آتھم کی موت کی پیشگوئی تمامتر صفائی سے پوری ہوگئی
بعض جاہل اس جگہ اعتراض کرتے ہیں کہ بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں جیسا کہ آتھم کے مَرنے کی اور احمد بیگ کے داماد کی پیشگوئی۔ مگر اُن کو خدا تعالیٰ سے شرم کرنی چاہئے ۔ کیونکہ جس حالت میں کئی لاکھ پیشگوئی روز روشن کی طرح پوری ہوچکی ہے اور دن بدن نئے نئے نشان ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔ تو اس صورت میں اگر ایک دو پیشگوئیاں ان کی سمجھ میں نہیں آئیں تو یہ ان کی سراسر شقاوت ہے کہ بباعث اس بدفہمی کے جس میں خود ان کا قصور ہے خدا تعالیٰ کے ہزارہا نشانوں اور دلیلوں اور معجزات سے انکار کردیں۔ اور اگر اسی طرح پر انکار ہو سکتا ہے تو پھر ہمیں کسی پیغمبر کا پتہ بتلاویں جس کی بعض پیشگوئیوں کے پورا ہونے کی نسبت انکار نہیں کیا گیا۔ چنانچہ ملاکیؔ نبی کی پیشگوئی اپنے ظاہری معنوں کے رُو سے اب تک پوری نہیں ہوئی۔ کہاں الیاس نبی دنیا میں آیا جس کا یہود کو آج تک انتظار ہے۔ حالانکہ مسیح آچکا ہے جس سے پہلے اُس کا آنا ضروری تھا۔ کہاں یہ پیشگوئی مسیح کی پوری ہوئی کہ اس زمانہ کے لوگ ابھی زندہ ہی ہوںگے کہ مَیں واپس آجاؤں گا۔ کہاں اس کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ پطرس کے ہاتھ میں آسمان کی کنجیاں ہیں۔ کہاں اُس کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ وہ داؤد کا تخت قائم کرےگا۔ اور کب یہ پیشگوئی ظہورمیں آئی کہ اس کے بارہ حواری بارہ تختوں پر بیٹھیں گے۔ کیونکہ یہودااسکر یوطی مُرتد ہوگیا اور جہنّم میں جا پڑا اور اس کی بجائے جس کے لئے تخت کا وعدہ تھا ایک نیا حواری تراشا گیا جو مسیح کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ایسا ہی حدیثوں میں لکھا ہے۔ چنانچہ درّمنثور میں بھی ہے کہ یونس نبی نے یہ پیشگوئی قطعی طور پر بغیر کسی شرط کے کی تھی کہ نینوہ کے رہنے والوں پر چالیس دن کے اندر عذاب نازل ہوگا۔ جو ان کو اس میعاد کےاندر ہلاک کر دےگا۔ مگر کوئی عذاب نازل نہ ہوا اور نہ وہ ہلاک ہوئے۔ آخر یونس کو شرمندہ ہو کر اُس جگہ سے بھاگنا پڑا۔ یہ پیشگوئیاں بائبل میںیونہ نبی کی کتاب میں موجود ہیں جس کو عیسائی خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں۔ پھرباوجود ان سب باتوں کے مسلمان اِن پیغمبروں پر ایمان بھی لاتے ہیں اور ان چند اعتراضات کی کچھ پروا نہیں کرتے اور وہ دو پیشگوئیاں مذکورہ بالا جن کی نسبت اُن کا اعتراض ہے یعنی آتھم کے متعلق اور احمد بیگ کے داماد کے متعلق۔ اُن کی نسبت ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ آتھم کی موت کی پیشگوئی تمامتر صفائی سے پوری ہوگئی۔ اب تلاش کرو آتھم کہاں ہے۔ کیا وہ زندہ ہے یا مر گیا۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ41تا 42)