متفرق مضامین

اسلام میں مساوات کا تصور (قسط چہارم)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

حضرت مسيح موعود عليہ السلام … آيت کريمہ کا تفسيري ترجمہ بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں: ’’يعني خدا کا حکم يہ ہے کہ تم عام لوگوں کے ساتھ عدل کرو۔ اور اس سے بڑھ کر يہ ہے کہ تم احسان کرو۔ اور اس سے بڑھ کر يہ ہے کہ تم بني نوع سے ايسي ہمدردي بجالائی جائے جيسا کہ ايک قريبي کو اپني قريبي کے ساتھ ہوتي ہے۔‘‘

حضرت مصلح موعود رضي اللہ عنہ اۤيت کريمہ

قُلۡ مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اَنۡ یَّتَّخِذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا۔(الفرقان:58)

تو ان سے کہہ دے کہ میں تم سے اُس (یعنی خدا کا پیغام پہنچانے) کا کوئی اجرنہیں مانگتا۔ ہاں اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے چاہے تو اپنے رب کی طرف جانے والی راہ کو اختیار کرلے (وہی میرا بدلہ ہوگا)،کي تفسير بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں: ’’فرماتا ہے۔تُو ان لوگوں سے کہہ دے کہ مَيں تم سے خدا تعاليٰ کا پيغام پہنچانے کے بدلہ ميں کسي اجر کا طالب نہيں۔ ميرا اجر تو صرف اتناہي ہے کہ اگر کسي شخص کا دل اسلام کي صداقت قبول کرنے کے لئے کھل جائے اور وہ اپني مرضي سے اس راہ کو اختيار کرلے جو اُسے خدا تعاليٰ تک پہنچانے والي ہے تو وہ اسلام ميں داخل ہوجائے اور اپنے ربّ کي رضا حاصل کرلے۔

يہ آيت اسلام کے اس بلند ترين نظريہ کو دنيا کے سامنے پيش کرتي ہے کہ قبول مذہب کے بارہ ميں ہر شخص کو آزادئ رائے کا حق حاصل ہے اور اسے اختيار ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے قبول کرلے۔ اس بارہ ميں کسي پر جبرو تشدّد کا روا رکھنا جائز نہيں۔ جب رسول کريم ؐ دنيا ميں مبعوث ہوئے اس وقت عرب اور دوسرے ممالک کے لوگ مذہبي معاملات ميں جبروتشدّد کو روا رکھنا بالکل جائز سمجھتے تھے۔ ليکن قرآن کريم نے اس طريق عمل کو غلط قرار ديتے ہوئے اعلان کيا کہ

لَاۤ اِکْرَاہَ فِي الدِّيْنِ قَدْتَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ (البقرة:257)۔

يعني دين کے معاملہ ميں کوئي جبر نہيں ہونا چاہئے کيونکہ ہدايت اور گمراہي ميں خدا تعاليٰ نے نماياں فرق کرکے دکھا دياہے۔پس جو سمجھنا چاہے وہ دليل سے سمجھ سکتا ہے اس پر جبر نہيں کرنا چاہئے۔

اس آيت سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اسلام غير مذاہب سے کس قدر رواداري کي تعليم ديتا ہے اور مذہبي معاملات ميں انہيں کس قدر آزادي عطا کرتا ہے۔ مگر افسوس کہ اسلام کي اس روشن تعليم کے ہوتے ہوئے يورپين مستشرقين نے انتہائي ظلم سے کام ليتے ہوئے باني اسلام صلي اللہ عليہ وسلم پر يہ اعتراض کيا ہے کہ آپ کا غير مذاہب سے سلوک جبرو تشدّد پر مبني تھا اور آپ کا مذہب تلوار کا مذہب تھا۔ حالانکہ مذہبي رواداري پر اسلام نے اس قدر زور ديا ہے کہ جس کي نظير کسي اور جگہ نہيں پائي جاتي۔‘‘

(تفسير کبير جلد ششم ،صفحہ 526)

