اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (نومبر2020ء)
نومبر2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
صرف گذشتہ برس11 احمدی عبادت گاہوں کو جزوی طور پر گرایا گیا ، بند کردیا گیا، وہاں سے عبادت سے روکا گیا ، عمارت کو نقصان پہنچایا گیا ، اور تعمیر و مرمت سے منع کیا گیا
ضلع سرگودھا میں ناانصافی !
سلاں والی، ضلع سرگودھا (3؍نومبر2020ء): دو برس قبل مخالفین نے اس علاقے میں احمدیہ مسجد اور مربی ہاؤس کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ اب احمدیوں نے مربی ہاؤس صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے نام منتقل کرنے کی درخواست دی تھی۔
3؍نومبر 2020ء کو مسمی حیات اور دیگر تین احمدی افراد مربی ہاؤس کے انتقال کی کارروائی مکمل کرنے تحصیلدار کے دفتر گئے تو وہاں ملاؤں کے اچھے خاصے ہجوم کو اپنا منتظر پایا۔ معلوم ہوتا ہے تحصیلدار کے دفتر کے کسی شخص نے مولویوں کو احمدیوں کی آمد کی اطلاع دے دی تھی۔ ملاؤں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ آنے والے دو احمدیوں پر تشدد کرنا شروع کردیا اور وہاں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔اس حملے کے بعد احمدیوں نے پولیس میں شکایت درج کرائی، لیکن ملاؤں نے بھی جواب میں احمدیوں کے خلاف شکایت درج کرائی۔
اگلے دن پولیس نے نامزد احمدیوں کو تھانے بلوایا۔ احمدیوں کا ایک وفد وہاں کے SHOسے ملا اور انہیں اس سارے واقعے کے پس منظر کے بارے میں بتایا کہ کس طرح یہ ایک مکان کی منتقلی کا معاملہ تھا جو ملاؤں کی شرارت کی وجہ سے یہ صورت اختیار کرگیا۔ اور ملاؤں نے کس طرح احمدیوں پر تشدد کیا۔احمدیوں کا موقف سننے کے بعد SHO نے کہا کہ آپ جاسکتے ہیں۔آپ کے مخالفین نے کل ایک ریلی کا پروگرام بنایا ہے ۔ اس کے بعد ہم اس معاملے کو دیکھیں گے۔ اس پر احمدیوں نے SHOسے کہا کہ آپ ان کو احمدیہ مسجد کی طرف نہ آنے دیں مبادا مزید کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہوجائے۔
مرکزی انجمن غلامان مصطفیٰ سلاں والی نے اس ریلی کے پوسٹرز مختلف مقامات پر آویزاں کرائے۔ ان پوسٹرز میں انہوں نے احمدیوں کے حوالے سے پانچ مطالبات رکھے:
1۔ احمدی مسجد کی تعمیر نہیں کرسکتے
2۔ احمدی اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں کرسکتے
3۔ احمدی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے
4۔ احمدی اسلامی اصطلاحات کا استعمال نہیں کرسکتے
5۔ احمدی اذان نہیں دے سکتے
علاوہ ازیں اس پوسٹر میں احمدیوں کے خلاف ’’احمدیوں پر لعنت بے شمار‘‘ اور ’’آئین پاکستان کے مطابق احمدی مرتد اور کافر ہیں‘‘ جیسے نفرت اور اشتعال انگیز کلمات بھی درج تھے۔ریلی منعقد ہوئی البتہ پولیس نے انہیں مخصوص مقامات سے آگے نہیں آنے دیا جس سے حالات کی مزید خرابی کا خدشہ ٹل گیا ۔
لاہور میں احمدیوں کو خطرات!
