اسلام میں مساوات کا تصور (قسط دوم)
انساني مساوات کي اس سے بڑي مثال اور کيا ہوسکتي ہے کہ ہر سال حج کے موقع پر مختلف رنگ ونسل اور مختلف زبانيں بولنے والے لوگ سفيد لباس زيب تن کرکے ايک جگہ اکٹھے ہوتے ہيں اور لبّيک اللّٰھم لبّيک کے نعروں سے اپنے قلب وروح کو گرماتے ہيں
آنحضور ؐنے رنگ ونسل کے امتياز کوختم کرنے کي تعليم ہي نہيں دي بلکہ آپؐ نے عملاً انساني مساوات کي روشن مثاليں قائم فرمائي ہيں ۔ حضرت بلال رضي اللہ عنہ ايک حبشي غلام تھے۔آپؓ اسلام ميں داخل ہوئے توآنحضرت ؐکي خاص شفقتوں کامورد بنے اور انہوں نے صحابہ کرامؓ ميں ممتاز مقام حاصل کرليا۔چنانچہ آپؓ کا شمار مؤذنِ رسولؐ، سَابِقُ الْحَبَشَة اور عظيم المرتبت بدري صحابي کے طور پر ہونے لگا۔اسلام ميں اذان کا آغاز ہوا تو پہلي اذان کي سعادت بھي حضرت بلالؓ کے حصہ ميں آئي۔ رسول اللہ ؐنے آپؐ کو اپنا سيکرٹري يا خزانچي بھي مقرر کيا ہوا تھا ۔ (اسدالغابہ في معرفة الصحابہ المجلد الاوّل صفحہ 415،بلال بن رباح دارالحکمت العلمية بيروت لبنان 2016ء)۔
ايک مرتبہ حضرت بلال ؓ نماز فجر کي اطلاع دينے کے ليے حاضر ہوئے تو آنحضرت ؐسورہے تھے۔ انہوں نے
اَلصَّلٰوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ۔ اَلصَّلٰوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ۔
يعني نماز نيند سے بہتر ہے کے الفاظ ميں آنحضرتؐ کو نماز کي اطلاع دي ۔نبي کريم ؐ کو اپنے محبوب خادم کے يہ الفاظ اس قدرپسند آئے کہ آپؐ نے ان الفاظ کوفجر کي اذان کا حصہ بناديا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاذان باب السنة في الاذان حديث:716)
فتح مکہ کے روز بھي رسول اللہؐ نے حضرت بلال ؓکو بڑے اعزاز سے نواز ا۔رسول اللہ ؐفتح مکہ کے روز مکہ کي بلند جانب سے اپني اونٹني پر سوار ہوکرآئے۔ اپنے پيچھے اسامہ بن زيد ؓکو بٹھايا ہوا تھا اور آپؐ کے ساتھ بلالؓ تھے۔
(بخاري کتاب المغازي بَاب دُخُولُ النَّبِيِّ ؐمِنْ ائَعْلَي مَکَّةَ)
آنحضرتؐ نے اس موقع پر اپنے اس جاںنثار خادم کو کفار مکہ کي طرف سے دي جانے والي جان ليوا اذيتوں کو ياد رکھا اوريہ اعلان کروايا کہ آج جو بلال حبشي کے جھنڈے کے نيچے آجائے گا اُسے امان دي جائے گي۔ (سيرت الحلبيہ جلد 3صفحہ 97) پس اس طرح آپؐ نے جہاں تکبرو نخوت کے خوگرکفار مکہ سے بہت بڑا بدلہ ليا وہيں بلال ؓ کو ايسے انعام سے نواز ديا جو تا قيامت آپ کي ياد تازہ کرتا رہے گا۔ہاں وہي بلالؓ جو اسي وادي ميں خدائے واحدويگانہ کا نام لينے کي وجہ سے کفار مکہ کے ظلموں اوراذيتوں کا نشانہ بنا کرتا تھا،آج وہ بلال ؓ اُن کے ليے امن اور سلامتي کا ضامن بن گيا۔
ايک مرتبہ رسول اللہ ؐنے حضرت بلالؓ کي فضيلت بيان کرتے ہوئے فرمايا: ‘‘جنت تين لوگوں سے ملنے کي بہت مشتاق ہے علي، عمار اور بلال۔’’
(سير اعلام النبلاء للامام الذہبي جلد 10صفحہ 355،بلال بن رباح موئسسہ الرسالہ 2014ء)