حضرت خليفة المسيح الرابع رحمہ اللہ تعاليٰ اسلام ميں مذہبي آزادي کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہيں :’’قرآن کريم وہ واحد کتاب ہے جو دين کے معاملے ميں مکمل اور غير مشروط اۤزادِئ ضمير کي علمبردار ہے۔ قرآن کريم غير مذہبي لوگوں کي طرف سے مذہب پرلگائے جانے والے اس غلط الزام کي سختي سے ترديد کرتا ہے کہ مذاہب جبر کي حوصلہ افزائي کرتے ہيں۔ چنانچہ فرماتاہے :

لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ۔ (البقرة:257)

دين ميں کوئي جبر نہيں۔ يقيناً ہدايت گمراہي سے کھل کر نماياں ہوچکي۔ پس جو کوئي شيطان کا انکار کرے اور اللہ پر ايمان لائے تو يقيناً اس نے ايک ايسے مضبوط کڑے کو پکڑ ليا جس کا ٹوٹنا ممکن نہيں۔ اور اللہ بہت سننے والا( اور) دائمي علم رکھنے والا ہے۔ دين کے معاملے ميں کسي قسم کا جبر جائز نہيں ہے۔ ہر شخص مکمل طور پر آزاد ہے۔ کسي مذہب ميں يہ اجازت نہيں دي گئي کہ کسي کا دين زبردستي تبديل کيا جائے اور نہ ہي يہ اجازت ہے کہ کسي شخص کو اپنا مذہب چھوڑنے سے زبردستي روکا جائے۔ مزيد براں يہ کہ لَاۤ اِکْرَاہَ فِي الدِّيْنِ کا اعلان فطرت انساني کا ايک غير مبدل قانون ہے يعني اگر طاقت استعمال کي بھي جائے تو يہ دين کے معاملے ميں بے اثر ثابت ہوتي ہے کيونکہ طاقت کے بل بوتے پر دل و دماغ کو تبديل نہيں کيا جاسکتا۔ زبردستي ايسا کرنا بالکل بے سود ہے جس کا نتيجہ جبرواستبداد کے سوا کچھ نہيں نکلا کرتا۔

اس آيت ميں تمام اديان کيلئے طاقت کے استعمال کي کليةً نفي کي گئي ہے کيونکہ دين کا لفظ عام ہے جس کا اطلاق محض اسلام پر ہي نہيں بلکہ تمام اديان پر يکساں ہوتا ہے۔ بظاہر تو بعض دوسرے اديان بھي طاقت کے استعمال کا انکار کرتے ہيں ليکن سوال يہ ہے کہ آيا ان کي الہامي کتب ميں يہ تعليم اس قدر وضاحت سے موجود بھي ہے يا نہيں ؟ ميرا خيال ہے کہ اصولي طور پر ايسي تعليم تمام الہامي کتب ميں مل سکتي ہے ليکن ممکن ہے کہ وہ اس قدر جامع نہ ہو بلکہ مقابلةً نہايت ابتدائي قسم کي ہو۔ يہ بھي عين ممکن ہے کہ بعد کے پيروکاروں نے اپنے مقاصد کي خاطر اس ميں کئي باتيں شامل کرلي ہوں ، ليکن يہ ايک الگ معاملہ ہے۔ جہاں تک قرآن کريم کا تعلق ہے تو وہ اس بنيادي قانون کو بيان کرکے خاموش نہيں ہوجاتا بلکہ ديگر مذاہب کو بھي اس الزام سے بري الذمہ قرار ديتا ہے کہ انہوں نے اپني تعليمات کو پھيلانے کي خاطر طاقت کا استعمال کيا تھا۔ قرآن کريم گزشتہ انبياء اور ان کي تعليمات کا ذکر کرتے ہوئے يہ اعلان کرتا ہے کہ وہ آزادئ ضمير کے علمبردار تھے جبکہ ان کے بالمقابل ہميشہ سے حق کي مخالفت کرنے والوں نے جبرواستبداد کے ذريعے اسے دبانے کي کوشش کي۔‘‘

(عدل ، احسان اور ايتاء ذي القربيٰ، صفحہ 107تا109)