اقبال ٹاؤن، لاہور (نومبر 2020ء):اقبال ٹاؤن جماعت کے نائب صدر منیر الدین کے بڑاےبھائی بورے والا سے آئے اور چند ماہ ان کے ساتھ رہائش پذیررہے۔ وہ پاس ہی ایک فلٹریشن پلانٹ سے پینے کے لیے پانی لاتے تھے جہاں ان کی ایک شخص سے اچھی سلام دعا ہوگئی۔
چند روز کے بعد وہ باہر سیر کررہے تھے کہ اچانک موٹر سائیکل پر دو افراد نمودار ہوئے اور ان سے پوچھنے لگے کہ کیا وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان نہیں رکھتے؟ اس سے قبل کہ وہ کوئی جواب دے سکیں ، وہی شخص جو ان کے ساتھ سلام دعا بنا چکا تھا آیا اور موٹر سائیکل سواروں کو کہنے لگا کہ وہ (بندہ) یہ نہیں ہے۔اس نے بعد میں اس احمدی کو بتایا کہ یہ دونو ں موٹر سائیکل سوار خطرناک لوگ ہیں اور آپ کے جو رشتہ دار یہاں رہتے ہیں ان کی مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے اور آنے جانے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے نمبرز بھی نوٹ کیے جاتے ہیں۔
احمدی سکول مالک کے خلاف کارروائی!
بھگت پورہ، لاہور (8؍نومبر 2020ء):سلطان احمد بھگت پورہ کے علاقے میں اپنا پرائیویٹ سکول چلاتے ہیں۔ ان کی فیملی سکول کے بالائی حصے میں مقیم ہے۔ 8؍نومبر 2020ء کو ایک جلوس ان کے سکول کے سامنے آیا جس میں ہجوم نے بینرز اور سریے وغیرہ اٹھا رکھے تھے۔
ہجوم سلطان احمد کے گھر کے باہر کھڑا ہو کر نعرے بازی کرتا اور بےہودہ زبان کا بے دریغ استعمال کرتا رہا۔ اس دوران سلطان احمد خود تو گھر پر موجود نہیں تھے البتہ ان کے اہلِ خانہ وہیں موجود تھے۔ اچنبھے کی بات ہے کہ عین اسی وقت ان کے گھر کا ٹیلی فون کنکشن منقطع ہوگیا اور اگلے تین گھنٹوں تک مسلسل بند رہا۔ جلوس کے بعد کچھ لوگ آئے اور سکول اور گھر کی ویڈیو بناتے رہے۔
اس واقعے کے بعد سلطان احمد اور ان کے اہلِ خانہ بہت خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ ان حالات میں پولیس اس فیملی کو تحفظ دینے میں کیوں ناکام رہی، اس بات کا تعین نہیں ہوسکا۔
جہلم میں احمدیہ مخالف وال چاکنگ!
متیال، ضلع جہلم(27؍اکتوبر2020ء):نامعلوم شرپسندوں نے احمدیہ بیت الحمد کی دیوار پر احمدیہ مخالف کلمات لکھ دیے۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے اس معاملےکی شکایت صدر پولیس سٹیشن میں کی گئی جس پر SHOنے ایک اہلکار کو بھیج کر وہ کلمات مٹوا دیے۔
یکم نومبر 2020ء کو احمدیہ مخالف تحریرات ایک مرتبہ پھر اسی دیوار پر پائی گئیں اور اس کے ساتھ ہی یہ کلمات شہر کے دیگر مقامات پر بھی دکھائی دینے لگے۔
صاف معلوم ہوتا ہے یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کا مقصد احمدیوں کے جذبات مجروح کرنا اور عوام کو احمدیوں کے خلاف اکسانا ہے۔
احمدیوں کی عبادت گاہوں کے خلاف مہم!