حضرت ابوہريرہ ؓروايت کرتے ہيں کہ آنحضرت ؐنے فرمايا:‘‘بلال کي مثال شہد کي مکھي جيسي ہے جو ميٹھے پھلوں اور کڑوي بوٹيوں سے بھي رَس چوستي ہے مگر جب شہد بنتا ہے تو سارے کا سارا شيريں ہوجاتا ہے۔’’(مجمع الزوائد کتاب المناقب باب فضل بلال المؤذن جلد 9صفحہ 364حديث 15639۔ دارالکتب العلمية بيروت 2001ء)
رسول کريم ؐ اور ديگر صحابہ کرام ؓ کي طرح حضرت عمرؓ کو بھي حضرت بلال ؓ کي بے شمارخوبيوں کي وجہ سے ان سےبےحد محبت تھي ۔ ايک مرتبہ حضرت عمر ؓحضرت ابوبکر ؓکے فضائل بيان کررہے تھے۔آپ ؓنے حضرت بلالؓ کي طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمايا: ‘‘يہ بلال ؓ ہمارے سردار ہيں اور حضرت ابوبکرؓ کي نيکيوں ميں سے ايک نيکي ہيں ۔’’ (تاريخ دمشق الکبير لابن عساکر جلد 10صفحہ 363، ذکر من اسمہ بلال بن رباح، داراحياء التراث العربي بيروت 2001ء)
بخاري کي روايت ہے کہ حضرت عمر رضي اللہ عنہ فرمايا کرتے تھے:
ابُوْ بَکْرٍ سَيِّدُنَا وَاعْتَقَ سَيِّدَنَا يَعْنِي بِلَالًا۔
(بخاري کتاب فضائل اصحاب النبيؐ:مَنَاقِبُ بِلَالِ بْنِ رَبَاحٍ …حديث:3754)
حضرت ابوبکر ؓہمارے سردار ہيں اور انہوں نے ہمارے سردار کوآزاد کيا يعني حضرت بلالؓ کو۔
جب حضرت بلالؓ فوت ہوئے تو حضرت عمرؓ نے فرمايا: آج مسلمانوں کا سردار گذر گيا۔ يہ ايک غريب حبشي غلام کے متعلق بادشاہِ وقت کا قول تھا۔ (سيرت خاتم النبيين ؐ صفحہ124تا125۔از حضرت صاحبزادہ مرزا بشير احمد ؓ )
روايات ميں يہ ذکر بھي ملتا ہے کہ آنحضرت ؐ کي وفات کے بعد جب کبھي حضرت بلال ؓ ملاقات کي غرض سے حضرت عمرفاروق رضي اللہ عنہ کي خدمت ميں حاضر ہوتے تو حضرت عمرؓ ان کا پرجوش استقبال کرتے اور اُن سے فرماتے:
اَنْتَ اَخُوْنَا وَمَوْلَانَا
يعني اے بلالؓ ! آپؓ ہمارے بھائي ہيں اور ہمارے سردار ہيں۔
مکہ فتح ہوا تو آنحضرت ؐکے ساتھ بڑے بڑے جليل القدر صحابہ موجود تھے۔ جن ميں السّابقون الاوّلون بھي تھے اور انصار ومہاجر بھي ليکن آپؐ نے پہلي اذان کے ليے حضرت بلال حبشي رضي اللہ عنہ کو منتخب کيا اور اُن سے فرماياکہ وہ کعبہ کي چھت پر کھڑے ہوکر اذان ديں۔اس طرح آپؐ نے مکہ کے لوگوں کو بتا ديا کہ اسلام ميں کالے گورے اورآقاوغلام کا کوئي تصور نہيں ہے ۔
اسلامي مساوات کي ايک اور زندہ جاويد مثال حضرت زيد بن حارثہؓ اور اُن کے بيٹے حضرت اسامہ رضي اللہ عنہ ہيں۔ يہ دونوں باپ بيٹے نہ صرف آنحضرت ؐ کي بے انتہا شفقتوں کا مورد بنتے رہے بلکہ صحابہؓ بھي ان کے ساتھ خاص محبت کا سلوک فرمايا کرتے تھے ۔ حضرت اسامہ ؓ، نبي کريم ؐکے آزاد کردہ غلام حضرت زيد بن حارثہؓ کے بيٹے تھے جنہيں رسول اللہؐ اپنے بچوں کي طرح پيار کرتے اور ان کي ناز برداري فرماياکرتے۔ آنحضورؐنے اپني وفات سے چندروز پہلے جو آخري لشکر تيار فرمايا۔ اُس کا اميرآپؐ نے حضرت اسامہ ؓکو مقرر فرمايا حالانکہ اس وقت اُن کي عمر صرف 17سال تھي جبکہ بڑے بڑے جليل القدر صحابہ اُس لشکر کا حصہ تھے جن ميں حضرت عمرؓ بھي شامل تھے ۔ رسول کريم ؐ کے وصال کے بعد بھي صحابہؓ حضرت اسامہ ؓ کو امير کہہ کر پکارا کرتے تھے کيونکہ رسول اللہ ؐ نے انہيں امير لشکر مقرر فرماياتھا۔