عدل و انصاف کا قيام

اسلام نے دنيا ميں پائيدار امن کے قيام کے ليے تمام انسانوں کے درميان عدل وانصاف کو قائم کرنےپر بڑا زور ديا ہے۔ اگر کسي معاشرے ميں ناانصافي ہوگي اور انصاف نہيں ہوگا تو اس کے نتيجے ميں معاشرے ميں بے چيني بڑھے گي اور باہمي رقابتوں ميں اضافہ ہوگا۔پس کسي بھي معاشرے ميں بسنے والے ہر فرد کا يہ بنيادي حق ہے کہ اُس کے ساتھ کسي قسم کي زيادتي نہ ہو اور اگر کوئي فرد اُس کي حق تلفي کرے تو ذمہ داران انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اُسے اُس کا حق دلائيں اور اُس حق تلفي کا ازالہ کريں۔ اسي ليے اسلام نے عدل سے بڑھ کر احسان کي تعليم دي ہے تاکہ باہمي تعلقات ميں ہم آہنگي پيدا ہو اور انسان ايک دوسرے سے دُور ہونے کي بجائے قريب آئیں اور اُن ميں باہمي تعاون کا جذبہ پروان چڑھتا رہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآئِ ذِی الۡقُرۡبٰی(النحل:91)

يقيناً اللہ عدل کا اور احسان کا حکم ديتا ہے۔

حضرت مسيح موعود عليہ السلام اس آيت کريمہ کا تفسيري ترجمہ بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں: ’’يعني خدا کا حکم يہ ہے کہ تم عام لوگوں کے ساتھ عدل کرو۔ اور اس سے بڑھ کر يہ ہے کہ تم احسان کرو۔ اور اس سے بڑھ کر يہ ہے کہ تم بني نوع سے ايسي ہمدردي بجالائی جائے جيسا کہ ايک قريبي کو اپني قريبي کے ساتھ ہوتي ہے۔‘‘

(سراج الدين عيسائي کے چار سوالوں کا جواب،روحاني خزائن جلد 12صفحہ11تا 12)

دنيا کے اکثر معاشروں ميں عام طور پر يہ دستور چلا آرہاہے کہ جب قوم کا کوئي بااثر فرد جرم کرے تو اُسے معاف کر ديا جاتا ہے ليکن کمزورطبقے کو چھوٹے چھوٹے جرائم ميں سزا ئيں دي جاتي ہے۔ آنحضور ؐنے ناانصافي کے اس طريق کونہ صرف سخت ناپسند فرماياہے بلکہ آپؐ نے معاشرے کے ہر فرد کے ليے عدل وانصاف کے يکساں اصول متعين فرماکر انہي کے مطابق عمل بھي کروايا ہے۔آپ کا ارشاد مبارک ہے :

اِنَّمَا اَھْلَکَ الَّذِيْنَ قَبْلَکُمْ اِنَّھُمْ کَانُوْا اِذَا سَرَقَ فِيْھِمُ الشَّرِيْفُ تَرَکُوْہُ وَاِذَا سَرَقَ فِيْھِمُ الضَّعِيْفُ اَقَامُوْا عَلَيْہِ الْحَدَّ۔ وَاَيْمُ اللّٰہِ لَوْ اَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَھَا۔(صحيح البخاري۔کتاب احاديث الانبياء۔ باب حديث الغار۔ روايت نمبر 3475)

تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ جب ان کا کوئي بڑا اور بااثر آدمي چوري کرتا تو اس کو چھوڑديتے اور جب کوئي کمزور چوري کرتا تو اس کو سزا ديتے۔ خدا کي قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھي چوري کرتي تو ميں اس کے بھي ہاتھ کاٹنے کا حکم ديتا۔

