ آپ کا ممنون رہوںگا کہ جس طرح آپ نے کل میرا خیال رکھا اور مجھے ٹوٹنے سے بچایا اور مجھے ہمت بخشی کہ میں گرنے کی بجائے مضبوط کھڑا رہوں۔‘‘
تب گو ضبط کا دامن چھوٹ جانے پر مجھے شرمندگی بھی تھی لیکن اپنا حال دل جیسا تیساسہی، بیان کردینے پر میں کچھ پرسکون بھی ہوگیا تھا۔
طالع کی نظم
اس کے بعد میں نے حضورکی خدمت میں عزیزم طالع کی چند سال قبل لکھی ہوئی نظم پیش کی جس میں اس نے خلافت سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔
یہ نظم بعدمیں شائع بھی ہوگئی اور بہت سے لوگوں نے اسے پڑھ بھی لیا لیکن طالع نے یہ نظم لکھ کرصرف اپنے ایک دوست فرہاد صاحب کو ہی سنائی تھی۔
حضور نے بڑی محبت سے نظم والا صفحہ مجھ سے لیا اور پڑھنے لگے۔
اپنی اس نظم میں طالع نے لکھا تھا کہ اسے حضور سے کس قدر محبت ہے لیکن یہ محبت ایک راز بن کر میرے دل میں پوشیدہ رہے گی۔
اس نظم کے آخری شعر میں لکھاتھا کہ ’’مجھے اپنےخلیفہ سے پیار ہے۔ لیکن ان کو کبھی پتہ نہیں چلے گا۔‘‘
یہ پڑھ کر حضور انور نے اوپر دیکھا اور فرمایا: ’’اب تو پتہ چل گیا ہے‘‘
اس کے بعد طالع کے لیے بے پناہ شفقت سے فرمایا: ’’ویسے مجھے تو پہلے سے ہی پتہ تھا کہ طالع کو کتنی محبت ہے خلافت سے‘‘
’’مجھے اپنی فیملی سے پیار ہے اور مجھے حضور سے پیار ہے‘‘
اسی طرح میں نے عرض کیا کہ ایم ٹی اے غانا کے ایک کارکن نے، جو طالع کے ساتھ آخری وقت میں ہسپتال میں موجود تھے، مجھے بتایا کہ اس حملہ میں زخمی ہونے کے بعد بھی طالع اپنی فیملی اور حضور انور سے اپنے پیار کا اظہار کرتا رہا۔
اور آخری لمحے میں بھی اس کی زبان پر آخری الفاظ یہی تھے:
’’مجھے اپنی فیملی سے پیار ہے اور مجھے حضور سے پیار ہے‘‘
پس یہ آخری الفاظ عزیزموصوف کے خلافت سے وفااور بےانتہاپیار کی پکار پکار کر گواہی دے رہے ہیں۔
میری ساری بات سن کر حضور خاموش رہے لیکن میں صاف صاف محسوس کر سکتاتھا کہ تب حضورانورعزیزم طالع کے محبت کے جذبات سے متاثر تھے۔
تاریخ کا حصہ
مَیں نے حضورکے سامنے اظہار کیا کہ ساری دنیا کے احمدی سوشل میڈیا کے ذریعہ شہیدکے بارے میں تعزیت کررہے ہیں اور اس جانے والے وجود کو خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔اور بتایا کہ ایسی ہی ایک تحریر نے مجھے بطور خاص متاثر کیا ہے وہ غانا میں متعین نوجوان واقف زندگی مکرم فواد احمد صاحب نے لکھی ہے، جنہیں اس سفر کے دوران طالع کی معاونت کا موقع بھی ملتا رہا۔
بطور خاص اس نوجوان کایہ آخری جملہ میرے دل کو چھو گیا ہے کہ ’’طالع نے غانا کا سفر تواس لیے کیا کہ وہ تاریخ کو محفوظ کر سکے،لیکن اسے کیا خبر تھی کہ یہاں آکر وہ خود ایک تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔‘‘
یہ بات سن کر حضور نے بھی تائید فرمائی اور کہا کہ یہ بات بالکل درست ہے۔
پھر میں نے حضور کے سامنے طالع کے اوصاف میں سے بعض کا ذکر کیا جن کا میں نے خود مشاہدہ کیا تھا۔
ان میں سے ایک بات جس کو میں نے بطور خاص دیکھا اور محسوس کیا وہ طالع کے اندر خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فرد ہونے کے ناطے ایک فخر کا احساس تھا اور پھر وہ اس حوالے سے خود پر عائد ہونے والی بھاری ذمہ داریوں سے بھی بخوبی آگاہ تھا۔ لیکن اس غیرمعمولی اعزاز نے اس نوجوان کو کسی قسم کے تفاخر اور تکبر میں بھی مبتلا نہیں کیا ہوا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ مجھ سے بہت سے لوگوں نے اظہار کیاہے کہ ان کو اس واقعہ شہادت کے بعد پتہ چل رہا ہے کہ طالع توحضور کے رشتہ داروں میں سے ایک فرد تھا۔