حضرت اسامہ بن زيد رضي اللہ عنہ کي وفات تک لوگ ان کو امير کہہ کر پکارتے تھے ، لوگ کہتے تھے کہ ان کو رسول اللہؐ نے امير مقرر فرمايا ہے۔
(المستدرک کِتَابُ مَعْرِفَةِ الصَّحَابَةِ حديث:6533)
حضرت سلمان فارسي رضي اللہ عنہ اسلامي دنيا ميں نہايت اعليٰ مقام رکھتے ہيں۔آپ مدينہ کے ايک يہودي کے غلام تھے۔ اسلام لانے کے بعد نبي کريم ؐ کے مشورہ سے مکاتبت کے ذريعہ آپ کو غلامي سے آزادي نصيب ہوئي ۔جب سورت جمعہ کا نزول ہوا تو صحابہ کرام ؓ نےآنحضرت ؐ سے پوچھا کہ
وَاٰخَرِيْنَ مِنْھُمْ (الجمعة:4)
سے کونسا گروہ مراد ہے ؟ اس پر رسول اللہ ؐ نے حضرت سلمان رضي اللہ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمايا:
لَوْ کَان الْاِيْمَانُ عِنْدَالثُّرَيَّا لَنَا لَہ، رَجُلٌ اَوقَالَ رِجَالٌ مِنْ ھٰوئُلَاءِ۔
اگر ايمان ثريا ستارے کي بلندي پر بھي چلا گيا تو سلمان کي قوم سے ايک مرد يا کچھ لوگ اسے واپس زمين پر اُتار لائيں گے ۔ (صحيح البخاري کتاب التفسير سورة الجمعة)
حضرت سلمان رضي اللہ عنہ مضبوط جسم کے مالک اور صحت مند تھے ۔ جنگ خندق کے موقع پر خندق کي کھدائي کے وقت مہاجرين چاہتے تھے کہ آپؓ اُن کے ساتھ شامل ہوں جبکہ انصار نے کہا ہم سے زيادہ ان پر کسي کا حق نہيں اور يہ ہم ميں سے ہيں ۔ اس موقع پر رسول کريم ؐ نے آپؓ کو ايک بہت بڑے اعزاز سے نوازتے ہوئے فرمايا:
سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَيْتِ (مستدرک حاکم جلد 3صفحہ 598)
کہ سلمان ہم اہل بيت ميں سے ہيں ۔ پس باني اسلام ؐاور آپؐ کے ماننے والوں نے اپنے عملي نمونے سے رنگ و نسل سے متعلق تمام امتيازات کو يک سر ختم کرکے ہر انسان کو عزت و تکريم عطا فرمادي ۔
انساني مساوات کي اس سے بڑي مثال اور کيا ہوسکتي ہے کہ ہر سال حج کے موقع پر مختلف رنگ ونسل اور مختلف زبانيں بولنے والے لوگ سفيد لباس زيب تن کرکے ايک جگہ اکٹھے ہوتے ہيں اور لبّيک اللّٰھم لبّيک کے نعروں سے اپنے قلب وروح کو گرماتے ہيں ۔ حج کے علاوہ عمرہ کے دوران اسلامي اخوت اور بھائي چارے کا يہي عمل سارا سال جاري رہتا ہے۔اسلامي نماز بھي اسلامي اخوت و محبت اور انساني مساوات کي بہترين مثال ہے جو پانچ وقت باجماعت ادا کي جاتي ہيں جہاں شاہ وگدا ہر قسم کے امتيازات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ايک صف ميں کھڑے ہوجاتے ہيں اور اپنے ربّ کے حضور قيام اور رکوع وسجود کرتے ہيں ۔ قرآن شريف نے انسانوں کے درميان ہر قسم کي طبقاتي برتري کي مذمت کرتے ہوئے جہاں اُسے نہايت ناپسنديدہ فعل قرار دياہے وہيں فرعون کي سرکشي کو ناپسند فرماکر اُس طبقاتي تقسيم کي بھي مذمت کي ہے جس کے ذريعہ اُس نے اپنے ملک کے باشندوں کو گروہ در گروہ بانٹ ديا تھا۔
اِنَّ فِرۡعَوۡنَ عَلَا فِی الۡاَرۡضِ وَ جَعَلَ اَہۡلَہَا شِیَعًا یَّسۡتَضۡعِفُ طَآئِفَۃً مِّنۡہُمۡ۔(القصص:5)
فرعون نے یقیناً زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہ درگروہ بانٹ دیا۔