حضرت خليفة المسيح الرابع رحمہ اللہ تعاليٰ آنحضرتؐ کي سيرت کا ايک واقعہ بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں: ’’آنحضرت ؐکے پيارے چچا حضرت عباس رضي اللہ عنہ ہجرت کے وقت تک مشرف بہ اسلام نہ ہونے کي وجہ سے غزوہ بدر ميں قريش مکہ کے ساتھ تھے اور شکست کے بعد بنائے جانے والے جنگي قيديوں ميں شامل تھے۔ انہيں بھي ديگر قيديوں کي طرح مسجد نبوي ميں ايک ستون کے ساتھ کَس کر باندھ ديا گيا۔ يہاں تک کہ آپ شدت تکليف سے کراہنے لگے۔ آپ کي کراہنے کي آواز سن کر آنحضرت ؐبے چين ہوگئے۔ آپؐ کو نيند نہ آرہي تھي اور کروٹوں پر کروٹيں بدلتے جارہے تھے۔ چنانچہ آپؐ کي بے چيني اور تکليف کو محسوس کرتے ہوئے قيديوں کے نگران نے حضرت عباس رضي اللہ عنہ کي رسياں ڈھيلي کرديں جس سے انہوں نے کراہنا اچانک بند کرديا۔ ان کے کراہنے کي آواز اچانک بند ہوجانے پرآپؐ کي پريشاني اور بڑھي تو آپؐ نے کے دريافت کرنے پر عرض کيا گيا کہ آپؐ کي تکليف کے پيش نظر حضرت عباس رضي اللہ عنہ کي رسياں ڈھيلي کردي گئي ہيں۔ آنحضرت ؐنے يہ سن کر ناراضگي کا اظہار فرمايا اور حکم ديا کہ اگر عباس کي رسياں ڈھيلي کردي گئي ہيں تو پھر باقي تمام قيديوں کي رسياں بھي ڈھيلي کردي جائيں کيونکہ تمہيں يہ حق نہيں پہنچتا کہ تم اُن کے ساتھ ديگر قيديوں کي نسبت کوئي امتيازي سلوک روا رکھو۔‘‘

(الطبقات الکبريٰ بحوالہ عدل،احسان اور ايتاء ذي القربیٰ،صفحہ 146)

قرآن کريم ميں مسلمان حکمرانوں اور صاحب اقتدار لوگوں کو يہ حکم ديا گيا ہے کہ وہ معاشرے کے تمام لوگوں کے درميان انصاف سے کام ليں اور جب کوئي فيصلہ کريں اس ميں انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کريں تاکہ حق دار کو اس کا حق ملے اور کسي بھي فريق سے کسي قسم کي زيادتي نہ ہونے پائے۔اللہ تعاليٰ فرماتا ہے :

وَ اِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ(النساء:59)

اور جب تم لوگوں کے درميان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔

قرآن کريم کے ايک اور مقام پر فرمايا:

وَ اِنۡ حَکَمۡتَ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ بِالۡقِسۡطِؕاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ۔(المائدة:43)

اور اگر تو فيصلہ کرے تو ان کے درميان انصاف سے فيصلہ کر۔ يقيناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

اسلام کا يہ حکم صرف مسلمانوں تک محدود نہيں بلکہ انصاف کے معاملے ميںمعاشرے ميں بسنے والا ہر فرد اس ميں شامل ہے۔ اسلام نے دشمني کے باوجود دشمن قوم سے بھي انصاف کا حکم دے کر ايسي تعليم پيش فرمائي ہے جودنيا کو امن کي طرف لے جانے والي ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔(المائدة:9)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے 22؍اکتوبر 2008ء کو برطانوي پارليمنٹ ہاؤس آف کامنزممبران پارليمنٹ کے سامنے ايک تاريخ ساز خطاب فرمايا۔ اپنے خطاب کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مندرج بالا آيت کريمہ اور اس کا ترجمہ پيش کرنے کے بعد فرمايا: ’’يہ وہ تعليم ہے جو معاشرہ ميں امن قائم کرتي ہے۔ فرمايا کہ اپنے دشمن کے معاملہ ميں بھي عدل کو نہ چھوڑو۔ ابتدائي تاريخ اسلام بتاتي ہے کہ اس تعليم پر عمل کيا گيا تھا اور عدل وانصاف کے تمام تقاضے پورے کيے گئے تھے…تاريخ اس حقيقت پر شاہد ہے کہ فتح مکہ کے بعد حضرت اقدس محمد مصطفيٰﷺنے ان لوگوں سے کوئي انتقام نہيں لياتھا جنہوں نے آپ کو شديد تکاليف دي تھيں۔آپؐ نے نہ صرف انہيں معاف کرديا تھا بلکہ اجازت دي تھي کہ وہ اپنے اپنے دين پر قائم رہيں۔آج بھي امن صرف اسي صورت ميں قائم ہوسکتا ہے جب دشمن کے ليے بھي عدل کے تمام تقاضے پورے کيے جائيں۔اور ايسا صرف مذہبي انتہا پسندي کے خلاف جنگوں ميں ہي نہيں بلکہ ديگر جنگوں ميں بھي کيا جانا چاہئے۔ اسي طرح جو امن حاصل ہوگا درحقيقت وہي پائيدار امن ہوسکتا ہے۔