لاہور (نومبر 2020ء):صرف گذشتہ برس11 احمدی عبادت گاہوں کو جزوی طور پر گرایا گیا ، بند کردیا گیا، وہاں سے عبادت سے روکا گیا ، عمارت کو نقصان پہنچایا گیا ، اور تعمیرو مرمت سے منع کیاگیا ۔
لاہور کے علاقے سمن برگ میں واقعہ احمدیہ نماز سنٹر اسی رویے کی ایک مثال ہے۔ گذشتہ دو برسوں کے دوران اس نماز سنٹر میں احمدیوں کے لیے عبادت کرنا مشکل سے مشکل تر بنا دیا گیا ہے۔ ایک معمولی سی بات کو لے کر جھگڑا کیا جارہا ہے جس سے احمدیوں کے مذہبی آزادی اور عبادت کے حق پر ضرب پڑی ہے۔
حال ہی میں ایک مقامی متعصب شخص احسان الحق نے SHOجوہر ٹاؤن کو ایک درخواست جمع کرائی ہے جس میں اس نے مذکور ہ احمدیہ سنٹر میں 15سے20احمدیوں کے نماز کے لیے اکھٹے ہونے ، مذہبی تعلیم ،ا ور دروس کے دوران اسلامی اصطلاحات کے استعمال کے خلاف شکایت کی ہے۔
اس شخص نے ایک جعلی ’’ثبوت‘‘ گھڑا اور الزام لگایا کہ مذکورہ سنٹر میں اذان دی گئی۔اس شخص نے پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ احمدیوں کے خلاف جن میں صدر مرکزی صدر انجمن احمدیہ پاکستان اور مختار عام شامل ہیں مقدمہ درج کیا جائے۔
سرگودھا میں احمدی مخالف اجتماعات !
عید گاہ، سرگودھا (5؍نومبر2020ء):عیدگاہ سرگودھا میں ایک ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد ہو ا جو شام سات بجے سے لے کراگلے روز صبح 5 بجے تک جاری رہی۔ اسی روز کمپنی باغ کے علاقے میں ایک محفلِ میلاد بھی منعقد ہوئی جس میں کم و بیش 200 افراد نے شرکت کی۔ان تقاریب میں مقررین نے فرانس کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ کے خلاف بھی اشتعال انگیزی سے کام لیتے ہوئے عوامی جذبات ابھارنے کی کوشش کی۔
ربوہ میں معاندانہ کانفرنس!
ربوہ (6؍نومبر2020ء):اس علاقے میں ریلوے سٹیشن پر واقع محمدیہ مسجد میں مخالفین نے 6؍نومبر 2020ء کو ایک سیرت کانفرنس منعقد کی۔جامعہ مسجد ختم نبوت چناب نگر کے خطیب حاجی غلام مصطفیٰ نے تقریباً ایک بجے اس کانفرنس کا آغاز کیااور270حاضرین کے ساتھ یہ سوا دو تک جاری رہی۔
مجمع سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی امیر مولوی اللہ وسایا نے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’قادیانیوں کو 1974ءمیں کافر قرار دیا گیا۔ مرزائیوں کو کافر قرار دلوانے کے بعد ہم نے چناب نگر کی عدالت کے احاطے میں جمعہ کی پہلی نماز ادا کی تھی۔اس بات کو 45 برس گزر چکے ہیں۔ اس وقت سے آج تک ہم ریلوے سٹیشن پر واقع جامع مسجد محمدیہ میں جمعہ ادا کررہے ہیں۔ 1974ء کے بعد چناب نگر میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا مدرسہ قائم کیا گیا ۔
چناب نگر میں رہنے والے قادیانی مسلمانوں پر بہت ظلم کرتے تھے لیکن اب ان میں ایسا کرنے کی جرأت نہیں۔ اب سارے ملک سے لوگ آکر ہماری کانفرنسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ہماری جماعت ساری دنیا میں قادیانیوں کا پیچھا کررہی ہے۔ محمدیہ مسجد قادیانیوں کے گھر کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ اس کو خوب بھرو اور آباد رکھو۔جو لوگ اسلام اور پاکستان کو نابود کرنا چاہتے ہیں وہ خود نابود ہوجائیں گے۔‘‘
یہ کانفرنس ریلوے سٹیشن پر ہرسال 1974ء میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی دوسری آئینی ترمیم کی یاد کے طور پر منعقد ہورہی ہے۔اس مسجد کے لیے پلاٹ ریلوے کی جانب سے ملاؤں کو مہیا کیا گیا تھا۔ جب سے یہ مسجد وجود میں آئی ہے اسی وقت سے اسے لاؤڈ سپیکرز پر احمدیوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
٭…٭…٭