حضرت نوح عليہ السلام اور آپؑ کے بيٹے کے واقعے سے بھي پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اللہ تعاليٰ نے خانداني برتري کي بنا پر انساني حقوق کے حصول يا عدم حصول کو واضح فرمادياہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتاہے:
قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنۡ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ (ھود:47)
اس نے کہا اے نوح! یقیناً وہ تیرے اہل میں سے نہیں۔ بلاشبہ وہ تو سراپا ایک ناپاک عمل تھا۔
پس اللہ تعاليٰ کي نگاہ ميں تمام انسان بحيثيت انسان برابر ہيں جنہيں اُس نے مختلف رشتوں اور تعلقات ميں باندھ رکھا ہے تاکہ زندگي کے اس سفر ميں وہ ايک دوسرے کے ممدومعاون بن کر پرسکون زندگي گزار سکيں ۔
وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ مِنَ الۡمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّ صِہۡرًاؕ وَ کَانَ رَبُّکَ قَدِیۡرًا ۔(الفرقان:55)
اور وہی ہے جس نے پانی سے بشر کو پیدا کیا اور اسے آبائی اور سسرالی رشتوں میں باندھا اور تیرا ربّ دائمی قدرت رکھتا ہے۔
قرآن شريف کي متعدد آيات سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعاليٰ کو انساني مساوات اس قدر پسند ہے کہ اُس نے اپنے انبياء و مرسلين کي زبان سے يہ اقرار کروايا کہ بحيثيت انسان اُنہيں عام انسانوں پر کوئي فضيلت اور بلند مرتبہ عطا نہيں ہوا بلکہ وہ بھي اُنہي کي طرح کے انسان ہيں :
قَالَتۡ لَہُمۡ رُسُلُہُمۡ اِنۡ نَّحۡنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَمُنُّ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ؕ وَ مَا کَانَ لَنَاۤ اَنۡ نَّاۡتِیَکُمۡ بِسُلۡطٰنٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ…۔ (ابراھیم:12)
ان کے رسولوں نے ان سے کہا ہم تمہاری طرح کے بشر ہونے کے سوا کچھ نہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے احسان کرتا ہے۔ اور ہم میں طاقت نہیں کہ کوئی غالب آنے والا نشان لے آئیں مگر اللہ کے اِذن سے۔
اللہ تعاليٰ نے انبياء ومرسلين کے سرتاج اور اقليم روحانيت کے شہنشاہ حضرت اقدس محمد مصطفي ؐ کي زبانِ مبارک سے يہ اعلان فرمايا ہے کہ
قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاسۡتَقِیۡمُوۡۤا اِلَیۡہِ وَ اسۡتَغۡفِرُوۡہُ ؕ وَ وَیۡلٌ لِّلۡمُشۡرِکِیۡنَ (حٰم السّجدة:7)
تو کہہ دے میں محض تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک معبود ہے پس اُس کے حضور ثباتِ قدم کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور اُس سے بخشش مانگو۔ اور ہلاکت ہو شرک کرنے والوں کے لئے۔
نبي کريم ؐنے اپني عملي زندگي ميں بھي ہميشہ انساني مساوات کا خاص خيال رکھا اور اپنے قول و فعل کے ذريعہ کبھي انسانوں پر اپني بڑائي ظاہر نہيں فرمائي بلکہ ہميشہ عاجزي وانکساري کا اظہار فرماتے رہے۔حضرت عمرؓ بيان کرتے ہيں کہ ميں نے آنحضور ؐ کو يہ کہتے ہوئے سناکہ ميري بہت زيادہ تعريف نہ کرو جس طرح عيسائي ابن مريم کي کرتے ہيں ۔مَيں صرف اللہ کا بندہ ہوں۔پس تم صرف مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہي کہو۔