گزشتہ صدي ميں دو عالمي جنگيں لڑي گئي ہيں۔ اُن کي جو بھي وجوہات تھيں اگر غور سے ديکھا جائے تو ايک ہي وجہ سب سے نماياں دکھائي ديتي ہے اور وہ يہ ہے کہ پہلي مرتبہ عدل کو صحيح رنگ ميں قائم نہيں کيا گيا تھا۔ اور پھر وہ آگ جو بظاہر بجھي ہوئي معلوم ہوتي تھي دراصل سلگتے ہوئے انگارے تھے جن سے بالآخر وہ شعلے بلند ہوئے جنہوں نے دوسري مرتبہ ساري دنيا کو اپني لپيٹ ميں لے ليا۔ آج بھي بے چيني بڑھ رہي ہے۔ وہ جنگيں اور ديگر اقدامات جو امن کو قائم کرنے کي خاطر کيے جارہے ہيں ايک اور عالمي جنگ کا پيش خيمہ بن رہے ہيں۔ موجودہ اقتصادي اور سماجي مسائل اس صورتحال ميں اور بھي زيادہ ابتري کا باعث بن رہے ہيں۔‘‘

(عالمي بحران پر اسلامي نقطہ نظر،صفحہ 14ت15)

دشمنان اسلام کا ہميشہ سے يہ وطيرہ رہا ہے کہ وہ يہود اور مسلمانوں کے درميان دشمني کو ناجائز طور پر اچھالتے اور اُسے ہوا ديتے ہيں جبکہ تاريخ اسلام ميں محفوظ بے شمار واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح رسول اللہ ؐ،خلفائے راشدين اور مسلمان قاضي يہود اور مسلمانوں کے مابين پيدا ہونے والے اختلافات کوقرآن کريم کي تعليم کي روشني ميں پورے انصاف کے ساتھ حل فرماتے رہے ہيں۔

آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کي سيرت طيبہ سے ايک واقعہ بيان کرتے ہوئے حضرت خليفة المسيح الرابع رحمہ اللہ تعاليٰ فرماتے ہيں: ’’بنو نظير، مدينہ ميں آباد ايک يہودي قبيلہ تھا۔ يہ قبيلہ غزوۂ خندق کے دوران اپنے مسلم اتحاديوں سے غداري اور دھوکہ دہي کي پاداش ميں مدينہ سے نکالا جا چکا تھا۔ اگر چہ طالمود کي تعليم کے مطابق ان کے اس سنگين جرم کي سزا صرف اور صرف موت تھي ليکن آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے ان پر شفقت فرماتے ہوئے سزائے موت کي بجائے صرف مدينہ بدر کرنے کا حکم صادر فرمايا۔ چنانچہ وہ مدينہ سے ہجرت کرکے خيبر کے مقام پر چلے گئے جہاں انہوں نے خبير کے نام سے ايک نہايت مضبوط قلعہ تعمير کيا۔طاقت مجتمع کر لينے کے بعد انہوں نے خلاف اسلام سرگرميوں کا از سر نو آغاز کرديا۔ اس کي تفصيلات ميں جانے کي ضرورت نہيں۔ مختصر يہ کہ ان کا يہ جارحانہ پن بالآخر غزوہ خيبر کے ساتھ ہي اپنے منطقي انجام کو پہنچ گيا۔ جنگ سے پہلے جب مسلمانوں کي طرف سے نگران دستے کبھي کبھار اس علاقہ ميں بھجوائے جاتے تھے تو ان ميں سے ايک دستے نے ان کي ايک نو آبادي ميں لوٹ کھسوٹ کي اور پھلوں کے کچھ باغات کو بھي نقصان پہنچايا جس پر آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کو بے حد تکليف پہنچي اور آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے ناراضگي کا اظہار فرمايا۔ نيز يہ تنبيہ بھي فرمائي کہ اللہ تعاليٰ تمہيں اہلِ کتاب کے گھروں ميں ان کي اجازت کے بغير داخل ہونے کي ہرگز اجازت نہيں ديتا۔ اسي طرح ان کي خواتين کو قتل کرنا يا باغات ميں سے پھل توڑنا بھي تمہارے لئے حرام ہے۔ (سنن ابوداؤد۔ کتاب الخراج والفيء والامارة باب في تعشير اھل الذمة اذا اختلفوا بالتجارة، روايت نمبر 3050،دارالسلام للنشر والتوزيع، الرياض ، الطبعة الاوليٰ ، اپريل 1999ء)مختصر يہ کہ ان کي شديد مذہبي عداوت کے باوجود آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم عدلِ مطلق کي قرآني تعليم پر سختي سے کاربندرہے۔‘‘

