احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
بے شک مہاراجہ صاحب نے یہ گاؤں واپس کیا لیکن ہمارے خاندان نے بھی ہمیشہ ان کے خاندان سے وفاداری کی۔(حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد
وفاکیش و وفاشعار(حصہ دوم)
جیسا کہ پہلے ذکر ہواہے کہ رنجیت سنگھ 1839ء میں جب اس جہانِ فانی سے رخصت ہوا تو جس حکمت اور طورطریق سے اس نے اپنی حکومت کو مستحکم کیاہواتھا اس حکومت کا شیرازہ چند سال کے اندربکھر کررہ گیا۔اور پھر طوائف الملوکی کا ایسا دور دورہ ہوا کہ سکھ سرداروں تک نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت سے بے وفائی کرتے ہوئے حالات کے رخ دیکھ کر انگریزوں کا ساتھ دینا شروع کردیا، وہ انگریز جو کہ ہرجائز اورناجائز طریق سے اس حکومت کو ختم کرنے کا تہیہ کرچکے تھے اور وفاداریاں خرید رہے تھے۔ان حالات میں حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کے پاس دو ’’بہترین اور سنہری‘‘ مواقع تھے۔ ایک موقع یہ تھا کہ حضرت مرزاصاحب اپنی آزاد حکومت کا اعلان کردیتے اورخود، خودمختار سربراہ بن جاتےجس کے مواقع اورحالات بہت مناسب تھے اورکوئی روک ٹوک نہ ہوسکتی تھی۔لیکن آپ کے باوفا ضمیر نے ایسا گوارہ نہ کیا۔
ایک دوسراپہلو یہ تھا کہ انگریزوں کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے اپنی وفاداریاں تبدیل کرلیتے اور جاگیراورعہدہ بھی پاتے۔لیکن اس بڑی سے بڑی جاگیراور ریاست کی پیشکش سے بھی آپ کے پائے وفا میں ذرا سی بھی لغزش نہ آئی۔جبکہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہ وہی مرزاصاحبؒ ہیں جو اپنی کھوئی ہوئی ریاست کو واپس لینے کے لیے ایسے کوشاں رہے کہ ہندوستان کا پیدل سفر تک کیا،ہرممکن کوشش اورتگ ودو کی، مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بھی وہ ساری جائداد واپس نہیں کی۔صرف چندایک دیہات دیے جواشک شوئی کے مصداق بھی باورنہیں کیے جاسکتے تھے۔اوریہی وہ سکھ حکومت تھی کہ جس نے قادیان اور اس کے ساتھ ملحقہ 85 سے زائد دیہات کو چھین لیااورقادیان کی بستی سے اس خاندان کو بڑی بے بسی اوربے کسی کی حالت میں جلاوطن کردیاتھا۔مسجدوں کوگراکر دھرم سالوں میں بدل دیا،باغوں کو اجاڑدیا، مکانوں کو ویران کردیا،کتب خانوں کوقرآن کریم سمیت آگ لگادی۔ یہ ساراظلم اس خاندان نے دیکھا اور گو کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب اس وقت اپنے لڑکپن کے دورسے گزررہے تھے لیکن ان کی آنکھوں کے سامنے یہ سارامنظر یقیناً گھوم جاتاہوگااوران کی سنگدلی اور بے رحمی کا یہ واقعہ بھی کہاں بھولاہوگا کہ جب یہ بائیس سالہ غمزدہ نوجوان اپنے باپ کی نعش اپنے کندھوں پر اٹھاکر اس کو آبائی قبرستان میں دفن کرنے کے لیے لایاتو انہوں نے دفن کرنے کی اجازت دینے سے انکارکردیا۔ہرچند کہ اس جری بہادر نے پھر بھی دفن تو اسی قبرستان میں کیالیکن یہ سب ظلم وستم وہ بھولانہیں ہوگا اوراب ان سب کا بدلہ لینے کا ایک ’’سنہری موقع‘‘ تھا سب کچھ پلیٹ میں رکھ کر مل رہا تھا لیکن نمک حلالی اور وفاداری اس خاندان کے خون میں رچی ہوئی تھی۔انہوں نے اپنے تین دیہات پر قناعت کرتے ہوئے اس ساری پیشکش کوٹھکرادیا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہدحکومت کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ سے وفاداری کا تعلق ٹوٹنے نہ دیا۔
اس تاریخی حقیقت کو حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کےپوتے اور جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں:
’’بے شک مہاراجہ صاحب نے یہ گاؤں واپس کیا لیکن ہمارے خاندان نے بھی ہمیشہ ان کے خاندان سے وفاداری کی۔جب انگریزوں سے لڑائیاں ہوئیں تو بعض بڑے بڑے سکھ سرداروں نے روپے لے لے کر علاقے انگریزوں کے حوالہ کر دیئے۔اوریہی وجہ ہے کہ وہاں ان کی جاگیریں موجودہیں۔یہاں سے پندرہ بیس میل کے فاصلہ پر سکھوں کا ایک گاؤں بھاگووال ہے۔وہاں سکھ سردار ہیں۔مگروہ بھی انگریزوں سے مل گئے تھے تو اس وقت بڑے بڑے سکھ خاندانوں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا۔مگر ہمارے داداصاحب نے کہا کہ میں نے اس خاندان کا نمک کھایا ہے اس سے غداری نہیں کرسکتا۔کیا وجہ ہے کہ سکھ زمینداروں کی جاگیریں تو قائم ہیں مگر ہماری چھین لی گئی۔