(صحيح البخاري کتاب احاديث الانبياأ باب قول اللّٰہ واذک في الکتب مريم…)
حضرت ابوامامہ ؓبيان کرتے ہيں کہ ايک مرتبہ آنحضورؐ کو ہم نے ديکھا کہ آپؐ اپني سونٹي ٹيکتے ہوئے ہماري طرف آرہے ہيں۔ہم حضور ؐکے احترام ميں کھڑے ہوگئے۔آپؐ نے فرمايا:‘‘نہيں بيٹھے رہو اور ديکھو جس انداز ميں عجمي ايک دوسرے کے احترام کے ليے کھڑے ہوتے ہيں تم ايسے نہ کھڑے ہوا کرو۔’’ پھر آپؐ نے فرمايا:‘‘مَيں تو صرف اللہ کا ايک بندہ ہوں ۔ اس کے دوسرے بندوں کي طرح مَيں بھي کھاتا پيتا ہوں اور انہيں کي طرح اٹھتا بيٹھتا ہوں ۔’’(الشفاء لقاضي عياض، الباب الثاني ، الفصل التاسع عشر باب تواضعہ)
جنگ بدر کے موقع پر جب آنحضور ؐجنگ کے ليے تشريف لے گئے تو مسلمانوں کو صرف ستّر سوارياں ميسر تھيں ۔ تمام صحابہ ان پر سوار نہ ہوسکتے تھے۔چنانچہ تين تين اور چار چار صحابہ باري باري ايک اونٹ پر سوار ہوتے تھے ۔ آنحضور ؐکے ليے بھي کوئي الگ اونٹ نہ تھا بلکہ آپؐ ، حضرت علي ؓ اور مرثد بن نابي مرثد ايک اونٹ پر باري باري سوار ہوتے تھے۔(السيرة النبوية لابن ھشام۔غزوہ بدرالکبريٰ عدد ابل المسلمين )
ايک مرتبہ حضرت علي رضي اللہ عنہ کي زرہ گم ہوگئي جو کسي طرح ايک يہودي کے ہاتھ ميں چلي گئي۔حضرت علي ؓنے اُس کے پاس زرہ ديکھي تو اُسے پہچان ليا اور اُس سے کہا کہ يہ تو ميري زِرہ ہے۔اُس يہودي نے کہا کہ اُس نے يہ زِرہ کہيں سے خريدي ہے۔حضرت علي ؓنے قاضي کي عدالت ميں دعويٰ دائر کرديا کہ يہ ميري زرہ ہے جو اس يہودي کے پاس ہے۔ عدالت نے حضرت عليؓ سے مطالبہ کيا کہ گواہ لائيں۔عدالت ميں پيشي کے روز حضرت عليؓ جو اميرالمومنين اور سربراہ مملکت ہيں وہ بھي کھڑے ہيں اور يہودي بھي ۔ حضرت عليؓ نے گواہ پيش کیے جن میںايک اُن کےبيٹے حضرت حسن ؓتھے جبکہ ايک دوسرا شخص تھا۔ قاضي نے کہا کہ بيٹے کي گواہي باپ کے حق ميں قابل قبول نہيں ، کوئي دوسرا گواہ لائيں ۔ اس پر حضرت علي ؓ نے کہاکہ اُن کے پاس دوسرا گواہ نہيں ہے ۔ اس طرح قاضي وقت نے اسلامي حکومت کے سربراہ کي موجودگي ميں اُن کے کھڑے کھڑے يہ فيصلہ سنا ديا کہ يہ زِرہ آپؓ کي نہيں بلکہ يہودي کی ہے اور ميں آپ کے دعويٰ کو خارج کرتا ہوں۔پس يہ ہے اسلام ميں انسانوں کي برابري کا تصور ۔ جس کي بے شمار مثاليں اسلامي تاريخ ميں محفوظ ہيں ۔
جان کي حفاظت
اسلام ميں انساني زندگي کي بقا، اس کي تمدني ضرورتوں اور امن وسکون کا خاص خیال رکھا گيا ہے تاکہ کامل يکسوئي کے ساتھ زندگي بسر کرتے ہوئے اُس کي تمام تر توجہ اپنے خالق ومالک کي طرف لگي رہے۔زندگي قدرت کا ايک انمول تحفہ اور ايک بڑي نعمت ہے ۔ پس جس طرح ايک انسان کوزندہ رہنے کا حق ہے بالکل اسي طرح اُس کي جان کا تحفظ بھي اُس کا بنيادي حق ہے ۔ انسان کو موت کے پنجے سے بچانے کي کئي صورتيں ہوسکتي ہيں ۔مثال کے طور پراگر ايک انسان بيمار يا زخمي ہوجائے تو اسلام نے يہ تعليم دي ہے کہ اُس کي جان بچانے کي ہر ممکن کوشش کي جاني چاہیے اور اُس کے علاج معالجے ميں کوئي کسر نہ اُٹھا رکھي جائے ۔