(عدل،احسان اور ايتاء ذي القربیٰ، صفحہ 146)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشير احمد رضي اللہ عنہ نے اپني کتاب سيرت خاتم النبيين ؐ ميں رسول کريم ؐکي زندگي کا ايک واقعہ بيان کرتے ہوئے تحرير فرمايا ہے کہ ’’محکمہ قضاء و عدالت ميں مسلم اور غير مسلم رعايا کے حقوق قانوني رنگ ميں تو مساوي تھے ہي مگر عملاً بھي انصاف کا ترازو کسي طرف جھکنے نہيں پاتا تھا۔ چنانچہ ہم ديکھ چکے ہيں کہ جب بنو نضير کي جلا وطني کے موقعہ پر انصار اور يہود کے درميان اختلاف پيدا ہوا يعني يہودي لوگ انصار کي اولاد کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے اور انصار انہيں روکتے تھے تو اس پر آنحضرت ؐ نے مسلمانوں کے خلاف اور يہود کے حق ميں فيصلہ فرمايا۔‘‘

(ابوداؤود کتاب الجہاد باب في الاسير برہ علي الاسلام )(سيرت خاتم النبيين ؐصفحہ 655)

پس اسلام نے غيرمسلموں کے ساتھ نہ تو کبھي ناواجب سختي کي ہے اور نہ ہي اپنے ماننے والوں کو اس کي تعليم دي ہے۔حق يہ ہے کہ اسلامي طرز حکومت کے مطابق چلنے والے معاشرے ميں ہميشہ اُن کے حقوق کا خيا ل رکھا گيااور اُن پر ہر قسم کے ظلم کو ناجائز قرار ديا جاتا رہا۔