اسی غصہ میں انگریزوں نے ہماری جائیداد چھین لی تھی کہ ہمارے دادا صاحب نے سکھوں کےخلاف ان کا ساتھ نہ دیا تھا۔تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ مہاراجہ صاحب نے سات گاؤں واپس کئے تھے پھر وہ کہاں گئے؟ وہ اسی وجہ سے انگریزوں نے ضبط کرلئے کہ ہمارے دادا صاحب نے ان کا ساتھ نہ دیا تھا اورکہا تھا کہ ہم نے مہاراجہ صاحب کی نوکری کی ہے ان کے خاندان کی غداری نہیں کر سکتے۔ بھاگووال کے ایک اسی پچاسی سالہ بوڑھے سکھ کپتان نے مجھے سنایا کہ میرے دادا سناتے تھے کہ ان کو خود سکھ حکومت کے وزیر نے بلا کر کہا کہ انگریز طاقتور ہیں ان کے ساتھ صلح کرلو خواہ مخواہ اپنے آدمی مت مرواؤ۔مگرہمارے داداصاحب نے مہاراجہ صاحب کے خاندان سے بے وفائی نہ کی اوراسی وجہ سے انگریزوں نے ہماری جائیداد ضبط کرلی بعد میں جو کچھ ملا مقدمات سے ملا۔مگر کیا ملا۔قادیان کی کچھ زمین دے دی گئی۔باقی بھینی، ننگل اور کھارا کا مالکان اعلیٰ قراردے دیا گیا مگریہ ملکیت اعلیٰ سوائے کاغذ چاٹنے کے کیاہے؟ یہ برائے نام ملکیت ہے جو اشک شوئی کے طورپر دی گئی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے دادا صاحب نے غداری پسند نہ کی…تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ جب ملتان کے صوبہ نے بغاوت کی توہمارے تایاصاحب نے ٹوانوں کے ساتھ مل کر اسے فروکیا تھا اور اس وقت سے ٹوانوں اورنون خاندان کے ساتھ ہمارے تعلقات چلے آتے ہیں۔پس جہاں تک شرافت کا سوال ہے ہمارے خاندان نے سکھ حکومت سے نہایت دیانتداری کا برتاؤ کیا اوراس کی سزا کے طورپر انگریزوں نے ہماری جائیداد ضبط کرلی ورنہ سری گوبندپور کے پاس اب تک ایک گاؤں موجودہے جس کانام ہی مغلاں ہے اوروہاں تک ہماری حکومت کی سرحد تھی اوراس علاقہ کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں تک ہماری حکومت تھی اوریہ مہاراجہ رنجیت سنگھ سے پہلے کی بات ہے۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلداول صفحہ42-43)
انگریزحکومت کے ساتھ وفاداری
خداکی بہت بڑی عنایت اور مہربانی اوراس سرزمین پر اس رحمان اوررحیم خداکا بہت بڑااحسان ہوا کہ سکھ حکومت کے اس ’آتشی تنور‘ سے عوام الناس کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص نجات ملی اور انگریزوں کی نسبتاً بہت ہی مہربان اورمنصف حکومت کا آغازہوا۔چنانچہ جب تک سکھوں کی حکومت کا باقاعدہ خاتمہ نہ ہوا تب تک آپ نے سکھ حکومت کا ساتھ دیا۔اور جب 29؍مارچ 1849ء کو گورنرجنرل ہندوستان لارڈ ڈلہوزی کے عہد میں سکھ حکومت کےخاتمہ اور انگریزحکومت کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا تو اس پر حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے حسب تعلیم اسلام اس حکومت وقت کے ساتھ اطاعت اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا، جسے پھر آپ نے اپنی آخری سانسوں تک نبھایا۔ہرچند کہ اس حکومت نے آپ کی ساری جائداد ضبط کرلی لیکن حضرت مرزاصاحب کی وفاکے قدم ذرا سے بھی نہیں ڈگمگائے۔اور اس وقت بھی کہ جب عام ہندوستانیوں اورخصوصاً مسلمانوں نے 1857ء میں بغاوت برپا کی تو اس خاندان نے جس کے پاس ایک بار پھر موقع تھا کہ اپنی آزادحکومت کا اعلان کردیتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ جس حدتک ممکن ہوسکا ہرقسم کی مددکے ساتھ اپنی وفاکا عملی ثبوت دیا۔حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب نے اس حالت میں بھی سرکار انگریزی کے ساتھ سچی وفاداری اور دوستی کا پورا ثبوت دیا۔ اور اس عہد دوستی کو ایسا نبھایا کہ وہ آج تک ایک قابل قدر خدمت سمجھی جاتی ہے۔اس بغاوت کے وقت بھرتی میں مدد دینے کے علاوہ پچاس گھوڑے معہ سازوسامان و سواران اپنے خرچ سے سرکار انگریزی کو دیے۔اور آپ کا بڑا صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب، جنرل نکلسن صاحب بہادر کی فوج میں اس وقت لڑرہا تھا۔جبکہ افسر موصوف نے تریمو گھاٹ پر نمبر 46نیٹو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے،تہ تیغ کیا۔جنرل نکلسن صاحب بہادر نے مرزا غلام قادر صاحب کو ایک سند دی جس میں یہ لکھا تھا کہ1857ء میں خاندان قادیان ضلع گورداسپور کے تمام دوسرے خاندانوں سے زیادہ وفادار رہا ہے۔
(باقی آئندہ)