اسي طرح اسلام نے اپنوں يا غيروں کو اقتصادي طور پر کمزور کرنے سے بھي منع فرمايا ہے تاکہ اس کے نتيجے ميں انسان بھوک اور افلاس سے بچے رہيں۔اگرکوئي انسان غربت اور افلاس کا شکار ہے تو اس کي مدد کرنا ہر مسلمان کي بنيادي ذمہ داري ہے۔خاص طور پر اسلامي حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے زير نگيں افراد کي خوراک کا بندوبست کرے۔اگرکسي انسان کي زندگي خطرے ميں ہو تو اُس کي جان بچانے کي ہر ممکن کوشش کرني چاہیے۔جو انسان اس دنيا ميں پيدا ہوتا ہے اُس کي زندگي خدا تعاليٰ کي طرف سے امانت کے طور پر ہے اس ليے کسي انسان کے ليے جائز نہيں کہ وہ بلاوجہ اس امانت ميں خيانت کا مرتکب ہو۔يہي وجہ ہے کہ اسلام نے بلا تفريق رنگ و نسل اور مذہب ومسلک ہر شخص کے زندہ رہنے کے حق کو تسليم کيا ہے۔اسلامي تعليم کي رُو سے ايک بےگناہ انسان کا قتل، پوري انسانيت کے قتل کے مترادف ہے اور ايک انسان کوناحق قتل سے بچالينا ، پوري انسانيت کو بچالينے کے مترادف ہے ۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:
اَنَّہٗ مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ مَنۡ اَحۡیَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحۡیَا النَّاسَ جَمِیۡعًا۔(المائدة:33)
جس نے بھي کسي ايسے نفس کو قتل کيا جس نے کسي دوسرے کي جان نہ لي ہو يا زمين ميں فساد نہ پھيلايا ہوتو گويا اس نے تمام انسانوں کو قتل کرديا۔ اور جس نے اُسے زندہ رکھا تو گويا اس نے تمام انسانوں کو زندہ کرديا ۔
اسي طرح والدين کو بھي يہ حق نہيں ديا گيا کہ وہ کسي بھي طريق پر اپني اولاد کے قتل کے مرتکب ہوں اور اُنہيں جينے کے حق سے محروم کرديں۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے :
وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ مِّنۡ اِمۡلَاقٍ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُکُمۡ وَ اِیَّاہُمۡ ۚ وَ لَا تَقۡرَبُوا الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ ۚ وَ لَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکُمۡ وَصّٰکُمۡ بِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ۔(الانعام:152)
اور رزق کی تنگی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی۔ اور تم بے حیائیوں کے جو اُن میں ظاہر ہوں اور جو اندر چھپی ہوئی ہوں (دونوں کے) قریب نہ پھٹکو۔ اور کسی ایسی جان کو جسے اللہ نے حرمت بخشی ہو قتل نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔ یہی ہے جس کی وہ تمہیں سخت تاکید کرتا ہے تا کہ تم عقل سے کام لو۔
قرآن شريف کي ايک اور آيت کريمہ ميں اللہ تعاليٰ نے اپنے مومن بندوں کي ايک علامت يہ بيان کي ہے کہ وہ کسي جان کو ناحق قتل نہيں کرتے ۔
وَ لَا یَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ…(الفرقان:69)
اور کسی ایسی جان کو جسے اللہ نے حرمت بخشی ہو ناحق قتل نہیں کرتے…۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے مروي ہے کہ نبي کريمؐ نے کسي کي ناحق جان لينے کو گناہ کبيرہ شمار فرمايا ہے ۔ آپؐ نے فرمايا:
الْکَبَائرُ الاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ ، وَ عَقُوْقُ الْوَالِدَيْنِ ، وَ قَتْلُ النَّفْسِ، وَالْيَمِيْنُ الْغَمُوْسُ۔(صحيح البخاري ۔ کتاب الايمان والنذور۔ باب الْيَمِيْنِ الْغَمُوسِ)
کبيرہ گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدين کي نافرماني کرنا، کسي کي ناحق جان لينا اور يمين غموس ۔(قصداً جھوٹي قسم کھانے کو کہتے ہيں )۔
قرآن شريف نے صرف حکومت وقت کو اُس شخص کے قتل کي اجازت دي ہے جو دوسرے لوگوں کو قتل کرے يا بغاوت اور فتنہ و فساد برپا کرکے انساني زندگيوں کو خطرے ميں ڈالے يا جارحانہ جنگ کے ذريعہ انساني زندگياں ختم کرنے کي کوشش کرے ۔پس ايسا شخص اپنے ناجائز فعل سے خود اپنے آپ کو جينے کے حق سے محروم کرليتا ہے ۔
آج کے ترقي يافتہ دَور ميں بظاہر انساني حقوق کا بہت چرچا ہے۔خاص طور پر مغربي ممالک انساني حقوق کے حوالے سے بہت سرگرم دکھائي ديتے ہيں ليکن حقيقت يہ ہے کہ اُن حقوق کي ادائيگي ميں رنگ ونسل اور قوميت پرستي کا عنصراکثر وبيشتر غالب رہتا ہے۔اس کي مثاليں حاليہ تاريخ ميں آسٹريليا، امريکہ اور افريقن ممالک ميں نظر آتي ہیں ۔ آسٹريليا ميں جس سفاکانہ طريق پر وہاں کے قديم باشندوں کا شکار کرکے سفيد نسل والوں نے ان کي زمينوں پر قبضہ جمايا وہ سراسر انسانيت کي توہين اور اُن کي تذليل کے زمرے ميں آتا ہے ۔ يہي کچھ امريکہ ميں وہاں کے قديم باشندوں کي نسل کشي کے ذريعہ کيا گيا۔اُن ميں سے جو لوگ زندہ بچ گئے انہيں مخصوص علاقوں ميں مقيد کر ديا گيا۔ اسي طرح مغربي ممالک نے افريقہ ميں گھس کر وہاں کے انسانوں کو جانوروں کي طرح قتل کيا اور اُن کے قدرتي وسائل کو بے دريغ لوٹاگيا۔
اسلام کي نظر ميں کسي بے قصور جان کا تلف کرنا بڑے جرائم کے زمرے ميں شمار ہوتا ہے۔ اگرکسي معاشرے کے افراد ايک ضابطہ حيات کے پابند نہ ہوں تو اس کا سارا نظام بےمعني ہوکر رہ جاتا ہے ۔ اسلام نے جہاں تمام انساني جانوں کو تحفظ ديا ہے وہيں مسلمانوں کو خاص طور پر ايک دوسرے کے ناحق قتل سے منع فرمايا ہے۔ليکن اس کے باوجود مسلمان ہي مسلمان کي جان کا دشمن بنا رہتا ہے ۔حاليہ دَور ميں مختلف مسلمان ممالک ميں اسلام کے نام پر لاکھوں لوگوں کو تہ تيغ کيا جاچکا ہے۔لاکھوں اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسرے ممالک ميں پناہ گزين ہوچکے ہيں اور يہ سلسلہ ہنوز جاري ہے ۔ وہ دين جو دنيا کو سلامتي عطا کرنے کے ليے آيا ہے اُس کے ماننے والوں کي نا عاقبت انديشي کے سبب وہ دين دنيا ميں بدنام ہو رہا ہے۔ اللہ تعاليٰ کسي جان کو ناحق قتل کرنے کي وعيد سناتے ہوئے فرماتا ہے:
وَ مَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیۡہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیۡمًا(النّساء:94)
اور جو جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرے تو اس کی جزا جہنّم ہے۔ وہ اس میں بہت لمبا عرصہ رہنے والا ہے۔ اور اللہ اس پر غضبناک ہوا اور اس پر لعنت کی، اور اس نے اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
(جاری ہے)