میری بات سن کر حضور نے فرمایا: ’’ہاں۔ امیر صاحب غانا کو بھی علم نہیں تھا کہ طالع کون ہے۔جب جلسہ سالانہ برطانیہ کے بعد امیر صاحب غانا مجھ سے ملاقات کے لیے آئے تو میں نے ذکر کیا کہ طالع نے غانا کا سفر کرنا ہے تو ان کو بالکل بھی علم نہیں تھا کہ وہ میرا عزیز ہے۔ تب مجھے طالع کا باقاعدہ تعارف کرواکر اس کا خاندانی سلسلہ بھی امیر صاحب کو بتانا پڑا تھا۔‘‘
پھر حضور نے مجھ سے طالع کے اہل خانہ کے بارے میں دریافت فرمایا۔
مَیں نےبتایا کہ وہ رفتہ رفتہ سنبھل رہے ہیں بلکہ آج صبح ہم لوگ طالع کی پُر لطف باتیں اور مزاحیہ واقعات یاد کرکے خود بھی ہنس رہے تھے مثلاً وہ واقعہ جو اس نے خود ہی اطفال یوکے کی ریلی کے موقع پراپنی آن لائن گفتگو کے دوران لوگوں کو سنایا بھی تھا۔
میں نے بتایا کہ ’’ہم لوگ یاد کررہے تھے کہ کس طرح چند سال قبل طالع نے حضور کی خدمت میں اپنی صحت اور مالی پریشانی کے متعلق لکھا تھا اور اس پر طالع کو پیغام ملا کہ حضور نے اسے فوراً ملاقات کے لیے یاد فرمایا ہے۔یہ پیغام ملنے پر طالع نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ مَیں نے اپنے خط میں کوئی تفصیل نہیں لکھی تھی کیونکہ میں تو بالکل بھی نہیں چاہتا تھا کہ حضور کا وقت ضائع ہو۔ اور پھر مجھے بتایا کہ صحت کا معاملہ یہ ہے کہ فٹ بال کھیلتے ہوئے کسی دوسرے کھلاڑی نے میری ٹانگ پر زور سے مارا تھا جس کی مجھے کچھ درد ہے اور مالی معاملہ یہ ہے کہ مجھے غلط پارکنگ پرایک چھوٹا سا جرمانہ ادا کرنا ہے۔‘‘
تب میں دیکھ رہا تھا کہ یہ واقعہ سن کر حضور بھی مسکرارہے تھے میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’طالع کچھ پریشان سا تھا کہ میری وجہ سے حضور کو فکرمندی ہوئی اور مجھے فوری طور پرملاقات کے لیے یاد فرمایاہے۔اب وہ سوچ رہا تھا کہ یہ دونوں معاملات تو بالکل معمولی سے ہیں۔اب میں کیا کروں؟ کیا ملاقات کے لیے حاضر ہوجاؤں کیونکہ میں حضور کا وقت ضائع کرنے سے بچتا ہوں یا پھرایک اور خط لکھ کردونوں معاملات کی وضاحت بھیج دوں؟ اس موقع پر میں نے طالع کو مشورہ دیا تھا کہ جب حضور نے ملاقات کے لیے بلایا ہے تو آپ کو بہر صورت وہاں حاضر ہونا چاہیے۔‘‘
میں نے مزید بتایا کہ ’’مجھے اشتیاق تھا کہ معلوم کروں کہ طالع کی ملاقات کیسی رہی ، سو میں نے ملاقات کے بعد اسے فون کیا تو اس نے بتایا کہ حضور مجھ سے نہایت شفقت سے پیش آئے اور پوچھا کہ تمہیں کتنی مالی مدد یا قرضہ درکار ہے۔اس موقع پر طالع نے بتایاکہ مجھے تو بس چند پاؤنڈ جرمانہ ادا کرنا ہے۔ اس کے بعد حضور نے صحت کے مسائل کی تفصیل پوچھی تو طالع نے بتایا کہ مجھے فٹ بال کھیلتےہوئے ایک چھوٹی سی چوٹ لگ گئی تھی جو اب مکمل ٹھیک ہوگئی ہے۔‘‘
پھر میں نے طالع سے پوچھا کہ حضورنے ملاقات میں کچھ اور بھی فرمایاتھا یا نہیں؟ طالع کہنے لگا: ’’ہاں۔ حضور نے فرمایا تھا کہ اچھی بات ہے کہ تم اپنے خط مختصر ہی رکھتے ہو لیکن آئندہ اتنا اختصار نہ ہو بلکہ کچھ تو تفصیل بھی آنی چاہیے۔‘‘
یہ واقعہ سن کر حضور بھی میرےساتھ ہنسنے لگے۔
کہنے کو تو یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن اس سے بھی طالع کی شخصیت کی عکاسی ہورہی ہے۔
طالع ایک صاف گواور خلافت کا مکمل اطاعت گزار انسان تھا کیونکہ اس نے کسی وقف نو کلاس یا کہیں اور سے سنا کہ حضورکی لوگوں کے لیے راہ نمائی ہے کہ لوگ اپنا خط مختصر رکھا کریں۔ طالع نے مزید کوئی بھی سوال نہیں کیا اور اپنے خطوط کو نہایت مختصر کردیایہاں تک کہ اسےحضور کی یہ راہ نمائی مل گئی کہ خط میں کچھ بنیادی تفصیل تو ہونی چاہیے۔
(جاری ہے)