حضرت مصلح موعود رضي اللہ تعاليٰ عنہ تحرير فرماتے ہيں کہ ’’رسول کريم ؐکے زمانہ ميں ايک دفعہ ايک مسلمان نے ايک ذمي کافر کو قتل کرديا۔ اس پر رسول کريم ؐ نے حکم ديا کہ اس مسلمان کو قصاص کے طور پر قتل کر ديا جائے اور فرمايا : ذميوں کے حقوق کي حفاظت ميرا سب سے اہم فرض ہے۔( نصب الرايہ في تخريج احاديث الہدايہ جلد 4صفحہ 336) اسي بناء پر امام يوسف نے کتاب الخراج ميں اس امر کو تسليم کيا ہے کہ عہد نبويؐ اور زمانہ خلافتِ راشدہ ميں ايک مسلمان اور ذمي کا درجہ تعزيرات اور ديواني قانون کے لحاظ سے بالکل يکساں تھا۔ اور دونوں ميں کوئي امتياز نہيں کيا جاتا تھا۔(کتاب الخراج صفحہ108) ايک دفعہ خيبر کے يہوديوں کي شرارتوں سے تنگ آکر بعض مسلمانوں نے اُن کے کچھ جانور لوٹ لئے اور اُن کے باغوں کے پھل توڑ لئے۔ رسول کريم ؐ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمايا : اللہ تعاليٰ نے تمہيں يہ اجازت نہيں دي کہ تم رضا مندي حاصل کئے بغير اہل کتاب کے گھروں ميں گھس جاؤ۔ اسي طرح تمہارے لئے يہ بھي جائز نہيں کہ تم اُن کي عورتوں کو مارو يا اُن کے باغوں کے پھل توڑو۔ (ابوداؤد جلد 2صفحہ 424)ايک دفعہ بعض صحابہؓ نے سفر کي حالت ميں جبکہ انہيں بھوک کي تکليف تھي کفار کي چند بکرياں پکڑ ليں اور ذبح کرکے اُن کا گوشت پکانا شروع کرديا۔ رسول کريم ؐ کو معلوم ہوا تو آپ نے ہانڈياں اُلٹ ديں اور فرمايا کہ لوٹ کي ہر چيز مردار سے بدتر ہے۔ (ابن ہشام جلد 2صفحہ 188) ايک دفعہ مشرکين کے چند بچے لشکر کي لپٹ ميں آکر ہلاک ہوگئے۔ رسول کريم ؐ کو اس کا بڑا صدمہ ہوااور آپ نے فرمايا:مشرکين کے بچے بھي تمہاري طرح کے انسان ہيں اس لئے خبردار بچوں کو قتل مت کرو ، خبردار بچوں کو قتل مت کرو۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل جلد 4صفحہ24)‘‘(تفسير کبير جلد ششم،صفحہ 536تا537)

پس عدل و انصاف اسلام کے بنيادي اصولوں ميں سے ايک اہم اصول ہے جس کے بغير کسي بھي معاشرے ميں حقيقي امن کا قيام ممکن نہيں۔يہ ايک ايسا بنيادي اصول ہے جس پر کاربند ہوکر بين الملکياور بين الاقوامي تعلقات کو خوشگوار رکھا جاسکتا ہے۔اللہ تعاليٰ نے نبي کريم ؐکو ايسا دل عطاکيا تھا جوساري مخلوق کے ليے سراسر رحمت تھا۔آپ کي زندگي کا ہر پہلو مخلوق خدا کي ہمدردي اور اُن کي خيرخواہي کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھا اورآپ کي جودو سخاسب کے ليے عام تھي۔ہرکوئی آپؐ کے حسن واحسان سے بہرہ ورہوتا اور ہر کسي کو اس چشمہ رحمت سے فيضاب ہونے کا موقع ملتا۔آپؐ کي لائي ہوئي تعليم ميں غير قوموں کے ساتھ نہ صرف تمدني تعلقات قائم کرنے کي ہدايت موجود ہے بلکہ ان کے ساتھ انصاف سے پيش آنے کي نصيحت بھي فرمائي گئي ہے۔ اللہ تعاليٰ ارشاد فرماتا ہے:

لَا یَنۡہٰٮکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ۔(الممتحنة:9)

اللہ تمہيں ان سے منع نہيں کرتا جنہوں نے تم سے دين کے معاملہ ميں قتال نہيں کيا ور نہ تمہيں بے وطن کيا کہ تم اُن سے نيکي کرو اور اُن سے انصاف کے ساتھ پيش آؤ۔ يقيناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

اگرچہ اسلام نے زيادتي کي صورت ميں اُس زيادتي کے برابر بدلہ لينے کي اجازت دي ہے ليکن اس کے باوجود اپنے ماننے والوں کو متوجہ فرمايا ہے کہ اگر تم عفوودرگزر سے کام لوگے تو تمہارا يہ عمل اللہ تعاليٰ کے نزديک زيادہ پسنديدہ قرار پائے گا۔جيسا کہ فرمايا:

وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ۔(الشوريٰ:41)

اور بدی کا بدلہ، کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے۔ پس جو کوئی معاف کرے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والاہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے ۔ یقیناً وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

عدل وانصاف کے قيام کے سلسلے ميں قرآن کريم نے کسي پر جھوٹا الزام لگانے والوں کو يہ وعيد سنائي ہے کہ اگر کوئي بے قصور پر الزام لگائے تو اس نے بہت بڑا بہتان اور کھلم کھلا گناہ کا بوجھ اٹھا ليا ہے يعني اس ناپسنديدہ عمل کي وجہ سے وہ اپنے اعمال کے پلڑے کو ہلکا کر ليتا ہے۔

وَ مَنۡ یَّکۡسِبۡ خَطِیۡٓٮـَٔۃً اَوۡ اِثۡمًا ثُمَّ یَرۡمِ بِہٖ بَرِیۡٓــًٔا فَقَدِ احۡتَمَلَ بُہۡتَانًا وَّ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا۔(النساء:113)

اور جو کسی خطا کا مُرتکب ہو یا گناہ کرے پھر کسی معصوم پر اس کی تہمت لگا دے تو اس نے بہت بڑا بہتان اور کھلم کھلا گناہ (کا بوجھ) اٹھا لیا۔

حضرت ابوہريرہ رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمايا: آدمي کے ہر جوڑ پر ہر دن جس ميں سورج نکلتا ہے صدقہ لازم ہے۔ لوگوں کے درميان عدل کرے تو يہ صدقہ ہے۔

(صحيح البخاري جلد5۔کتاب الصلح۔ بَاب فَضْلُ الْاِصْلَاحِ بَيْنَ النَّاسِ وَالْعَدْلِ بَيْنَھُمْ)

حضرت سيد زين العابدين ولي اللہ شاہ رضي اللہ عنہ اس حديث کي تشريح بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں کہ ’’عنوانِ باب ميں لفظ عدل کا عطف لفظ اِصلاح پر ہے۔جس سے يہ سمجھانا مقصود ہے کہ لوگوں ميں صلح اس صورت ميں قائم رہ سکتي ہے جب ان ميں عدل قائم ہو۔عدل کے معني اعتدالِ مناسب۔ ارشاد نبويؐ ميں ہاتھوں ، پاؤں کے پوروں اور جسم کے جوڑوں کا ذکر اس لئے فرمايا ہے کہ ان سے جسم کے مختلف اعضاء ميں اِعتدال ومناسبت قائم ہوتي ہے اور کوئي ايک جوڑ اپني جگہ پر نہ ہو تو انسان بے چين ہوجاتا ہے۔ سکون وا طمينان کي حالت اسي وقت تک قائم رہ سکتي ہے جب ہر پور اور ہر جوڑ اپني جگہ پر ہو۔يہي حالتِ اعتدال جب افرادِ معاشرہ ميں قائم ہوتو اس کا امن برقرار رہتاہے اور يہي فضليت اصلاح وعدل کي ہے۔

يَعْدِلُ بَيْنَ النَّاسِ:

يہ جملہ دراصل يوں ہے

اَنْ يَّعْدِلَ بَيْنَ النَّاسِ صَدَقَةٌ۔

لوگوں ميں عدل کرنا صدقہ ہے۔ اَنْ يَّعْدِلَ بتاويل مصدر مبتداء ہے اورصَدَقَةٌ اُس کي خبرہے۔ کہتے ہيں۔

تَسْمَعُ بِالْمُعَيْدِيِّ خَيْرٌمِنْ اَنْ تَرَاہُ۔مُعَيْدي

کا ذکر اَذکار سننا اُس کے ديکھنے سے بہتر ہے۔ عربي کي يہ مشہور ضرب المثل ہے۔ اس ميں بھي تَسْمَعُ بتاويل مصدر مبتداء ہے اور مراد يہ ہے کہ اَنْ تَسْمَعَ يعني تيرا سننا۔سُلَامَي کے معني پورا اور جوڑ۔اس کي جمع سُلَامِيَات ہے۔قديم تشريح الابدان کے مطابق انساني جسم ميں360جوڑ ہيں۔آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے ہر جوڑ سے متعلق فعل کو اگر وہ اللہ کي رضا کے ماتحت صادر ہو صدقہ قرار ديا ہے اسي شرط پر اصلاح و عدل کي فضيلت متحقق ہوتي ہے۔‘‘

(صحيح البخاري جلد 5کتاب الصلح ،صفحہ 24)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button